لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد لبنان کی صورتحال ایک مرتبہ پھر ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والی صورتحال کی جانب واپس ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ لبنانی دارالحکومت بیروت اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہو کر جدید تاریخ کے اس دور میں بے شمار تازیانے کھا چکا ہے۔ امریکی دھمکی کے بعد لبنان سے شامی فوجوں کے اچانک انخلا کے فیصلے نے وقتی طور پر شرق الاوسط کے اس علاقے کو بڑی تباہی سے بچا لیا لیکن اس کے ساتھ ہی بیروت میں بین الاقوامی ایجنسیوں کا دور ایک مرتبہ پھر بھرپور طریقے سے لوٹتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔
بیروت ایک ایسا عرب دارالحکومت ہے جو زیرِ زمین دنیا کا شرق الاوسط مرکز بھی کہا جاتا ہے‘ یہ عرب دارالحکومت ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔ کہنے کو تو یہ خانہ جنگی تھی مگر اس خانہ جنگی میں دنیا بھر کی خفیہ قوتیں اپنے اپنے مفاد کی ظاہری اور باطنی جنگ میں مصروف تھیں۔ ان بہت سی قباحتوں کے ساتھ بیروت کو آزادی صحافت کا مرکز بھی کہا جاسکتا ہے‘ شرق الاوسط کے دیگر حصوں کی نسبت یہاں کی مقامی صحافت زیادہ آزاد اور متحرک رہی ہے‘ جس کی وجہ سے خانہ جنگی کے دوران سننے والی بعض آمرانہ انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ اس عرب دارالحکومت کو آمرانہ انتظامیہ‘ لابیوں‘ خفیہ ایجنسیوں اور پے در پے انقلابات کا گہوارہ تسلیم کیا گیا۔ تاریخی حوالے سے دیکھیں تو اسے دیگر عرب دارالحکومتوں کی نسبت خارجی حملوں کے مقابلے میں زیادہ سخت شہر کہیں گے۔ اس بیروت میں شام اور مصر کی عرب فیڈریشن کے لیے کام کیا گیا۔ سی آئی اے کے لیے بیروت میں ۲۱ سال تک خدمات انجام دینے والے امریکی رابرٹ پیئر کے مطابق امریکا نے بیروت کی مختلف تحریکوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ڈالروں سے بھرے بیگ ارسال کیے۔ رابرٹ پیئر بیروت میں ایک ’’نیوز چینل‘‘ کے نامہ نگار کے کور میں کام کرتا رہا ہے۔
اس وقت عرب صحافت سے سوال کیا جارہا ہے کہ لبنان اور وادی بقاع سے شامی فوج کے انخلا کے بعد کیا بیروت ایک مرتبہ پھر علاقائی اور بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کا مرکز بن گیا ہے؟ شامی افواج گذشتہ پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصے تک لبنان میں رہی ہیں مگر جو ڈرامائی تبدیلی موجودہ صورتحال کے تناظر میں سامنے آئی ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں یہی کہا جارہا ہے کہ شامی فوج کے علاقے سے نکل جانے کے بعد عالمی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے میدان ایک مرتبہ پھر صاف ہو چکا ہے۔ اس بات کا جواب عرب صحافتی ذرائع اس طرح بھی دیتے ہیں کہ بین الاقوامی اور علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار لبنان میں کبھی معطل نہیں رہا ہے‘ بلکہ اسے کسی حد تک شامی موجودگی کی وجہ سے محدود کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ شام نے لبنان میں قوت کے ساتھ سکیورٹی امور سنبھالے تھے اور اس مقصد کے لیے اسے لبنانی انتظامیہ اور عوام کی حمایت حاصل تھی‘ اس لیے یہ کردار کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔ بین الاقوامی ایجنسیوں کے ارکان صحافیوں‘ کاروباری اشخاص اور مختلف نیوز چینلوں کے نمائندوں کے بھیس میں لبنان کے طول و عرض میں سرگرم رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا نام لیا جاتا ہے جو بیروت سے لے کر جنوبی لبنان تک اپنا وسیع نیٹ ورک رکھتی ہے۔
شرق الاوسط کے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل میں غفلت برتنے پر سو فیصد بری قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان سکیورٹی ایجنسیوں میں بھی خارجی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان کی موجودگی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک بڑے مغربی ملک میں تعینات سابق لبنانی سفیر کا بیان ہے کہ ’’بیروت کبھی خارجی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان سے خالی نہیں رہا بلکہ مغربی سفارت خانوں کے ذریعے انہیں بیروت میں منظم انداز میں سرگرم کیا گیا ہے۔ ان مغربی ممالک میں امریکا‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی اور روس سرفہرست ہیں۔ ان مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ارکان سفارتی پاسپورٹوں پر دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے افراد اپنا اصل نام استعمال نہیں کرتے۔ اس کی جگہ وہ فرضی نام دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ لبنان کے سابق سفارت کار کے مطابق دنیا میں قائم سفارت خانے اصل میں اپنے اپنے ملکوں کی خفیہ ایجنٹوں کو مطلوبہ مقامات تک پہنچانے کے لیے تمام ترسفارتی ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ان خفیہ ایجنٹوں کی وجہ سے بسا اوقات دو ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ لبنان سے شامی فوجوں کے انخلاء کے بعد عرب امور کے ماہرین کے نزدیک بیروت میں شامی انٹیلی جنس کا کام مزید بڑھ گیا ہے‘ جس کی وجہ سے اسے پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اسے اس وقت لبنان سے عسکری دیس نکالا کے بعد سب سے زیادہ اسرائیلی موساد کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جو پہلے ہی لبنان کے حساس ترین مقامات پر اپنے پیر جمائے ہوئے ہے۔ شامی افواج کے انخلا کے بعد ایک اور سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا خلیجی جنگ سے پہلے کی صورتحال بیروت میں دوبارہ پیش تو نہیں آئے گی؟ اس سلسلے میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بیروت کی جنگ سے پہلے پوزیشن زیادہ مضبوط نہیں تھی۔ اس کے علاوہ سرد جنگ کے زمانے میں بھی بیروت مختلف طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا بڑا سبب بنا رہا ہے‘ مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اب چونکہ امریکا ایک بڑی طاقت کے طور پر دنیا میں اپنی من مانی کر رہا ہے‘ اس لیے بیروت کا اس انداز میں تختۂ مشق بننا اب دوبارہ ممکن نہیں رہا‘ کیونکہ سوویت یونین کی موجودگی میں سوویت نواز عرب ممالک بھی اس رسہ کشی میں پوری طرح ملوث ہوتے تھے۔ لبنانی پارلیمانی رکن ولید عیدو کے مطابق بیروت میں ایجنسیوں کا کھیل اسی وقت شروع ہو چکا تھا جس وقت شامی صدر بشر الاسد نے اچانک لبنان سے عسکری انخلا کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد نمبر۱۵۵۹ کی منظوری کے بعد کہ جس میں شام سے لبنان میں اپنا عسکری وجود ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا‘ بین الاقوامی ایجنسیاں حرکت میں آچکی تھیں‘ مگر عالمی رائے عامہ کو اس بات کا قطعی امکان نظر نہیں آتا تھا کہ شامی فوج کو اس انداز میں لبنان سے انخلا کا حکم دیا جائے گا۔
کیونکہ لبنان میں شام کے مخالفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو لبنان میں شام کے عسکری وجود کو پسند کرتی ہے اور اس بڑے حلقے نے شامی فوج کے انخلا کے خلاف بیروت میں بڑے مظاہرے بھی کیے۔ ان میں لبنان کی اسلامی تحریک حزب اﷲ کے ارکان بھی بڑی تعداد میں شامل ہوئے تھے۔
