
بنگلادیشی حکومت ملک کی سب سے بڑی اور منظم اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔بہت سے وزراء اور حکومت کی حمایت یافتہ بعض سیاسی تنظیمیں، جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھا رہی ہیں۔جماعت اسلامی اس وقت سخت دبائو میں ہے۔ اس کے تین راہنمائوں کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے اور کئی کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان کے علاوہ بھی جماعت کے متعدد راہنمائوں کے خلاف ۱۹۷۱ء کی جنگ میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں مقدمے زیرِ سماعت ہیں۔
اگر جماعت اسلامی کو ملکی سیاست سے باہر رکھا گیا یا پابندی لگائی گئی تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ جماعت کے جوشیلے اور باہمت نوجوان ،جن میں سے بیشتر کی عمریں ۴۵ سال سے کم ہیں،وہ زیر زمین چلے جائیں اور ملک کو غیر مستحکم کرنے والی تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہو جائیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں، الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کو الیکشن لڑنے کی اہلیت رکھنے والی تنظیموں کی فہرست سے نکال کر پہلے ہی اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے۔ اور اب اگر اس پر پابندی لگائی گئی تو جماعت کے پاس اپنی بقا کے لیے جوابی کارروائیوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ جماعت اسلامی کی با صلاحیت افرادی قوت کو دیکھ کر بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر ہلا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسر ابوالبرکات نے ۱۲ دسمبر ۲۰۱۵ء کو اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پسندوں سے تعلق رکھنے والے مالیاتی اداروں کا سالانہ منا فع برائے سال ۲۰۱۴ء تقریباً ۱۲۵۰ ملین سعودی ریال ہے۔گزشتہ چالیس سالوں میں ان اداروں نے پچاس ہزار ملین ریال کا منافع کمایا ہے۔
جماعت اسلامی، برصغیر کی قدیم جماعتوں میں سے ایک ہے اور اپنی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔جماعت اسلامی کا قیام ۱۹۴۱ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اسے ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔ اُس وقت بنگلادیش، پاکستان کا حصہ تھا۔ جماعت اسلامی نے تاریخ میں بہت سے اتار چڑھائو دیکھے ہیں اور ملکی سیاست میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ بنگلا دیش کی آزادی کی مخالفت اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ جبکہ بیگم خالدہ ضیا (بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی) کے ادوارِ حکومت میں اپنے وزراء کے ساتھ شامل رہنا اس کے لیے نہایت سودمند ثابت ہوا ہے۔ جماعت اسلامی، نہ صرف ملک میں، بلکہ بیرون ملک بھی اقتصادی اور سیاسی اثر ورسوخ رکھتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، بیرون ملک رہنے والے دس ملین بنگلا دیشیوں میں صرف سعودی عرب میں ۱۵؍لاکھ بنگلادیشی رہتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے بنگلادیشیوں کی بڑی تعداد، جماعت اسلامی کو ما لی اور اخلاقی مدد فراہم کرتی ہے۔ یہی بات بنگلادیشی حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔اس معاملہ پر ڈھاکا پہلے ہی بہت سے ممالک سے بات کر چکا ہے۔جیسا کہ حال ہی میں بنگلا دیشی حکو مت نے برطانوی حکومت کو مطلع کیا ہے کہ بہت سے برطانوی شہری، اسلام پسندوں کی معاونت کر رہے، جس سے انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا ہے۔
شیخ حسینہ کی حکومت نے جماعت اسلامی کو کام سے روکنے کے لیے، اس کے سیکڑوں کارکنوں کو پابندِ سلاسل کیا ہو ا ہے۔ اس جبر کا مقصد نہ صرف جماعت اسلامی کو ختم کرنا ہے، بلکہ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کو تنہا کر کے اپو زیشن کی قوت کو تقسیم کرنا بھی ہے۔ خیال یہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کا اگلا قدم، جماعت اسلامی پر پابندی ہو گا،جس کے نتیجے میں جماعت کے ہزاروں کارکن، خالدہ ضیا کی پارٹی (بی این پی) میں شامل ہو جائیں گے۔ اِس طرح بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی قوت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی کی مقامی افرادی قوت، بیرونِ ملک اس کی حمایت اور اقتصادی طاقت کو سامنے رکھا جائے تو بہتر یہی ہو گا کہ اس کا مقابلہ سیاسی میدان میں کیا جائے۔ جنگی جرائم کے مقدمات بالآخر ختم ہو جانے کے بعد، محسوس یہ ہوتا ہے کہ ۱۶۰؍ملین کی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک بنگلادیش میں، جماعت اسلامی اپنے اسلامی نظریات کی بنیاد پر ایک بڑی سیاسی قوت بن کر منظر عام پر آئے گی۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Banning Bangla Jamaat may backfire”. (“arabnews.com”. Dec.18, 2015)
Leave a Reply