
آں جہانی مسز اندرا گاندھی کے بعد سے بھارت کا کوئی بھی وزیراعظم اِتنا طاقتور نہیں رہا جتنے نریندر مودی ہیں۔ نریندر مودی کی کامیابی ایک ایسی انتخابی مہم کا نتیجہ ہے جس میں اُن کی شخصیت کو مرکزی حیثیت دی گئی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ پیچھے رہ گئی تھی۔ نریندر مودی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے لیے خاصا صدارتی انداز اختیار کیا ہے۔ کوئی کتنا ہی طاقتور ہو، تنہا تو حکومت نہیں چلا سکتا۔ نریندر مودی کو بھی دو افراد پر مکمل بھروسا ہے۔ ایک تو امیت شاہ ہے جس نے نریندر مودی کے لیے انتخابی کامیابی یقینی بنائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کا انچارج تھا اور اس پر بڑے پیمانے کی دھاندلیوں کے الزامات ہیں۔ دوسرے ارون جیٹلی ہیں جو امیت شاہ کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی اتھارتی سے پالیسیاں بناتے ہیں۔ ان دونوں کی مدد اور مشاورت کے بغیر نریندر مودی ایک قدم نہیں بڑھاتے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے معاملے میں مودی نے اب تک ارون جیٹلی پر بھروسا کیا ہے۔ امیت شاہ اور ارون جیٹلی ہی اس وقت مودی کو چلا رہے ہیں۔
امیت شاہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کا صدر ہے۔ ان کی آنکھوں سے پتا چلتا ہے کہ اُس کے ذہن میں کس نوعیت کی گندی سیاست پنپتی ہے۔ امیت شاہ نے تین عشروں تک نریندر مودی کے ساتھ کام کیا ہے۔ دونوں کا ساتھ گجرات کی ریاست میں رہا ہے جہاں نریندر مودی نے مسلسل تین انتخابات جیت کر بارہ سال تک وزیراعلیٰ کی حیثیت سے راج کیا۔ امیت شاہ کے پاس گجرات میں داخلہ سمیت دس وزارتوں کا چارج تھا۔
دہلی میں جس نوعیت کی سیاست چلتی ہے، اُس سے امیت شاہ زیادہ واقف نہیں۔ وہ انگریزی بولنے کے معاملے میں کمزور ہے اور کبھی کبھار ہی انٹرویو دیتا ہے۔ حال ہی میں منعقدہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہریانہ اور مہا راشٹر کی اسمبلیوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اُس نے میڈیا سے کچھ بات کرنا گوارا کیا۔ امیت شاہ کا بیشتر وقت نریندر مودی کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ وہ خود بھی کہتا ہے کہ کبھی کبھی انسان کو محنت سے کہیں زیادہ کریڈٹ مل جاتا ہے۔ امیت شاہ نے مرکز میں بی جے پی کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اترپردیش آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ وہاں بی جے پی کو ملنے والی کامیابی سے مرکز میں حکومت بنانے میں مدد ملی۔ اترپردیش میں بھی بی جے پی کی انتخابی مہم بھرپور انداز سے چلانے میں امیت شاہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی میں ووٹروں کو متحرک کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی تقریروں کے ذریعے لوگوں میں جوش و جذبہ بھر دیتے ہیں مگر امیت شاہ کا کمال یہ ہے کہ وہ اِس جوش و جذبے کو بھرپور ووٹ پاور میں تبدیل کرتا ہے۔ نریندر مودی نے کئی مواقع پر لوگوں میں جو تحرک پیدا کیا، اُسے ووٹ بینک مستحکم کرنے کے لیے امیت شاہ نے عمدگی سے استعمال کیا۔ بھارت میں انتخابی کامیابی کے لیے بھرپور اسٹیمنا اور زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ یہ بہت پیچیدہ عمل ہے۔ کئی عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ کا تین عشروں کا ساتھ ہے، اس لیے وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے بہت سے مواقع پر صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیابی محض اس لیے حاصل کی کہ انہیں معلوم تھا کہ کامیابی کس طور مل سکے گی۔ دونوں ایک زمانے تک انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رکن رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ انتخابی کامیابی کے لیے کن لوگوں کو کس طور استعمال کرنا ہے۔ بھارت میں انتخابی حلقے بہت وسیع ہوتے ہیں۔ ایک ایک حلقے میں لاکھوں ووٹروں ہوتے ہیں اور حلقے کا رقبہ بھی خاصا وسیع ہوتا ہے۔ مودی اور امیت شاہ نے انتخابی کامیابی کے لیے آر ایس ایس کے رضاکاروں کو بھی عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ مودی کا تعلق نچلی ذات اور غریب طبقے سے ہے۔ انہوں نے مُلک کو بہتر معاشی امکانات کی راہ دکھائی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ کٹّر ہندو کی حیثیت سے بھی اُبھرے ہیں۔ ریاستی اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے ۳۸ ریلیوں کا اہتمام کیا جبکہ کانگریس صرف ۱۰؍ریلیاں کر پائی۔ امیت شاہ نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اُس نے اتر پردیش کے جاٹ ہندوؤں سے کہا کہ وہ ۲۰۱۳ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے ہاتھ پہنچنے والے نقصان کا بدلہ لینے کے لیے بی جے پی کو ووٹ دیں۔
امیت شاہ پر مجرمانہ افعال کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ چار سال قبل اُس پر ایک مخالف کی بیوی کو اغوا کرنے اور ایک عینی شاہد کو قتل کرنے کے علاوہ بہت سے مخالفین پر تشدد کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اس حوالے سے اب بھی عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں۔ امیت شاہ اپنے باس یعنی نریندر مودی کو ہر اعتبار سے فائدہ پہنچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اُس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح مودی کے مخالفین کو کچل کر رکھ دے۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اگر کسی کی تضحیک و تذلیل کا مرحلہ بھی آجائے تو وہ ایسا کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ دیکھا گیا ہے کہ امیت شاہ نریندر مودی کو فائدہ پہنچانے کے چکر میں دوسروں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا۔
نئی دہلی کے سیاسی حلقوں میں امیت شاہ کو ایڈجسٹ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس معاملے میں نریندر مودی نے ارون جیٹلی پر بھروسا کرنا شروع کردیا ہے۔ ارون جیٹلی کے پاس خزانہ، دفاع اور کارپوریٹ افیئرز کی وزارتوں کا چارج ہے۔ اُن کا شمار مودی کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ارون جیٹلی کو دہلی کے سیاسی حلقوں سے ڈیل کرنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ اِسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ ارون جیٹلی کسی بھی سیاسی حلقے سے بہتر طور پر نمٹنا جانتے ہیں اور اخبارات کے ایڈیٹرز اور دیگر سینئر صحافیوں سے کسی بھی موضوع پر گرما گرم بحث کرسکتے ہیں۔ ارون جیٹلی انتخابی سیاست کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ ارون جیٹلی بی جے پی کے بھرپور کامیابی کے دور میں بھی امرتسر سے کامیاب نہ ہوسکے۔
ارون جیٹلی حال ہی میں آپریشن کے بعد گھر لَوٹے ہیں۔ اُنہیں دوبارہ تیزی سے تازہ دم ہونا ہے کیونکہ نریندر مودی کی کابینہ میں اُن سے زیادہ بوجھ کسی کے کاندھوں پر نہیں۔ وہ تین اہم وزارتوں کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔ اُنہیں تمام اہم فیصلوں میں شریک کیا جاتا ہے۔ وہ اہم ترین معاشی فیصلوں کا مرکزی کردار ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے محنت سے متعلق قوانین میں نرمی کر کے لیبر انسپکٹرز کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈیزل کے نرخ مارکیٹ فورسز ہی طے کریں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گھریلو استعمال کی گیس پر دی جانے والی سبسڈی کی اوور ہالنگ بھی چاہتے ہیں تاکہ اس کا غلط استعمال روکا جاسکے۔
ارون جیٹلی جو کچھ چاہتے ہیں وہ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ ان کے پاس وقت ویسے بھی کم رہ گیا ہے۔ مارچ میں اُنہیں فل بجٹ پیش کرنا ہے۔ تب تک معاشی فیصلوں کے بہتر نتائج سامنے آجانے چاہئیں، ورنہ لوگ مایوسی کا شکار ہوں گے۔ ارون جیٹلی چاہتے ہیں کہ چند نئے ٹیکس نافذ کیے جائیں تاکہ ملک میں مقامی طور پر محفوظ بنائی جانے والی منڈیوں کے بجائے ایک ملک گیر مارکیٹ معرض وجود میں آئے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ بیشتر ریاستیں ایسے اقدامات کی مخالفت کریں گی۔
“Banyan: The enablers”.
(“The Economist”. Oct. 25, 2014)
Leave a Reply