الکتاب ’’قرآن‘‘ عام کتابوں کی طرح ایک کتاب نہیں ہے کہ اس کا کوئی عنوان ہو‘ پھر ابواب اور فصلوں کی تقسیم کے ذریعہ ہر مسئلہ پر بحث کی گئی ہو۔
قرآن:
یہ اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے۔ اِس کی تصنیف دنیا کی ساری کتابوں سے مختلف طرز پر ہوئی ہے۔ زندگی کو ڈھالنے کی تدریجی ترکیب اس میں ملتی ہے۔ اس کتاب کی اصل اس کے نقطۂ آغاز سے وہی ہے جو پروردگارِ عالم نے اور اِس کے پیش کرنے والے (رسول اکرم حضرت محمدﷺ) نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے:
۱۔ اﷲ رب العالمین ساری کائنات کا خالق‘ مالک‘ حاکم اور فرمان روا ہے۔
۲۔ اُسی نے اپنی بے پایاں مملکت کے اس حصے میں جسے زمین کہتے ہیں‘ انسان کو پیدا کیا ہے۔
۳۔ اُس نے انسان کو جاننے‘ سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں عطا کی ہیں۔ بھلائی اور برائی کی تمیز دی ہے۔ انتخاب و ارادے کی آزادی بخشی ہے۔ تصرف کے اختیارات سے نوازا ہے اور ایک خاص دائرے میں خودمختاری (Autonomy) دے کر اُسے زمین میں اپنا خلیفہ (نائب) بنایا ہے۔
۴۔ دنیا میں انسان کو ’’خلیفہ‘‘ کے منصب پر فائز کرتے ہوئے اس نے اُسے تاکید کر دی تھی کہ یہ دارالامتحان ہے۔ حقیقی کامیابی و ناکامی اور حتمی جزا و سزا کا فیصلہ اچھے اور برے اعمال کی بنیاد پر آخرت میں ہو گا۔
۵۔ اپنی محدود خودمختاری کو انسان محدود سمجھے۔ کُلّی خودمختار سمجھ کر خود کو اعمالِ بد پر لاجواب نہ سمجھ بیٹھے۔
۶۔ انسان کو منصبِ خلافت پر فائز کرنے کے بعد اس کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ایک طویل سلسلہ منتخب نمائندوں (انبیاء) کے ذریعہ ہزار ہا برس تک جاری رکھا گیا۔
۷۔ بالآخر حضرت محمدﷺ کو اس کام کے لیے آخری نبی و رسول کے طور پر قیامت تک کے لیے بھیجا گیا۔
۸۔ اِسی سلسلۂ دعوت و ہدایت کی آخری کتاب یہ قرآن کریم ہے۔
درج بالا نکات کی مدد سے قرآن کی اصل معلوم ہو جانے کے بعد یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے‘ اس کا مرکزی مضمون کیا ہے اور اس کا مدعا کیا ہے۔
قرآن کا موضوع:
’’انسان‘‘ اِس کا موضوع ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کو زندگی کس طرح گزارنی چاہیے اور یہ کہ اس کا حقیقی فائدہ اور نقصان کس چیز میں ہے۔
قرآن کا مرکزی مضمون:
ظاہری حالات‘ قیاس آرائیوں یا خواہشات کی غلامی کے سبب انسان نے اپنی دینوی زندگی کے لیے جو نظریات قائم کر رکھے ہیں‘ وہ حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے تباہ کن ہیں۔ انسان کے لیے خداوند تعالیٰ کی عطا کردہ ذمہ داری اور اس کی بجا آوری کے لیے اس کا دیا ہوا ہدایت نامہ ہی اصل حقیقت ہے۔ یعنی بندگیٔ ربّ اور کارِ خلافتِ الٰہی کی انجام دہی۔
قرآن کا مدعا:
انسان کو صحیح نقطۂ نظر اور رویہ کی طرف دعوت دینا اور اﷲ کی ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے۔
قرآن کے درجِ بالا ان تین بنیادی اُمور کو اگر قاری ذہن میں رکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب انہی بنیادی امور پر مبنی ہے اور اِن سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔
قرآن کا طرزِ بیان:
o یہ تحریری نہیں‘ بلکہ تقریری انداز لیے ہوئے ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم وحی وصول کرنے کے بعد بطور خطبہ وہ حصۂ قرآن سنایا اور پھر سمجھایا کرتے تھے۔
o خدا نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ پیغمبر بھی مبعوث فرمایا۔ لہٰذا تشریح و تعبیر اور عمل کی شکلیں حضرت محمدﷺ کی ہی چلیں گی۔
o صرف ہدایت و رہنمائی ہی پیش نظر نہ تھی‘ بلکہ عملاً اِس کو زندگی کا حصہ بنانا اور اس کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کرنا بھی مطلوب تھا۔
o یہ کتاب صرف صحیح معلومات ہی نہیں فراہم کرتی ہے‘ بلکہ اپنی ایک دعوت اور تحریک بھی اٹھاتی ہے۔
o یہ کتاب ہماری رہنمائی کے لیے ایک طرف اﷲ کے پسندیدہ اور ’’مطلوب انسان‘‘ کے اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور ’’نامطلوب انسان‘‘ کے اوصاف کھول کھول کر اور مربوط انداز میں بیان کرتی ہے۔
o قرآن میں مضامین کی تکرار دراصل دعوت کی ایک ایک منزل کو مستحکم کرنے اور بندوں کی تذکیر کے لیے ہے۔
اس کتاب نے نزول کے ساتھ ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو خاموشی کی زندگی سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔ اب بھی اِس کی پکار یہی ہے کہ:
’’ہے کوئی جو اسے جاننے‘ سوچنے‘ سمجھنے‘ عمل کرنے اور اِس کی دعوت کو پھیلانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو‘‘۔
(ماخوذ از مقدمہ ’’تفہیم القرآن‘‘)
Leave a Reply