
بھارتی صحافی کلدیپ نائر نے کچھ عرصہ قبل سائوتھ ایشین یونین کاجو تصور پیش کیا تھا وہ بلاشبہ بھارت کے اندر پرورش پانے والا ایسا نقشہ ہے جس پر وہاں دن رات کام ہو رہا ہے۔ دراصل کلدیپ نائر کی یہ تجویز بھارت کا اگلا دس سالہ منصوبہ ہے، جس میں وہ اپنی فوجی اور معیشت کی بھاری بھرکم طاقت کے ساتھ خطے کے ہر ملک کو ڈرا دھمکا کر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے، جیسے بنگلا دیش، نیپال، میانمار اور بھوٹان کو کر چکا ہے۔ بھارت کا منصوبہ ہے کہ وہ بنگلا دیش کو بطور راہداری استعمال کرتے ہوئے اپنی شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والی بغاوتوں کو کچلے۔ وہ چاہتا ہے کہ بنگلا دیش میں ہمیشہ اس کے اشاروں پر ناچنے والی حکومت ہو، اس کی داخلی، دفاعی اور خارجہ پالیسی بھی اسی کی منشا کے مطابق ہو۔ بھارت اس وقت پوری کوشش میں ہے کہ بنگلا دیش کی فوج میں نصف سے زائد کمی کر دی جائے، اس سے ملنے والی تمام سرحدوں اور اس میں داخل ہونے والے تمام دریائوں پر بھارتی فوج کا کنٹرول ہو۔ اس کی ثقافت بھارت کے تابع ہو اور بنگلا دیش کی ایشین ہائی ویزکا راستہ بھارت بنگلا دیش برما کے بجائے بھارت بنگلا دیش اور بھارت کے شمالی صوبے ہوں۔ بنگلا دیش کے سمندری راستوں کا تعین بھارت کرے اور بنگلا دیش کے بھارت کے ساتھ ملنے والے کچھ حصے اس سے علیحدہ کر تے ہوئے اسے بھوٹان کے برابرکر دیا جائے۔کیا مشرقی بنگال کے ٹائیگر بھارت کی ان سازشوں سے بے خبر ہیں؟
بھارت کے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی بھارت کے ہاتھ کھلونا بنے بنگلادیش کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ بنگلادیشی عوام آنکھیں کھولیں، بھارت اس وقت بنگلادیش کے ۵۴ دریائوں کا پانی اپنے کنٹرول میں کیے ہوئے ہے اور حسینہ واجد اس پر خاموش ہے۔ بھارت نواز حکومت کے مقابلے میں بنگالی قوم پرستوں کو اپنے لیے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے احتجاج کرنا ہوگا، آواز بلند کرنی ہوگی اور دنیا کو بتانا ہوگا کہ بھارت بنگلا دیش کو نقصان پہنچانے والے ’’تپائی مکھ پراجیکٹ‘‘ کی تعمیر روک دے، جس سے بنگلا دیش کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے گی۔ حسینہ واجد کی خاموشی سے ایسا لگتا ہے کہ شیخ مجیب کی بیٹی بنگلا دیش کی زراعت اور توانائی کو ملیا ملٹ کرنا چاہتی ہے۔
حسینہ واجد کی غلامی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بنگلادیش رائفلز کی بارڈر آبزرور پوسٹوں پر بھارتی فوجیوں کی بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری روزکا معمول بن چکی ہے، لیکن اس کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رہا۔ ایسا لگتا ہے، حسینہ واجد بنگلادیش کی وزیراعظم نہیں بلکہ کسی بھارتی ریاست کی وزیراعلیٰ ہے۔ بھارتی سرکار نے اپنے ملک میں بنگلادیشی مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگا رکھی ہے جس سے بنگلادیش کو ۲ء۴ بلین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش کے کچھ باشعور عوام احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حسینہ واجد اور بھارت کی سابق کانگریس حکومت کے درمیان طے پانے والا معاہدہ فوراً ختم کیا جائے۔
بھارتی سرحدی افواج اپنی نگرانی میں بنگلادیش میں منشیات اور ہتھیاروں کی وسیع پیمانے پر اسمگلنگ کرا رہی ہے۔ اس سال اب تک بھارتی سرحدی فورس ایک ہزار سے زیادہ بنگلا دیشیوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر چکی ہے۔ اب بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے پر تشدد کارروائیوں کے لیے مکتی باہنی کی طرز پر ایک اور علیحدگی پسند عسکری تنظیم ’’بنگا بھومی اندولن‘‘ تیارکر لی ہے۔ کس قدر ظلم ہے کہ بھارت نے بنگلا دیش کے جزیرے تالپوتی پر جبری قبضہ کیا ہوا ہے، شاید وہ حیدر آباد، جونا گڑھ اور کشمیر کی طرح آہستہ آہستہ بنگلا دیش کو بھی کترنا چاہتا ہے۔ کیا بنگلا دیشی عوام اور اس کے عسکری ادارے اپنی آزادی برقرار رکھنے کا سوچیں گے؟ بھارت کے سیاسی تجزیہ نگار ایم وی کامتھ نے لکھا ہے: ’’میں صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ بنگلا دیش کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ ۱۹۴۷ء میں اس کا ہندوستان سے علیحدہ ہونا بہت بڑی غلطی تھی۔ اگر بنگالیوں کو زندہ رہنا ہے تو انہیں دوبارہ بھارت کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا‘‘۔ بنگلا دیش کی وزیر اعظم جب بھارت کے دورے پر کولکتہ پہنچیں تو انہیں ایک سرکاری تقریب میں ’’مکھ منتری‘‘ یعنی وزیراعلیٰ حسینہ واجد کہہ کر پکارا گیا، جو بنگلادیشی عوام کی توہین تھی لیکن حسینہ سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔ جب لال کشن ایڈوانی بھارت کے وزیر داخلہ تھے تو بنگلا دیش کے ایک سرحدی علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو بنگلا دیش رائفلز سے مسلح تصادم شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں پچیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔اس پر بھارتیوں نے بنگلا دیش رائفلز کے تھرڈ ہیڈ کوارٹر پر جہازوں سے بمباری کی دھمکی دے کر وہ علاقہ خالی کرا لیا۔ ’’ایشین ایج‘‘ انڈیا میں ۲۴ مارچ ۲۰۰۹ء کو بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل شنکر رائے چوہدری نے ایک مضمون میں لکھا: ’’افسوس کہ بنگلادیش نئی دہلی کے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، آگے بڑھ کر ہم سب کو اسے روکنا ہوگا‘‘۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ سبرامنیم سوامی نے ’’ڈیلی نیوز‘‘ میں ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۱ء کو اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’بنگلا دیش کا کچھ علا قہ بھارت میں شامل کر لینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی بقا کے لیے سلہٹ سے کھلنا تک کا علاقہ بھارت کا حصہ بنالیں‘‘۔
مشہور صحافی ’’سبیر بھائومک‘‘ اپنی کتاب Throubled Periphery: Crises of India’s North East میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہیں کہ چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں اور برما کی ’’کاچھن ہل‘‘ میں گوریلا کارروائیاں کرنے والی ’’شانتی باہنی‘‘ اندرا گاندھی کے حکم سے بنائی گئی تھی۔ اگر وہ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں شکست نہ کھاتیں توانہوں نے ’’شانتی باہنی‘‘ کے ذریعے بنگلا دیش کا بھارتی سرحد سے ملنے والا علا قہ علیحدہ کرا لینا تھا۔ اشوک رائنہ کی ویکاس پبلشر کے زیر اہتمام ۱۹۸۱ء میں شائع ہونے والی کتاب THE STORY OF INDIA’s SECRET SERVICE میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلا دیش کے چکمہ قبائلی گوریلا اور ’’را‘‘ کے درمیان انتہائی قریبی رابطے تھے۔ بنگلادیش کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں چکمہ قبائل بھارتی را کے منصوبوں پر کام کرتے تھے اور اب بھی وہ ’’را‘‘ کی ہدایت پر ہی بنگلا دیش میں تخریب کاری کر رہے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں را کو ہدایت کی گئی کہ وہ چکمہ قبائل کو اسلحہ اور گوریلا تربیت کے لیے ٹریننگ کیمپ مہیا کرے۔ چنانچہ ان چکمہ قبائل کی بنیادی تربیت تری پورہ کے سرحدی کیمپوں میں کی گئی، لیکن جدید ٹیکنیکل ٹریننگ اب انہیں بھارت کی ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون کے قریب چکراتہ کے مقام پر دی جاتی ہے۔ چکراتہ، ڈیرہ دون سے ’’شانتو لارما شانتی باہنی‘‘ کے ان ارکان کو جدید ہتھیاروں اور سخت کمانڈو تربیت کے بعد چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے اور اگرتلہ میں را کے علاقائی دفتر سے ان کی سرگرمیوں کو مانیٹرکیا جاتا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں شانتی باہنی کے ان گوریلوں نے ہی را کی مدد سے بنگلا دیشی فوج پر پہلا حملہ کیا تھا، جو بنگلا دیش کی سلامتی کے خلاف بھارت کی پہلی باقاعدہ فوجی کارروائی تھی۔ اشوک رائنہ، جن کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، را میں اعلیٰ عہدے پر کام کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت سرکار بنگلادیش کی آزادی کے بعد سے ہی وہاں اپنے پنجے گاڑنا شروع ہو گئی تھی اور بھارت سرکار کی ہدایت پر ہی را نے بنگلادیشی صدر ضیاالرحمن کے قتل کی سازش تیارکی تھی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۷ دسمبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply