
بنگلادیش کی وزارت تعلیم نے درسی کتب کا تازہ ایڈیشن شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہی تھا کہ علماء کے ایک گروہ نے مطالبہ کردیا کہ نصاب سے ۱۷؍ایسی نظمیں اور کہانیاں خارج کردی جائیں جو سراسر الحاد پرستی پر مبنی ہیں۔
یکم جنوری کو بہت سے اسکولوں میں درسی کتب متنازع قرار پانے والی نظموں اور کہانیوں کے بغیر تقسیم کردی گئیں اور حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی۔ علمائے کرام کے کہنے پر چند ایک تبدیلیاں کی گئیں۔ مثلاً انگریزی کے حرف O سے شروع ہونے والے ایک لفظ کو Orna سے تبدیل کیا گیا، جو دوپٹے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی چھٹی کلاس کے طلبہ و طالبات کے لیے N سے ایک ہندو زیارت کے بجائے مصر کے دریائے نیل کو شامل کیا گیا ہے۔
عام بنگلادیشیوں کو ان چھوٹی سی تبدیلیوں میں کوئی خاص بات دکھائی نہیں دی مگر دانشوروں کو فکر لاحق ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں حکومت انتہا پسندوں کے دباؤ میں ہے اور شدت پسندی اب درسی کتب میں بھی داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
دو ڈھائی عشروں کے دوران بنگلادیش میں انتہا پسند سوچ تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ دائیں بازو کے شدت پسندوں نے سیکولراِزم کی بات کرنے والے دانشوروں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ دوسری طرف بنگلادیشی معاشرے میں ایسی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو پردے کی طرف مائل ہیں۔ وہ اب حجاب استعمال کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بنگلادیش میں اسلامی تنظیمیں اپنی بات منوانے کے لیے غیر معمولی حد تک کوشاں رہی ہیں۔ اب جبکہ وہ درسی کتب میں تبدیلی کرانے میں کامیاب رہی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا اثر و رسوخ کس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود کو سیکولراِزم کی علم بردار کہنے والی عوامی لیگ اقتدار میں ہونے کے باوجود ان کے آگے بہت حد تک بے بس ہے۔
بنگلادیش میں اسکول کی سطح کے نصاب میں اسلامی امور کا داخل کیا جانا ایک ایسی حقیقت ہے جو امریکا کو بھی پریشان کر رہا ہے۔ سابق مشرقی پاکستان نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے الگ ہوکر جب بنگلادیش کی شکل اختیار کی تھی تب اس ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد سیکولراِزم اور جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا تھا۔
بنگلادیش کے قیام کے دو ڈھائی عشروں بعد تک معاملات قابو میں رہے۔ سیکولر اور جمہوری روایات کا غلغلہ رہا۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان میں اسلامی شدت پسند تنظیمیں تیزی سے پنپتی رہیں۔ ان کے اثرات کا دائرہ وسیع ضرور ہوا مگر بنگلادیش جیسے ممالک میں ان کی دال زیادہ نہ گل سکی۔ بنگلادیش کی آبادی کی اکثریت ناخواندہ اور غریب ہے مگر اس کے باوجود اسلامی شدت پسند تنظیموں کو بنگلادیشی معاشرے میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں نہ مل سکے جو ان کی بات پر کان دھریں اور ان کے نظریات کو اپنائیں۔
چند برسوں کے دوران بنگلادیش میں اسلامی شدت پسندی نے تیزی سے زور پکڑا ہے۔ سیکولراِزم کی بات کرنے والے دانشوروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عوامی سطح پر سیکولراِزم کی بات کرنا اب خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ چند سیکولر دانشووں کے قتل اور دوسروں پر قاتلانہ حملوں نے معاملات کو بہت حد تک الجھادیا ہے۔ ایسے میں سیکولر روایات کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ الحاد کی بات کرنے والے بلاگر بھی اب خود کو خطرے میں محسوس کرنے لگے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاملات اب اس حد تک نہیں ہیں کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے۔ اسلامی تنظیمیں بہت منظم ہوکر کام کر رہی ہیں۔ عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کے حوالے سے ان کی مہارت سے انکار کیا جاسکتا ہے نہ اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ حکومت چاہے بھی تو اُنہیں غیر اہم قرار دے کر نظر انداز نہیں کرسکتی۔ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بھی حکومت ان کی کوئی بڑی بات نظر انداز نہیں کرسکتی۔
درسی کتب میں تبدیلی کا مطالبہ سب سے پہلے ڈھاکا میں قائم ایک تنظیم حفاظتِ اسلام نے ۲۰۱۳ء میں کیا۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل مفتی فیض اللہ کا کہنا ہے کہ ہم نے درسی کتب میں پائے جانے والے قدرے غیر اسلامی نکات کے بارے میں وزارتِ تعلیم کے اعلیٰ حکام اور حکومتی شخصیات سے بات کی اور انہوں نے بھی ہماری اس رائے سے اتفاق کیا کہ غیر اسلامی نکات درسی کتب کا حصہ نہیں ہونے چاہییں اور یہی سبب ہے کہ انہوں نے ہمارے مطالبات کی روشنی میں چند ایک ایسی تبدیلیاں کیں جو ناگزیر تھیں۔ مفتی فیض اللہ کا کہنا تھا کہ ہم ان تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں ساتھ ملانا چاہتے ہیں جو عوام میں اپنی جڑیں رکھتی ہیں۔
وزارتِ تعلیم کے ترجمان نے درسی کتب میں کی جانے والی تبدیلیوں اور حمایتِ اسلام کے سیکرٹری جنرل کے بیان پر کوئی تبصرہ کرنے سے گزیر کیا ہے۔ دوسری طرف نیشنل کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین نارائن چندر ساہا کا کہنا ہے کہ درسی کتب میں کی جانے والی تبدیلیاں معمول کا حصہ ہیں اور یہ تبدیلیاں کسی بھی تنظیم یا گروپ کے مطالبے یا دباؤ پر نہیں کی گئیں۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حمایتِ اسلام یہ کہتی ہے کہ یہ تبدیلیاں اُس کے مطالبے پر کی گئی ہیں تو میں اِس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتا۔
درسی کتب میں کی جانے والی تبدیلیوں پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ وزارتِ تعلیم کی مرکزی عمارت کے سامنے سیکڑوں سیکولر طلبہ اور دانشوروں نے احتجاج کیا مگر اب تک اپوزیشن کی جانب سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی، جو عام طور پر حکومت کے ہر متنازع اقدام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے، اس معاملے میں ہونٹوں پر چپ کی مہر لگائے بیٹھی ہے۔
ڈھاکا یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر امینہ محسن کہتی ہیں کہ بظاہر حکمراں جماعت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور یوں بھی جمہوریت میں اکثریتی رائے کے سامنے ہتھیار تو ڈالنا ہی پڑتے ہیں۔
بنگلادیش میں اسلام اور سیکولراِزم کے درمیان تناؤ ہر دور میں رہا ہے مگر ۲۰۱۳ء میں یہ تقسیم زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئی۔ اِس سال مدارس کے ہزاروں طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکا کے وسط میں جمع ہوکر مطالبہ کیا کہ الحاد کو فروغ دینے والے بلاگر کو سزا دی جائے، مجسمہ سازی پر پابندی عائد کی جائے اور درسی کتب میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ناگزیر نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔
حکومت نے مدارس کے مطالبات کا جواب چند اقدامات کے ذریعے دیا۔ ۲۰۱۴ء سے یہ لازم قرار دیا گیا کہ ملک بھر کے دس ہزار سے زائد مدارس آٹھویں جماعت سے حکومت کی تیار کردہ درسی کتب کو بھی اپنے نصاب میں شامل کریں تاکہ مدارس کے طلبہ جدید ترین رجحانات سے آگاہ ہوں اور جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو انہیں کسی بھی حوالے سے زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مدارس کے لیے کتب میں ضروری تبدیلیوں کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے والے ماہر تعلیم صدیق رحمن کا کہنا ہے کہ ہم مدارس کے طلبہ کو مرکزی نظام و طریقِ تعلیم سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ مدارس سے نکلنے کے بعد وہ معاشرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں اور اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہوکر نہ رہ جائیں۔ صدیق رحمن کہتے ہیں کہ نظریات اور عقائد کا فرق بہت نمایاں ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اختلافِ رائے اس قدر نہ ہو کہ سب کچھ ملیا میٹ ہوکر رہ جائے۔ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ معاملات کو قابو میں رکھا جائے اور عام آدمی کو مزید الجھن سے بچایا جائے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔
دوسری طرف مدارس سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے حکومت کو چند تحریری تجاویز پیش کیں۔ ایک اہم تجویز یہ تھی کہ درسی کتب میں غیر ضروری طور پر پائے جانے والے غیر اسلامی نام خارج کردیے جائیں۔ ان کا استدلال تھا کہ توحید پرست معاشرے میں درسی کتب میں کوئی بھی غیر اسلامی نام غیر ضروری طور پر قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ درسی کتب میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان گفتگو پیش کرنے سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔
حکومت نے مدارس کے علماء کرام کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز اور مطالبات کو تسلیم کیا۔ مدارس میں پڑھائی جانے والی درسی کتب سے تمام ہندو، عیسائی اور دیگر غیر اسلامی نام خارج کردیے گئے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان گفتگو بھی کتب سے نکال دی گئی ہے۔ ایسی تمام تصاویر بھی درسی کتب سے نکال دی گئیں جن میں لڑکیوں کو برہنہ سر دکھایا گیا ہے۔ ان کتب پر ٹیکسٹ بک بورڈ کے ہندو چیئرمین، پروفیسر نارائن چندر ساہا، کا نام بھی شائع نہیں کیا جاتا۔ صدیق رحمٰن کہتے ہیں کہ حکومت نے خاصا لچک دار رویہ اختیار کیا۔ یہ اچھا تھا کیونکہ کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے تھوڑی بہت قربانی دینا ہی پڑتی ہے۔
ٹیکسٹ بک بورڈ کے حکام ابتدائی مرحلے میں درسی کتب سے الحاد پر مبنی ۱۷ نظمیں اور کہانیاں ہٹانے کے لیے تیار نہ تھے۔ مفتی فیض اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے جب یہ دیکھا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ والے بات ماننے کو تیار نہیں تو ہم نے وزارتِ تعلیم سے رابطہ کیا۔ وہاں اعلیٰ حکام کو معاملہ سمجھایا اور انہوں نے مزید اعلیٰ سطح پر بات کی۔ یوں درسی کتب میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوگئی۔
سابق دورِ حکومت میں وزارتِ تعلیم کی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی رشیدہ کے چوہدری اس صورت حال سے بہت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک یہ بات کھل کر سامنے نہیں آرہی کہ حکومت کو یہ سب کچھ کرنے پر کس نے آمادہ یا مجبور کیا۔ کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف والدین بھی الجھے ہوئے ہیں۔ رشیدہ کے چوہدری کہتی ہیں کہ بہت سے والدین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو گھر پر پڑھانا شروع کردیں۔
حفاظتِ اسلام نے درستی کتب اور نصاب میں مزید تبدیلیوں کی تیاری شروع کردی ہے۔ اب فنون لطیفہ کی باری ہے۔ حفاظتِ اسلام کی مرکزی شورٰی کے رکن عبداللہ واصل کہتے ہیں کہ بچوں کو فنون لطیفہ کے نام پر جاندار چیزوں کی تصاویر یا مجسمے بنانے کی تربیت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس کے بجائے خطاطی پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے۔ مفتی فیض اللہ نے بتایا کہ ان کی تنظیم درسی کتب سے ایسی تمام ورزشوں کو بھی خارج کرانا چاہتی ہے جن میں لڑکیوں یا خواتین کو ورزش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ مردوں کی دنیا الگ ہے اور خواتین کی دنیا بالکل الگ۔ جو کچھ لڑکے کرسکتے ہیں وہ لڑکیاں نہیں کرسکتیں۔ لڑکے درختوں پر چڑھ سکتے ہیں، لڑکیاں نہیں چڑھ سکتیں۔ ایسے میں لڑکیوں کو اس نوعیت کی ورزش کرتے دکھانے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
حفاظتِ اسلام دراصل مخلوط تعلیم کے خلاف ہے اور چاہتی ہے کہ پانچویں جماعت کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ کلاسوں میں پڑھایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ مخلوط تعلیمی نظام سے پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کا رجحان بڑھتا جاتا ہے اور وہ نکاح کے بغیر تعلقات استوار کرنے کو بھی درست سمجھنے لگتے ہیں۔
حفاظتِ اسلام کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین پروفیسر نارائن چندر ساہا سمیت تمام ارکان کو ہٹادیا جائے۔ مفتی فیض اللہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم پروفیسر نارائن چندر ساہا کے خلاف نہیں مگر بات یہ ہے کہ عوام کے جذبات سے ہم آہنگ نصاب تیار کرنے کے لیے کوئی ایسی شخصیت چاہیے، جو اسلامی تعلیمات کو ان کی روح کے مطابق خوب سمجھتی ہو۔ ہم کسی ہندو ماہر تعلیم سے اس کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ ببول کے پیڑ پر گلاب نہیں اُگتے۔‘‘
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“To Secular Bangladeshis, Textbook Changes Are a Harbinger (“nytimes.com”. Jan. 22, 2017)
Leave a Reply