قائم مقام امیر بنگلہ دیش جماعت اسلامی مقبول احمد اور قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اسلامی تحریک کو درپیش موجودہ صورت حال کے حوالے سے پریس ریلیز جاری کی ہے۔ قارئینِ ’’معارف فیچر‘‘ کے لیے اس کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی، اس ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت ہے۔ برس ہا برس سے یہ جماعت، امتیاز سے پاک،منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کررہی ہے جس کی بنیاد اسلامی اقدار،اسلامی نصاب العین اور اخلاقی روح ہو۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے ملک میں جمہوریت کے قیام کے لیے چلنے والی تمام تحریکوں میں مرکزی کردار ادا کیاہے۔ جماعت اسلامی الیکشن کے عمل میں یقین رکھنے والی پارٹی ہے جو ہر دور میں منظم جمہوری اسٹریٹجی اختیار کرتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی کی تمام پارلیمنٹوں میں جنہیں عوام نے منتخب کیا، جماعت کی قابل قدر نمائندگی رہی ہے۔
سال ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ کی قیادت میں مخلوط حکومت، کمپیوٹر دھاندلی کے ذریعے وجود میں آئی۔ کمپیوٹر دھاندلی سے تشکیل پذیر حکومت نے اول روز ہی سے بے بنیاد مقدمات کاسلسلہ شروع کیا۔ ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کارڈ استعمال کرتے ہوئے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر اور سابق وزیر مولانا مطیع الرحمن نظامی، سابق امیر جماعت اور لسانی تحریک کے ہیرو پروفیسر غلام اعظم، نائب امیرابوالکلام محمدیوسف، مولانا عبدالسبحان، معروف عالم دین مولانا دلاور حسین سعیدی، سیکرٹری جنرل اور سابق وزیر علی احسن محمد مجاہد، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل محمد قمر الزمان، عبدالقادر مُلّا، اے ٹی ایم اظہر الاسلام اور مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن میر قاسم علی کے خلاف مقدمات قائم کردیے۔ اقوام متحدہ، حکومت امریکا، حکومت برطانیہ، یورپی یونین کی طرف سے کیے جانے والے مطالبے کے باوجود عبدالقادر مُلّا کو ۱۸دسمبر ۲۰۱۳ء کو پھانسی دے دی گئی۔
۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۳ء تک حکومت نے جماعت اسلامی کے خلاف غیر انسانی اور غیر جمہوری طرز عمل اختیار کیے رکھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مرکزی قیادت، ضلعی قیادت اور یونٹ قیادت تک کو گرفتار کیاگیا اور اس تمام عرصے میں پچاس ہزار کارکنان کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش اسلامی چھاترو شبرکے خلاف تیس ہزار مقدمات درج کرتے ہوئے آٹھ لاکھ کارکنان کو ملزم نامزد کیاگیاہے، جماعت کے اَن گنت کارکنان کاریمانڈ لیا گیا اور اس کے نتیجے میں جماعت کے سیکڑوں کارکن مستقلاً اپاہج یا معذور ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے جماعت کے مرکزی دفاتر اور ضلعو ں کے مرکزی دفاتر بند کر دیے ہیں، جب بھی جماعت نے اپنے جمہوری حقوق استعمال کرتے ہوئے پروگرام کرنے یا جلوس نکالنے کی کوشش کی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلاتاخیر ان پر حملہ کردیا اور کارکنان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ پولیس کی حراست میں کئی کارکنان پر قریب سے گولیاں ماری گئیں، اُن کی آنکھیں نکالی گئیں اور انتقامی تشدد کے نتیجے میں کئی کارکنان کی ٹانگیں توڑ دی گئیں۔ عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہ کیاگیا اور اُن کو بھی پولیس نے جگہ جگہ زد و کوب کیا۔ اس ظلم و زیادتی اور مسلسل تشدد و ایذا رسانی کی وجہ سے عوام الناس میں بالکل نچلی سطح پر بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اس کے پیغام کے لیے وسیع پیمانے پر ہمدردی بیدار ہوئی۔
۵ جنوری ۲۰۱۴ء کے ’’مذاق انتخابات‘‘ میں دوبارہ برسراقتدار آنے والے ٹولے نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے خلاف نئی سازشوں کاآغاز کردیا تاکہ بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکاجائے۔ ضلع انتخابات میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کی نشستوں پر جماعت کے نمائندوں کی وسیع کامیابی نے حکومت کو مزید چوکنا اور کینہ پرور کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تفتیشی اداروں نے (جن میں حکومتی پارٹی کے افراد ہی شامل ہیں) بے بنیاد، من گھڑت اور جھوٹے الزامات پر مبنی ایک رپورٹ ٹربیونل کے چیف پراسیکوٹرکو پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر جو سات الزامات عائد کیے گئے ہیں، ان کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رپورٹ میں شامل تمام کے تمام الزامات من گھڑت، جھوٹ کا پلندہ اور انتقامی جذبے پر مبنی ہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی قیادت و کارکنان کے خلاف جس قانون کی بنا پر مقدمے چلائے جارہے ہیں اور جسے ’’انسانیت‘‘ کے خلاف جرائم قرار دیاگیاہے، اسے ۱۹۷۳ء میں پارلیمنٹ میں لایا گیا، انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل ایکٹ ۱۹۷۳ء میں ایسی کوئی دفعہ نہ تھی کہ کسی پارٹی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہو، نہ ہی اس کی تفصیل میں یہ درج کیا گیاتھاکہ کسی جماعت کوبھی سزا دی جاسکے گی۔ ۲۰۰۹ء میں اس قانون میں ترمیم ہوئی تھی اور اس وقت بھی کوئی ذکر نہ کیا گیا تھا کہ کسی جماعت کو الزام عائد کرکے عدالت کے کٹہرے میں لا کر سزاسنائی جاسکتی ہے۔ ڈھاکا کے شاہ باغ میں ۲۰۱۳ء میں نام نہاد پیپلز اویئرنس فورم (Gana Jagaran Mancha) تشکیل دیا، عبدالقادر ملا کو سزاسنائے جانے کے بعد حکومت نے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل ایکٹ ۱۹۷۳ء میں ایک بار اور ترمیم کی، برسراقتدار حکومت نے آزادی کے تینتالیس سال بعد جماعت اسلامی کے خلاف یہ تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے اور اس کے مقاصد خالصتاً سیاسی ہیں۔
حکومت مخالف خبریں شائع اور نشر کرنے پر حکومت نے کئی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل بند کر دیے ہیں۔ حکومت مسلسل تعاقب میں ہے تاکہ بہانے بنا کر دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی بند کردے۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ جو سب سے پرانا بنگالی اخبار ہے، کے خلاف کارروائی بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ بنگلہ دیش کے دستور کے مطابق سیاسی معاملات میں حصہ لینا بنگلہ دیش کے شہریوں کا حق ہے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ شہریوں سے اُن کایہ حق چھین لے۔ عوام نے حکومت کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی کارکردگی کو منجمد کردے۔ ہمارے خیال میں بنگلہ دیش کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اس معاملے میں فیصلہ دیں۔ بنگلہ دیش کے عوام جماعت اسلامی کے خلاف ہونے والی سازشوں کو جمہوری طریقوں سے ناکام بنادیں گے۔ ہم واضح طور پر اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی جمہوری سیاست کے منظم طریقے پر یقین رکھتی ہے، جماعت اسلامی نے آج تک جتنے پروگرامات اور سرگرمیاں کی ہیں، وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہی رہی ہیں۔ ہم حکومت کی جانب سے گھڑی جانے والی سازشوں کا مقابلہ قانونی و سیاسی بنیاد پر عوام الناس کے تعاون سے کریں گے۔
(مترجم: ایوب منیر)
اولائک ھم صدقو فی الایمان و اولائک ھم المفلھون