بنگالیوں کی منصوبہ بندی کا پتا چلانے کے بعد پاکستانی حکومت نے ۱۹۶۸ء میں اگرتلہ سازش کیس کا آغاز کیا، جس کے تحت بنگلابدھو اور ان کے ۳۴ ساتھیوں پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی منصوبہ بندی کے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔‘‘ لیکن شدید احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو اگلے ہی برس یہ کیس واپس لینا پڑا۔ بنگلابدھو کے ۱۹۶۲ء میں کیے گئے دورہ اگرتلہ کو یاد کرتے ہوئے حسینہ واجد کا کہناتھا کہ ’’خاندان کے بیشتر افراد کو اس کا علم نہیں تھا‘‘۔ صرف میری والدہ، بہن بھائی اور مجھے اس بات کا علم تھا۔ یا پھر جن لوگوں نے بنگلابدھو کو اگرتلہ پہنچانے میں مدد کی تھی وہ جانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی حکومت نے اس کی خبر ملنے پر مقدمے کا آغاز کیا لیکن کچھ نہ کر سکی‘‘۔
’’بنگلابدھو کے دورہ اگرتلہ کے ۹ سال بعد بنگالیوں کی جدوجہد آزادی اپنے عروج پر پہنچ گئی‘‘۔
۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا کے ریس کورس گراؤنڈ میں خطاب کرتے ہوئے بنگلابدھو نے کہا تھا کہ ’’اس دفعہ یہ جدوجہد چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہے، ہماری یہ جدوجہد آزادی کے حصول کے لیے ہے‘‘۔
یہ تقریر جو دراصل بنگلادیش کی آزادی کا اعلان تھا، گزشتہ برس UNESCO نے اس تقریر کو ’’میموری آف دی ورلڈ‘‘ رجسٹر میں شامل کر کے اسے دنیا کی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔ اور اسے ’’دستاویزی ورثہ‘‘ میں شامل کر کے اس کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی رات پاکستانی فوج نے غیر مسلح بنگالیوں پر گولیاں برسائیں۔ اگلی صبح ہی شیخ مجیب نے بنگلادیش کی آزادی کا اعلان کر دیا، اس دن سے شروع ہونے والی آزادی کی یہ جدوجہد ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے پر اپنے اختتام کو پہنچی۔ اب بنگلادیش چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ ۲۵ مارچ کو ’’نسل کشی‘‘کا عالمی دن قرار دے۔
بنگلابدھو کی بڑی بیٹی شیخ حسینہ (موجودہ وزیراعظم) نے جدوجہدآزادی کے ان واقعات کا تذکرہ جمعہ کو ڈھاکا میں شیخ مجیب کی ۷ مارچ کی تقریر کی یاد میں منعقد کیے گئے ایک پروگرام میں کیا۔ ان کا کہناتھا کہ ’’ہاں ۱۹۶۲ء میں بنگلابدھو اگرتلہ گئے تھے اور ان کے وہاں جانے کا مقصد اس (جدوجہد آزادی) کی تیاری تھا‘‘۔
حسینہ واجد نے مزید کہا کہ ’’اس وقت نہرو اقتدار میں تھے۔ چند وجوہات کی بنیاد پر نہرو نے تعاون سے انکار کر دیا اور بنگلابدھو واپس لوٹ آئے‘‘۔ حسینہ اس وقت پندرہ برس کی تھیں۔ انھوں نے کہا جب شیخ مجیب اگرتلہ کے خفیہ اجلاس سے واپس لوٹے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
انھوں نے ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار پانچ دن تک ان کو تلا ش کرتے رہے۔ انھوں نے ہم سے بار بار پوچھ گچھ کے ذریعے بھی ان کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر منتصر مامون اپنی کتاب ’’بنگلابدھو نے ہمیں کیسے آزادی دلائی‘‘ میں مجیب کے بغاوت کے منصوبے کے بارے میں لکھا ہے۔
وہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’بھارت کی مدد کے بغیر یہ منصوبہ قابل عمل نہیں تھا اور نہرو نے اس منصوبے کی مخالفت نہیں کی تھی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کام میں جلدی نہ کی جائے‘‘۔
۱۹۷۱ء میں جب بنگلادیش اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی وزیراعظم تھی۔ انھوں نے نہ صرف بنگلادیش کا ساتھ دیا بلکہ مختلف طریقوں سے مدد بھی کی۔ بھارت نے بنگلادیش کے ہزاروں مہاجرین کو پناہ دی۔ جنگ کے دوران بنگلادیش کی نگراں حکومت کا مرکز کولکتہ تھا۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہی بھارتی فوج بنگلادیش کی فوج کے ساتھ مل گئی تھی۔ بھارتی فوج کے ہزاروں جوانوں نے بنگلادیش کی جنگ آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
بابائے قوم بنگلابدھو میموریل ٹرسٹ نے اس سیمینار کا انعقاد کروایا تھا۔ اپنی ۵۵ منٹ کی تقریر میں وزیراعظم نے جنگ سے پہلے کے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ انھیں یہ باتیں معلوم ہوں۔ میں ان واقعات کی خاموش گواہ ہوں اور اس خاندان کے اب مجھ سمیت صرف دو لوگ ہی زندہ ہیں۔ ہم سے زیادہ ان واقعات سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا‘‘۔ ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء بنگلابدھو اور ان کے خاندان کے تمام لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے بچ گئیں۔ وزیراعظم نے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں، بشمول سرکاری ملازمین کو، خراج تحسین پیش کیا۔
حسینہ واجد نے کہا کہ ’’سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد شیخ مجیب کے ساتھ تھی۔ انھوں نے خفیہ طور پر شیخ مجیب کے ساتھ تعاون کیا، وہ مختلف مقامات پر شیخ مجیب سے ملا کرتے تھے، اس کے علاوہ شیخ مجیب بھی ان سے ملنے کے لیے کشتی سے سفر کیا کرتے تھے‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے بنگالی ملازمین غلط رپوٹ بنا کر دیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے پاکستانی خفیہ ایجنسی ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی فتح کا اندازہ ہی نہ لگا سکی۔
حسینہ واجد کا کہنا تھاکہ اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی چال چلنا شروع کر دی۔ ایک دفعہ بنگلابدھو نے بھٹو سے کہا تھا کہ ’’لوگ تمھیں کٹھ پتلی کی طرح استعمال کریں گے۔ اگر یہ لوگ مجھے قتل کر دیتے ہیں تو چھوڑیں گے یہ تمھیں بھی نہیں‘‘۔ بنگلابدھو کی وہ بات بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ بنگلابدھو کے قتل کے بعد ۱۹۷۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھٹو کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا اور دو سال بعد فوجی عدالت کے ذریعے انھیں سزائے موت دے دی گئی۔
بنگالی خفیہ ایجنٹوں کے بارے میں حسینہ کا کہنا تھا کہ ’’ان میں سے بہت سے ایجنٹ ابو (شیخ مجیب) اور امی (شیخ فضیلت النساء) سے خفیہ طور پر ملاقاتیں کیا کرتے تھے اور ان کی دی گئی ہدایات کے مطابق رپوٹس تیا کیا کرتے تھے‘‘
’’انھوں نے کبھی رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ عوامی لیگ اکثریت حاصل کرے گی۔ وہ ہمیشہ یہ رپورٹ لکھتے تھے کہ ۲۰ جماعتیں اکثریت حاصل کریں گی۔ اس طریقے سے ان لوگوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔
عوامی لیگ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی، لیکن پاکستان کے صدر یحییٰ خان اسمبلی کا اجلاس بلا کر شیخ مجیب کو حکومت بنانے کا موقع دینے کے بجائے مستقل تاخیر کر رہے تھے۔ ان حالات میں بنگلابدھو نے۷ مارچ کی تقریر میں آزادی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی ۲۵ مارچ کو پاکستانی فوج نے آپریشن کا آغاز کر دیا۔
اس اہم دن کا تذکرہ کرتے ہوئے حسینہ واجد نے کہا ’’ایک موٹر سائیکل سوار ایک سلپ لے کر آیا جس میں کنٹونمنٹ میں کام کرنے والے ایک باورچی کی طرف سے پیغام تھا ’’پاکستانی ہم پر رات ایک بجے حملہ کریں گے، لیکن انھوں نے رات گیارہ بجے ہی حملہ کر دیا‘‘۔
بنگلابدھو جانتے تھے کیاکرنا ہے۔۔۔
۷ مارچ کی تقریر کے حوالے سے انھوں نے چھاترو لیگ کے راہنما سراج العالم خان کی سرگرمیوں کا ذکر بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے چند طالب علم رہنما اور کارکنان چاہ رہے تھے کہ ۷ مارچ کو ہی آزادی کا اعلان کر دیں۔ وہ کہا کرتے تھے ’’آپ (شیخ مجیب) کو آج آزادی اعلان کر دینا چاہیے تھا، ورنہ لوگ مایوس ہو جائیں گے‘‘۔
ابا نے ان لوگوں کو جواب میں صرف ایک بات کہی ’’سراج! مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ تم لوگ صرف تیاری کرو، باقی جو بھی کرنا ہے وہ میں دیکھ لوں گا‘‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر بنگلابدھو ۷ مارچ کی تقریر میں آزادی کا اعلان کر دیتے تو دنیا بھر کے سفارتی ذرائع میں انھیں باغی یا علیحدگی پسند قرار دے دیا جا تا۔
مجھے نہیں معلوم کہ سراج ایسا کیوں کہہ رہا تھا، اس کی تجویز ٹھیک نہیں تھی۔پاکستانی بموں سے لیس ہیلی کاپٹر تیار کھڑے تھے۔ اگر بنگلابدھو آزادی کا اعلان کر دیتے تو پاکستانی بمباری شروع کر دیتے۔پاکستانی فوجی بالکل اسی طرح قتل عام کرتے جس طرح جلیاں والا باغ میں انگریزوں نے کیا تھا۔تاکہ کوئی تحریک نہ چل سکے۔
شیخ حسینہ کا کہناتھا کہ میں اس جلسے سے واپسی میں سراج سے ملی۔جب میں سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ سراج سمیت کچھ طالبعلم رہنما وہاں موجود ہیں۔سراج وہاں گفتگو کر رہے تھے کہ ’’جناب یہ آپ نے کیا کر دیا؟ آزادی کا اعلان کیوں نہ کیا، لوگ مایوس ہو کر گھروں کو لوٹے ہیں‘‘۔ مجھے اس بات پر غصہ آگیا، میں نے اس سے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔میں نے خود دیکھا ہے، وہاں کوئی مایوس نہیں ہوا، بلکہ لوگ خوش ہو کر اور نئے جذبات سے سرشار گھروں کو لوٹے ہیں‘‘۔
میں نے ابا سے کہا کہ ’’میں نے لوگوں کا ناقابلِ یقین جذبہ اور جوش و خروش دیکھا ہے، یہ لوگ (سراج) جھوٹ بول رہے ہیں، انھوں نے کچھ نہیں دیکھا‘‘۔ شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ میں نے خود سے یہ سوال کیا کہ پارٹی کے چند رہنماؤں کی جانب سے اس جلد بازی کا کیا مقصد تھا؟ چند لوگوں نے اس تقریر کے بارے میں بہت سی تجاویز دی تھیں اور تقریر کے بعد بھی اس پر بہت سی باتیں بنائی تھیں۔ لیکن ۱۹۷۵ء کے بعد کی سیاسی صورتحال نے سب واضح کردیا کہ ان لوگوں کے عزائم کیا تھے اور وہ کس قسم کی سازشوں میں ملوث تھے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Bangabandhu returned home after getting no response from Nehru in 1962: Hasina”. (“bdnews24.com”. March 10, 2018)
Leave a Reply