’’عراق مشن‘‘ ختم ہوا؟

ڈیموکریٹک پارٹی نے عراق جنگ کی مخالفت کے ذریعے امریکی ووٹروں کی توجہ حاصل کی تھی۔ بارک اوباما کو اندازہ تھا کہ عراق جنگ نے امریکیوں کو نفسیاتی خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے اور ایسے میں اس جنگ کی شدید مخالفت کرکے ہی ان کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران عراق جنگ کے خلاف بڑھ چڑھ کر خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ووٹروں کو یاد دلایا کہ وہ ابتدا ہی سے اس جنگ کے خلاف تھے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارت کے منصب کے لیے امیدواری کی امیدوار (اور موجودہ وزیر خارجہ) ہلیری کلنٹن نے عراق جنگ کی مخالفت میں کچھ زیادہ بولنے سے گریز کیا جس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا۔ اوباما نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ عراق سے بیشتر امریکی فوجیوں کو ۱۶ ماہ میں واپس بلالیں گے۔ دوسری جانب ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان میکین نے بڑھک ماری کہ عراق میں امریکی فوجی ۱۰۰ سال تک رہیں گے۔ یہ بات اوباما کے حق میں گئی۔ امریکیوں کی اکثریت عراق جنگ سے تنگ تھی۔ اس جنگ کی طوالت اور اسے برتنے کے صدر جارج واکر بش کے طریق کار سے بھی لوگ نالاں تھے۔ بیشتر امریکی چاہتے تھے کہ عراق میں جاری جنگ کی بساط لپیٹ دی جائے۔ اب یہ جنگ بظاہر ختم ہوگئی ہے۔ بارک اوباما نے اپنا وعدہ محض تین ماہ کی تاخیر سے پورا کردیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکیوں نے عراق میں جنگ ختم کیے جانے کے اعلان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اب ان باتوں سے کچھ خاص غرض نہیں رہی۔

صدر اوباما نے اپنے پیشرو کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا ہے۔ صدر بش نے فلائنگ سوٹ میں ملبوس ہوکر اعلان کیا تھا کہ عراق میں جنگ کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ تب ہی عراق میں امریکی فوجیوں کو خون میں نہلانے کا عمل شروع ہو رہا تھا۔ بارک اوباما نے کوئی بھی دعویٰ کرنے کے معاملے میں قدرے احتیاط سے کام لیا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ عراق میں دہشت گردوں پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عراق میں خود کش حملے ہوتے رہیں گے، لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔

امریکا نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ عراق میں جنگ ختم ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عراق سے امریکی افواج کا جزوی انخلا ہوا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد امریکی فوجی عراق میں تعینات ہی رہیں گے۔ یہ فوجی عراقی فوج کو تربیت دیں گے، مشوروں سے نوازیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فوجی کسی بھی قسم کی لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے؟ ایسا نہیں ہے۔ خود امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ عراق میں آئندہ سال کے آخر تک تعینات امریکی فوجی ’’ٹارگیٹیڈ کاؤنٹر ٹیرر ازم مشن‘‘ میں ضرور حصہ لیتے رہیں گے۔ آپریشن عراقی فریڈم کو اب آپریشن نیو ڈان کا نام دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام کی تبدیلی ہے۔ سینٹر فار امریکن پروگریس کین گیوڈ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت جو کچھ کہہ رہی ہے وہ در حقیقت ہوا نہیں ہے۔ عراق میں مشن کی بساط لپیٹی نہیں جاسکی ہے۔

عراق میں کومبیٹ مشن یعنی باضابطہ لڑائی ختم کرنے کا اعلان کرکے بارک اوباما نے امریکیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ایک مشکل یہ ہے کہ عراق سے فوجی نکال کر افغانستان بھیجے جارہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی افواج کو جنگ چھیڑے ہوئے نو سال ہونے والے ہیں۔ اب بیشتر امریکی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس جنگ سے امریکا کو کیا ملا ہے۔ اب تک واضح نہیں ہوسکا کہ امریکا نے یہ جنگ کیوں مسلط کی تھی۔ اس نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر القاعدہ اور طالبان کو مٹانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر اب تک مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوسکی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان ایک بار پھر نہایت مستحکم ہوکر ابھرے ہیں۔ طالبان کے امیر ملا عمر نے تو اعلان بھی کیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے رخصت ہونے پر افغانستان میں دوبارہ اسلامی حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں امریکا کس حد تک کامیاب ہوسکا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ عراق میں جنگ چھیڑنا غلطی تھی جبکہ افغانستان میں امریکا ذہانت سے لڑ رہا ہے۔ موو آن ڈاٹ او آر جی کے جسٹن روون کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے لیے تو افغانستان اور عراق دونوں ہی دلدل ثابت ہوئے ہیں۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دونوں ممالک میں امریکا نے جنگ چھیڑ کر سنگین غلطی کی۔

امریکی صدر نے عراق سے انخلا ۲۰۱۱ء تک مکمل کرنے اور جولائی ۲۰۱۱ء سے افغانستان سے انخلا شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان بھی کئی اعتبار سے متنازع ثابت ہوا ہے۔ امریکا میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے اداروں کا کہنا ہے کہ عراق کے حوالے سے صدر اوباما امریکی عوام کو زیادہ متاثر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے لوگ ری پبلکن پارٹی کی بات سننے کے لیے زیادہ تیار ہیں۔ راسموسن رپورٹ میں بتایا ہے کہ نومبر میں ہونے والی وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ اگر بارک اوباما وعدے کے مطابق عراق سے انخلا مکمل کرنے میں ناکام رہے تو ان کی اگلی صدارتی انتخابی مہم خطرے میں پڑ جائے گی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر اوباما کو اس بات کی بظاہر زیادہ پروا نہیں کہ امریکی عوام عراق یا افغانستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں! ان کا کہنا ہے کہ اب امریکیوں کی اکثریت معیشت کے بارے میں فکر مند رہنے لگی ہے۔ اس وقت صرف ۴۰ فیصد امریکی عراق یا افغانستان کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کر رہے ہیں۔ معیشت کے بارے میں فکر مند رہنے والے امریکیوں کی تعداد ۸۵ فیصد سے زیادہ ہے۔ گزشتہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران ۵۸ فیصد امریکیوں نے بتایا تھا کہ ان کے لیے عراق میں جاری جنگ بہت اہم ہے۔ صدر بارک اوباما بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اب امریکیوں کو اس بات سے زیادہ غرض ہے کہ معیشت کس حال میں ہے کیونکہ اس سے ان کا براہ راست تعلق ہے اور مفاد وابستہ ہے۔ صدر چاہتے ہیں کہ روزگار کے نئے اور بہتر مواقع پیدا کرکے لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ایک عام امریکی صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی ملازمت سلامت رہے اور اسے اپنی کمائی ہوئی رقم کا بہترین نعم البدل ملے۔ امریکی صدر نے اسی لیے عراق جنگ کے خاتمے سے متعلق تقریر میں معیشت کو بہتر بنانے پر بھی خاصا زور دیا۔ انہوں نے چند خصوصی منصوبوں کا بھی اعلان کیا تاکہ روزگار کے بہتر مواقع پیدا ہوں۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۱۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*