قرارداد ۱۵۵۹ کی منظوری کے بعد جو بات سامنے آئی ہے وہ مغربی ممالک کی سفارتی سرگرمیوں کا اچانک بڑھ جانا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہر یورپی ملک کے سفارت خانے میں ایک ایسا شعبہ تشکیل دیا گیا ہے جو لبنان میں موجود سیاسی اور عسکری گروپوں سے روابط کی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپی ممالک نے بیروت میں موجود اپنے سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ عرب صحافتی ذرائع کے مطابق امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف مہم نے سے شرق الاوسط کی بہت سے دارالحکومتوں میں اپنے ایجنٹوں کو سرگرم کیا ہوا ہے۔ اسی صورتحال نے لبنان کو ’’نیا عراق‘‘ بنانے کی جانب گامزن کیا‘ اسی لیے شامی انخلا کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ بیروت کی سڑکیں ایک مرتبہ پھر دھماکوں سے گونج سکتی ہیں‘ کیونکہ بیروت کو شرق الاوسط کا سنگاپور بنانے کا خواب دیکھنے والے سابق مقتول وزیراعظم رفیق الحریری کا قتل علاقے کی دو طاقتوں کو لڑانے کی سازش بھی ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے الزام شام پر لگایا گیا کیونکہ رفیق الحریری کا تعلق بھی لبنان کے اس سیاسی مکتبِ فکر سے تھا‘ جو لبنان سے شامی فوج کا انخلا چاہتا ہے۔ ان تمام معاملات میں اگر لبنان میں کسی کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ حزب اﷲ نامی اسلامی تحریک ہے۔
اسرائیل نے جب بھی لبنان پر جارحیت کی اور اس کے نتیجے کے طور پر جب صلح صفائی اور مذاکرات کا مرحلہ آیا تو دوسری جانب شام اور لبنان کے دائیں بازو کے عناصر کے ساتھ ہمیشہ حزب اﷲ کا مستقبل بھی زیرِ غور آیا۔ ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد بھی امریکا نے لبنان سے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد ان علاقوں کا کنٹرول براہِ راست لبنانی فوج سنبھالے اور حزب اﷲ سے اسلحہ واپس لے۔ اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایک قرارداد نمبر۱۵۵۹ منظور کی گئی جس کے تحت مطالبہ کیا گیا کہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے لبنان کی تمام عسکری ملیشیائوں کو تحلیل کر دیا جائے اور لبنان سے شمای فوج کا انخلا عمل میں لایا جائے۔ اس مرحلے پر بھی حزب اﷲ کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے سوالات نے جنم لیا تھا۔
حزب اﷲ کا قیام ۱۹۸۲ء میں لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے بطن سے ہوا۔ اس نے پی ایل او کا کردار محدود ہونے کے بعد اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اس پُرآشوب دور میں اسرائیل کی جارح فورس کو لبنان کے اسرائیل نواز ملیشیا کا تعاون حاصل تھا۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون اس وقت اسرائیل کے وزیرِ دفاع تھے‘ جنہیں آج بھی صابرہ اور شتیلہ کا قصاب کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی دہشت گرد نے فلسطینی کیمپوں کا محاصرہ کر کے ہزاروں فلسطینی پناہ گزین بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کو بے رحمی سے قتل کروا دیا تھا۔ اسی دوران اسرائیل کے خلاف حزب اﷲ نے علمِ بغاوت بلند کیا اور تین سال تک حزب اﷲ کے ارکان اسرائیلی فوج کے خلاف خفیہ کارروائیاں کرتے رہے۔ حالانکہ اس وقت دیگر اسلامی مزاحمتی تحریکیں علی اعلان اسرائیل کے خلاف مصروفِ عمل رہیں۔ ۱۹۸۵ء میں لبنان کی اس اسلامی تنظیم نے اپنے وجود کا باقاعدہ سیاسی اعلان کیا۔ اس دوران حزب اﷲ مکمل طور پر اسرائیل کے خلاف برسر پیکار تھی‘ اس نے لبنان کی داخلی سیاسی کشمکش سے اپنے آپ کو پوری طرح بچا کر رکھا۔
