
ہالی وڈ کی معروف فلم ’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو پہلے تو اپنے جرائم کا اعتراف کرنے سے انکار کرتا ہے۔ مگر پھر وہ جیل کی کال کوٹھری میں اپنے ایک ایک جرم کا اعتراف کرتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ موت کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے حالیہ عام انتخابات اور عوامی لیگ کی حکومت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ دی ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے انتخابات کو غیر نمائندہ بلکہ جعلی قرار دیا ہے۔ اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت بھی رفتہ رفتہ اپنے منطقی انجام یعنی موت کی طرف بڑھتی چلی جائے گی۔
اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ نئے سرے سے ایسے انتخابات کرائے جائیں جن میں تمام سیاسی جماعتوں کو شریک ہونے کا موقع ملے اور لوگ اپنے ضمیر کے مطابق آزادی سے ووٹ ڈال سکیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات کی حمایت صرف بھارت نے کی۔ عالمی برادری نے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے عوامی لیگ کی حکومت کے لیے موت کی راہ آسان کردی ہے۔ اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کو باعزت طریقے سے دفن کردیا جائے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے حالیہ عام انتخابات بیک وقت المیہ بھی رہے ہیں اور طربیہ بھی۔ غیر ملکی میڈیا نے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں بہت کچھ داؤ پر لگادیا گیا۔ ایک طرف تو غیر نمائندہ حکومت معرض وجود میں آئی اور دوسری طرف قوم کا پیسہ برباد ہوا۔ الیکشن کمیشن غیر معمولی حد تک جذباتی دکھائی دیا اور جو کچھ بھی اس سے کرنے کو کہا گیا، وہ اس نے کیا۔ اور یوں ایک مفت کے تماشے کو ٹالا نہ جاسکا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خود عوامی لیگ نے یہ بات کہی ہے کہ عام انتخابات محض رسمی کارروائی کے طور پر کرائے گئے ہیں۔
بہت سے لوگ اب بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ شیخ حسینہ واجد جیسی منجھی ہوئی سیاست دان تو نام نہاد انتخابات کے سنگین نتائج کو اچھی طرح سمجھتی ہوں گی پھر وہ کیوں اس قدر ضدی ثابت ہوئیں اور انتخابات کا ڈراما رچاکر ہی دم لیا۔ عوامی لیگ نے باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ عام انتخابات محض اس لیے کرائے گئے کہ یہ ایک آئینی تقاضا تھا۔ کیا شیخ حسینہ واجد کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ شفاف اور غیر جانب دار انتخابات کرائے جانے کی صورت میں مایوس کن کارکردگی اور شرمناک انسانی حقوق کے ریکارڈ کے باعث ان کی پارٹی شرمناک شکست سے دوچار ہوتی؟
بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارت کا عمل دخل کس حد تک بڑھ چکا ہے، اس کا اندازہ حالیہ انتخابات سے ہوگیا ہوگا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد اگر چاہتیں تب بھی انتخابات مؤخر نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ بھارت اور اس کے مقامی ایجنٹ اس قدر متحرک تھے کہ ان کے آگے بند باندھنا ممکن نہ رہا تھا۔ بھارت چاہتا تھا کہ ایک بار پھر عوامی لیگ ہی کی حکومت آئے کیونکہ بھارتی مفادات کے معاملے میں وہی مطیع و فرماں بردار ثابت ہوتی ہے۔ عوامی لیگ بھارتی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اپنا مطلوبہ کردار بہت عمدگی سے ادا کرتی رہی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں بھی عوامی لیگ بھارت کی مدد ہی سے اقتدار میں آئی تھی۔ بھارت کا عمل دخل بنگلہ دیش میں بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بنگلہ دیشی سیاست اور معیشت دونوں پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے حالیہ انتخابات سے قبل عالمی برادری کو باور کرانے کی ناکام کوشش کی تھی کہ بنگلہ دیش کے معاملات جتنے بھارت جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ بھارت کی قیادت عالمی برادری پر یہ جتانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ پڑوسی ملک ہونے کے ناتے وہ بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت کا حق رکھتا ہے۔
بھارت کے علاقائی مفادات میں سے چند ایسے ہیں جن کا حصول بنگلہ دیش کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ بنگلہ دیش کے لوگ بھی اس حقیقت کو جانتے اور سمجھتے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے، ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام یقینی بناتے ہوئے اور ہم آہنگی کے ساتھ طے پائیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ اسے بنگلہ دیش کی طرف سے غیر مشروط اور بھرپور تعاون حاصل ہوتا رہے۔ عوامی لیگ اس معاملے میں بھارت کو تمام رعایتیں دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ عوامی لیگ کے لیے غیر معمولی بھارتی حمایت دراصل اسی کیفیت کی پیدا کردہ ہے۔
بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ بھارت نے، جس کا اپنا انتخابی نظام بہت معیاری اور شفاف ہے، بنگلہ دیش میں ایسے عام انتخابات کی حمایت کیوں کی جن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں؟ بنگلہ دیش کے نام نہاد عام انتخابات کے لیے بھارت کی طرف سے بھرپور حمایت نے بنگلہ دیش اور اس سے باہر بہتوں کو ناراض کیا ہے۔ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسے عمل سے مشابہ انتخابات کے نتیجے میں تشکیل دی جانے والی عوامی لیگ کی حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔
آخر کیا سبب ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش میں غیر شفاف اور رسمی کارروائی جیسے انتخابات کی اس قدر حمایت کی؟ عوامی لیگ کی حکومت کو برقرار دیکھنے کی طلب میں بھارت کیوں اس حد تک گیا؟ کیا بھارت کے پالیسی ساز حضرات بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اہل دانش کا اب خارجہ پالیسی مرتب کرنے کے عمل پر اختیار ہی نہیں رہا؟
پاکستانی نژاد برطانوی سیاسی تجزیہ نگار طارق علی نے ۱۹۷۰ء کے عشرے کے وسط میں بھارت کی اس وقت کی وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے اندرا گاندھی کو بتایا تھا کہ پاکستان کے بیشتر مسائل سیاسی بصیرت سے محروم جرنیلوں کی بنائی ہوئی پالیسیوں کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اندرا گاندھی نے انہیں بتایا کہ بھارت کے جرنیل لازمی طور پر پاکستانی جرنیلوں سے بہتر ہیں نہ زیادہ دانش مند۔ فرق صرف یہ ہے کہ بھارت میں جرنیلوں کو فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران ایک مرحلے پر بھارتی جرنیلوں نے کہا کہ جنگ میں پاکستان پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ بھارتی فوج اگر چاہے تو مغربی پاکستان پر بھی قبضہ کرسکتی ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف فیلڈ مارشل مانیک شا نے تب کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے بات کی کہ کیا ایسا کرلیا جائے۔ انہوں نے ایک دن انتظار کرنے کو کہا۔ کابینہ کے ارکان اور مشیروں کو جمع کرکے مشاورت کی۔ سب نے مشورہ دیا کہ مغربی پاکستان پر قبضہ کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندانہ اقدام نہ ہوگا۔ ساتھ ہی اندرا گاندھی نے طارق علی سے یہ بھی کہا کہ بھارت اور پاکستان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھارت میں سیاسی فیصلے جرنیل نہیں کرتے۔
بھارت اب بہت تیزی سے ابھر رہا ہے۔ سلامتی کے معاملے سے معیشت کی بہتری تک تمام ہی اہم امور میں بھارت علاقائی سپر پاور کی حیثیت سے اپنی حیثیت منوا رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں بھارت میں پالیسی تیار کرنے اور فیصلے کرنے کے عمل پر غیر جمہوری یا غیر منتخب عناصر تو متصرف نہیں ہوگئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وسیع تر قومی مفاد میں اب جرنیل، خفیہ ادارے، بیورو کریٹس اور بڑے سرمایہ کار پالیسی تیار کرنے کے عمل پر اثر انداز ہو رہے ہوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مختلف سطحوں پر موجود قوم پرست یا وطن پرست عناصر پالیسیوں میں اپنی رائے شامل کرنے پر زور دے رہے ہوں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ خطے کے ممالک کے ساتھ ساتھ خود بھارت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ایسی حالت میں پالیسیوں کا متوازن اور مستحکم رہنا انتہائی دشوار ہوگا۔
دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ بڑی طاقتوں کا زمانہ لد گیا۔ اب علاقائی سطح پر طاقتیں ابھر رہی ہیں جو پڑوسی ممالک کے لیے پریشانی کا سامان کرتی رہتی ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات اور حالیہ بنگلہ دیشی انتخابات میں بھارت کے کردار سے دنیا کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہوگا کہ علاقائی طاقتیں کس نوعیت کا کھیل کھیلتی ہیں اور کیا کر رہی ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال ہے۔ علاقائی طاقتیں کمزور ممالک کو دبوچنے اور کچلنے کے عمل میں مصروف رہیں تو کشیدگی بڑھے گی اور خطے غیر متوازن رہیں گے۔ چھوٹے اور قدرے غیر موثر ممالک کو دبوچنے اور انہیں عملی سطح پر اپنی نو آبادی بناکر رکھنے کا رجحان یونہی پروان چڑھتا رہا تو سفارت کاری کے میدان میں سنگین بحران سر اٹھاتے رہیں گے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ نسبتاً طاقتور ممالک اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چھوٹے ممالک کو شدید دباؤ میں رکھنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
مصر سے کمبوڈیا تک کسی نہ کسی شکل میں منظر نامہ کچھ ایسا ہی ہے۔ بنگلہ دیش میں آج کیفیت یہ ہے کہ عوامی لیگ بھارت، ملٹی نیشنل اداروں اور عالمی طاقتوں کے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے اپنا الو سیدھا کر رہی ہے اور قومی مفادات کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ کل کو یہ ہوگا کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی حمایت میں کوئی اور ملک کھڑا ہوگا، ملٹی نیشنل ادارے بھی پشت پر ہوں گے اور عالمی طاقتوں کے مقامی ایجنٹ مل کر بنگلہ دیش کے مفادات کو قربان کر رہے ہوں گے۔
اگر بنگلہ دیش کو مکمل تباہی سے بچانا ہے تو لازم ہے کہ پوری قوم بھرپور حب الوطنی کا مظاہرہ کرے، جمہوری اداروں کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے اور سیاسی و سفارتی سطح پر غیر معمولی دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے تمام اقدامات کی راہ مسدود کی جائے جن سے قومی مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔ راستہ کٹھن ہے، سفر آسان نہیں مگر خیر، منزل تک پہنچنا ناممکن بھی نہیں۔ اگر مستقل مزاجی کو اپنایا جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔
(“Dead government walking: Postscript of a sham election”… “New Age” Bangladesh. Jan. 11, 2014)
Leave a Reply