
پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کا معاملہ در اصل اصلاحات سے جڑا ہوا تھا۔ یہ تمام معاملات آپس میں الجھے ہوئے تھے۔ برطانوی حکمران اور بلوچ و پختون سیاست دان ایک پیچیدہ تعلق کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے۔ انتظامی امور بھی کم الجھے ہوئے نہیں تھے۔ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ بلوچستان کے لیے بہت اہم تھا۔ اس امر کا جائزہ لینے سے قبل ناگزیر ہے کہ ہم بلوچستان کے سیاست دانوں اور ان کی روش کا جائزہ لیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ بلوچستان کی تاریخ کے اہم ترین موڑ پر ان کی سوچ کیا تھی۔
بلوچستان میں جاری کھیل کا سب سے بڑا کھلاڑی برطانیہ تھا۔ مگر آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بلوچستان کی سیاست کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ سیاسی ایجنٹ جو کچھ بھی کہتا تھا وہی فیصلہ بن جاتا تھا۔ دہلی کی رائے پر سیاسی ایجنٹ کی رائے مقدم تھی۔ برطانوی حکومت نے بظاہر بلوچستان کو استعماری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر باقی ہندوستان سے الگ تھلگ رکھا ہوا تھا۔ مگر یہ محض خوش فہمی پر مبنی تصور تھا۔ بلوچستان کو جنوبی ایشیا میں اپنے اقتدار و اختیار کی آخری نشانی کے طور پر برقرار رکھنا برطانوی حکومت کے لیے آسان نہ تھا۔ خان آف قلات کے خاندان کے لوگ برطانوی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان کو آزاد حیثیت میں برقرار رکھنے کی تیاری کر رہے تھے۔ آزاد بلوچستان کے تصور کے خالق ڈی وائے فیل اور کانگریس بھی اس سازش میں شریک تھے۔ برطانیہ کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بلوچستان کو نیپال کی طرح الگ حیثیت دی جائے گی۔
اے جی جی بلوچستان کرنل جیفری پرایر نے قلات جاکر خان آٖف قلات کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا پیغام دیا۔ اس پیغام میں آل بلوچستان کانفرنس طلب کرنے کی فرمائش کی گئی تھی تاکہ آزاد بلوچستان کا پیغام تمام صوبائی جماعتوں کو مل سکے۔ خان آف قلات اس کے لیے بظاہر تیار نہ تھے۔ وہ اس قدر بدحواس ہوئے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پیغام کی تفصیلات قائداعظم کو بتادیں۔ قائداعظم نے جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی تو بلوچستان کے مسئلے پر واضح اور بے باک موقف اختیار کیا۔ اس ملاقات کے بعد ہندوستان کے آخری وائس رائے نے کرنل جیفری پرایر کو ہدایت کی کہ آل بلوچستان کانفرنس کا آئیڈیا ختم کردیا جائے اور ساتھ ہی انہوں نے خان آف قلات کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔
ممکن ہے کہ خان آف قلات کو اندازہ ہی نہ ہو کہ وائس رائے، اے جی جی اور ان کے خاندان کے لوگوں کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ مگر خیر، آل بلوچستان کانفرنس کے لیے خان آف قلات کو اعتماد میں لینا بہت عجیب دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے قیام سے کچھ عرصہ قبل ہی خان نے اپنی فوج کے لیے چند انگریز افسران کی خدمات حاصل کی تھیں جن کے ذمے انتظامی اور تربیتی امور تھے۔ ان انگریز افسران کو ممکنہ ریاست قلات کے لیے خارجہ امور بھی سنبھالنے تھے۔ خان آف قلات نے ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو قلات کی آزادی کا اعلان بھی کیا۔
بلوچستان میں کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہ تھا جسے پورے صوبے کا نمائندہ قرار دیا جاسکے۔ مختلف علاقوں میں قبائلی اور سرداری نظام پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔ اور برطانوی حکومت کے مفاد میں یہی تھا کہ یہ نظام برقرار رہے۔ مگر خیر، برطانوی راج کے آخری دنوں میں قبائلی اور سرداری نظام کی کوئی وقعت نہ تھی کیونکہ یہ کسی بھی اعتبار سے حقیقی نمائندہ ادارے نہ تھے۔ ایسے میں شاہی جرگے نے مختلف امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بلوچستان میں کانگریس کی شاخ نہ تھی۔ کانگریس نے جب بھی بلوچستان میں قدم جمانے کی کوشش کی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کا آل انڈیا ایجنڈا بلوچستان کے سیاسی مزاج سے ہم آہنگ نہ تھا۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے مطالبات بلوچستان کے سیاسی قائدین کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہوسکتے تھے۔ بلوچستان میں کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں انجمنِ وطن، دی قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے ہند کو کبھی حقیقی عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔ خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی سے بہتر تعلقات کے ہوتے ہوئے کانگریس بلوچستان کے پختونوں کو ناراض نہیں کرسکتی تھی۔ ویسے آزاد بلوچستان کا نظریہ خود پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی مسترد کردیا تھا۔ ان کی زیادہ سے زیادہ توجہ کوئٹہ میونسپلٹی کے انتخابات میں اقلیتی ارکان کی حمایت تک محدود رہتی تھی۔ بلوچستان میں کوئٹہ میونسپلٹی واحد (مگر محدود) نمائندہ ادارہ تھا۔
کانگریس کے لیے یہ بات خاصی پریشان کن تھی کہ بلوچستان کے سکھ بھی پاکستان کے قیام کے حق میں تھے۔ محمد خان جوگیزئی نے جب مرکزی مجلس قانون ساز کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تب ان کی کامیابی کا جشن منانے والوں میں سکھ بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کے بیج لگا رکھے تھے۔ سندھ نے بھی پاکستان سے الحاق کے حق میں ووٹ دے کر بلوچستان پر دباؤ غیر معمولی حد تک بڑھادیا۔ اصل جدوجہد خان آف قلات اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان تھی۔ دیگر بہت سے رجواڑوںکی طرح قلات کا حکمراں خاندان بھی اپنے اقتدار و اختیار کو زیادہ سے زیادہ دیر اور حد تک برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ خان آف قلات کے نزدیک کسی بھی دوسری چیز کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور لبرل افراد جانتے تھے کہ قلات کی ریاست دراصل جاگیر دار طبقے کا ردعمل ہے۔ اور ویسے بھی قلات بلوچستان کی واحد ریاست نہ تھی۔ اس ریاست کے مستقبل کا مدار خاران، لسبیلہ اور مکران کی ریاستوں کے فیصلے پر تھا۔ اگر یہ تینوں ریاستیں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتیں تو قلات کا رقبہ اور اختیار نصف سے بھی کم رہ جاتا۔ خشکی میں گھری ہوئی قلات کی ریاست کسی کام کی نہ ہوتی۔ مسلم لیگ کے حامیوں نے میدان مار لیا۔ قبائلی سرداروں کو بھی سب سے زیادہ بھروسہ قائد اعظم پر تھا۔ ہندوستان بھر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سوچ اور مفادات کے تصادم نے بلوچستان میں بھی رنگ دکھایا تھا۔ بلوچستان میں بھی سیاسی وفاداریاں مذہبی بنیاد پر منقسم ہوچکی تھیں۔ بلوچستان کے ریفرینڈم میں مسلمانوں نے پاکستان مخالف عناصر کو مسترد کرکے سیاسی تقسیم کو مزید واضح کردیا تھا۔
حاصل بحث:
بلوچستان میں مختلف سیاسی گروپوں نے کئی مواقع پر قومی اور مقامی سیاست کے حوالے سے غیر معمولی تفاعل کا مظاہرہ کیا۔ انگریزوں سے نجات پانے کی خواہش تو سب کے دلوں میں تھے مگر بلوچستان کے لیے کوئی واضح ایجنڈا طے کرنے میں وہ اتفاق رائے کا مظاہرہ نہ کرسکے اور کامیابی کے حصول میں ناکام رہے۔ سیاسی اصلاحات کے معاملے میں وہ کسی ایک یا چند نکات پر متفق نہ ہوسکے۔ قبائلی نظام کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی یا سیاسی اصلاحات کا اعلان دراصل سیاسی وابستگی کے انعام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس پیچیدہ صورت حال ہی نے انگریزوں کو بھی عجیب الجھن میں مبتلا کر رکھا تھا۔ وہ ہندوستان پر ایک صدی کی حکمرانی کے دوران بھی یہ طے نہ کرسکے کہ بلوچستان کو چند شہری علاقوں اور چند قبائلی و سرداری علاقوں کی شکل میں برقرار رکھیں یا باضابطہ صوبے کی شکل دیکر ہندوستان کے دیگر علاقوں کے ساتھ برابری کی سطح پر لائیں اور برتیں۔ بلوچستان کی جن سرکردہ شخصیات نے برطانوی راج کے ہندوستان کے دیگر علاقوں اور بالخصوص شمال مغرب میں جو ترقی دیکھی تھی وہ بھی اپنے علاقوں میں انقلابی نظریات کے سامنے بے بس تھے اور انہیں ترقی سے متعلق اپنے نظریات کی حمایت کرنے والے بڑی تعداد میں میسر نہ تھے۔ ایسے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ مسلمانوں کی نئی شناخت، شاہی جرگہ اور بہت سے ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی عوامل نے مل کر پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کی راہ ہموار کی۔
(بشکریہ: ’’پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر‘‘ جلد:۲۹، شمارہ ۲)
آپ کےکالم ہمیشہ کی طرح پرمغز اور معلوماتی چھوٹے ھیں