یہی وجہ تھی کہ حزب اﷲ نے انتہائی کامیاب اور مہلک کارروائیاں انجام دیں۔ اس کے علاوہ جب ۱۹۸۵ء کے بعد بھی لبنان کئی مرتبہ خانہ جنگی کا شکار ہوا تو حزب اﷲ نے اپنا دامن اس سے بچا کر رکھا۔ اسی بنیاد پر اسے لبنان کے ہر حلقے میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ جب حزب اﷲ نے سیاسی ونگ کا بھی اعلان کیا تو اس وقت بھی ملکی سیاست میں اس کے اہداف کو محدود تصور کیا جاتا تھا جبکہ علاقائی اور عالمی سطح پر اس کے تصورات کا دائرہ خاصا وسیع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان کے اندر حزب اﷲ کو اسرائیل کے خلاف ایک مزاحمتی جماعت کے طور پر جانا جاتا تھا‘ مگر لبنانی عوام کو اس کا سیاسی کردار خاصی مدت کے بعد جاکر ہضم ہوا تھا۔ ۱۹۸۹ء میں معاہدہ طائف کے نتیجے کے طور پر لبنان کی خانہ جنگی کو ختم کرایا گیا تو ان مذاکرات کی حزب اﷲ نے کھل کر حمایت کی۔ لبنان کی دیگر اسرائیل مخالف مزاحمتی اسلامی تحریکوں کے ساتھ حزب اﷲ کا اشتراک ہوا تو اس پلیٹ فارم سے حزب اﷲ نے سیاسی ونگ کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے کے طور پر لبنان میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد حزب اﷲ نے سیاسی اور امن و امان کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ایسا کرنے کا مقصد لبنان کی مزاحمتی اسلامی تحریکوں کو سیاسی تحفظ بھی مہیا کرنا تھا۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ۱۹۹۲ء میں لبنان کے پارلیمانی انتخابات میں حزب اﷲ نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونین کی سطح پر بھی انتخابات میں حصہ لے کر اپنی حیثیت منوائی۔
سیاسی سطح پر یہ مقام حاصل کرنی کے بعد حزب اﷲ نے لبنان کے دیگر مذاہب کے ساتھ بھی بات چیت کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ ان میں لبنان کی مسیحی برادری نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے حزب اﷲ نے لبنان کے دائیں بازو اور قوم پرستانہ عناصر سے بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوا کہ ۲۰۰۰ء میں شعبانامی علاقے سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے اعلان کے باوجود وہاں اس کا عسکری وجود برقرار رکھا گیا جس کے جواب میں حزب اﷲ نے لبنان کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر کارروائی کی۔ اس کارروائی میں اسے لبنانی حکومت کی حمایت بھی حاصل تھی۔
دوسری طرف اسرائیل کو جس انداز میں زخم چاٹتے ہوئے جنوبی لبنان سے بھاگنا پڑا تھا‘ وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے لبنان کو سبق سکھانے کا پورا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی کوشش ہے کہ لبنان میں حزب اﷲ سمیت دیگر اسرائیل مخالف تنظیموں پر کاری ضرب بھی لگائی جائے۔ اسی صورتحال کو سامنے رکھ کر حزب اﷲ اپنے آپ کو دفاعی حالت میں محسوس کرتی ہے کیونکہ اسرائیل کے آئندہ جارحانہ عزائم کا سامنا کرنے کے لیے اسے اپنا عسکری وجود برقرار رکھنا پڑے گا۔ دوسری طرف امریکا عراق پر قبضہ کرنے کے بعد مسلسل ایران اور شام کو دھمکیاں دے رہا ہے کیونکہ امریکا کے خلاف عراق کی جنگ آزادی میں شدت آچکی ہے جس کی خفت مٹانے کے لیے امریکا کبھی ایران کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے کبھی شام کو حریت پسندوں کا معاون قرار دے رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں لبنان کا کردار کیا ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حزب اﷲ بہت سے تحفظات رکھتی ہے۔ بیروت کی صورتحال اور حزب اﷲ کا کردار اور مستقبل سمجھنے کے لیے یہاں کے حکومتی ارکان اور وزرا کے قتلِ عام کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ سابق لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد بہت سے سوالات نے سر اٹھا لیا ہے۔
عرب صحافت میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جس طرح آسٹریا کے ولی عہد کا قتل دوسری جنگ عظیم کا سبب بن گیا تھا اسی طرح سابق لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کا قتل نہ صرف لبنان بلکہ تمام مشرق وسطیٰ کو نئی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ دہلی۔ ۱۹ مئی ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply