
بھارت کے ہم سایہ ملک بنگلا دیش میں ۱۳؍اکتوبر سے ۱۶؍اکتوبر کے درمیان ہونے والے فسادات میں اب تک کم از کم ۶؍افراد کی موت اور درگا پوجا کے موقع پر تعمیر کیے گئے پوجا پنڈالوں کو تہس نہس اور نذرِ آتش کرنے کے علاوہ مندروں پر حملے کرنے کی خبروں نے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔
بنگلا دیش مسلمان اکثریت والا ایک سیکولر ملک ہے، جس کا قیام ۱۹۷۲ء میں مذہبی نہیں بلکہ لسانی اور سماجی تشخص کی بنیادوں پر پاکستان سے الگ ہونے کے بعد ہوا تھا اور اس کے قیام میں بھارت نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تاہم گزشتہ ۲۵ برسوں کے درمیان انتہا پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے ملک میں گاہے بگاہے ہندوؤں کے خلاف تشدد کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بنگلا دیش کے اخبار ’’ڈیلی اسٹار ‘‘کے مطابق ماحول میں کشیدگی ۱۳؍اکتوبر کی علی الصبح اس وقت شروع ہوئی جب ایک شخص نے فیس بک پر ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں دیکھا جاسکتاتھا کہ ہندوؤں کے ہنومان کے مجسمے کی گود میں قرآن مجید رکھا ہوا ہے۔ یہ واقعہ کوملہ شہر کا ہے اور بہت جلد ہی یہ پوسٹ وائرل بھی ہوگئی اور بڑی تعداد میں مسلمان کوملہ کے پوجا پنڈال کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے، جس کے بعد انہوں نے پنڈال میں رکھی ہوئی مختلف ہندو دیوی، دیوتاؤں کے مجسموں اور پنڈال کو توڑنا پھوڑنا شروع کردیا۔
’ڈیلی اسٹار‘کے مطابق پوسٹ کی گئی تصویر جعلی اور بنگلا پولیس کے فیس بک پیچ سے اٹھائی گئی ایک پرانی تصویر تھی جو کہ پولیس نے ۲۰۱۹ء میں پوسٹ کی تھی، اور جس میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ۲۰۱۶ء میں قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے ایک واقعہ میں اس نے جہانگیر عالم نامی ایک شخص کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ اخبار کے مطابق فساد شروع کرنے والے افراد کو اس تصویر کی حقیقت معلوم کرنے کے علاوہ اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے تھا کہ درگا پوجا کے موقع پر بنائے گئے پنڈالوں میں ہنومان کا مجسمہ موجود نہیں ہوتا بلکہ صرف درگا،پاروتی، سرسوتی اور گنیش کے مجسمے پنڈال میں پوجا کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
فیس بک پر پوسٹ کیے گئے فوٹو کے فیک ہونے کی تصدیق انڈیا ٹوڈے کی حقائق کا پتا لگانے والی ٹیم نے بھی کی ہے اور اسے پرانی تصویر قرار دیا ہے۔ تاہم عوام کو توہین رسالت اور توہین قرآن کے نام پر اکسایا جاتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ بنگلا دیش کے ۲۲صوبوں میں پہنچ چکی تھی جہاں سے اب تک تقریباً ۷۵۰ افراد کے گرفتار ہونے اور چھ کے ہلاک ہونے کی خبریں ہیں۔
ان فسادات پر حکومت کی جانب سے وقت رہتے کارروائی نہ کرنے، وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے بیان دیر سے جاری کرنے اور پولیس فورس کو فوری طور پر کارروائی کرنے کے احکامات نہ دیے جانے کے الزامات کے پس منظر میں بنگلا دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں کمال نے کہا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کی اور ملزموں کے پکڑے جانے پر انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس چابک دستی سے شیخ حسینہ نے فوری طور پر کارروائی کی اور بنگلا دیش کے مختلف شہروں میں شر پسندوں کو پکڑنے کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ کسی بھی دوسرے ملک میں دیکھنے میں نہیں آیا۔
بنگلا دیش میں ہندوؤں کی حالت
بنگلا دیش کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور پوری آبادی میں صرف ۹ فیصد ہندو ہیں جو کہ ملک کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔ بنگلا دیش میں ہندوؤں کی حالت اور حالیہ فسادات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے جنیو ہندو مہاجوت کے سیکرٹری جنرل گوبند چندرا پرمانک نے بھارتی نیوز ویب سائٹ The Wire کے نامہ نگار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بنگلا دیش کے ہندو چونکہ اقلیت میں ہیں اس لیے عام طور پر علاقائی آبادی یعنی مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ فسادات کی مذمت صرف ہندو رہنماؤں یا تنظیموں نے ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں مسلمان رہنماؤں، دانشوروں اور سماجی کارکنان نے بھی کی ہے۔
پرمانک جو کہ ۲۰۱۷۔۲۰۱۸ء میں وشو ہندو پریشد کی بنگلا دیش شاخ کے صدر بھی رہ چکے ہیں انہوں نے حالیہ فسادات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوملہ شہر میں ہندوؤں کی تعداد بہت کم ہے، اسی لیے وہاں پر ہونے والی درگا پوجا کی تقریبات وہاں کی مقامی مسلمانوں کے معاشی اور انتظامی تعاون سے ہوتی ہے۔ چو نکہ وہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہے اس لیے پنڈال رات کو تقریباً بارہ بجے بند کردیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ۱۲؍اکتوبر کی دیر رات یا ۱۳؍اکتوبر کی علی الصبح، کسی نے فیس بک پر قرآن مجید کی توہین کیے جانے کی فوٹو پوسٹ کی تھی جس کے بعد ۱۳؍اکتوبر کو صبح سے ہی پنڈال کے باہر ایک اشتعالی ہجوم جمع ہوگیا تھا۔لیکن یہاں جو بات قابلِ غور ہے وہ ہے مسٹر پرمانک کی جانب سے یہ تسلیم کرنا کہ بنگلا دیش کے چھوٹے شہروں میں جہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہوتی ہے، وہاں پر درگا پوجا کے تمام انتظامات مقامی مسلمانوں کی شرکت کے ساتھ مکمل ہوپاتے ہیں جو کہ بنگلا دیش میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارے کو اجاگر کرتا ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ تر اس طریقے کے واقعات شرپسندوں کی جانب سے بدامنی پھیلانے کے لیے اور حکومت کو بدنام کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی درمیان کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی اور پولیس نے موقع واردات پر پہنچ کر قرآن مجید کو ہٹانے سے پہلے ایک مقامی باشندے کو سوشل میڈیا پر لائیو جانے کی اجازت دے دی، جس نے حالات پر کمنٹری اور تبصرے کے ساتھ جذبات بھڑکانے کی پوری کوشش کی۔ اور اس کے بعد ہی پنڈال پر حملہ کیا گیا اور پھر یہ آگ پورے ملک میں پھیل گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکمراں جماعت عوامی لیگ کے ایک بااثر علاقائی رہنما کے اس پورے معاملے میں ملوث ہونے کے قوی امکانات ہیں، کیونکہ اول تو پولیس موقع واردات پر بہت دیر سے پہنچی اور پھر اس نے سب سے پہلے ان ہندو۔ مسلمان علاقائی باشندوں کو منتشر کرنے کا کام کیا جو کہ ماحول کو خراب نہ کرنے کی اپیل کررہے تھے۔
حالیہ واقعے کے علاوہ بھی مجموعی طور پر حکمراں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے مسٹر پرمانک نے کہا کہ شروع شروع میں بنگلا دیش قائم ہونے کے بعد عوامی لیگ نے ہمیشہ ہندو اقلیتوں کا ساتھ دیا لیکن آہستہ آہستہ جب شدت پسند عناصر کی عوامی لیگ میں تعداد بڑھتی چلی گئی تو یہ جذبہ کچھ کم ہونے لگا، ساتھ ہی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں اضافے کے بعد عوامی لیگ نے بنگلا دیشی ہندوؤں کے تئیں اپنے نظریہ میں بھی کچھ تبدیلی کی ہے۔
اس کے علاوہ پرمانک کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ میں عوامی لیگ نے مقامی ہندوؤں کو صرف ایک ووٹ بینک کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے اور ساتھ ہی اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہندو باشندے اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بھارت کی بی جے پی حکومت اور وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے خلاف ہے۔ جس کی وجہ سے شاید ہندو مخالف جذبات میں بہت اضافہ رونما ہوا ہے۔
فسادات پر بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پرمانک نے کہا کہ اول تو بھارت کا مذمتی بیان بہت دیر میں آیا، دوم یہ بیان وزیر اعظم کی جانب سے نہیں بلکہ بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے آیا ہے اور اس میں بھی سخت الفاظ کا استعمال بالکل نہیں کیا گیا، بلکہ اس سے زیادہ سخت بیان تو اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جاری کیے تھے۔ پرمانک کا کہنا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت کو بنگلا دیشی ہندوؤں کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ قیادت کو، ماضی میں بھی صرف آنجہانی سشما سوراج ہی پرزور طریقے سے بنگلا دیشی ہندوؤں کی حمایت میں بولتی تھیں۔
بھارت کی جانب سے مذمت
بنگلا دیش میں ہونے والے فسادات کی تقریباً تمام بھارتی سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔اس کے علاوہ جنوب ایشیا کے مایہ ناز دانشوروں اور سماجی کارکنان نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ہے۔ لیکن جو دوسب سے اہم مذمتی بیان ہیں، وہ ہیں اے آئی یو ڈی ایف کے صدر مولانا بدرالدین اجمل اور جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر سلیم کی جانب سے دیے گئے بیانات۔ مولانا اجمل نے بنگلا دیشی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہاں مقیم ہندو شہری محفوظ ر ہیں، سخت اقدام کرنے کی اپیل کے ساتھ ہی بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سفارتی ذرائع کے ذریعہ بنگلا حکومت پر زور ڈالے کہ وہ بنگلا ہندوؤں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کرے۔
لیکن جس بیان پر سب سے زیادہ چہ میگوئیاں ہوئیں وہ تھا انجینئر سلیم کی جانب سے کیا جانے والا ٹوئٹ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’لا قانونیت جمہوریت کو کمزور کرتی ہے اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی اجازت نہ تو آئین دیتا ہے اور نہ ہی اسلام‘‘۔ جناب سلیم کے اس ٹویٹ کو کچھ افراد نے فیک بھی قرار دیا۔ تاہم بعد میں کہا گیا کہ یہ ٹویٹ انہیں کا ہے اور اس میں شامل تاثرات جماعت کے فکری پہلو سے مناسبت رکھتے ہیں جو کہ ایک تکثیری سماج کو قائم کرنے کے لیے پابند ہے۔
اکثریت بمقابلہ اقلیت
بنگلا دیش کے حالیہ اور ماضی کے مذہبی واقعات، اقلیت اور اکثریت کے درمیان ہونے والے تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں، جو کہ ایک سماجی اور معاشی دونوں پہلوؤں کو اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔ سماجی ماہرین کے بقول بنگلا دیش کا قیام لسانی اور تہذیبی بنیادوں پر عمل میں آیا تھا۔ان ماہرین کے مطابق اگر ہم بنگلا دیش اور مغربی بنگال کے بنگالی قوم کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ پائیں گے کہ دونوں فرقے بہت سے قدریں آپس میں مشترک رکھتے ہیں۔جیسا کہ رابندرو سنگیت کا مزا ہندواور مسلمان یکساں طور پر لیتے ہیں، اسی طرح قاضی نذرالاسلام کے نذرو گیت دونوں فرقے گاتے ہیں اور اسے اپنی سماجی اور کلچرل اساس قرار دیتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسا کہ ہر سماج یا ملک میں دیکھنے میں آتا ہے، آہستہ آہستہ وہی سب بنگلا دیش میں بھی ہونا شروع ہوگیا۔یعنی کہ جو ہندو بنگلا دیش سے ہجرت کرکے گئے تھے، انہوں نے اپنی زمینیں اور جائیدادیں مسلمانوں کو بیچ دی تھی، اور وہ مسلمان جو کسی وقت ان کھیت کھلیانوں میں مزدوری کرتے تھے، اب اس کے مالک ہوگئے۔اس مالی آسودگی کا منفی اثر کسی حد تک ان کی فکری اور سماجی نظریات پر بھی ہونا شروع ہوگیا۔
مذہبی تنظیموں کی مقبولیت اور ان کا اثر ورسوخ ۱۹۷۱ء سے پہلے بھی بنگلا دیش میں موجود تھا، تاہم اس میں اضافہ اس وجہ سے رونما ہوا کہ اب آپ کی حکومت قائم ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود بنگالی تہذیبی تشخص نے اپنی جگہ نہیں کھوئی تھی اور اقلیت و اکثریت دونوں ہی چین سکون کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ مگر اس میں جب آپ معاشی پہلو شامل کرلیتے ہیں تو سماجی پیچیدگیاں بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے مختلف مغربی ممالک میں ہجرت کا راستہ اپنایا لیکن یہ ہجرت معاشی پہلوؤں اور مواقع کی بنیاد پر تھی نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔
لیکن یہاں ہم گزشتہ بیس سال کے عرصہ میں بنگلا دیش میں شدت پسند مذہبی عناصر کی تعداد میں اضافے اور سماج میں دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کم ہوتی دیکھنے کو بھی مجبور ہوئے۔ اس کی ایک وجہ مذہبی جماعتوں کا سیاسی حلقوں میں شامل ہونا اور اس کے علاوہ مغربی ممالک سے ان نوجوانوں کا واپس آنا شامل تھا جو کہ کافی حد تک مغربی ممالک میں مسلمان مخالف پالیسیوں اور دہشت گردی مخالف پروگراموں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے اثرات سے خائف تھے۔ یہ افراد زیادہ تر شدت پسند مسلم پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دیگر مذاہب کے خلاف کارروائی کرنے پر اکسائے جاتے تھے اور ۲۰۰۱ء کے بعد اس سوچ میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ یہاں ہم بنگلا دیش حکومت کو قصور وار مان سکتے ہیں کہ وہ ان شدت پسند عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی لیکن یہ الزام مغربی ممالک پر بھی عائد ہوسکتا ہے جیسا کہ حال میں امریکا میں بلیک موومنٹ نے ثابت کیا ہے کہ فسادات مذہبی بنیادوں کے ساتھ ساتھ نسلی بنیادوں پر بھی ہوسکتے ہیں۔
بنگلا دیش حکومت کی کارروائی
بنگلا دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ملک بھر میں جاری فسادات کو روکنے کے لیے ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں، دونوں کو ملک میں امن و امان قائم کرنے کے کام پر فوری طور پر تعینات کردیا تھا۔ پولیس نے مختلف مقامات سے تقریباً ۷۵۰؍افراد کو گرفتار کیا ہے اور کوملہ واقعہ کے اصل مجرم کو پکڑنے کی کوشش جاری ہے۔ شیخ حسینہ نے اپنی تقریر میں عوام کو یقین دلایا کہ مندروں اور پوجا پنڈالوں پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا، خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں۔
اپنی تقریر میں شیخ حسینہ نے بھارت کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ اسے بھی اپنے یہاں شرپسندانہ کارروائیوں میں ملوث افراد سے سختی سے نپٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انڈیا میں بھی ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے جو کہ ہمارے ہندو شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کردے۔ اگر انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں کے ہندو اور مسلمان بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
اس تقریر کے ذریعہ بھارت کو سخت الفاظ میں اپنی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مشورہ، شاید پہلی مرتبہ کسی عالمی رہنما نے کھلے لفظوں میں دیا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی بھارتی مسلمان اور عالمی برادری خاموش رہی تھی اور اگر بنگلا دیش جیسا کوئی چھوٹا ملک اس طرح کھلے الفاظ میں بھارتی سیاست دانوں کی سرزنش کرسکتا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ عالمی برادری بھارت کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے اور داخلی صورت حال پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے اور بنگلا دیش کے تیور دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب حکومت ہند اقلیتی مخالف کسی بھی کارروائی پر سختی سے قابو پانے کی کوشش کرے گی۔
یاد رہے کہ اسی ماہ وزیر اعظم مودی کو اپنے دورۂ امریکا کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب امریکی صدر کملا ہیرس کی جانب سے جمہوریت، جمہوری اقدار، مذہبی رواداری کے علاوہ کامیاب حکومت چلانے کی بابت مشورے بھی دیے تھے۔ اور اسی سال فروری اور اگست میں پاکستان کے مختلف شہروں میں مندروں پر ہونے والے حملوں کی وہاں کی سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیتے ہوئے ان مندروں کی تعمیرِ نو کے احکامات جاری کیے تھے اور وہاں کی قومی اسمبلی نے ان واقعات کی سخت لفظوں میں مذمت کی تھی۔ یہ واقعات بھی ایک مسلم اکثریتی ملک میں رونما ہوئے تھے لیکن پھر بھی وہاں کی عدلیہ اور قانون سازوں نے فوری طور پر ان کا نوٹس لیا اور اس کے خلاف قابلِ ستائش اقدامات کیے۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں حکمراں جماعت ابھی بھی کوئی فیصلہ بغیر مذہب کی آمیزش کے کرنے میں ناکام ہے۔ بنگلا دیش کے افسوس ناک واقعات کا اثر مغربی بنگال میں دیکھنے میں آرہا ہے، جہاں حزبِ اختلاف کی جماعت یعنی بی جے پی نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی تنقید کی ہے کہ وہ اس معاملہ پر چپ کیوں ہیں۔ شاید ان سیاست دانوں کو یہ نہیں معلوم کہ بنگلا دیش ایک آزاد ملک ہے اور کسی دوسرے ملک کے واقعے پر تبصرہ یا بیان کسی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ نہیں دے سکتا، یہ ذمہ داری وزیر اعظم کی بنتی ہے کیونکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کی بی جے پی اکائی نے واقعات کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے انہیں مغربی بنگال کے ضمنی انتخابات میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے لیکن ممتا حکومت نے اس طرح کی کسی بھی مہم کے خلاف پولیس کو سخت اقدام لینے کا اشارہ دے دیا ہے۔ تاہم ان واقعات کا منفی اثر بھارت کے شہروں میں بھی دیکھنے میں آنے لگا ہے۔ تری پورہ سے جو کہ بنگلا دیش کے کوملہ شہر سے زیادہ دور نہیں ہے، وہاں سے مسجدوں کی بے حرمتی کی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش میں ہونے والے واقعات اور تشدد افسوس ناک ہے، تاہم جس چابک دستی سے وہاں کی حکومت نے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئینی طور پر ایک مسلم ملک اپنے یہاں کی اقلیتوں کی حفاظت کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق پابند اور با عمل نظر آرہا ہے جبکہ ہمارا ملک جو کہ آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے، وہاں سیکولرزم اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جو کہ بھارت کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز، دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply