
اپنے آپ سے یہ سوال کرنا فطری سا ہے کہ کسی بھی ایسے مقدمے کی کارروائی کا فائدہ کیا، جس کا واحد قابل قبول نتیجہ یا فیصلہ سزائے موت ہو؟ کیا سیاست نے بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ میں نا انصافی کا نشانہ بننے والوں سے انصاف چھین لیا ہے؟
میں پہلی بار اکتوبر ۲۰۱۰ء میں بنگلہ دیش گیا تھا۔ جیسے ہی ڈھاکا کے حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترا، میرا شاندار خیر مقدم ہوا اور ایئر پورٹ سے مجھے سونار گاؤں ہوٹل لے جایا گیا جہاں میں نے بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تحت جنگی جرائم کے مقدمات کی انصاف پر مبنی کارروائی کے حوالے سے خطاب کیا۔ مجھے سپریم کورٹ کی پرانی عمارت میں لے جایا گیا جس میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ میں نے ٹربیونل کے ارکان (ججوں) سے ملاقات کی۔ ان میں سے دو، اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ میری ملاقات جنگی جرائم ٹربیونل کے رجسٹرار سے بھی کرائی گئی۔ جنوب مشرقی ایشیا کا یہ میرا پہلا دورہ تھا۔ جو پرتپاک خیر مقدم کیا گیا، اُسے دیکھ کر تو میں دنگ رہ گیا۔ میں نے اس مختصر سے دورے میں بھی اپنے کردار کو عمدگی سے سمجھا اور اس کی اہمیت سے واقف ہوا۔ مجھے جنگی جرائم کے ٹربیونل میں جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کا دفاع کرنا تھا۔ میرے جیسے جواں سال وکیل کے لیے تو یہ بہت بڑا بریک تھا اور میرا اندازہ غلط نہ تھا۔
میرا جو شاہانہ خیر مقدم کیا گیا تھا، وہ بہت چھوٹی سی عمر کا تھا۔ اس کیس نے میرے لیے جس بدنامی کا سامان کیا، اُس نے بنگلہ دیشی سیاست میں میرے کردار کو نہیں گھٹایا۔ مشرقی لندن اور نیو یارک میں بنگلہ دیشی تارکین وطن اب بھی مجھے آسانی سے پہچان لیتے ہیں۔ کسی بڑی کامیابی کے لیے میرا احترام نہیں کیا جاتا۔ اپوزیشن کو کسی بھی طرح اور کسی بھی قیمت پر کچل کر رکھنے کے عزم کی حامل حکومت کی آنکھ میں تو میں خوب کھٹکتا رہا ہوں۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام، جو محنتی بھی ہیں اور پرعزم بھی، جنگی جرائم کے مقدمات کے حوالے سے دو گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں مجموعی ماحول کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ جنگی جرائم کے مقدمات کی بات آتے ہی اچھے خاصے معقول افراد بھی ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی رائے ایک طرف جھک جاتی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ہر اعتبار سے درست اور غیر جانبدارانہ، انصاف پر مبنی عدالتی کارروائی کا تصور کم از کم جنگی جرائم کے مقدمات کے حوالے سے تو نہیں پایا جاتا۔ یعنی یہ کہ جن پر بھی جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے، ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور سب کو کم از کم سزائے موت دی جانی چاہیے۔
شاہ باغ میں ہونے والے حالیہ مظاہرے اور ہنگامے بنگلہ دیش کی صورتِ حال کے بہتر عکاس ہیں۔ گلیوں میں اور سڑکوں پر ہزاروں افراد جنگی جرائم کے ملزمان کے لیے موت کی سزا کے حق میں نعرے لگاتے ملتے ہیں۔ بڑے اور بچے یکساں طور پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمات کا سامنا کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے لیے موت کی سزا کے مطالبے پر بضد دکھائی دیتے ہیں۔ ذہن میں یہ سوال فطری طور پر ابھرتا ہے کہ مقدمہ چلانے کا فائدہ کیا ہے اگر کم از کم قابل قبول سزا صرف موت ہے؟ نیورمبرگ کے انٹرنیشنل ملٹری ٹربیونل کے چیف پروسیکیوٹر جیکسن کے الفاظ یاد آتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اگر آپ نے کسی شخص کو ہر صورت پھانسی دینے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو پھر مقدمہ چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دنیا ان عدالتوں کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتی جن کے قیام کا مقصد کسی کو مجرم قرار دے کر سزا دینا ہو۔ ہمیں مقدمات کی کارروائی چلاتے وقت ریکارڈ اور شواہد پر نظر رکھنی ہے تاکہ کہیں بھی کوئی جھول نہ رہ جائے۔ آج ہم جس ریکارڈ کی چھان بین کے ذریعے مقدمات کو فیصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کل اسی کی بنیاد پر دنیا ہمیں پرکھے گی۔ ہمیں جنگی جرائم کے مقدمات چلاتے وقت زیادہ سے زیادہ توازن سے کام لینا چاہیے تاکہ لوگوں کی توقعات درست تناسب سے بار آور ہوسکیں‘‘۔
بنگلہ دیش کی صورت حال بہت نازک ہے۔ شاہ باغ مظاہرے جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں کو سزا سنائے جانے کے بعد ہوئے۔ کچھ لوگوں نے ان مظاہروں کا موازنہ مصر میں آنے والی عوامی بیداری کی لہر سے کیا۔ یہ غلط تھا۔ مصر میں آمریت تھی جسے ہٹاکر لوگوں نے جمہوریت کی راہ ہموار کی۔ بنگلہ دیش میں ایک سیاسی جماعت کو محض بنیاد پرستانہ اسلامی عقائد کی حامل ہونے اور ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کرنے کی پاداش میں ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش کے حالات کا موازنہ مصر کی صورت حال سے کسی بھی طور نہیں کیا جاسکتا۔
بنگلہ دیش میں لوگ مشتعل ہیں۔ گلیوں میں اور سڑکوں پر ایسے سر پھرے نوجوان دکھائی دیتے ہیں جو ملک کو رفتہ رفتہ خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حکومت احتجاج کرنے والوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کر رہی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے جلتی پر تیل چھڑک رہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے پارلیمان میں یہ بات کہی ہے کہ وہ جنگی جرائم کے ٹربیونل کے ججوں سے مل کر ان سے کہیں گی کہ فیصلے سُناتے وقت عوام کی امنگوں کا خیال رکھیں! ٹربیونل نے اپنے ابتدائی فیصلوں میں عوام کی امنگوں کا بھرپور خیال رکھا ہے۔
۲۸ فروری ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کے رہنما دلاور حسین سعیدی کو ایک ایسے مقدمے میں مجرم قرار دے کر سزا سنائی گئی جس میں متعلقہ اصولوں اور اقدار کا خیال ہی نہیں رکھا گیا، شواہد ناکافی تھے، قانونی کارروائی میں سقم تھا اور بنیادی حقوق کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ عوامی سطح پر اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں مدعا علیہان کے گواہ عدالت میں پیش ہونے سے خوفزدہ ہیں اور ججوں پر جانبدارانہ فیصلے سنانے کے لیے غیر معمولی دباؤ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دلاور سعیدی کو سزا نہ سنائی گئی ہوتی تو شاہ باغ کے مظاہرین کا کیا عالم ہوتا؟ ججوں پر شدید دباؤ تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اگر انہوں نے دلاور حسین سعیدی کو سزا نہ سنائی تو اُن کا اپنا خون شاہ باغ میں سڑک پر بکھرا ہوگا۔ معاملات اِس مرحلے تک پہنچ گئے ہیں کہ انصاف کرو تو بھی گالیاں سُنو اور نہ کرو تو بھی گالیاں سُنو!
اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کی جو تحریک نو ماہ تک چلائی گئی، اس میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔ تین لاکھ سے تیس لاکھ تک کی ہلاکتوں کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ زیادتی اور لوٹ مار کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ لاکھوں افراد کو بھارت میں پناہ لینی پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد انٹر نیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے تجویز پیش کی تھی کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک ٹربیونل قائم کیا جائے جو بین الاقوامی نوعیت کے جرائم میں ملوث افراد کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دِلائے۔ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کو کچلنے کے لیے پاکستانی فوج نے آپریشن کیا اور وہی اس کی ذمہ دار بھی ٹھہرائی گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ ظلم ہر طرف سے ہوا، دامن کسی کا بھی بے داغ نہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی نوعیت کی عدالتی کارروائی ہی انصاف کو یقینی بناسکتی تھی۔ بین الاقوامی ٹربیونل کے قیام سے متعلق تجاویز کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی گئی۔
جنگی جرائم کے مقدمات سے میرا تعلق دو برسوں پر محیط ہے اور ایک بات میں پورے یقین اور دکھ سے کہہ سکتا ہوں کہ بنگلہ دیش کی کسی کو فکر نہیں۔ بنگلہ دیش بین الاقوامی سطح پر خبروں میں نہیں۔ اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ کیوں؟ کیا اس لیے کہ بنگلہ دیش میں تیل نہیں؟ سچ یہ ہے کہ حالات نے اِس ملک کو غیر اہم اور غیر موثر کرکے رکھ دیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کی بات سنی جائے، ان کی رہنمائی کی جائے۔ بنگلہ دیش پر توجہ دینا لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف بنگلہ دیشی حکومت اور اس کے حاشیہ برداروں کی بات سنی جائے۔ بنگلہ دیش کے تمام رہنماؤں کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ حالات کو کس طور درست کیا جاسکتا ہے اور کس طرح منصفانہ عدالتی کارروائی کے ذریعے جنگی جرائم کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ مجرم کو سزا دینے کا نہیں بلکہ بے قصور کو سزا سے بچانے کا ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے جس طرح کھل کر عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے، اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش اپنے ماضی سے جان چھڑانے کا ایک اہم موقع ضائع کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی سے متعلق مقدمات کو حکومت نے جس ڈھنگ سے نمٹانے کی کوشش کی ہے اس کے نتیجے میں سری لنکا اور برما میں جنگی جرائم سے متعلق عدالتی عمل بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل نے ۲۱ جنوری ۲۰۱۳ء کو ابوالکلام آزاد کو اس کی غیر موجودگی میں موت کی سزا سنائی۔ کہا جاتا ہے کہ ابوالکلام آزاد نے جنگی جرائم کے ٹربیونل کی کارروائی شروع ہوتے ہی ملک سے فرار کی راہ اختیار کی تھی اور اب وہ پاکستان میں ہے۔ ابوالکلام آزاد کے لیے ایک سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔ اس نوجوان وکیل کو جنگی جرائم سے متعلق کسی بھی مقدمے کا تجربہ نہ تھا۔ اسے تیاری کے لیے صرف تین ہفتے ملے۔ اس دوران اس نے کسی بھی گواہ کو طلب نہ کیا۔ بنگلہ دیش میں اپنی نوعیت کے پہلے مقدمے میں ابوالکلام آزاد کے وکیل نے کمرۂ عدالت میں دو گھنٹے تک اختتامی خطاب کیا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ابوالکلام آزاد کے لیے مقرر کیا جانے والی سرکاری وکیل حکمراں عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ کا رکن تھا۔
۵ فروری ۲۰۱۳ء کو جنگی جرائم کے ٹربیونل نے عبدالقادر مُلا کو موت کی سزا سنائی۔ مگر اس سے بنگلہ دیشی حکومت کی پیاس نہیں بجھی۔ فوری طور پر ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت حکومت کسی بھی سزا کو یقینی بنانے کے لیے اپیل کرسکے گی۔ یعنی اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ اگر کسی کو سزائے موت سنادی گئی ہے تو اسے عمر قید یا اس سے کم میں تبدیل نہ کیا جائے۔ اس امر کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جنگی جرائم کے تمام ملزمان کو سزائے موت سنادی جائے۔ حال ہی میں سنائی جانے والی دو سزائے موت سے یہ واضح ہوگیا کہ جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی، انہیں کسی بھی حال میں معاف نہ کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یعنی جو حکمراں جماعت کے نظریات سے متفق نہیں اُسے معافی نہیں ملنی چاہیے! جنہیں موت کی سزا سنائی گئی ہے، ان کے خلاف شہادت دوسرے درجے کی ہے۔ جرم کسی طور ثابت نہیں ہو رہا۔ عبدالقادر ملا کے کیس میں تو عدالت نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عوامی امنگوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ کسی بھی عدالتی یا قانونی فیصلے میں اس نوعیت کی جانبداری کا اعتراف انتہائی تشویشناک ہے۔ دونوں مقدمات کے فیصلوں میں سقم پایا جاتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کیس کی تیاری کے دوران متعلق بین الاقوامی اصولوں اور قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا۔
دلاور سعیدی کے کیس میں بھی حقائق کو نظر انداز کیا گیا، بین الاقوامی قوانین کو خاطر میں لانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی۔ حکومت جو کچھ کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں صرف فرقہ واریت بڑھے گی اور ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھے گا۔
جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کے کیس میں ایک وکیل کو پروسیکیوشن نے یہ کہتے ہوئے ڈرایا کہ اگر اس نے مدعا علیہ کے حق میں بیان دیا تو خود اس پر بھی جنگی جرائم میںمعاونت کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ مدعا علیہ کے ایک اہم گواہ کو حال ہی میں گرفتار کرلیا گیا۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں ٹربیونل کے مرکزی دروازے پر سادہ کپڑوں میں موجود سرکاری اہلکاروں نے مدعا علیہ کے ایک اہم گواہ کو اغوا کرلیا تھا۔ اس واقعے نے عالمی برادری کی توجہ حاصل کی تھی۔ ان تمام واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، سرکاری افسران اور ججوں کو سب کچھ معلوم تھا مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا۔
جنگی جرائم کے ٹربیونل کے سابق سربراہ جسٹس (ر) نظام الحق نے اسکائپ پر گفتگو کے ساتھ ساتھ بیلجیم میں مقیم بنگلہ دیشی نژاد باشندے سے ای میلز پر رابطہ بھی رکھا۔ اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ، دی بار ہیومن رائٹس کمیٹی آف انگلینڈ اینڈ ویلز، اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ، ایمنیسٹی انٹر نیشنل اور برطانیہ کے دارالامرا نے ٹربیونل کی شفافیت پر اور غیر جانب دار حیثیت سے متعلق جو اعتراضات کیے تھے، وہ درست تھے۔
اب مقدمات کی کارروائی مکمل ہوچکی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ تمام ملزمان کو موت کی سزا سنادی جائے گی، امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کو متحرک ہونا چاہیے تاکہ انسانی حقوق کی پاس داری اور بے قصور افراد کو سزا نہ ملے۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور اور انٹر نیشنل کنونشن آف سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس میں (جسے بنگلہ دیش بھی تسلیم کرتا ہے) کسی بھی ملزم کے لیے شفاف عدالتی عمل یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے مگر بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات میں کارروائی غیر شفاف رہی ہے اور مدعا علیہان کو موثر دفاع کا حق نہیں دیا گیا۔
بنگلہ دیش میں تیزی سے بے نقاب ہوتی ہوئی نا انصافی سے چشم پوشی اب آپشن نہیں رہا۔ ناگزیر ہے کہ تمام مقدمات کی کارروائی روک کر سرکاری وکلا، ان کے معاونین اور ججوں کے خلاف غیر موزوں طریق کار اپنانے سے متعلق بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں۔ جن لوگوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، ان کے خلاف مقدمات چلائے جانے چاہئیں اور انہیں سزا بھی سنائی جانی چاہیے تاکہ انصاف ہوسکے مگر اس کے لیے شفاف عدالتی کارروائی ناگزیر ہے تاکہ بنگلہ دیش اپنے تاریک ماضی سے نجات پاسکے۔
(ٹوبی ایم کیڈمین جنگی جرائم، دہشت گردی، حوالگی اور انسانی حقوق سے متعلق امور کے عالمی شہرت یافتہ انٹرنیشنل کرمنل لا اسپشلسٹ ہیں۔)
(“Bangladesh Justice: Damned If You Do, Damned If You Don’t”…… “opendemocracy.net”. March 5th, 2013)
Leave a Reply