بنگلا دیش: جنگی جرائم کا اصل نشانہ ’’جماعت اسلامی‘‘

مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا ہوئے ۴۰ سال ہوچکے ہیں مگر اب تک بنگلا دیش میں ’’جنگی جرائم‘‘ کے نام پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ٹربیونل کے سامنے کھڑا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔


۴۰ سال قبل سقوط ڈھاکا کے وقت برپا ہونے والے ہنگاموں میں تیس لاکھ افراد موت کے گھاٹ اترے تھے۔ حکومت دعوے کرتی رہی ہے کہ اس قتل عام کے مرتکب افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے تین ماہ قبل جنگی جرائم کی تفتیش کا ٹربیونل قائم کیا تھا۔ یہ اس انتخابی وعدے کی تکمیل کے لیے تھا کہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو کامیابی اس وعدے ہی کی بنیاد پر ملی تھی۔

۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی تحریک نو ماہ جاری رہی۔ سابق مشرقی پاکستان کی اسلام نواز جماعتوں نے بنگلا دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ ان میں جماعت اسلامی اور البدر پیش پیش رہیں۔ بنگلا دیش میں جنگی جرائم کے حوالے سے ان کے کردار پر تو انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے تاہم سابق مغربی پاکستان کی فوج کے ان افسران کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی جن پر شروع میں ہی جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

جہاں تک عوامی لیگ اور بنگلا دیش کے بہت سے شہریوں کا تعلق ہے، جنگی جرائم کا ٹربیونل ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینے کے ساتھ تاریخی حقائق کی تصدیق اور نوزائیدہ مملکت سے اہل دانش کا صفایا کرنے کی مہم کا جواب ہے۔ ۱۹۹۵ء میں ممتاز شہریوں نے، جن میں موجودہ وزیر قانون شفیق احمد بھی شامل تھے، ایک پینل قائم کیا جس نے جنگی جرائم میں ملوث افراد کا تعین کیا اور انہیں سزا دینے کی سفارش کی۔ ان میں جماعت اسلامی کے کئی رہنما بھی شامل تھے۔ اب تک حکومت کسی بھی شخص کے خلاف چارج شیٹ نہیں لاسکی تاہم جماعت اسلامی کے پچاس رہنماؤں اور کارکنوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے تین مرکزی رہنماؤں کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر غیر متعلقہ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ اور مغربی حکومتیں جنگی جرائم سے متعلق ٹربیونل کی حمایت اسی وقت کرسکیں گی جب یہ تمام بین الاقوامی معیارات اور ضوابط کے مطابق ہوگا۔ فی الحال وہ ایسے کسی بھی ٹربیونل کی حمایت سے گریزاں ہیں۔ بیرونی فنڈ اور تکنیکی معاونت کے بغیر جنگی جرائم کے ٹربیونل کا قیام اور معیاری کارکردگی ممکن نہیں۔ جنگی جرائم کی تفتیش کے حوالے سے چند تکنیکی تنازعات موجود ہیں۔ مگر ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ چار عشروں پہلے جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا ان کی تفتیش کے نام پر شیخ حسینہ واجد دراصل اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہیں! اگر ۱۹۹۵ء کے پینل کی سفارشات تسلیم کی جائیں تو جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو پھانسی دے دی جائے گی!

بنگلا دیش میں جنگی جرائم کی تفتیش کے حوالے سے سعودی عرب بھی ایک بڑی رکاوٹ کے روپ میں سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب آج بھی بنگلا دیش کو ارزاں نرخوں پر تیل فراہم کرتا ہے اور اس کے بیس لاکھ باشندوں کو سعودی عرب کے طول و عرض میں ملازمتیں بھی دی گئی ہیں۔ سعودی عرب نے بنگلا دیش کو ۱۹۷۵ء میں شیخ حسینہ کے والد اور بنگلا دیش کی تحریک آزادی کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد اس وقت تسلیم کیا تھا جب اس کے آئین سے سیکولر ازم کی شق ہٹادی گئی تھی۔ ۱۹۷۲ء کے آئین کی رو سے بنگلا دیش میں ریاست کے چار ستون متعین کیے گئے تھے: جمہوریت، قوم پرستی، سوشل ازم اور سیکولر ازم۔ بنگلا دیش میں اب ۱۹۷۲ء کے آئین کو بحال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں جس سے سعودی عرب کی تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ آئین کی بحالی سے جماعت اسلامی پر پابندی لگ سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو سعودی عرب بھی ناراض ہوگا کیونکہ جماعت اسلامی نظریاتی طور پر سعودی عرب کے مسلک کی حامی ہے۔ یہ شیخ حسینہ کے لیے امتحان کی گھڑی ہے۔

وزیر قانون شفیق احمد کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ سعودی عرب نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ جنگی جرائم کی تفتیش کی مخالفت کر رہا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں ہر ماہ ۱۷ ہزار اور ۲۰۰۸ء میں ہر ماہ ۱۱ ہزار بنگلا دیشی سعودی عرب میں ملازمت حاصل کر رہے تھے۔ اب یہ ماہانہ تعداد ۸۰۰ رہ گئی ہے! کم لوگ ہیں جو یہ ماننے کو تیار ہیں کہ یہ تبدیلی صرف معاشی بحران کے باعث ہے۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۳؍ جولائی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*