شام کے صدر بشار الاسد فی الحال ایسی کمزور پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے کہ مستعفی ہونا پڑے۔ مشرق وسطیٰ کے اخبارات اس سوال اور اس کے گرد گھومنے والے تجزیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ بشارالاسد کے لیے ’’بن غازی لمحہ‘‘ آچکا ہے یا نہیں۔ لندن، پیرس اور واشنگٹن میں رپورٹس تحریر کی جارہی ہیں مگر خطے میں کم ہی لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طاقت کے یہ تینوں مراکز صورت حال کے بارے میں کس قدر غلط اندازہ قائم کرسکتے ہیں!
مصر کسی بھی طور تیونس نہیں تھا۔ لیبیا نہیں تھا۔
بحرین کسی اعتبار سے مصر نہیں تھا۔ یمن کو کسی بھی مرحلے پر بحرین قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ لیبیا کسی زاویے سے یمن نہیں تھا اور شام یقیناً لیبیا نہیں تھا۔
یہ دیکھنا کسی بھی طرح مشکل نہیں کہ مغرب میں اس کے برعکس معاملات کس طور ابھرتے اور اجاگر ہوتے ہیں۔ حمص اور شام کے دیگر شہروں میں قتل عام جاری ہے۔ فیس بک پر بھیانک، دل دہلا دینے والی تصاویر اور فوٹیجز موجود ہیں۔ منحرف شامی فوجیوں کے گروپ فری سیرین آرمی کے بیانات سے بہت کچھ واضح ہوتا ہے۔ پھر بھی امریکا اور روس خاموش تماشائی ہیں۔ یہ تو وہی کچھ ہے جو اسرائیل نے غزہ میں کیا تھا اور ۱۳۰۰ افراد کے بہیمانہ اور بے دردانہ قتل پر امریکا نے چپ سادھ لی تھی۔ سفارت کاری کے میدان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ روس کو شام میں ہزاروں افراد کے قتل پر رنج کیوں ہو؟ کیا انہیں چیچنیا میں ہزاروں ہلاکتوں پر رنج ہوا تھا؟
اب ذرا دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ شام کے خفیہ اداروں نے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ مگر یہی خلاف ورزیاں انہوں نے لبنان میں بھی تو کی تھیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام میں کوئی منتخب حکومت نہیں بلکہ عوام پر ایک مخصوص نظام حکومت کو مسلط کردیا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شام میں کرپشن غیر معمولی سطح پر ہے۔ ہم نے شام کے معاملے میں اقوام متحدہ کو ناکامی سے دوچار ہوتے ہوئے بھی دیکھ لیا۔ روس چاہتا تھا کہ لیبیا میں کوئی ایسی تبدیلی نہ آئے جو اس کے مفادات کے خلاف ہو۔ اس نے نو فلائی زون قائم کروایا۔ مگر اس نو فلائی زون کو حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے والے اقدام میں تبدیل کردیا گیا۔ ایسے میں روس کے حکمراں شام کے حوالے سے مغرب کا ساتھ کیوں دیں گے؟
شام میں در حقیقت ایک شیعہ حکومت قائم ہے۔ اس حکومت کا خاتمہ ایران کی روح میں تلوار گھونپنے کے مترادف ہوگا۔ اب ذرا دمشق کے صدارتی محل کی وسیع کھڑکیوں سے مشرق وسطیٰ پر ایک نظر ڈالیے۔ خلیج کا پورا خطہ شام کا مخالف ہوچکا ہے۔ ترکی بھی شام کے خلاف ہے گوکہ اس نے بشارالاسد کو جلاوطنی کی پیشکش بھی کر رکھی ہے۔
ذرا مشرق کی طرف دیکھیے۔ ایران اب تک شام کے ساتھ ہے۔ اور خطے میں ایران کا نیا بہترین دوست عراق بھی شام پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ مغرب میں لبنان اگرچہ شام کا زیادہ وفادار نہیں مگر پابندیوں کے حق میں وہ بھی نہیں۔ افغانستان سے بحیرہ روم تک کئی ممالک اور ان کے اتحاد ایسے ہیں جو نہیں چاہیں گے کہ بشار الاسد کی حکومت اس طور ختم ہو کہ شام میں سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہو۔ کوئی بھی اس ملک کو معاشی اعتبار سے ناکارہ بنانے کے موڈ میں نہیں۔
مغربی دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ایران، عراق اور لبنان کے بارے میں تھنک ٹینکس نے ایسی رپورٹس دی ہیں اور ایسی کہانیاں سنائی ہیں کہ ان کے لیے یہ تسلیم کرنا اب نہایت دشوار ہوگیا ہے کہ بشار الاسد تنہا نہیں ہیں۔ یہ الفاظ بشار الاسد کی حمایت میں نہیں اور نہ ان کی حکومت کو برقرار رکھنے میں معاونت کی خاطر ہیں۔ مگر حقیقت یہی ہے۔
ترکی نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی طرح باتیں تو بہت کیں مگر شمالی شام میں کوئی ایسا اقدام نہ کیا جس سے قتل عام روکا جاسکتا۔ یہی حال اردن کے شاہ عبداللہ کا بھی تھا۔ انہوں نے جنوبی شام میں کوئی بھی اقدام نہ کیا۔ بڑی بڑی باتیں کرنے والوں نے کچھ نہیں کیا۔ میں بڑے دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ صرف اسرائیل خاموش رہا ہے۔ شام کے معاملات ایران، عراق اور لبنان کے ساتھ اچھے چل رہے ہیں۔ وہ اپنے بیشتر معاملات میں خسارے کے سودے سے بچنے میں کامیاب ہے۔ ایران اور عراق میں شیعہ حکومت ہے۔ لبنان میں شیعہ سب سے بڑی کمیونٹی ہیں اور شام میں بھی شیعہ فرقہ حکومت کر رہا ہے۔ یہ سب مل کر بشارالاسد کی حمایت ہی کریں گے۔ معمر قذافی کا زوال اس لیے ممکن ہوا کہ ملک میں بھی ان کے دشمن تھے اور نیٹو نے بھی ان کے خلاف مورچہ لگایا۔ بشارالاسد کے دشمن تو اندرون ملک ہیں اور ان کے پاس کلاشنکوف بھی ہیں مگر نیٹو ان کی مخالف نہیں۔ دمشق اور حلب میں بشارالاسد کی پوزیشن اچھی ہے۔ فوج کے بہترین اور نمایاں یونٹس نے اب تک بغاوت کے بارے میں نہیں سوچا۔
جہاں تک لیبیا کا معاملہ ہے، ’’اچھے‘‘ لوگوں میں کچھ ’’برے‘‘ لوگ بھی تھے۔ یہ بات سب بھول گئے تھے۔ اس وقت بھی یہ بات یاد نہ آئی جب چند ’’اچھے‘‘ لوگوں نے فوج سے بغاوت کرنے والے کمانڈر کو قتل کیا اور قیدیوں کو تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ لیبیا کے معاملے میں برطانوی فوج نے مداخلت کی مگر شام کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکے گا کیونکہ روسی بحریہ خطے میں موجود ہے۔
(بشکریہ: ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ لندن۔ ۷ فروری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply