
امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون کی یہ بات درست ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کر سکیں۔ دیگر علاقوں کی نسبت ان ممالک کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول انتہائی آسان ہے لہٰذا اس خطہ میں ایٹمی دوڑ بالکل شروع نہیں ہونی چاہیے۔ جو ملک بھی ایسی کوئی خواہش یا ارادہ رکھے، اسے سفارتی انداز میں سخت تنبیہ کی جائے۔ سخت تنبیہ کا اگر آسان لفظوں میں ترجمہ کیا جائے تو یہ پابندیاں بنتا ہے۔
صدر بش اور گورڈن برائون کی طرح مجھے بھی یقین ہے ایٹمی اسلحہ کے حصول کے لیے ایران کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے اور اقتصادی و سفارتی ذرائع سے اس پر دبائو ڈالنا چاہیے مگر امریکا اور برطانیہ جو ایٹمی عدم پھیلائو معاہدے کے ممبر ہیں، نہ صرف ممنوعہ اسلحہ رکھتے ہیں بلکہ اسے سپلائی بھی کرتے ہیں۔ کیا انھیں یہ حق ہے کہ وہ اور ممالک کو نصیحتیں کریں یا ان پر پابندیاں لگائیں؟ اگر بقول صدر بش ’’ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو دنیا کے امن کو تباہ کر دے گا‘‘ تو پھر اسرائیل پر پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتیں جس کے پاس امریکی خفیہ ایجنسیوں کے مطابق ۶۰ سے ۸۰ ایٹمی بم ہیں؟ سرکاری طور پر اسرائیلی حکومت نے اپنے پروگرام کو مبہم رکھا ہوا ہے۔ نہ کبھی اس کا اقرار کیا ہے اور نہ ہی اس سے انکار کیا ہے۔ مگر واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے چند قانونی تقاضوں کی بنیاد پر ابھی تک اعلان نہیں کیا۔ اگر اسرائیل اعلان کرتا ہے تو امریکا اپنے قوانین کی رو سے اسرائیل کی تمام تر امداد بند کر کے اس پر پابندیاں لگانے پر مجبور ہو گا۔ گویا اس چور راستے کے ذریعے اسرائیل اب تک امریکی عتاب سے بچا ہوا ہے۔ ابہام کی اس پالیسی پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ ۱۹۸۶ء میں جب ایک ٹیکنیشن نے سنڈے ٹائمز کو اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کی تصاویر دیں تو اسرائیل نے اس پر سخت ایکشن لیا اور اسے موساد نے اغوا کر لیا جس کے بعد اسے ۱۸ سالہ قید کی سزا سنائی گئی۔ رہائی کے بعد اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، تاہم گزشتہ برس دسمبر میں اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے اچانک اعلان کیا کہ اسرائیل بھی ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اولمرٹ نے غلطی سے یہ بات نہیں کہی تھی۔ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا اور اسرائیل کی مالی امداد جاری رکھی۔
ذرائع کے مطابق امریکا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ۱۹۶۸ء سے ہی باخبر ہے۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اس سے بھی پہلے یہ صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ ابتدا میں تو امریکی سفارتکاروں نے حکومت پر زور دیا کہ امریکا اسلحہ کی فروخت کو مشروط کر دے تاہم جواب دیا گیا کہ اسرائیل کو بقا کا مسئلہ درپیش تھا لہٰذا اسے قانون سے استثنا حاصل ہے۔ یہ واضح طور پر امریکی اور یورپ کی دوغلی پالیسی تھی۔ اس وقت امریکا اور یورپ سارے اصول بھول گئے تھے۔ لنڈن جانس نے جو اُس وقت امریکی صدر تھے، اپنی انتظامیہ کو بتایا کہ اسرائیل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس خطے میں پہلی ایٹمی ریاست ہونے کا اعلان نہیں کرے گا تاکہ ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع نہ ہو جائے مگر امریکی عہدیدار اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس یقین دہانی پر کبھی بھی عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسرائیل اس سے پہلے بھی یہ اعلان کر چکا تھا۔ بہرحال اس وقت سے لے کر آج تک اسرائیل اس معاہدے کو کئی بار توڑ چکا ہے مگر امریکا اس پر پابندی لگانے کی جرأت نہیں کر سکا۔
اگست ۱۹۶۹ء میں اسرائیل کے ایٹمی پلانٹ کے معائنہ کے لیے امریکا نے ایک ٹیم تشکیل دی تاکہ عرب ممالک کو خوش کیا جاسکے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹیم مکمل طور پر بے دست و پا تھی۔ اس کے پاس کوئی اختیارات نہ تھے۔ انھیں ریکارڈ یا کسی بھی قسم کا مٹیریل دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ ٹیم اراکین کو خاص طور پر کہا گیا تھا کہ وہ انتہائی احتیاط سے کام لیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات متاثر ہوں۔ اس سے کچھ عرصے بعد ہی صدر نکسن اور اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات ہوئی جس میں یہ بات طے پائی کہ جب تک اسرائیل کا ایٹمی پروگرام خفیہ رہے گا، امریکا اس سے کوئی تعرض نہیں کرے گا۔ اس واضح ہدایت کے بعد اب اسرائیل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اس نے تیزی سے اختتامی مراحل کو عبور کیا۔
امریکا کی خفیہ ایجنسیاں ہر ۶ ماہ بعد تمام ممالک کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرتی ہیں مگر اسرائیل کے بارے میں انھیں معلومات فراہم کرنے کی قطعی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ جب بھی کسی ملک نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی قرارداد پاس کی تو اس کو مسترد کرنے میں امریکااور یورپ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ اسی طرح دیگر ممالک کو حیاتیاتی اور کیمیکل ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں بلکہ امریکا نے اس بات کو بہانہ بنا کر عراق پر حملہ بھی کیا مگر اسرائیل اس قانون سے مستثنیٰ ہے۔ اس لیے کوئی بھی ملک یا ادارہ اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے کسی معاہدہ پر دستخط ہی نہیں کیے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے معائنہ کار ایرانی تنصیبات کا تو روز معائنہ کرتے ہیں مگر انھیں اسرائیل کی تنصیبات کے معائنہ کی اجازت نہیں۔
اسرائیل یہ شور تو ہر وقت مچاتا رہتا ہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی ایران پر دبائو نہیں ڈال رہی اور اس کے پروگرام سے پردہ پوشی کر رہی ہے۔ اسرائیل یہ الزام صرف اس لیے لگاتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ کوئی بھی ملک اس سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتا۔ آج کل اسرائیل ایک نیا پروپیگنڈہ بڑے زور و شور سے کر رہا ہے کہ احمدی نژاد کی وجہ سے ایران پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور ان کے رویے کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی مگر اولمرٹ کا اسرائیل تو ایران سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ اگر ایران کی ’’دہشت گردی‘‘ سے مستقبل میں خطرہ ہے تو اسرائیل کئی بار دہشت گردی کا ارتکاب کر چکا ہے۔ صرف دو ماہ قبل اسرائیل نے شام کے سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ گزشتہ برس لبنان کے خلاف جارحیت اور فلسطینیوں کی زمین پر تو آج تک قابض ہے۔ بی بی سی کے مطابق فروری ۲۰۰۱ء میں اسرائیل نے غزہ کے علاقے پر کیمیکل اسلحہ استعمال کیا لہٰذا ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اسرائیل کے ہاتھ میں ایٹمی ہتھیاروں کا ہونا ایران کی نسبت زیادہ خطرناک ہے۔
جب یہ حقائق سامنے آگئے تو اب سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت اس بارے میں اسرائیل سے کب پوچھے گی؟ کب اس بات کو تسلیم کیا جائے گا کہ اسرائیل ایٹمی ریاست ہے؟ پابندیاں کب لگائی جائیں گی؟ لوگوں کو یہ بات کب بتائی جائے گی کہ ایران اسلحہ کی دوڑ شروع نہیں کر رہا بلکہ اس میں شامل ہو رہا ہے؟ اور کب ایران پر لگائی جانے والی پابندیاں اسرائیل پر لگائی جائیں گی؟
مضمون نگار کا تعلق برطانیہ سے ہے اور برطانوی اخبار ’’دی گارجین‘‘ میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ موصوف بیک وقت صحافی، مصنف اور سماجی کارکن ہیں۔ صحافت میں حقیقت بیانی ان کا شیوہ ہے لہٰذا نہایت بے خوفی سے لکھتے ہیں۔
(بشکریہ:نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply