
سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکار میر احمد بن قاسم کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں بغیر جوتوں کے گھسیٹتے ہوئے ایک نامعلوم گاڑی میں بٹھا کر لے گئے،میر احمد بن قاسم کی اہلیہ کے مطابق ۹؍اگست ۲۰۱۶ء کی رات گیارہ بجے ڈھاکا میں ان کی رہائش گاہ سے، وکالت کے پیشے سے وابستہ ان کے شوہر ،میر احمد بن قاسم کوان کی دو چھوٹی بچیوں کی چیخ و پکار کے باوجود پولیس اہلکار اٹھا کر لے گئے۔
میر احمد بن قاسم کی گرفتاری سے پانچ دن قبل بنگلادیش کی سیاست میں سرگرم قادر چوہدری کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ ایک مقدمے کی سماعت کے لیے اپنی والدہ کے ہمراہ اپنی گاڑی میں عدالت کی طرف جارہے تھے ۔
اسی طرح سابق بریگیڈیئر جنرل امان اعظمی کے گھر سادہ لباس میں تیس افراد نے دھاوا بولا جو اپنا تعلق خفیہ ایجنسی سے بتا رہے تھے۔ ان کے بھائی کے بیان کے مطابق، امان اعظمی دو افراد کے جبری اغوا کا سُن کر روپوش تھے۔ ان کے ملازم کو تشدد کا نشانہ بنا کر جنرل امان اعظمی کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں اور پھر انھیں ایک خالی عمارت سے حراست میں لیا گیا ۔
تین افراد کو حراست میں لیا گیا، یہ تینوں حزب اختلاف کے سینئر رہنماؤں کے بیٹے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیا ہے لیکن حکومت مسلسل اس بات کا انکار کر رہی ہے اور اغوا شدگان کی اب تک کہیں بھی شنوائی نہیں ہے۔
بنگلادیش کی سلامتی کے نام پر شروع کی جانے والی اس ظالمانہ تحریک میں ایسے نوجوانوں کو سزا دی جارہی ہے جن کا ان جرائم سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہے، یہ سب نوجوان ان سیاستدانوں کے بیٹے ہیں جنہیں بنگلادیش کی حکومت نے اپنے ہی ملک میں عبرت کا نشان بنادیا ہے، یہ سیاستدان ۱۹۷۱ء میں بنگلادیش کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب قرار دیے گئے ۔
ان میں سے دو ضعیف افراد، صلاح الدین قادر چوہدری اور میر قاسم علی جو قادر چوہدری اور میر احمد کے والدتھے، انھیں حال ہی میں عصمت دری اور قتل وغارت گری کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔ امان اعظمی کے والد، غلام اعظم جنھیں پاکستان حمایتی عسکری گروہ بنانے کے جرم میں ۹۰ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، وہ ۲۰۱۴ء میں قید کی سزا کاٹتے ہوئے جیل میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے تھے۔
۱۹۴۷ء کی تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہونے والا یہ خطہ (حالانکہ جغرافیائی اعتبار سے یہ پاکستان سے بہت دور تھا) پاکستانی فوجی حکام کی سخت مزاحمت کے باوجود بنگلادیش کے نام سے الگ ملک کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس جنگ میں بنگلادیش کی حکومت کے مطابق ۳۰لاکھ افراد قتل کیے گئے۔ بنگلادیش کی حکومت کے مطابق ان ۳۰لاکھ بنگالیوں کا قتل پاکستانی فوجیوں نے کیا اور ان کے خاندانوں کو انصاف دلانا اب حکومت کی ذمہ داری ہے، شیخ مجیب، بنگلادیش کی تحریک آزادی کے رہنما کی بیٹی حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء کا انتخاب اسی وعدے پر جیتا ہے کہ وہ جنگی مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کریں گی ۔
لیکن جنگی مجرموں کی قانونی چارہ جوئی کے لیے قائم کیے گئے ٹریبونل پر نااہلی اور سیاسی وابستگی کے صریح الزامات لگائے گئے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں وہ تمام افراد بنگلادیش میں معروف و ممتاز حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق حزب اختلاف سے ہے، جبکہ ایک تو موجودہ پارلیمان کے رکن بھی ہیں۔ مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کے وکلا نے ان مقدمات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک مقدمے میں ایسا بھی ہوا کہ ملزم کے خلاف ۳۵ گواہ پیش کیے گئے، لیکن اس کے دفاع میں صرف ۳ گواہان کو پیش ہونے کی اجازت دی گئی۔
منظر عام پر آنے والی ایک گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ ٹریبونل کے ایک جج نے برسلز کے جینو سائیڈ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے بنگلادیشی ڈائریکٹر سے مقدمہ کے متعلق مشاورت بھی کی۔ ایک گفتگو کے دوران جج نے کہا کہ ’’انتظامیہ ہر صورت میں ۲۰۱۴ء کے انتخابات سے پہلے مقدمہ کا فیصلہ چاہتی ہے‘‘۔ یہ فیصلہ صلاح الدین قادر چوہدری کے مقدمے میں فیصلہ سنائے جانے سے پہلے ہی انٹر نیٹ پر موجود تھا، جس پر یہ کہا گیا کہ فیصلہ وزارت نے لکھ کر دیا ہے۔
حزب اختلاف کے زیر حراست اور قتل کر دیے جانے والے اراکین کے اہل و عیال کی بھی نگرانی کی جارہی ہے، اور انہیں غائب کیا جارہا ہے۔ امان اعظمی اور قاسم چوہدری نے حراست میں لیے جانے سے پہلے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
لاپتا افراد کے رشتے دار، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ یقینی امر ہے کہ لاپتا افراد حکومت کی حراست میں ہیں اور ان پر تشدد کیا جارہا ہے، اور ان کے لواحقین کو یہ تک نہیں بتایا جارہا کہ ان کو کہاں رکھا گیا ہے۔اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ ان کے پیارے اس دنیا میں ہیں بھی یاقتل کر دیے گئے ہیں۔
بنگلادیش میں روز بروز لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد لاپتا کر دیے گئے، لاپتا افراد کے عزیز و اقارب کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کے پیارے قانون نافذ کرنے والوں کی حراست میں ہیں ۔
بنگلادیش میں اس وقت سیکولر سیاسی تنظیم، عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی حسینہ واجد کی حکومت ہے۔ جب کہ سیاسی مخالفین میں بنگلادیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی بنگلادیش (ملک کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم) شامل ہیں، یہ دونوں جماعتیں ماضی میں اتحادی رہی ہیں۔ لاپتا اور جنگی جرائم کے مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کا تعلق ان ہی دو سیاسی تنظیموں سے ہے۔
تجزیہ نگاراس کریک ڈاؤن کو حزب اختلاف کے خلاف کارروائی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ حالیہ عرصے میں ہونے والے حملے اور بلاگرز کے قتل کی ذمہ داریاں القاعدہ اور داعش نے قبول کی ہیں لیکن عوامی لیگ ان کا الزام مقامی عسکری گروہوں پر لگانا چاہتی ہے، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان گروہوں کو بنگلادیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے ایک تحقیق کار کا کہنا ہے کہ ’’حزب اختلاف کے خلاف جاری حکومتی مہم کا ایک مقصد ان کا تعلق عسکریت پسندوں سے جوڑنا بھی ہے‘‘۔
ڈھاکا سے تعلق رکھنے والے صحافی David Bergman، جو لاپتا افراد کے اعدادوشمار جمع کرتے ہیں، کے مطابق ۲۰۱۶ء میں ۸۰؍افراد لاپتا ہوئے ہیں۔
ان میں سے کچھ افراد کو منظر عام پر لانے کے بعد باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔لاپتا ہونے والے افراد میں ایک اہم کیس ٹورنٹو یونیورسٹی کے تحمید حسیب کریم اور ۴۷ سالہ انجینئر حسنات رضا کریم کا ہے۔ یہ دونوں اتفاقیہ طور پر اس وقت Holey Artisan Bakery ڈھاکا میں کھانا کھا رہے تھے جب حملہ ہوا، یکم جولائی کو ہونے والے اس حملے میں ۲۴؍افراد ہلاک ہوئے اور داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ ان دونوں کا کسی سیاسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان دونوں کو بغیر کسی ثبوت کے ایک ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر عدالت میں ایسے پیش کیا گیا، جیسے ابھی گرفتار کیا گیا ہو۔
بہت سے لوگ بد نام زمانہ ’’ریپڈ ایکشن بٹالین‘‘ کے زیر حراست تشدد کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں اور بہت سے افراد کو قتل کردیا گیا ہے ۔لیکن حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں۔ نومبر،دسمبر ۲۰۱۳ء میں بنگلادیش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ۱۹؍افراد لاپتا کر دیے گئے، ہیومن رائٹس واچ نے فارن پالیسی میگزین کو بتایا کہ باوثوق ذرائع کے مطابق ان میں سے۵؍افراد اب تک ہلاک کیے جاچکے ہیں ۔
گرفتار کیے گئے ایک فردبن قاسم کے برطانوی وکیل مائیکل پولاک کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو لاپتا ہونے والے دو افراد کے ساتھ منٹو روڈ ڈھاکا پر خفیہ ایجنسی کی عمارت میں رکھا گیا ہے۔ بن قاسم کے رشتہ دار ان کی صحت اور ان کے ساتھ کیے جانے والے برتاؤ کے حوالے سے خاصے پریشان ہیں۔
پولاک کامزید کہنا تھا کہ ایک سینئر سفارتی اہلکار نے انہیں منٹو روڈ پر قید کیے جانے والے قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کی منظرکشی کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وہاں قیدیوں کو تشدد کے طریقوں کی کتاب دی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اپنے اوپر کیے جانے والے تشدد کے طریقہ کا انتخاب کریں‘‘۔
اطلاعات کے مطابق رہائی پانے والے افراد کو ان شرائط پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ نہ تو کسی سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا ذکر کریں گے اور نہ ہی آئندہ سیاست میں حصہ لیں گے۔بنگلادیش نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان صلاح الدین احمد کو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے حراست میں لیا اور دو مہینے بعد وہ مخدوش حالت میں بھارت کے سرحدی علاقے سے منظر عام پر آئے۔ جہا ں سے انھیں بھارتی پولیس نے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے پر گرفتار کر لیا۔ اور اسی الزام کے تحت ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ۔
بنگلادیش نیوز۲۴،سے گفتگو کرتے ہوئے صلاح الدین نے بتایاکہ’’ جی ہاں میں صلاح الدین احمد ہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ میں یہاں تک کیسے پہنچا،مجھے بس اتنا یاد ہے کہ مجھے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ڈھاکا سے حراست میں لیاتھا، اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا اور مجھے بھارت کی سرحد تک کون لے کر آیا ہے، یہ میں نہیں جانتا‘‘۔
ہیومن رائٹس واچ کے تحقیق کار تھاپا نے بتایا کہ’’گرفتار شدگان میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو زیر حراست مر گئے اور بہت سارے لوگوں نے حیرت انگیزطور پر پانچویں منزل سے کود کرجان دے دی‘‘،اور حکومت ان معاملات میں ایسی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے کہ کوئی ان واقعات کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا‘‘۔ امان اعظمی کے بھائی نے برطانیہ سے (جہاں وہ یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں)فون پرگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد مسلسل ہمارے گھر کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اور ہمیں اس بات کابھی اندازہ تھا کہ بس کچھ ہی دنوں میں امان اعظمی کوگرفتار کر لیا جائے گا۔
اعظمی نے مزید بتایا کہ۲۰۰۹ء میں حسینہ واجد کی حکومت آئی تو ان کے بھائی امان (پروفیسر غلام اعظم کے بیٹے)کو نوکری سے برطرفی کا خط موصول ہوا۔انھوں نے تیس سال بنگلا دیشی فوج میں خدمات انجام دیں ۔امان اعظمی بنگلادیش بننے کے بعد سے فوج میں اعلیٰ عہدوں پرخدمات انجام دیتے رہے ہیں اور فوج میں بہترین کارکردگی کی وجہ سے معروف ہیں، ان کی خدمات کے باوجود انہیں فوج سے بغیر کسی وضاحت کے نکال دیا گیا۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ جنگی جرائم میں نامزد سیاستدانوں کے بیٹوں خصوصاً بن قاسم کو (جو کہ میر قاسم علی کے بیٹے ہیں) میر قاسم علی کی سزائے موت پر (۳ستمبر ۲۰۱۶ء) شدید عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے گرفتارکیا گیا ہے۔
اس سے پہلے جنگی جرائم میں نامزد معروف سیاستدانوں کو دی جانے والی ناحق سزائے موت کے بعدجماعت اسلامی بنگلادیش کی حمایت میں شدید احتجاج جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔
جنوبی ایشیا کے کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ نگار شہریار فاضلی کا کہنا ہے کہ ’’میرقاسم علی کے بیٹے والے معاملے میں تو یہی خبریں آرہی تھیں کہ حکومت نے میر قاسم علی کی پھانسی پر ممکنہ احتجاج کے پیش نظر انہیں گرفتار کیا تھا۔ لیکن حکومت کی یہ پریشانیاں بے سبب ہیں۔ فاضلی کے مطابق اس وقت جماعت اسلامی یا بی این پی دونوں میں سڑکوں پر کسی بڑے احتجاج کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم حکومت کے رویہ کی بات کریں تو حزب اختلاف کے ساتھ حسینہ واجد کا رویہ غیر قانونی اور ظالمانہ ہے۔ اس تشدد پسندانہ رویہ سے سیاسی اور جمہوری نظام تباہ ہورہاہے اور اس کی جگہ عسکریت پسندی اور انتہاپسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔
انسانی حقوق کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۹ء کے صدارتی انتخابات کے بعد سے لوگ لاپتا ہونا شروع ہوئے ہیں۔ لیکن Holey Artisan Bakery پر حملے کے بعد لاپتا افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ داعش کے ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود بنگلادیشی حکومت اس حملے کا الزام بھی اپنے سیاسی مخالفین پر لگا رہی ہے اور انہیں گرفتار کر رہی ہے۔
شہریار فاضلی کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے یہ ساری کارروائی کر رہی ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کے بعد سے اغوا اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بی این پی اور جماعت اسلامی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ظالمانہ اقدام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا قانون تیار کیا ہے، جس کے مطابق ایسی تمام غیر سرکاری اور غیر اہم تنظیموں پر پابندی لگا دی جائے گی، جو حکومت کے کسی بھی اقدام کے خلاف آواز اٹھائیں گی اور اسی قانون کے پیش نظر گزشتہ مہینوں میں درجنوں نیوز ویب سائیٹ بند کی جاچکی ہیں اور کئی صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق مرکزی حزب اختلاف کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کے نتیجے میں حکومت کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوسکتا ہے۔
شہریار فضلی کا مزید کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی آواز کو دبانے کے لیے کیے جانے والے آپریشن سے نوجوان عسکریت پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور حکومت کے اس اقدام سے حزب اختلاف کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔ حزب اختلاف کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کی وجہ سے عوامی لیگ کی روایتی حمایتی ڈھاکا بار ایسوسی ایشن نے بھی اب جماعت اسلامی کی حمایت کی ہے۔
بنگلادیش کے وزیر اطلاعات عبید قادر نے گون پر دیے جانے والے حالیہ انٹرویو میں لاپتا افراداور ماورائے عدالت قتل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن حزب اختلاف پر پُر تشّدد کارروائیوں کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دہشت گردی پر قابو پاناحکومت کی کامیابیوں میں سے ایک اہم کامیابی ہے۔ پہلے آپ نے غور کیا ہو گا کہ دہشت گردی کی کتنی کارروائیاں ہوتی تھیں، لیکن اب صورتحال مستحکم ہے اور اگر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی بات کی جائے تو یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ اب یہ ایک عالمی مسئلہ ہے‘‘۔
مغربی دنیا اور بین الاقوامی برادری حسینہ واجد کو اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک اچھے اتحادی کے طور پر دیکھ رہی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش ہے۔ہیومن رائٹس کے محقق تھاپا کے مطابق بین الاقوامی برادری حزب اختلاف کے بجائے حسینہ واجد کی حکومت کو ترجیح دے رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف حکومت کے اقدام کو تحسین کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔
حالیہ اعدادو شمار کے مطابق مجموعی طور پر بنگلادیش نے معاشی ترقی کی ہے۔۱۹۹۰ء سے اب تک غربت کی سطح میں ڈرامائی کمی آئی ہے اور بنگلادیش ان چند ممالک میں شامل ہے، جنھوں نے’’ ملینیم ڈویلپمنٹ گول‘‘کے اہداف کو حاصل کیا ہے۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایاکہ اگر ہم ۳۰، ۲۰ سال پہلے والے بنگلادیش کا مقابلہ آج کے بنگلا دیش سے کریں تو آج کا بنگلادیش خوشحال نظر آتا ہے اور بین الاقوامی برادری حکومت کے اس موقف پر یقین رکھتی ہے کہ تمام مسائل کاحل معاشی ترقی میں ہے،جو کہ اپنی رفتار سے ہو رہی ہے۔
۱۵ کروڑ ۶۰ لاکھ کی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے آٹھویں بڑے ملک میں چندافراد کاغائب ہوجانا کیا حیثیت رکھتا ہے!!
امان اعظمی کے بھائی نے لاپتا کیے جانے والے افراد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کے قتل ہوجانے کے بعد اس کا خاندان زندگی میں آگے کی طرف سفر کرتا ہے لیکن کسی بھی فردکا غائب ہوجانا ایک تکلیف دہ امر ہے، لاپتا فرد کا خاندان ساری زندگی اس کے لوٹ آنے کی امید پر گزار دیتا ہے۔
لاپتا کیے جانے والے فردبن قاسم کی اہلیہ تہمینہ اختر نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ ان کی ۳اور۴سالہ بیٹیاں اپنے والد کا انتظار کرتی ہیں اوران سے پوچھتی ہیں کہ بابا فو ن کیوں نہیں کرتے اور وہ اب گھر کیوں نہیں آتے ؟
بن قاسم کی اہلیہ بھی سوال کرتی ہیں کہ’’ ہمیں ان حالات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟ کیا حزب اختلاف کے رہنما کے اہل و عیال ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟‘‘
(مترجم۔سمیہ اختر)
“‘Bangladesh Is Vanishing The Opposition”. (“Foreign Policy”. December 16, 2016
Leave a Reply