
اختلافِ رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اختلافِ رائے کو شناخت یا پہچان کے اظہار کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ شناخت کا یہ عمل انفرادی یا پھر کسی گروہ، قوم، نظریے یا ایک عقیدے کے ماننے والوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ بعض حالات میں اختلافِ رائے جدوجہد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے اختلافات جب حاکموں اور عوام کے مابین جنم لیتے ہیں تو حکام کے جبر واستبداد سے بچنے کے لیے بہت سے راہنما ملک سے باہر، جِلاوطنی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے اس عمل کو وہ ایک ایسی حکمت عملی قرار دیتے ہیں جو دراصل ان کی جدوجہد کی بقاء کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ایسے ہی کچھ جلا وطن رہنمائوں اور ان کی تشکیل کردہ جِلاوطن حکومتوں کا احوال پیشِ خدمت ہے:۔
مرکزی انتظامی حکومت برائے تبت:
بامِ دنیا کا اعزاز رکھنے والا علاقہ تبت عرصۂ دراز سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔ تبت عوامی جمہوریہ چین کے زیرانتظام علاقے کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین کی اس عمل داری کو بدھوں کے فرقے Gelug کے چودھویں دلائی لاما ’’تن زن گیاتسو‘‘ (Tenzin Gyatso) تبت پر چین کا غاصبانہ قبضہ قرار دیتے ہیں۔ اس اختلاف کے باعث انہوں نے تبت سے باہر اپنی جلاوطن حکومت قائم کی ہے، جس کے وہ سربراہ ہیں۔ اس جلاوطن حکومت کو ’’مرکزی انتظامی حکومت برائے تبت (Central Tibetan Administration) کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ چین کے زیرِانتظام تبتی علاقہ درحقیقت ایک تاریخی مقام اور بدھ مت کا مذہبی اور تاریخی ورثہ ہے، جس پر چین نے ۱۹۵۹ء سے قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ علاقہ صوبہ چنگ چی (Qinghai)، گان سو (Gansu)، سی چوان (Sichuan) اور ین نان (Yunnan) صوبوں پر مشتمل ہے۔ ان تمام صوبوں کی سرحدیں باہم ملی ہوئی ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے یہ چاروں صوبے چین کے دس بڑے صوبوں میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کا مجموعی رقبہ ۹۶۵۰۰۰ مربع میل بنتا ہے۔ چین کی حکومت کی جانب سے علاقے میں اسکولوں اور صحت عامہ کے اداروں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو ترغیب دینے کے لیے مختلف پرکشش سیاحتی اور ثقافتی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔ اگرچہ ان ترقیاتی منصوبوں سے علاقے میں ترقی کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں تاہم ۷۵ سالہ دلائی لاما کا کہنا ہے کہ تبت کا علاقہ بدھ مت کے لیے عبادت گاہ کا درجہ رکھتا ہے، جب کہ چینی حکومت صرف معاشی فوائد کی خاطر اس وسیع و عریض تاریخی اور مذہبی ورثے کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ جدیدیت اور سیاحت کے نام پر تشکیل دیے گئے ان منصوبوں نے تبت کی روایتی اور مذہبی زندگی کو بھی مسخ کر دیا ہے۔ چینی حکام دلائی لاما کے موقف کے جواب میں کہتے ہیں کہ پچاس سال قبل چین نے دراصل تبت میں مذہبی لبادے میں چھپے جاگیرداروں اور جاگیری داری نظام کے خلاف کارروائی کر کے ایک جمہوری ماحول پیدا کیا تھا، جس میں وقت کے ساتھ بہتری آتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ چین کی جانب سے فوجی کارروائی کے بعد بدھ مت کے روحانی پیشوا ’’تن زن گیاتسو‘‘ اور ان کے پیروکاروں نے انڈیا منتقل ہو کر جلاوطن حکومت قائم کر لی تھی جس کا ہیڈ کوارٹر شمالی انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے قدیم شہر ’’دھرم شالا‘‘ میں ہے۔ دلائی لاما ’’تن زن گیاتسو‘‘ دھرم شالا میں اس وقت سے مقیم ہیں، جب ۲۸؍ اپریل ۱۹۵۹ء کو دلائی لاما اور ان کے تبتی پیروکاروں کی بغاوت ناکام ہو گئی تھی اور وہ جلاوطن ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ تبتی جلاوطن حکومت (CTA) کے مقاصد میں سرفہرست تبت کو چین کے مبینہ تسلط سے آزادی دلانا اور اپنا مذہبی تشخص بحال کرانا ہے۔ واضح رہے کہ جلا وطن حکومت CTA نے ۲۰۰۱ء میں تبت کی تاریخ کے اولین انتخابات بھی کرائے تھے، جس میں جلاوطن تبتی باشندوں نے پروفیسر Samdhong Lobsang Tenzin کو وزیراعظم منتخب کیا تھا۔ اس کے علاوہ چھ وزارتیں بھی قائم کی گئی تھیں۔ اگرچہ تبت کی جلاوطن حکومت کو دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے، تاہم بھارت کی جانب سے تبتی جلاوطن حکومت کو کافی سہولیات حاصل ہیں۔ ان سہولیات پر چین کی طرف سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس معاملے پر دونوں ملکوں میں کشیدگی رہتی ہے۔ دلائی لاما اور ان کے پیروکاروں کو یقین ہے کہ وہ عنقریب جلاوطن حکومت کی کوششوں سے تبت کو چین سے آزادی دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
شہنشاہیتِ ایران:
۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب کے بعد ایران سے شہنشاہیت کا بستر گول کر دیا گیا تھا اور اس وقت کے بادشاہ محمد رضاشاہ پہلوی ملک سے فرار ہو کر قاہرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ تاہم رضاشاہ پہلوی مرتے دَم تک خود کو ایران کا شہنشاہ ہی کہلواتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد سے شاہی تاج ان کے سب سے بڑے بیٹے ’’محمد رضا پہلوی‘‘ نے اپنے سر پر سجا رکھا ہے اور وہ بھی خود کو شہنشاہ کہلواتے ہیں۔ اپنی اس حیثیت سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے انہوں نے ایران سے باہر میری لینڈ میں ’’پہلوی شہنشاہیت‘‘ کی جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے اور اس تناظر میں وہ اپنی خط و کتابت میں سابقہ شہنشاہیت کے زمانے کے ایران کا سرکاری نشان اور پرچم استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی اس حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ وہ ایران کے سیاسی معاملات پر اثرانداز ہوں۔ کئی مواقع پر انہوں نے ایرانی عوام سے سول نافرمانی کی درخواست کی ہے جبکہ عوام کو گزشتہ سال ہونے والے انتخابی عمل سے بھی دور رہنے کا ’’حکم‘‘ دیا تھا۔ اسی طرح پچاس سالہ جلاوطن بادشاہ محمد رضاپہلوی اور ان کی جلاوطن حکومت کی جانب سے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سیاسیات میں اعلیٰ تعلیم کے حامل محمد رضا پہلوی کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران کی آبادی کا دوتہائی حصہ جو تیس سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کا زبردست حامی ہے کیونکہ انقلاب ایران کے بعد جوان ہونے والی نسل میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا جذبہ موجود ہے اور ان نوجوانوں کے ترقی اور جدیدیت کے خواب صرف ان کی حکومت ہی میں شرمندۂ تعبیر ہو سکتے ہیں۔
ایرانی ثقافت کو اپنی شناخت قرار دینے والے محمد رضا پہلوی نے دورانِ تعلیم جیٹ فائٹر کی ٹریننگ بھی حاصل کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جلاوطن ہونے کے باوجود انہوں نے ۱۹۸۰ء میں عراق اور ایران کی جنگ کے آغاز کے وقت جنگ میں شریک ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، جسے انقلابی حکومت نے رَد کردیا تھا۔ اس قسم کے رویے کے باوجود محمد رضا پہلوی کی جلاوطن حکومت ایران کی موجودہ مذہبی حکومت کے خلاف کسی بھی غیرملکی فوجی ایکشن کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی ہے۔ محمد رضا پہلوی جو اس وقت امریکا کی ریاست میری لینڈ کے شہر Potomac میں اپنی بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، نے ۱۳؍ اپریل ۲۰۱۰ء کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے ایران کے حالیہ انتخابات پر کڑی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ دنیا عنقریب ایران میں حقیقی جمہوریت کا دوبارہ عروج دیکھے گی۔ ایک ایسا عروج جس میں مذہب کا ریاستی معاملات میں کلیتاً دخل نہیں ہو گا اور یہ تبدیلی ایران کے اندر سے ہی نمودار ہوگی۔ یہی ان کی جلاوطن حکومت کا منشور بھی ہے، جسے پارلیمانی ملوکیت کا قیام کہا جاسکتا ہے۔ تین کتابوں کے مصنف جلاوطن بادشاہ محمد رضا پہلوی کی شہنشاہیت کا دائرہ کار فی الحال انٹرنیٹ، یوٹیوب، بلاگ اور فیس بک تک محدود ہے۔
جمہوریہ چیچن اشکیریا:
