
بنگلادیش کی موجودہ حکومت انتقامی کارروائیوں کو ہوا دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان کا نام لینے اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے بلکہ پاکستان سے محبت کرنے کی پاداش میں دھڑادھڑ پھانسیاں دے کر ظلم و ستم کی گھناؤنی مثالیں بھی قائم کر رہی ہے۔
اس وقت تک جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں کو پھانسیاں دی جاچکی ہیں، جن میں مولانا مطیع الرحمن نظامی‘ عبدالقادر ملا‘ محمد قمرالزمان‘ علی احسن مجاہد اور میر قاسم شامل ہیں، جبکہ بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر کو بھی پھانسی دی گئی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم اور مولانا عبدالکلام محمد یوسف کو جیل میں تشدد کرکے شہید کردیا گیا۔ ان پھانسی پانے والے رہنماؤں سے یہ کہا گیا کہ آپ کی سزا معاف ہو سکتی ہے اگر آپ یہ بات لکھ کر دیں کہ ہمیں پاکستان اور افواجِ پاکستان سے نفرت ہے، جوبے گناہ بنگالیوں کے قتل میں ملوث تھی اور ہم پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، وہ سب کے سب سچ ہیں تو آپ صدرِ مملکت سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں۔ لیکن سب رہنماؤں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ جو الزامات عائد کیے گئے ہیں سب جھوٹ ہیں۔ رحم کی اپیل کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام جھوٹ کو سچ مان لیا گیا۔ اس لیے ہم اس جھوٹ کو نہیں مانتے ہمیں پھانسی ہی منظور ہے۔
عبدالقادر ملا‘ جو جماعت اسلامی کے مرکزی اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۸ء تک رکنِ پارلیمنٹ رہے اور دنیا کے ۵۰۰ مؤثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں ان کا نام شامل رہا، ان کو ۲ دسمبر ۲۰۱۳ء میں پھانسی دے دی گئی۔ محمد قمرالزمان بھی جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری رہے۔ انہوں نے ہمیشہ سچ کابول بالا کیا۔ پیشے کے لحاظ سے یہ صحافی اور مصنف تھے۔ ان کو ۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو پھانسی دی گئی۔
چوہدری معین الدین پر ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چلایا گیا ان کو ۳نومبر ۲۰۱۳ء کو سزائے موت سُنا دی گئی۔ وہ عالمی اسلامی ادارہ مسلم ایڈ کے سابق چیئرمین اور برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروسز کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم کو جو بنگلادیش جماعت اسلامی کے سابق امیر تھے ۱۵جون ۲۰۱۳ء کو ۹۰ سال کی قید سنائی گئی، مگر پروفیسر غلام اعظم تشدد برداشت نہ کرسکے اور ۹۱ برس کی عمر میں ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو جیل ہی میں انتقال کرگئے۔ جماعت اسلامی کے ایک اور سابق جنرل سیکرٹری علی احسن مجاہد کو ۱۷ جولائی ۲۰۱۳ء کو سزائے موت سنائی گئی اور ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ء کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ علی احسن مجاہد ۲۰۰۷ء تک بنگلادیش کے رکن پارلیمنٹ اور سوشل ویلفیئر کے وفاقی وزیر رہے۔ صلاح الدین چوہدری جو بی این پی کے رہنما اور ۷ بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے، ان کو یکم اکتوبر ۲۰۱۳ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ء کو ان کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ وہ اپنی پارٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رُکن اور پارٹی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء کے پارلیمانی امور کے مشیر بھی رہے۔
علم حدیث کے ممتاز ماہر اور جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالکلام محمد یوسف پر ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ وہ جیل کی اذیتیں برداشت نہ کر پائے اور ۲ فروری ۲۰۱۴ء کو جیل میں ہی انتقال گئے۔ ۲نومبر ۲۰۱۴ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور اسلامی بینک کے ڈائریکٹر اور ڈگانتا میڈیا کارپوریشن کے چیئرمین ابنِ سینا ٹرسٹ کے بانی‘ رابطہ عالمی اسلامی کونسل کے ڈائریکٹر میرقاسم کو سزائے موت سنا دی گئی اور انہیں ۳ ستمبر ۲۰۱۶ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ان سب رہنماؤں پر غداری‘ قتلِ عام‘ خواتین کی بے حرمتی‘ زنا اور لوٹ مار سمیت نہایت بے ہودہ الزامات عائد کرکے انہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ نام نہاد وار کرائم ٹربیونل قائم کیا گیا اور پھر اس میں مقدمات چلائے گئے۔ لیکن مقدمات میں بھی یہ ثابت ہوا کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اسی وجہ سے بنگلادیشی حکومت نے حکومتی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے جعلی گواہ تیار کرکے ان رہنماؤں کو دفاع کے حق سے محروم کرکے اپنی منشا کے مطابق عدالتوں سے فیصلے کروائے۔ وہ مقدمات جو انٹرنیشنل وار کرائم ٹربیونل میں چلائے گئے، عالمی قوانین و انصاف سے متصادم ہیں۔ غیر ملکی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اس ٹربیونل کا پہلا چیف جسٹس محمد نظام الحق جو ایک متعصب شخص تھا وہ پہلے ہی دن سے اُن رہنماؤں کے خلاف تھا۔ ۲۰ سال پہلے جب وہ وکیل تھا تو اس نے عوام کے سامنے ایک ڈراما کیا‘ خود ہی عدالت لگائی اور خود ہی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے تمام رہنماؤں کو سزائے موت دینے کا اعلان کردیا۔ اس وقت تو لوگ اس کے اس ڈرامے پر ہنسے، لیکن ۲۰ سال بعد اس کا یہ خواب پورا ہو گیا جب اُسے اس ٹربیونل کا صدر بنایا گیا تو وہ بے حد خوش تھا۔ مگر اچانک ہی اس سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ کیونکہ حسینہ واجد یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے منصوبے کی قلعی کھلے۔ حقیقت یہ تھی کہ جسٹس نظام الحق اور بنگالی قانون دان ضیاالدین کے درمیان SKYPE پر ٹربیونل گفتگو اور ای میلز غیر ملکی جریدے تک پہنچ گئیں اور انہوں نے تمام گفتگو اور ای میلز شائع کردیں۔ جس میں جسٹس نظام نے واضح طور پر کہا کہ حسینہ واجد بھارت کی مدد سے حکومت چاہتی ہے تاکہ وہ بھارت مخالف رہنماؤں کا خاتمہ کرکے اپنے باپ کا بدلہ لے سکے۔ گفتگو تو بہت لمبی ہے جو یہاں ایک مضمون میں لکھنا ممکن نہیں لیکن سب سے بڑی بات ۴۲ برس بعد قائم ہونے والا یہ ٹربیونل‘ مقدمات اور پھانسیاں ۱۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کو طے پانے والے سہ طرفی معاہدے کی خلاف ورزیاں ہیں جن کے فریقین پاکستان‘ بھارت اور بنگلادیش تھے۔
اس معاہدے میں واضح طور پر یہ طے پایا تھا کہ ۱۹۵جنگی قیدی جو گرفتار ہیں، ان پر بنگلادیشی حکومت غداری کا مقدمہ چلا سکتی ہے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دے سکتی ہے۔ مگر اب جن لوگوں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں، ان کا نام نہ تو ان ۱۹۵ جنگی قیدیوں میں شامل ہے نہ ہی ان کے خلاف کئی عشروں تک کوئی مقدمہ درج ہوا بلکہ یہ تو رکن پارلیمنٹ بھی رہے اور خالدہ ضیاء کے دور میں اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسینہ واجد نے ان اہم رہنماؤں پر اچانک مقدمات درج کرکے انہیں پھانسیاں دینے کا سلسلہ کیوں شروع کردیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سابق بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے بنگلادیش کا دورہ کرنے سے پہلے ۳۰ جون ۲۰۱۱ء میں نئی دہلی میں بنگلادیشی اور بھارتی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلادیش سے ہمارے تعلقات اچھے ہیں لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلادیش کی کم ازکم ۲۵فیصد آبادی علانیہ طور پر اسلام پسندوں سے وابستہ ہے اور یہ لوگ بھارت کے مخالف اور پاکستان کے حق میں ہیں، اس لیے بنگلادیش کا سیاسی منظرنامہ کسی وقت بھی تبدیل ہوسکتا ہے اس لیے ان رہنماؤں کو گرفت میں لانے کی ضرورت ہے، اس کے بعد بھارت نے بنگلادیش کے اندر اپنی کارروائیاں اور مداخلت مزید تیز کردی اور بھارت کی ایما پر ان معزز رہنماؤں کو گرفتار کرکے پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔
اگر ہم اس صورت حال کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حسینہ واجد کی حکومت، بنگلادیش کی سب سے منظم اور بڑی سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی سمیت تمام مخالف قوتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرکے خودکشی کرنے جارہی ہے۔ اگر ان قوتوں کو ملک کے سیاسی منظر نامے سے باہر رکھا گیا تو یقیناً ان کے کارکن زیرِ زمین چلے جائیں گے اور ایسی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں جس سے پورا ملک عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں بنگلادیش کی ایک اہم سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے ساتھ تعصبانہ اور انتقامی رویہ حسینہ واجد کی حکومت کے خطرناک ایجنڈے کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے پہلے بنگلادیش کے الیکشن کمیشن نے انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی فہرست سے جماعت اسلامی کا نام خارج کردیا ہے اور حکومت نے جماعتِ اسلامی کو کالعدم قرار دے کر اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ہے اور اب بنگلادیش کے لوگوں کے پاس اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اسی وجہ سے کچھ اسلام پسند حلقے پاکستان سے الحاق کی باتیں کررہے ہیں۔
بنگالی حکومت بنگلادیش میں آج جو نفرت کے بیچ بوئے جا رہی ہے، کل آنے والی نسلوں کو یہ فصل کاٹنا ہوگی۔ تب اس خوں ریزی کو روکنا مشکل ہو گا۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ہلال‘‘ پاکستان۔ نومبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply