ویتنام جنگ: ۴۰ سال بعد خطہ میں ’’امریکی آرڈر‘‘ کو خطرہ

اپریل اور مئی ۱۹۷۵ء میں انڈو چائنا میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایشیا اور پیسیفک میں ناقابلِ چیلنج امریکی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ کمبوڈیا خمیری گوریلا فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا، جنوبی ویتنام کو شمالی ویتنام نے اپنے اندر سمو لیا تھا اور لاؤس میں طاقت کمیونسٹوں کے پاس چلی گئی تھی۔ سائیگون (موجودہ ہو چن من سٹی) میں امریکی سفارت خانے کی چھت سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے عملے کے انخلا کی مقبولِ عام تصاویر دنیا میں قیامت خیز تبدیلی کو ظاہر کرتی تھیں۔ سپرپاور کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور وہ خستہ سامانی کی حالت میں اس خطہ سے پسپا ہو رہی تھی۔

البتہ آج چالیس سال بعد جب ویتنام اپنی یکجائی کی سالگرہ منا رہا ہے، پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ویتنام میں امریکی شکست اس کی طویل حکمرانی میں ایک وقتی زوال سے زائد دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے جب اس خطے میں امریکی سربراہی میں قائم نظام کی پائیداری پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ویتنام جنگ کے دوران پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے والے ایک امریکی صحافی جوناتھن شیلنے نے لکھا تھا کہ ’’جس شے نے امریکا کو ویتنام میں داخل ہونے اور اس جنگ کو پھیلانے پر مائل کیا، وہ جیت کے امکانات کے بارے میں بہت زیادہ خوش گمانی نہیں تھی، بلکہ ہار کی صورت میں نکلنے والے نتائج کے حد سے بڑھے ہوئے قنوطیت پسند تخمینے تھے‘‘۔ اس جنگ کے نتیجے میں نہ صرف دوسرے اہم ایشیائی ممالک کمیونسٹوں کے زیرِ تسلط آگئے بلکہ امریکی وقار اور ساکھ کا تباہ کن نقصان بھی ہوا۔ درحقیقت اس جنگ کے بعد کچھ وقت کے لیے امریکا عالمی پسپائی کا شکار نظر آتا تھا۔ اگلے سال منتخب ہونے والے امریکی صدر جمی کارٹر کے حصے میں وہ چار سال آئے جنہیں سنگاپور کے آنجہانی بانی لی کو آن یو نے یوں بیان کیا تھا: ’’امریکی بے قراری کے بارے میں سنجیدہ غور و فکر کے چار سال‘‘۔ ان چار سالوں کے دوران ایرانی انقلاب اور افغانستان میں روسی مداخلت نے امریکی وقار کو مزید زَک پہنچائی۔

تاہم جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ مسٹر کارٹر کے پیشرو، جیرالڈ فورڈ نے ۳؍اپریل ۱۹۷۵ء کو تقریر کرتے ہو ئے جب یہ کہا تھا کہ انڈو چائنا میں ہونے والے واقعات ’’افسوسناک تو ہیں، لیکن نہ تو یہ دنیا کے خاتمے کی نشانی ہیں اور نہ ہی دنیا میں امریکی حکمرانی کے خاتمے کی‘‘، تو وہ درست فرما رہے تھے۔ انڈو چائنا کے علاوہ کمیونزم ایشیا میں کہیں اور نہیں پھیلا اور اس وقت تک رچرڈ نکسن کے ۱۹۷۲ء میں چین کے دورے کے ساتھ ہی امریکا کا چین کی طرف جھکاؤ پیدا ہو چکا تھا۔ کسی حد تک یہ جھکاؤ ویتنام کے دلدل میں پھنسنے کا ردِعمل تھا۔ اس جھکاؤ کے تین سال بعد ۱۹۷۵ء میں جو ہزیمتیں امریکا کو اٹھانی پڑیں، اُس نے امریکا کے تزویراتی اثر کو دھیما کر دیا۔

سوویت یونین کے خلاف چین کے ساتھ ایک فی الواقع اتحاد نے ایشیا میں امریکی برتری کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ جنگ کے بعد خطے میں عظیم معاشی ترقی ہوئی۔ ویتنام جنگ میں امریکی شکست اب ناقابلِ تلافی نقصان دکھائی نہیں دیتی تھی۔ لی کو آن یو نے تو اسے قریب قریب ایک فتح قرار دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے بغیر جنوب مشرقی ایشیا کمیونسٹوں کے قبضے میں چلا گیا ہوتا۔ امریکی مداخلت نے خطے میں موجود ممالک کو پنپنے کا موقع دیا اور ۱۹۷۵ء تک وہ اس قابل ہوگئے کہ کمیونسٹوں کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکیں۔ آج ان ممالک کی ابھرتی ہوئی معیشتیں خوشحال مارکیٹ معیشتیں بن چکی ہیں۔ ان معیشتوں کی ابتدائی نشوونما ویتنام جنگ کے دوران ہی ہوئی تھی۔

نئی عالمی صف بندی سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا خود چین ہی تھا، جو ۱۹۷۹ء میں اپنی عظیم معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہ اسی لیے ممکن ہوا کہ پس منظر میں ناقابلِ چیلنج امریکی فرماں روائی کی بدولت ایک مستحکم خطہ موجود تھا۔ اس انتظام کی وجہ سے چین نے اتنا فائدہ اٹھایا ہے کہ کئی امریکیوں کو یہ باور کرنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ شاید چین اسے چیلنج کرنا اور تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ مگر تجزیہ نگاروں کی بڑی تعداد اب یقین رکھتی ہے کہ ایسا ہی ہے۔ یعنی چین کا ہدف ایشیا، پیسیفک اور آخرکار دنیا میں بطور حکمران طاقت امریکا کو پیچھے چھوڑ دینا ہے۔ اسٹریٹجک امور کے ایک آسٹریلوی قلم کار ہیووائٹ کا کہنا ہے کہ چین اپنے نئے راہنما شی جن پنگ کے ماتحت قطعی مختلف طریقے اختیار کر کے وہ کچھ حاصل کر رہا ہے، جو وہ ماؤزے تنگ کے زیرِ نگرانی حاصل کرنے میں ناکام رہا، یعنی دولت، طاقت اور اپنے ہی خطے میں ایک زور آور کردار۔

بیشتر امریکی اسٹریٹجک مفکرین حال تک بھی اس نقطۂ نظر کی طرف مائل رہے کہ چین کو موجودہ ورلڈ آرڈر میں سمویا جا سکتا ہے اور یہ کہ اگر وہ عظیم تر عزائم کی آبیاری کر بھی رہا ہے تو وہ فوجی اور معاشی لحاظ سے امریکا سے کہیں پیچھے ہے۔ مستقبل قریب میں وہ ان شعبوں میں امریکا کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا۔ امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایک نئی رپورٹ جو ماضی میں حکومت میں کام کرنے والے دو تجزیہ نگاروں ایشلے ٹیلس اور رابرٹ بلیک ول نے پیش کی ہے، چین کے ساتھ معاملات کرنے کے لیے ایک نئی ’’عظیم حکمتِ عملی‘‘ کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ اس حکمتِ عملی میں امریکی فوج کو مزید توانا کرنا اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ فوجی تعاون کو اور زیادہ فروغ دینا بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ ’’چین کو لبرل بین الاقوامی نظام میں ضم کرنے کی امریکی کوشش نے ایشیا میں امریکی فرماں روائی کے لیے نئے خطرات کھڑے کر دیے ہیں۔ بالٓاخر اس کوشش کا نتیجہ پوری دنیا میں امریکی طاقت کے لیے ایک حقیقی چیلنج کی صورت میں بر آمد ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور سابق امریکی حکومتی عہدیدار مائیکل پلز بری نے ایک کتاب شائع کی ہے جس کا عنوان ہے ’’سو سال کی میراتھون: عالمی سپر پاور کی حیثیت سے امریکا کی جگہ لینے کے لیے چین کی خفیہ حکمتِ عملی‘‘۔ یہ عنوان ہی اس کتاب کے مندرجات سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

امریکی انتظامیہ خود بھی چین کی جانب ایک سخت موقف اپناتی نظر آتی ہے۔ گو امریکا نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ ایشیا کی طرف اس کی مرکزی توجہ یا توازن قائم کرنے کی کوشش کا مقصد چین کو حدود میں رکھنا تھا۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس کوشش کا مقصد کم از کم یہ ضرور تھا کہ اپنے دوستوں اور خطے میں موجود اپنے اتحادیوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ امریکا ایک ابھرتے ہوئے چین کے لیے جگہ خالی کر کے خود خطے سے اسٹریٹجک پسپائی اختیار نہیں کر رہا۔ اب وہ چین کی مخالفت میں مزید کھل کر سامنے آرہا ہے۔ حال ہی میں اس نے اپنے اتحادیوں کو چین کی سربراہی میں قائم ترقیاتی بینک کو رَد کرنے کی طرف راغب کرنے کی ایک ناکام کوشش کی۔ اپنے مہم جویانہ تجارتی معاہدے ٹر انس پیسیفک پارٹنر شپ کے لیے حمایت اکٹھی کرنے کی غرض سے امریکا نے اس بات کو دلیل بنایا ہے کہ چین کو خطے کے اصول و ضوابط طے کرنے سے روکنے کے لیے یہ معاہدہ انتہائی اہم ہے۔

اپنے طور پر چین امریکا کو مستقل شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ امریکا اسے محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین یہ موقف پیش کرتا ہے کہ وہ معاہدے، جن کے تحت امریکا ایشیا کے ساتھ بندھا ہوا ہے، سرد جنگ کے زمانے کی یادگار ہیں اور اب انہیں تحلیل ہو جانا چاہیے۔ خاص طور پر جاپان کے ساتھ اس کا دفاعی معاہدہ۔ امریکا کے اتحادیوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا، نہ ہی کوئی اور ملک یہ چاہتا ہے کہ اسے امریکا کے ساتھ دفاعی تعلقات اور چین کے ساتھ روابط میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن اگر قنوطیت پسندوں کا خیال ٹھیک ہے تو ایک دن یہ ممالک اپنے آپ کو اسی دوراہے پر پائیں گے۔ جیسا کہ مسٹر وائٹ کا خیال ہے کہ ویتنام جنگ کا امریکی تجربہ ’’سیاست کے فن میں پائے جانے والے خطرات کی یونانی داستان ہے‘‘۔ امریکا نے ویتنام جنگ اس لیے لڑی تھی کہ چین کو ایک ایسا دائرۂ اثر بنانے سے روکا جائے جس میں امریکا کا دخل نہ ہو۔ لیکن اس جنگ نے ہی امریکا کو چین کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف دھکیل دیا۔ اس جنگ کے بعد سے امریکا چین کے عروج میں معاون ثابت ہوا ہے۔ چین کا یہ عروج اتنا متاثر کن رہا ہے کہ اب اس کی جانب سے دوبارہ ایک ایسے دائرہ اثر کے قیام کا خطرہ موجود ہے، جس میں امریکی عمل دخل نہ ہو۔

(مترجم: طاہرہ فردوس)

“Banyan: Forty years on”.
(“The Economist”. April 25, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.