سابق سوویت یونین اور چیچن عوام کے درمیان تنازعات کی طویل تاریخ ہے۔ چیچنیا کو اگرچہ روسی فیڈریشن کی جانب سے داخلی خودمختاری حاصل تھی، لیکن ۱۹۹۱ء میں جب وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں تو اس دوران چیچنیا نے روسی فیڈریشن سے مکمل آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی اور ’’جمہوریہ چیچن اشکیریا‘‘ قائم کرنے کا اعلان کردیا، جو چیچن ریاست کی غیرتسلیم شدہ حکومت قرار پائی۔ اس حکومت کا اعلان حریت پسند راہنما ’’جوہر دودائیف‘‘ (Dzokhar Dudayev) نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ جوہر دودائیف نے سوویت یونین کی فضائیہ کے رکن کے طور پر جنگ افغانستان میں بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم انہوں نے ۱۹۹۰ء میں میجر جنرل کے عہدے پر پہنچ کر روسی فضائیہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے یونین سوویت سوشلسٹ ری پبلک (USSR) کے بالکل آخری ایام، یعنی ۱۹۹۱ء میں چیچنیا کے انتخابات میں فتح حاصل کی تھی جس کے بعد انہوں نے سوویت یونین سے ازخود علیحدگی اختیار کرنے اور جمہوریہ چیچن اشکیریا کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے اولین صدر بن گئے۔ اس عہدے پر وہ اپنے انتقال (۲۱؍ اپریل ۱۹۹۶ء) تک فائز رہے۔ مجوزہ جمہوریہ چیچن اشکیریا کا رقبہ ساڑھے پندرہ ہزار مربع کلومیٹر ہے اور اس کا محل وقوع روسی فیڈریشن کے جنوب مشرق میں قفقاز (کوہ قاف) کے پہاڑی علاقے میں ہے، جب کہ اس کے اطراف میں جارجیا، داغستان، شمالی اوسیتیا اور انگوشتیا کی ریاستیں واقع ہیں۔
مسلم ریاست کی جانب سے اعلانِ آزادی پر روسی فیڈریشن نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور موقع ملتے ہی حالات کی درستی کی آڑ میں چیچنیا میں فوجی دستے اتار دیے اور ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ روسی فیڈریشن کے اس اقدام کو چیچن حریت پسندوں نے رَد کر دیا اور مکمل خودمختاری کی تحریک شروع کر دی۔ تادم تحریر اس تحریک کے دوران دو طویل اور خونریز جنگیں ۱۹۹۴ء اور ۲۰۰۰ء میں لڑی جاچکی ہیں۔ تاہم جب ۲۰۰۰ء میں تیل اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالامال اس علاقے کے اہم ترین شہر ’’گروزنی‘‘ پر روسی فیڈریشن نے قبضہ کر لیا تو چیچنیا کی غیرتسلیم شدہ جمہوریہ اشکیریا کی حکومت نے جلاوطنی اختیار کرلی اور اس کے کئی اہم رہنما عرب ممالک، امریکا، روس اور پولینڈ میں روپوش ہوگئے۔ تاہم اس دوران روسی فیڈریشن کے خلاف مزاحمت جاری رہی۔ مزاحمتی تحریک کے دوران بالترتیب زیلم خان یاندریف، ارسلان مسخادوف اور شیخ عبدالحلیم جمہوریہ چیچن اشکیریا کے صدور کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ تیسرے صدر ارسلان مسخادوف (۲۰۰۵ء ۱۹۹۷ء)کے دورِ صدارت میں ۲۰۰۰ء میں جلاوطن حکومت قائم کی گئی تھی جس کا ابتدائی ہیڈکوارٹر کابل میں طالبان کے زیراثر علاقے میں تھا۔
جنگ سے تباہ حال جمہوریہ اشکیریا کی سیاست میں ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو اس وقت بھونچال آگیا جب ریاست کے پانچویں صدر ’’دوکاعمروف‘‘ (Dokka Umarov) نے ’’عظیم قفقاز (کوہ قاف) اَمارات‘‘ (Greater Caucasus Emirate) کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس امارات کا مقصد شمالی قفقاز کے تمام علاقوں کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ چنانچہ دوکا عمروف نے جمہوریہ اشکیریا کو مجوزہ ’’عظیم قفقاز امارات‘‘ (Greater Caucasus Emirate) کی ایک ولایت (صوبہ) قرار دے دیا اور خود اس مجوزہ امارات کے اولین امیر بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ’’خودمختار جمہوریہ چیچن اشکیریا‘‘ کی تحریک مزاحمت سے بھی دستبردار ہوگئے، مگر جمہوریہ چیچن اشکیریاکی جلاوطن حکومت کے جاں بازوں اور دیگر اہم رہنمائوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور ’’خود مختار جمہوریہ چیچن اشکیریا‘‘ کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دوکا عمروف کی جگہ جلاوطن حکومت کی باگ ڈور لندن میں مقیم زبردست صلاح کار ’’احمد زکایوف‘‘ (Ahmed Zakayev) کے ہاتھوں میں دے دی، جو پیشے کے لحاظ سے اداکار ہیں اور ماضی میں سابق صدر دوکاعمروف کی کابینہ میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ تاہم عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار جمہوریہ چیچن اشکیریا کی جلاوطن حکومت پر وزیراعظم احمد زکایوف کی گرفت اور اثر و رسوخ کو موثر قرار نہیں دیتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سابق صدر ’’دوکا عمروف‘‘ کے حامی انہیں محض ٹیلی فونی حکومت کا سربراہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم وسط ایشیائی ریاستوں میں یہ واحد جلاوطن حکومت ہے جو اسلامی تشخص کے ساتھ اپنی خود مختاری کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔۔۔ (جاری ہے!)
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کراچی۔ ۲۷؍جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply