پیو ریسرچ سینٹر کے تازہ مطالعے کے مطابق دنیا میں اس وقت ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں، جو کرۂ ارض کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ان کی بہت بڑی اکثریت (۸۵ سے ۱۰۰ فیصد) اسلام کے بنیادی عقائد پر متحد و متفق ہے۔ توحید، رسالتِ محمدیؐ، رمضان کے روزے۔ البتہ دیگر امور میں اسلامی احکام کی تعبیر و تشریح میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سینٹر نے تمام براعظموں کے ۳۹ ملکوں میں اس مطالعے کا کام ۲۰۰۸ء میں شروع کیا تھا، جس کی رپورٹ، اگست کے دوسرے ہفتے میں جاری کی گئی۔ (ایشین ایج ۱۰؍ اگست)
اس رپورٹ میں عالمی مسلم آبادی کے ۶۷ فیصد حصے کا احاطہ کیا گیا۔ مختلف ممالک کے ۳۸ ہزار افراد سے ۸۰ زبانوں میں سوالات کیے گئے۔ کسی جگہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے افراد میں نئی نسل کی بہ نسبت زیادہ مذہبیت پائی گئی، تو کسی ملک میں نئی نسل کو زیادہ مذہبی اور پُرجوش دیکھا گیا۔ کسی خطے میں دس میں سے آٹھ مسلمانوں کے نزدیک مذہب ان کی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے تو کسی جگہ دس میں سے سات کے نزدیک مذہب بہت اہمیت کا حامل ہے۔
یہ پیوسینٹر امریکا کا ایک اہم مطالعاتی مرکز ہے۔ وہ پوری دنیا میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں، ان کی تہذیبوں اور رجحانات کا مطالعہ کرتا ہے تاکہ امریکی حکومت ان سے باخبر رہے اور ان کی روشنی میں اپنی پالیسیاں وضع کر سکے۔ اسلام اور امت مسلمہ اس کا خاص ہدف ہیں۔ اس سلسلے میں اس کی کچھ رپورٹیں پہلے بھی آچکی ہیں۔ اس امر کا پورا امکان ہے کہ رپورٹوں کے کچھ حساس اور نازک حصے صرف امریکی انتظامیہ ہی کے علم میں لائے جاتے ہوں گے نیز سفارشات بھی یقینا پیش کی جاتی ہوں گی کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ طریقہ جو بھی ہو، ایک امریکی سینٹر کا یہ کام بِلامقصد اور بِلاغرض نہیں ہو سکتا۔ اس کے پیچھے بہت بڑا منصوبہ ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے جب سے ایک سپر پاور کی حیثیت حاصل کی ہے اور جب سے وہ صہیونی یہودیوں کے زیرتسلط آئی ہے، پوری دنیا کے انسانوں کو زیر نگیں کرنے کی جستجو میں مصروف ہے۔ پھر جو بھی قوم یا ملک یا نظریۂ حیات اسے مدمقابل محسوس ہوا، اپنا دشمن قرار دے کر اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔
گزشتہ صدی میں امریکا تین تجربے کر چکا ہے۔ پہلے جرمن قوم اور اس کی مملکت کو ہدف بنایا، اس کے بعد جاپان اور جاپانیوں کے خلاف مہم چلائی، پھر سوویت یونین اور اشتراکی نظریۂ معیشت کے خلاف برسرپیکار رہا اور اب اسلام اور امت مسلمہ کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ تاہم پیو سینٹر، رینڈ کارپوریشن اور اسی قبیل کے دیگر اداروں کے توسط سے امریکیوں نے اچھی طرح محسوس کر لیا ہے کہ یہ دشمن (نظریۂ حیات) گزشتہ دشمنوں سے بالکل مختلف ہے، ان کی طرح کمزور اور کھوکھلا نہیں ہے۔ اس لیے اس سے مقابلے کے لیے نت نئے طریقے اور حربے درکار ہوں گے جن کا استعمال بیک وقت بھی کیا جاسکتا ہے اور ایک ایک کر کے بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ان حربوں کا دائرہ مسلم عوام و خواص اور علما کو رجھانے سے لے کر حرمین شریفین پر یلغار تک پھیلا ہوا ہے۔۔ پیو سینٹر کی تازہ رپورٹ امریکی پالیسی سازوں کو بتا رہی ہے کہ عقیدۂ توحید و رسالت اس امت کی سب سے مضبوط و مستحکم بنیاد ہے اور مختلف خطوں، زبانوں، رنگوں، نسلوں اور مختلف عادات و خورد و نوش رکھنے والے انسانوں کی قوت اتحاد ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اپنے طریقوں میں کیا تبدیلیاں کرتا ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۷ ستمبر ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply