
ڈھاکا کے میر حضرو ایئرپورٹ پر جہاز سے اتر کر سبھی مسافر ۱۲؍عدد کاؤنٹرز پر لائن میں لگے امیگریشن کے مراحل طے کرتے جاتے اور ایئرپورٹ سے باہر نکلتے جاتے۔
ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (SAARC) کی دعوت پر سارک ایگریکلچر سینٹر ڈھاکا میں پاکستان بھر کے زرعی سائنسدانوں میں سے میرا انتخاب عمل میں آیا تھا اور یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ افغانستان، انڈیا، بنگلادیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کے زرعی سائنسدانوں کے سامنے سارک ممالک اور خصوصاََ پاکستان میں درپیش، زرعی پیداوار کے چیلنجز اور ایشوز پر ایک لیکچر دوں۔
میری باری آئی تو امیگریشن آفیسر نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور دوسری نظر میرے ہاتھ میں پکڑے سبز رنگ کے پاسپورٹ پر ڈال کر کہا کہ آپ دوسری لائن میں چلے جائیں۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں دوسری لائن میں چلا گیا کہ شاید یہ لائن پاکستانیوں کے لیے مخصوص ہو، دوبارہ جب کاؤنٹر پر پہنچا تو یہاں پر موجود امیگریشن آفیسر نے بھی میرے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا یعنی مجھے اور میرے پاسپورٹ کو ایک نظر دیکھا اور انگریزی زبان میں بول اٹھا کہ آپ پلیز دوسرے کاؤنٹر پر چلے جائیں۔ چارو ناچار میں پھر اگلی لائن میں لگ گیا۔
یوں میں چلتا چلتا ۱۲؍ویں اور آخری کاؤنٹر پر پہنچ گیا۔ غصہ بھی بہت آیا مگر دیارِغیر میں تھا، اس لیے اپنے غصہ کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ ڈھاکا ایئر پورٹ پر بے شمار قومیتوں کے لوگ موجود تھے۔ موجودہ دور کی دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں اپنے پاک وطن کا تشخص بھی بہرحال اس لمحے مقدس رکھنا تھا۔ یوں مختلف قطاروں سے ہوتا ہوا میں امیگریشن آفیسر کے سربراہ کے پاس پہنچ گیا یا مجھے اس کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔
جہاز کے تمام مسافر ایئرپورٹ سے باہر جا چکے تھے اور تمام کے تمام کاؤنٹرز پر closed کے بورڈ آویزاں ہو کر اگلی فلائٹ کے انتظار میں ایئر پورٹ کا عملہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گیا تھا جبکہ کچھ امیگریشن افسر میرے اردگرد بھی اکٹھے ہو گئے تھے جیسے میں یہاں آکر کوئی جرم کر بیٹھا ہوں۔ بالآخر میں امیگریشن عملے کے سربراہ کے سامنے تھا، میرا پاسپورٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔ پوچھنے لگا آپ پاکستان سے ہیں اور ویزہ آپ نے بنگلادیش کی ایمبیسی سے کیوں نہیں لگوایا۔۔۔! جس پر میں نے عرض کیا کہ مجھے سارک ممالک کی طرف سے ویزہ دیا گیا تھا اور میں اس ویزے کی وجہ سے سات ممالک میں بیک وقت سفر کر سکتا ہوں اور بنگلادیش بھی سارک ممالک کا نہ صرف ایک اہم رکن ہے بلکہ ایک بانی رکن بھی ہے۔ بس میں ڈھاکا میں موجود سارک ایگریکلچر سینٹر کی دعوت پر اور ان کے ہی خرچ پر آپ کے سامنے موجود ہوں۔
امیگریشن افسر اپنا غصہ چھپاتے ہوئے کہنے لگا، آپ کو کون لینے آیا ہے؟ مجھے ایسے لگا جیسے وہ بنگلادیش میں میری آمد کو مشکوک سمجھ رہے ہوں۔
’’جی مجھے مسٹر علی نامی شخص لینے آیا ہوگا۔ ا س سے قبل وہ کچھ اور سوال مجھ پر داغتا، میں نے فوری طور پر کہا کہ یہ رہا اس کا فون نمبر۔۔۔۔۔‘‘
ڈھاکا ایئرپورٹ سکیورٹی کے سربراہ نے فوری طور پر وہ نمبر مجھ سے لیا اور نمبر ڈائل کر کے بنگالی زبان میں فرفر بولنے لگا۔ ایئر پورٹ سے باہر کھڑے مجھے لینے کے لیے آئے مسٹر علی نے جب تمام تفصیلات اس کو بتائیں تو سکیورٹی آفیسر نے بادلِ نخواستہ بنگلادیش میں انٹری کی مہر چسپاں کر دی۔
مسٹر علی سارک ایگریکلچر سینٹر ڈھاکا، کا نمائندہ تھا۔ بنگلادیش میں قیام کے دوران میرا گائیڈ اور سرکاری طور پر میری حفاظت پر مامور کیا گیا تھا۔ کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب آپ سب سے آخر میں ایئرپورٹ سے باہر نکلے ہیں، وجہ صرف یہی لگتی ہے کہ کل رات ڈھاکا میں ایک خود کش بم دھماکا ہوا تھا اور بنگلادیشی حکومت نے جس کی تمام تر ذمہ داری براہِ راست حکومتِ پاکستان اور اس کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی پر ڈالی تھی۔ شاید اس لیے آپ سے پوچھ گچھ میں زیادہ دیر لگ گئی ہوگی۔ لیکن آپ فکر نہ کریں، ہمارے عوام پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں، جس پر میں چپ رہا۔
ڈھاکا ایئر پورٹ کے باہر مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں لاہور کے بادامی باغ کے اڈے سے باہر نکل رہا ہوں۔ دھویں کی آلودگی ہر جگہ نظر آئی، بے ہنگم ٹریفک، چنگ چی رکشہ تو ابھی بنگلادیش میں نہیں پہنچا بلکہ انسانی رکشے جا بجا نظر آئے یعنی ایک آدمی اپنے رکشہ کو اپنے پاؤں سے چلاتا تھا اور اس میں دو سواریاں آرام سے پیچھے بیٹھ جاتی تھیں جبکہ سائیکل اور موٹر سائیکل والے بھی بے ہنگم اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آجا رہے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کھٹارا بسیں فراٹے بھر رہی تھیں۔ البتہ ایئرپورٹ سے خاصا باہر نکل کر سڑکیں کشادہ اور صاف ستھری ہو گئی تھیں۔
ڈھاکا کے فارم گیٹ پر واقع سارک زرعی سینٹر کے عملہ نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ میرے یہاں آنے کا مقصد سارک ممالک میں پاکستان کی طرف سے زرعی سفیر کی تقرری کے لیے ایک انٹرویو میں شمولیت کرنا تھا۔ سار ک ممالک کے بقیہ چھ رکن ممالک سے نمائندگی کرتے ہوئے ان ممالک کا بہترین زرعی سائنسدان میرے ساتھ مقابلے میں شریک تھا اور میری طرح ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ وہ اس مقابلے میں کامیاب ہو تاکہ تین سال کے لیے SAC میں اپنے ملک کا بطور زرعی سفیر کے تقرری ہو سکے۔
انٹرویو پینل میں بنگلادیش، بھوٹان، انڈیا اور نیپال کے اراکین شامل تھے، سب سے پہلے تحریری امتحان لیا گیا۔ بعدازاں اسی تحریری امتحان کو پریزینٹیشن کی شکل میں کمپیوٹر پر پیش کرنا تھا۔ سوال تھا کہ سارک ممالک کی زراعت میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے اور خصوصاََ اپنے ملک میں زرعی ایشوز اور چیلنجز کے بارے میں آگاہ کریں۔ تحریری امتحان اور کمپیوٹر پر پریزینٹیشن تیار کرنے کے لیے اکٹھا وقت دیا گیا تھا جبکہ کمپیوٹر پریزینٹیشن اور انٹرویو کے لیے ہر ملک کا نمائندہ الگ الگ پیش ہوا تھا جس کے لیے حروفِ تہجی کے اعتبار سے ہر ملک کے سائنسدان کو بلایا جاتا۔ سارک ممالک میں کو ئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو حروفِ تہجی کے اعتبار سے ہی ہر ملک کا نمائندہ اپنا مؤقف پیش کرتا ہے۔ لہٰذا P کی وجہ سے میرا نام بھی سیکنڈلاسٹ پہ تھا۔ تمام ممالک کے نمائندے اپنا اپنا انٹرویو دینے کے بعدکوئی دس منٹ میں واپس آچکے تھے جبکہ نیپال کا نمائندہ کوئی بیس منٹ کے بعد واپس آیا تھا، چنانچہ اب میری باری تھی۔
درود شریف پڑھتا ہوا میں بورڈ کے سامنے پیش ہوا، خوش آمدید کہنے کے بعد مجھے بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ اس سے قبل کہ میں کمپیوٹر پر اپنی پریزینٹیشن پیش کرتا، مجھ سے پہلا سوال فوری طور پر پوچھ لیا گیا کہ ڈاکٹر اعجاز تبسم۔۔۔ آپ کو بنگلادیش میں آمد کے لیے جب دعوت نامہ جاری کیا گیا تو اس میں لکھا گیا تھا کہ آپ جہاز کے سفر کے لیے جہاں سے مرضی اور جو بھی روٹ اختیار کریں، اس کے لیے آپ کو ریٹرن ٹکٹ کی مد میں ۶۸ ہزار روپے دیے جائیں گے، یعنی آپ ۶۸ ہزار تک کی ٹکٹ لے سکتے ہیں لیکن آپ نے صرف ۵۱ ہزار روپے کا ہی واؤچر کیوں ہمیں دیا۔۔۔!
سوال کرنے کے بعد سبھی میری طرف غور سے دیکھنے لگے۔ مجھے ایسے لگا کہ وہ میری طرف نہیں بلکہ میرے وطن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس غیر متوقع سوال پر میں کچھ دیر کے لیے ٹھٹھکا، لیکن میں نے اپنے حواس مجتمع کیے اور کہا، پیسہ میرا ہو یا سارک ممالک کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر پیسے کا خواہ مخواہ ضیاع کوئی دانشمندی نہیں اور ویسے بھی جہاز کے جس پچھلے حصہ کا ٹکٹ میں نے خریدا، اس حصے نے بھی VIP حصے کے ساتھ ہی ڈھاکا پہنچنا تھا۔ میرے جواب پر چاروں ارکان متاثر نظر آئے اور کہنے لگے ’’ہم نے اب طے کیا ہے کہ یہاں آنے جانے کا خرچہ ۵۱ ہزار سے بڑھا کر ۹۸ ہزار کر دیا جائے، یعنی اب آپ بنگلادیش کے مہنگے ترین ہوٹل میں قیام کر سکتے ہیں۔
میرا انٹرویو سب سے طویل رہا، دیگر امیدوار بھی میری سلیکشن کا امکان ظاہر کر رہے تھے۔ میرے انٹرویو کے بعد ہمیں کہا گیا تھا کہ آدھے گھنٹے میں سارک تنظیم کے تمام ارکان ممالک میں سے کسی ایک ملک کے زرعی سائنسدان کو تین سال کے لیے سارک ممالک میں بطور زرعی سفیر کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کا رزلٹ بتا دیا جائے گا۔ کچھ دیر کے بعد سارک زرعی سینٹر کا ایک سینئر افسر چیئرمین آفس سے باہر نکلا اور کہا، جنٹلمین۔۔۔ سارک تنظیم کے سلیکشن بورڈ نے دو ممالک کے زرعی سائنسدان حتمی فہرست میں شامل کیے ہیں جن میں سر فہرست پاکستان کے پی ایچ ڈی زرعی سائنسدان ہیں اور دوسرے نیپال کے زرعی سائنسدان ہیں۔
ان دونوں ممالک کے زرعی سائنسدانوں کو سارک زرعی سینٹر بنگلادیش کی جانب سے مبارکباد، اب ان میں سے ایک کا انتخاب سارک تنظیم کے جنرل سیکرٹری کریں گے۔ بنگلادیش کے میرے ساتھی مجھے میری رہائش گاہ کی طرف لے آئے۔
اگلے دن سارک زرعی سینٹر بنگلادیش نے ڈھاکا کی سیر کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا۔ میں نے اپنے میزبان مسٹر علی سے کہا کہ کیا آپ معروف بینکار اور مائیکرو فنانس کے خالق ڈاکٹر محمد یونس سے میری ملاقات کروانے کا اہتمام کر سکتے ہیں؟ جس پر مسٹر علی پھر گویا ہوا کہ ڈاکٹر محمد یونس کا شمار یہاں حکومت مخالف لوگوں میں ہوتا ہے، اس لیے حکومت نے اس کی سرعام ملاقاتوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ حکومت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ڈاکٹر یونس اپنی شہرت کے پیش نظر ایک سیاسی پارٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے حکومت ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بعد میرے میزبان مجھے سیر کے لیے لے کر روانہ ہو گئے۔
ڈھاکا شہر اپنے حدودِ اربعہ اور آبادی میں اتنا پھیل چکا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس بھی اب شہر کی آبادی کے بیچوں بیچ آگیا ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی اجنبی ملک میں گھوم پھر رہے ہیں۔ سڑکیں، ٹریفک کا نظام ریڑھیاں، تانگے، سب کچھ ویسا ہی دکھائی دے رہا تھا، جیسا پاکستان میں ہے۔ لیکن ایک منفرد چیز جو دیکھنے کو ملی وہ سائیکل رکشہ کی سواری تھی۔ پاکستان میں تو سائیکل رکشہ کی سواری ختم ہو چکی ہے مگر ڈھاکا میں ابھی تک موجود ہے اور سائیکل رکشہ کو بچہ، جوان اور بوڑھا، ہر شخص اپنے پاؤں سے چلانے میں مگن تھا جس کے پیچھے کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دو سواریاں بیٹھ سکتی تھیں۔
کم خرچ پر بنگالیوں کے لیے یہی ایک سواری تھی، جو اُن کے لیے کسی بھی میٹرو بس سے کم نہ تھی۔ نئے نویلے جوڑوں کے لیے تو یہ بہت شاندار سواری تھی جو سار ا شہر اس میں گھوم سکتے ہیں۔ سائیکل رکشہ چلانے والے ڈرائیور اس قدر مستعد رہتے کہ سارا شہر گھومنے کے باوجود وہ چوکس ہی نظر آئے۔ شاید ان کی جسامت ایسی تھی یا پھر سائیکل رکشہ چلا چلا کر وہ اس مشقت کے عادی ہو گئے تھے۔
چہرے مہرے اور شکل و شباہت سے بنگالی اور پاکستانی ایک سے لگتے ہیں، لیکن موجودہ دور میں پاکستانیوں کے ساتھ شاید انہیں اللہ واسطے کا بیر تھا یا شاید بھارت کا اثر تھا کہ کسی بھی معاملے پر پاکستان کا نام آنے پر بنگالی لوگ اپنی ناک بھوں چڑھانے سے باز نہیں رہتے، جس کا اظہار ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ بنگلادیشیوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنے کسی بھی جہاز کو پاکستان کی حدود میں نہیں بھیجیں گے اور نہ ہی کوئی پاکستانی پرواز ڈھاکا آنے دیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان کے لوگ کسی اور ملک کی پرواز سے ڈھاکا آسکتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ میں بھی ڈھاکا جانے کے لیے لنکا ایئر لائنز کے ذریعے لاہور سے پہلے سری لنکا کے شہرکولمبو گیا تھا اور پھر وہاں سے لنکا ایئر لائنز سے ہی ڈھاکا پہنچا تھا۔ اسی طرح واپسی پر ڈھاکا سے کولمبو اور پھر کولمبو سے لاہور آیا تھا۔
بنگلادیش نے خود کو پاکستانی سیاست سے دور رکھا ہے اور ان کی ٹی وی نشریات میں کوئی پاکستانی چینل دیکھنے کو نہیں ملتا، ماسوائے مدنی چینل کے۔ ہاں البتہ انٹر نیٹ کے ذریعے پاکستانی حالات سے باخبر رہنے کے لیے پاکستانی اخبارات ضرور پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔
پاکستانیوں سے ان کی بے زاری کا عالم یوں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بم دھماکا کوئی کرے، نام فوراً پاکستان کا آجاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جس روز میں ڈھاکا پہنچا تھا، ایئرپورٹ پر مجھ سے گھنٹوں پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ پاکستان سے منسوب ہر چیز ان کے لیے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شلوار قمیض پاکستانیوں کا لباس ہے، اس لیے انہوں نے پاکستانی شلوا ر قمیص پہننا اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔
اگر ۱۰۰؍بنگالیوں کے لباس کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ۸۰ بنگالی پینٹ اور کرتہ میں نظر آئیں گے، ۱۸؍بنگالی تہبند یا چادر میں لپٹے ملیں گے اور فقط دو لوگ مجھے شلوار قمیض میں دکھائی دیے، ان دو لوگوں میں سے ایک شلوار قمیض میں خود میں تھا جبکہ دوسرا کوئی تبلیغی بھائی ہو گا۔ لباس پہننے کی یہی صورتحال مجھے ڈھاکا کی مسجد بیت المکرم میں دکھائی دی۔
بنگلادیش میں نوجوان ذوق و شوق سے مذہب کی طرف راغب نظر آئے۔ ہر مسجد میں اذان دینے کا انداز بہت بھلا لگا۔ آوازیں اتنی بھلی اور دلکش تھیں کہ یوں محسوس ہوا کہ اذانیں خانہ کعبہ یا مسجد نبویؐ شریف سے آرہی ہیں۔ فرض نماز کے بعد امام صاحب نہایت مختصر دعا مانگتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کسی بھی نمازی کو یہ جلدی نہ ہوتی کہ وہ سنتوں کی ادائیگی کے لیے فوری طور پر کھڑا ہو جائے۔ دعا کے بعد سبھی نمازی بقیہ نماز کے لیے اکٹھے کھڑے ہوتے۔ ڈھاکا کے گلی بازاروں میں نوجوان اپنی کاروں میں میوزک ضرور بجاتے مگر ان کی آواز کاروں سے باہر نہیں نکلتی۔
بانی بنگلادیش کے اہل خانہ کو تو بنگالیوں نے اپنے سرآنکھوں پر بٹھا رکھا ہے، یہاں تک کہ بابائے بنگلادیش شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی کو عرصہ دراز سے ایوانِ اقتدار پر فائز کر رکھا ہے۔ بنگلادیش کے معاشرے اور یہاں کے ماحول کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ بنگلادیشیوں کے سروں پر تین قسم کے بھوت سوار ہیں، پہلا بھوت ان پر یہ سوار ہے کہ وہ مذہب کے نام پر مرنے مارنے کو تیار رہتے ہیں۔ مسلک میں بٹنا بنگلادیشیوں کو کسی صورت بھی گوارا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حنفی، سنی طبقہ کی اغلب اکثریت ہے، مگر مذہب کے نام پر بنی سیاسی جماعتوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
دوسرا بھوت یہ ہے کہ یہاں کے عوام کسی طور پر بھی بنگلادیش کے ساتھ وفا کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ صحیح معنوں میں ایک ابھرتی ہوئی قوم نظر آئی۔ ان کی سوچ قومی، ان کا لباس قومی، ان کی زبان قومی، انگریزی زبان ان کے پاس سے ہوکر بھی نہیں گزرتی۔ بڑی بڑی مارکیٹوں اور پلازوں اور دکانوں پر بنگالی زبان کے حروف ہی نظر آئے۔ سرکاری تقریبات میں بھی انگریزی زبان کم اور اپنی بنگالی زبان میں بولنے کو ترجیح زیادہ دیتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی قوم اور ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کا ہی ثمر ہے کہ ان کی کرنسی پاکستانی کرنسی سے بہت مضبوط ہے، یعنی ہمارے ہاں ۱۰۶؍روپے کا ایک ڈالر ہے جبکہ بنگلادیش میں فقط ۸۰ ٹکے کا ایک ڈالر مل جاتا ہے اور تیسرا یہ کہ پاکستانیوں سے نفرت کا موقع کسی صورت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔
یہ طے ہے کہ وہ پاکستان کو بہرحال اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور دشمن کے دشمن کو اپنا دوست۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں کوئی بھی حکومت ہو، بنگلادیشیوں اور ان کی حکومت کا جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ وہ اس بات کو بھی نہیں مانتے کہ عالمی سطح پر پہلا ایک روزہ کرکٹ میچ جتوانے میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے ان کے ساتھ ہاتھ ذرا نرم رکھا تھا تاکہ وہ عالمی کرکٹ میں جگہ بنا سکیں۔ بنگلادیشیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے وہ پہلا کرکٹ میچ اپنے زورِ بازو سے جیتے تھے۔
ایک دن سارک ایگریکلچر سینٹر کے مرکزی دفتر واقع ڈھاکا میں بیٹھے بنگلادیش کے مرد و خواتین آفیسرز سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں ہارٹی کلچرسٹ یعنی امور باغبانی کی ماہر خاتون سائنسدان نرگس پوچھنے لگی کہ ڈاکٹر اعجاز تبسم۔۔۔ ۱۹۴۷ء میں مشرقی پاکستان کے لاکھوں مرد و خواتین اور بچوں بوڑھوں نے بھی آزاد مملکت خداداد پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ ہم ۳۰ سال بھی اکٹھے نہ رہ سکے۔۔۔!
چبھتا ہوا یہ سوال نرگس نے اپنے چھ سات بنگلادیشی ساتھیوں کی موجودگی میں مجھ سے پوچھ لیا۔ حالات کی نزاکت کا مجھے علم تھا اور یہ بھی میرے ذہن میں تھا کہ بنگلادیشی لوگ پاکستان سے کتنی ’’محبت‘‘ کرتے ہیں۔۔۔ یہ لوگ پاکستانیوں سے بات کرتے ہوئے چہر ے پر اپنے کسی جذبے کو حاوی بھی نہیں ہونے دیتے، پاکستانیوں کے سامنے بس دل کی باتیں دل میں ہی رکھتے ہیں۔۔۔ چنانچہ میں نے سبھی چہروں کی طرف دیکھا جو اس وقت میرے جواب کے متمنی تھے۔ میں نے کہا کہ فرض کریں ایک گھر میں پانچ چھ بھائی رہتے ہیں۔ اگر ان کے والدین ان کے مابین جائیداد کی تقسیم کے لیے انصاف سے کام لیں گے، کسی کی حق تلفی نہیں کریں گے اور نہ ہی حق تلفی ہونے دیں گے، تو ان کا ایک بھائی بے شک واشنگٹن میں رہے، وہ یک جان رہیں گے، ان میں اتفاق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا نظر آئے گا، ان کے مابین پھر فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور اگر ان بھائیوں سے بے انصافی ہو گی، تو ان کے لیے ان کا اپنا ہی گھر جہنم بن جائے گا۔ ان کا آپس میں اکٹھے رہنے کو دل نہیں چاہے گا۔ یہی حال مشرقی پاکستان کے میرے دوستوں کے ساتھ ہوا ہے۔ اگر اس وقت ارباب اختیار نے انصاف پر مبنی فیصلہ کیا ہوتا، توآج ہم یقیناً اکٹھے ہوتے، ہمارے درمیان یوں دو خطوں کی لکیریں حد فاصل نہ ہوتیں۔
میرے اس جواب پر بنگلادیش کے زرعی سائنسدانوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، ایک بنگلادیشی بھائی بھاگ کے میرے لیے ٹھنڈا پانی لے آیا، دوسرا کہنے لگا، آج آپ رات کا کھانا ہمارے گھر تناول کیجیے، ہمیں خوشی ہو گی۔ جبکہ نرگس کہنے لگی کہ ڈاکٹر اعجاز آپ بڑے اوپن مائنڈڈ ہیں، آپ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنا مافی الضمیر بڑے احسن انداز میں بیان کر دیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانیوں کی سوچ اب دقیانوسی نہیں رہی۔ اگر یہی سوچ پہلے ہوتی تو کبھی بھی اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ نہ لگتا، اور نہ ہی ہم الگ ہوتے، اور آج ہمارا شمار بھی دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں ہو رہا ہوتا۔
آج بنگلادیش میں میرے قیام کا آخری روز تھا، اور آج ہی سے ۳۲ سال قبل ہمسائیگی کی اہمیت، باہم مل جل کر رہنے اور ترقی کرنے کے جو عہد و پیمان بنگلادیش کے صدر ضیاء الرحمٰن نے دسمبر ۱۹۸۵ء میں سارک تنظیم کے قیام کے وقت باندھے تھے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج سارک تنظیم اپنے طے کردہ اور وضع کردہ موقف سے منحرف ہو چکی ہے، جس طرح معاشرے سے قومیں وجود پاتی ہیں، پھر قوموں سے ملک جنم لیتے ہیں، ملکوں کو یکجا کرنے سے کرۂ ارض پر خطے ابھرتے ہیں اور پھر خطوں سے دنیا نشو و نما پاتی ہے، اُسی طرح معاشرے کے بدعنوان ہونے سے قومیں داغ دار ہوجایا کرتی ہیں اور بدنما ملکوں کی وجہ سے علاقائی خطوں کو قدرتی طور پر زِک پہنچتی رہتی ہے جس سے دنیا خوشنما دکھائی نہیں دیتی، داغ دار ہو جاتی ہے۔ ایسے میں قدرت سخت فیصلے کرتی ہے، زلزلے اس کی نشانیاں ہیں، سیلاب و طوفان اس کے مظاہر ہیں، پہاڑ سرک جاتے ہیں اورگلوبل وارمنگ تو آج کا بڑا مسئلہ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مگر ہوش مند قومیں، ان مظاہرِ قدرت سے درس کشید کر کے اپنی منازل متعین کر لیتی ہیں، اور چپ سادھ لینے والی قومیں اپنی قسمت کا رونا رونے میں لگی رہتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے پر عمل پیرا ہے جس کا ثبوت اک یہی کافی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی تمام قوموں کا مشترکہ ادارہ اقوام متحدہ (UNO) جو دکھ سکھ میں اکٹھے چلنے کے لیے بنایا گیا تھا داغ دار ہو چکا ہے، جس کے بھیانک اثرات اب دنیا کی تمام قوموں پر پڑتے دکھائی دے رہے ہیں جس کا ایک ثبوت یہی ہے کہ یو این او دنیا کی اقوام کا اعتماد کھو چکا ہے، اس لیے اس کے کیے ہوئے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا۔
لاکھوں کشمیری اس ادارے کی نظر میں کیڑے مکوڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ۷۰سال سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں اپاہج ہو چکے لیکن اقوام متحدہ کو بھارت کی بربریت دکھائی نہیں دیتی۔
بوسنیا، شام، عراق، افغانستان، مصر، ایران، کیوبا، کویت اور ان جیسے بے شمار ممالک پر مسلط کی جانے والی جنگیں UNO کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی یہی پالیسی خطوں سے ہوتی ہوئی ملکوں اور معاشروں تک سرایت کرتی دکھائی دے رہی ہے، یہی حال ہمارے اپنے معاشرے کا ہوچکا ہے۔ یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسی پالیسیوں پر گامزن رہنے والے اقوام متحدہ کے عدم انصاف پر مبنی اثرات براہ راست ہمارے معاشروں تک آ پہنچے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
جنوبی ایشیاء کی تنظیم سارک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، یہاں بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مقولہ رائج ہو چکا ہے۔ لوگ کشیدگیوں سے ہر صورت بچنا چاہتے ہیں، امن کے خواہاں ہیں، غربت ان پر پنجے گاڑے کھڑی ہے مگر بھارت کی میں نہ مانوں کی ہٹ دھرمی کی پالیسی کی وجہ سے سارک تنظیم کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔ بھارت چاہے تو سارک سربراہ کانفرنس ملتوی ہو جائے اور چاہے تو سارک کے نمائندگان کی ملاقاتیں دو دو سال تک بھی ہو نہ پائیں۔ بنگلادیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد شاید اس لیے سارک تنظیم کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی کہ اس تنظیم کی کامیابی سے اس کی مخالف پارٹی کے رہنماؤں ضیاء الرحمان اور خالدہ ضیاء کا نام روشن ہوگا۔
لہٰذا بنگلادیشی وزیراعظم، سارک تنظیم کی نشوونما ہونے سے پہلوتہی برتنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، سارک تنظیم میں شامل چھوٹے ممالک اس لیے نہیں بولتے کہ ان کی لاٹھی کمزور ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بولنے سے کہیں بڑی طاقتیں ان سے ناراض نہ ہو جائیں۔ اگر وہ ناراض ہوں گی تو ان کے مفادات پر زَد پڑ سکتی ہے، گویا خطے کی اجتماعی بہتری کے لیے کسی قسم کی عملی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ اگر سارک تنظیم کا حال بھی اقوام متحدہ جیسا ہوا اور بھارت جیسا طاقتور ملک اسے بلیک میل کرتا رہا تو سارک تنظیم اپنی موت آپ مر جائے گی۔
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کراچی۔ ۳۰؍اپریل ۲۰۱۷ء)
Excellent dr sahib, I have been living in uk with some Bangali friends since 2014, you are extremely right in saying that there is a huge gulf between Pakistan n Bangladesh. They never trust Pakistanis.