
۳۰ جنوری ۲۰۱۴ء کو بنگلہ دیش میں ایک عدالت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو بھارت سے اسلحے کی بڑی کھیپ اسمگل کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنادی۔ کئی سال سے بنگلہ دیش کی جیلوں میں، حراستی مراکز میں، گلیوں سڑکوں پر اور گھروں میں حکومت کے مخالفین کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد حالیہ برسوں میں اب سب سے زیادہ قتلِ عام دکھائی دے رہا ہے۔ کبھی کبھی تو یومیہ ایک ہلاکت بھی واقع ہوتی رہی ہے۔ گرفتار اور ہلاک کیے جانے والوں میں اکثریت کا تعلق جماعت اسلامی یا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سے ہے۔
بنگلہ دیش میں سیاسی اموات حیرت انگیز نہیں۔ جب بھی کوئی احتجاجی تحریک چلتی ہے، تشدد کا گراف بلند ہوجاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کو کسی نہ کسی طور ٹھکانے لگانے کی بات کی جاتی ہے۔ مگر اس بار معاملات مختلف ہیں۔ سیاسی بنیاد پر ہلاکتوں کو اس بار کچھ نئے ’’خواص‘‘ ملے ہیں۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے حکومتیں طاقت استعمال کرتی رہی ہیں مگر اس طرح نہیں کہ لوگوں کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جائے یا مقابلہ ظاہر کرکے مار دیا جائے۔ احتجاجی مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائی جاتی رہی ہیں، لاٹھی چارج ہوتا رہا ہے اور دیگر طریقوں سے مظاہرین کو منتشر کیا جاتا رہا ہے۔ اس بار معاملہ یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائی گئی ہیں۔ مذکورہ سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بہت سوں کو مقابلہ ظاہر کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ ہزاروں افراد اب بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ حراستی مراکز میں بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش کے سیاسی کلچر میں یہ سب کچھ نیا ہے۔
اہداف: اپوزیشن، خواتین اور فوج
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے کارکنان اور رہنماؤں کو غائب کرنا اور قتل کردینا معمول بنتا جارہا ہے۔ بہتوں کو قتل کردیا گیا ہے اور دوسرے بہت سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ سیکڑوں ایسے بھی ہیں، جنہیں گرفتار تو کیا گیا ہے مگر اب تک ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیا کا کہنا ہے کہ جنوری کے دوران بنگلہ دیش کے طول و عرض میں ۲۴۲؍افراد کو قتل کردیا گیا اور ۶۰ کو گرفتار تو کیا گیا مگر اب تک کچھ پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے انٹر نیشنل کرمنل کورٹ میں درخواست جمع کرائی گئی ہے۔
جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد فوج کو قابو میں کرنے کی بھرپور کوششوں کا آغاز ہوا۔ دارالحکومت ڈھاکا کے وسط میں پِیل خانہ کے علاقے میں صرف دو دن میں ۵۷ فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان فوجی افسران کے قتل میں ایک با اثر پڑوسی ملک کا ہاتھ تھا کیونکہ بنگلہ دیش کی فوج غیر معمولی صلاحیت کی حامل ہے اور ملک کو کمزور کرنے کے لیے فوج کو کمزور کرنا ناگزیر ہے۔
فوجی افسران کے اہلِ خانہ کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مارے جانے والے فوجیوں کے پس ماندگان میں بہت سی خواتین سے زیادتی بھی کی گئی۔ کئی اعلیٰ فوجی افسران کو جبری ریٹائر کردیا گیا اور بہت سے دوسرے افسران کو غیر مؤثر کردیا گیا۔
فوج کو بہت حد تک قابو میں کرنے کے بعد حکومت نے اپوزیشن کو دبوچنے کے حوالے سے اپنے روایتی ہتھکنڈے آزمانا شروع کیے۔ اس عمل کا بنیادی مقصد اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو مفلوج کردینا تھا تاکہ وہ حکومت کے لیے کسی بھی سطح پر خطرہ نہ بن سکیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی مظاہروں کی روایت بہت مستحکم ہے مگر اس بار حکومت طاقت کا استعمال اس قدر اور اندھا دھند کر رہی ہے کہ اب اپوزیشن جماعتوں کے کارکن سر عام مظاہرے کرکے جان جوکھم میں ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں۔
سزائے موت کے سیاسی فیصلے
بنگلہ دیش میں اب عدالتی فیصلے بھی سیاسی انتقام ہی کی شکل میں سنائے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان جماعت اسلامی کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے ہزاروں کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے اور اس کی قیادت کو سیاسی بنیاد پر قائم کیے جانے والے مقدمات میں عمر قید اور موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ایک مرکزی رہنما عبدالقادر مُلّا کو تو سزائے موت دی بھی جاچکی ہے۔ بنگلہ دیش جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنماؤں پر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی نے ان الزامات کو یکسر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِن کی پشت پر سیاسی انتقام ہے۔ ۱۳ دسمبر ۲۰۱۳ء کو عبدالقادر مُلّا کو سزائے موت دینے کے بعد اب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو اسلحے کی اسمگلنگ کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہیں کسی بھی وقت نام نہاد انسانیت سوز جرائم کے الزام میں بھی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
بی این پی کے سابق دورِ حکومت (۲۰۰۱ تا ۲۰۰۶ء) میں مطیع الرحمن نظامی پہلے زراعت اور پھر صنعتوں کے وزیر بنے۔ ان کے دورِ وزارت میں پولیس نے چاٹگام میں کھاد بنانے والے ایک کارخانے کے گودام سے اسلحے کی بڑی کھیپ پکڑی تھی جو ممکنہ طور پر بھارتی ریاست آسام میں علیحدگی پسند یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام کے لیے تھی۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اسلحہ کہاں سے آیا تھا۔ کرنافلی پولیس اسٹیشن کے انچارج نے اگلے ہی دن ایک ایف آئی آر درج کی جس میں مطیع الرحمن کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی اُن پر اِس حوالے سے فردِ جرم عائد کی گئی۔
چار سال بعد فروری ۲۰۰۸ء میں فوج کی سرپرستی میں قائم حکومت کے تحت چاٹگام میٹروپولیٹن جج نے اس کیس کی از سرنو تفتیش کا حکم دیا۔ اس حوالے سے درخواست ریاست کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ اس کیس کی تفتیش پر مامور ہونے والے انٹیلی جنس افسر منیرالزماں چوہدری (جوکہ اس کیس کے پانچویں افسر ہیں) نے جون ۲۰۱۱ء میں نئی چارج شیٹ تیار کی، جس میں مطیع الرحمن سمیت گیارہ مشکوک افراد کے نام شامل کیے گئے۔ سابق دورِ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے ان تمام گیارہ ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اسلحے کی اسمگلنگ کے کسی بھی کیس میں یوں سزائے موت کا سنایا جانا، حیرت انگیز حد تک نیا ہے۔ تمام ملزمان نے الزامات کی صحت سے انکار کرتے ہوئے انہیں سیاسی انتقام کی ایک صورت قرار دیا ہے۔
مطیع الرحمن نظامی کو محض اس لیے سزا سنائی گئی ہے کہ جب چاٹگام میں اسلحے کی کھیپ پکڑی گئی، تب وہ صنعتوں کے وزیر تھے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ اس کیس کے ایک اور بڑے ملزم لطف الزماں بابر ہیں جو اس وقت وزیرِ مملکت برائے اُمورِ داخلہ تھے۔ یہ دونوں شخصیات اسلحے کی کھیپ پکڑے جانے کے وقت حکومت کا حصہ تھیں۔ اگر اسلحہ انہوں نے منگوایا ہوتا تو اثر و رسوخ استعمال کرکے اس بات کو بھی یقینی بناسکتے تھے کہ کھیپ پکڑی نہ جائے۔ پولیس کا محکمہ تو لطف الزماں بابر کے ماتحت تھا۔ اب تک ایسے شواہد نہیں ملے جن سے اندازہ ہو کہ ان دونوں شخصیات نے اسلحے کی کھیپ کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہو۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ مطیع الرحمن نظامی کو صرف دو گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر محض اس لیے سزائے موت سنائی گئی ہے کہ انہوں نے اسلحے کی اسمگلنگ کے حوالے سے تحقیقات کا حکم نہیں دیا تھا۔ استغاثہ کے دونوں گواہوں نے یہ بیان دیا کہ اسلحے کی کھیپ کے پکڑے جانے کے کچھ دن بعد ہی مطیع الرحمن نظامی سے ملاقات کرکے ان سے استدعا کی گئی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیں، جس پر انہوں نے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ حکومت نے اعلیٰ سطح پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
اسلحے کی کھیپ سے متعلق تحقیقات کرانا مطیع الرحمن کے دائرۂ کار سے باہر تھا۔ چٹاگانگ یوریا فرٹیلائزر پلانٹ دراصل بنگلہ دیش کیمیکل انڈسٹریز کارپوریشن کے ماتحت تھا۔ کارپوریشن کا چیئرمین وزارتِ صنعت کے سیکرٹری کو جوابدہ ہے نہ کہ وزیر کو۔
یوریا فرٹیلائزر پلانٹ کی دو جیٹیز ہیں۔ ایک اس کی حدود کے اندر ہے، جس کی سکیورٹی ادارے کی ذمہ داری ہے۔ دوسری باہر ہے، جس کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ ۲؍اپریل ۲۰۰۴ء کو جس جیٹی پر اسلحے کی کھیپ پکڑی گئی تھی، وہ ادارے سے باہر تھی اور اس معاملے میں پولیس سے بھی جواب طلبی کی جاسکتی ہے۔ مطیع الرحمٰن نظامی اسلحے کی کھیپ کے پکڑے جانے کے وقت صنعتوں کے وزیر ضرور تھے مگر نہ تو بنگلہ دیش کیمیکل انڈسٹریز کارپوریشن ان کے دائرۂ اختیار میں تھی اور نہ ہی وہ جیٹی، جس پر اسلحے کی کھیپ ضبط کی گئی تھی۔
ان معروضات کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مطیع الرحمن نظامی اور دیگر مدعا علیہان کے خلاف کیس کس قدر کمزور ہے اور یہ کہ اس کی پشت پر سیاسی انتقام کی ذہنیت ہی کار فرما ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کو اس قدر کمزور کردیا جائے کہ وہ کسی بھی معاملے میں احتجاج کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔
حالات کے تناظر میں خدشہ یہ ہے کہ کہیں عبدالقادر مُلّا کی طرح مطیع الرحمن نظامی کو بھی قربانی کا بکرا نہ بنادیا جائے۔ عبدالقادر مُلّا کو بھی ۱۹۷۱ء کے دوران قسائی قادر نامی ایک غنڈے کے کرتوتوں کی سزا دی گئی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے وقت تو عبدالقادر مُلّا ڈھاکا میں تھے ہی نہیں۔
اگر مُطیع الرحمن کو موت کی سنائی جانے والی سزا پر عمل ہوا تو امکان اس بات کا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن سڑکوں پر آجائیں گے اور ریاستی مشینری سے ان کا تصادم ہوگا۔ اس کے نتیجے میں مزید ہلاکتیں ہوں گی اور ملک مزید غیر مستحکم ہوگا۔
مطیع الرحمن نظامی اور لطف الزماں بابر کے ساتھ ساتھ اس کیس میں چند سابق فوجی افسران کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کسی نہ کسی طور فوج کو مزید کمزور کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کی من مانیوں کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔ سابق فوجی افسران کو سنائی جانے والی سزائے موت پر عمل سے فوج کی صفوں میں مزید انتشار پیدا ہوگا، مزید بے دِلی جنم لے گی۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے انتہائی خراب حالات کو بین الاقوامی میڈیا میں وہ توجہ نہیں مل رہی، جو ملنی چاہیے۔ اس کا ایک بڑا سبب غالباً یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی نام نہاد جمہوری حکومت کو انتہائی مضبوط پڑوسی بھارت کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور بنگلہ دیش کی نام نہاد جمہوری حکومت نے ممکنہ طور پر مصر کے کیس سے یہ سیکھا ہے کہ اپوزیشن اور بالخصوص اسلامی عناصر کو کچلنے کے لیے طاقت کے بے محابا استعمال میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ عالمی برادری خاموش رہے گی اور اس عمل کی کوئی سزا نہیں ملے گی۔ یہی سبب ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت نے تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ کے باوجود ۵ جنوری ۲۰۱۴ء کو عام انتخابات کرائے۔ ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا مگر پھر بھی نئی حکومت کو جمہوری اور نمائندہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس نوعیت کے اقدامات کا تاریخ خود محاسبہ کرتی ہے اور نتائج بہت خونیں ہوتے ہیں۔
(“Bangladesh’s dark days of judicial murders”… “onislam.net”. Feb. 9, 2014)
Leave a Reply