
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو (بی آر آئی) اب کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی منشور میں صدر اور پارٹی کے سربراہ شی جن پنگ کی خارجہ پالیسی کے سب سے بڑے مظہر کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے۔ اس پراجیکٹ کی ناکامی خود پارٹی کی ناکامی تصور کی جائے گی۔ بیرون ملک اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد اب اگر یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو خود شی جن پنگ کی اتھارٹی بھی داؤ پر لگ جائے گی۔
چینی صدر شی جن پنگ نے ۲۰۱۳ء میں جب اس منصوبے کا اعلان کیا تھا تو اس کا نام ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) تھا۔ چینی زبان میں آج بھی اس منصوبے کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ بنیادی تصور یہ تھا کہ ایشیا کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی ایک شاہراہ تعمیر کی جائے تاکہ تجارتی اموال کی ترسیل میں کوئی الجھن پیش نہ آئے۔ ساتھ ہی ساتھ بحر ہند میں ایک ایسا تجارتی راستہ بھی تیار کیا جانا تھا، جس میں چین کو مرکزی یا کلیدی حیثیت حاصل ہو اور دیگر، نسبتاً کمزور ممالک اُس سے وابستہ ہوکر خود بھی مضبوط ہوں اور چین کے لیے بھی مزید طاقت کا ذریعہ ثابت ہوں۔ ان دونوں راستوں سے دوسرے اہم تجارتی راستے بھی مرحلہ وار جُڑتے جائیں گے۔ چین اس تاثر کی ہر حال میں نفی کرنا چاہتا ہے کہ اس پورے منصوبے کا صرف ایک مقصد ہے … یہ کہ صرف اور صرف بیجنگ کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینا ممکن ہو۔
بی آر آئی کا بنیادی مقصد چین کو باقی دنیا سے موثر طور پر جوڑنا ہے۔ یہ منصوبہ نئے اور پرانے منصوبوں کے ذریعے ایک وسیع خطے کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش ہے۔ چین سخت اور نرم دونوں طرح کی قوت کا اظہار چاہتا ہے۔ اس کے لیے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دیا جارہا ہے، سرمایہ کاری کا گراف بلند کیا جارہا ہے اور ثقافتی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے۔ اس وقت یہ منصوبہ ۱۳۸ ممالک پر محیط ہے، جن کی مجموعی آبادی ۴؍ارب ۴۰ کروڑ اور مجموعی خام قومی پیداوار ۲۳ ہزار ارب ڈالر ہے۔
اس وقت چین جغرافیائی بنیاد پر معیشتی سرگرمیوں کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا چاہتا ہے۔ صدر شی جن پنگ متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ بی آر آئی کا بنیادی مقصد کوئی مخصوص چائنا کلب بنانا نہیں بلکہ دنیا بھر کی معیشتوں کو ایک لڑی میں پروکر غیر معمولی اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ اختلاف کا گراف نیچے آئے اور ہم آہنگی زیادہ سے زیادہ پھیلے۔ چند برس کے دوران پسماندہ ممالک کو بنیادی ڈھانچے کے اپ گریڈیشن کے لیے دیے جانے والے اربوں ڈالر کے قرضوں پر اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ بالخصوص مغرب نے بہت زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ چین نے نسبتاً کمزور ممالک کو بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے نام پر قرضوں کے جال میں پھانسنے کا پروگرام بنایا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چین بہت کچھ خرچ کر رہا ہے اور بظاہر خسارے کا سودا ہے تاہم مقصود یہ ہے کہ جغرافیائی و سیاسی طور پر زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورے جائیں۔
بہت سے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ غیر معمولی سیاسی اور معاشی و سیاسی خطرات کے باوجود چین بی آر آئی کو ہر حال میں جلد سے جلد مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے عقلی توجیہات کو تین اندرونی اور چار بیرونی عوامل کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔
اندرونی عوامل:
پہلا: چین میں بھی معاشی ناہمواری غیر معمولی ہے۔ مغربی چین بہت پیچھے رہ گیا ہے جبکہ مشرقی چین میں سمندر سے جُڑے ہوئے علاقوں کی ترقی غیر معمولی ہے۔ شنگھائی شہر کو اب باضابطہ صوبے کا درجہ حاصل ہے۔ یہ اندرونی صوبے گینسو سے پانچ گنا دولت مند ہے۔ سنکیانگ اور تبت کے خودمختار علاقوں کے لوگ بیجنگ راج سے بدظن ہیں اور چینی کمیونسٹ پارٹی ان دونوں خود مختار علاقوں میں چلائی جانے والی علیحدگی کی تحریکوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ گردانتی ہے۔ چینی قیادت اس نکتے کو سمجھتی ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں خرابی کا بنیادی سبب افلاس اور کم ترقی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انتہائی متمول اور غیر ترقی یافتہ خطوں کے درمیان پائے جانے والے معاشی فرق کو کم کرنے کے لیے بی آر آئی سے بھی مدد لی جائے گی۔
دوسرا: بنیادی ڈھانچا تیار کرنے اور پروان چڑھانے کے حوالے سے چین کی صلاحیت اور سکت غیر معمولی اور ضرورت سے بہت زیادہ ہے۔ اس کے لیے آؤٹ لیٹ تلاش کیے جارہے ہیں۔ چین کئی ممالک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہے تاکہ بنیادی ڈھانچا تیار کرنے کی اضافی صلاحیت و سکت کو نکاس کا موقع ملے۔ چین نے متعدد ممالک میں سرکاری ملکیت کے اداروں کو پرکشش کاروباری مواقع فراہم کرنے کے لیے بی آر آئی کو عمدگی سے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ چینی ادارے متعدد ممالک میں شاہراہیں، پُل، بندرگاہیں اور بجلی گھر تعمیر کرکے اپنی متعلقہ صلاحیت و سکت کو کارآمد اور بارآور طور پر بروئے کار لارہے ہیں۔
تیسرا: بی آر آئی اب صدر شی جن پنگ کا فلیگ شپ پراجیکٹ بن چکا ہے۔ اُنہوں نے اندرون ملک اِسے ’’چائنا ڈریم‘‘ قرار دیا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ اس ایک منصوبے کے ذریعے چین عالمی برادری میں اپنی پوزیشن اس قدر مضبوط کرلے کہ عشروں تک کوئی الجھن نہ رہے۔ شی جن پنگ اس منصوبے کے ذریعے اپنی پوزیشن غیر معمولی تناسب سے مستحکم کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مستقبل کا چین بھی اُن کی قیادت میں آگے بڑھے۔ اس منصوبے کے ذریعے چین متعدد خطوں کو ایک لڑی میں پروکر اُن کے قائد کی حیثیت اختیار کرنا چاہتا ہے۔
بیرونی عوامل:
پہلا: چین نے بی آر آئی کے ذریعے اپنے ایک اہم جیو اسٹریٹجک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ آبنائے ملاکا جزیرہ نما مالے اور انڈونیشین جزیرے سماٹرا کے درمیان ہے۔ یہ یورپ، افریقا اور مشرق وسطیٰ تک رسائی کے لیے مختصر ترین بحری راہداری ہے۔ روس اور وسطی ایشیا سے درآمدات میں اضافے کے باوجود چین توانائی کے حوالے سے اب بھی مشرق وسطیٰ پر نمایاں حد تک انحصار کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے تیل کی ۸۰ فیصد رسد آبنائے ملاکا سے گزرتی ہے۔
آبنائے ملاکا چین کی فوڈ اور انرجی سیکورٹی کے لیے لازم ہے۔ اگر اس بحری راہداری کے حوالے سے کوئی گڑبڑ ہو یعنی لوٹ مار کا خدشہ بڑھ جائے یا امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ناکہ بندی کرے تو چین کے لیے خوراک اور توانائی دونوں کے حوالے سے سنگین بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ چین اب توانائی اور خوراک کی محفوظ رسد کے لیے چین میانمار معاشی راہداری، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور چین، انڈیا، بنگلادیش، میانمار معاشی راہداری بنارہا ہے۔ یہ زمینی راہداریاں جنوب مشرقی ایشیا سے ہوتی ہوئی بحری راہداریوں کا حقیقی نعم البدل تو نہیں مگر ہاں، اِن کی بدولت چین کا آبنائے ملاکا پر غیر معمولی انحصار گھٹ جائے گا۔
دوسرا: چینی ادارے متعدد ممالک میں بنیادی ڈھانچا تعمیر کر رہے ہیں۔ یہ بنیادی ڈھانچا چین کو کاروبار اور دفاع دونوں اعتبار سے غیر معمولی برتری حاصل کرنے کا موقع دے گا۔ مثلاً ہمبنٹوٹا (سری لنکا) اور گوادر (پاکستان) میں چین کی تعمیر کردہ بندر گاہ محض تجارتی مال کی ترسیل کے لیے استعمال نہیں ہوگی بلکہ چین اپنے جنگی جہازوں کو بھی یہاں لنگر انداز رکھ سکے گا اور یوں گشت کے ذریعے وہ اس خطے میں بھارتی بالا دستی کا گراف نیچے لانے میں کامیاب رہے گا۔
چین جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے متعدد ممالک میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہے۔ یہ ممالک ایک طرف تو چین سے قرضے پارہے ہیں اور دوسری طرف وہ چین کے احسان مند بھی رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں چین کو بہت سے اہم سیاسی فیصلوں سے اپنی مرضی کے نتائج کشید کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ ایسی حالت میں چین کا عسکری عمل دخل بڑھ جاتا ہے اور امریکا سمیت کئی بیرونی قوتوں کو خطے میں اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی تحریک ملتی ہے نہ قوت۔
تیسرا: چین اب اپنے لیے عالمگیر سطح پر قائدانہ کردار چاہتا ہے۔ ویسے تو خیر چین نے ایشیا کی سطح پر خود کو ہمیشہ قائدانہ حیثیت میں دیکھا ہے۔ اس نے خطے کے تمام ممالک کو کسی نہ کسی شکل میں انگیج کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم یہ تاثر عام رہا ہے کہ چین اشتراکِ عمل کی صورت میں اپنے مفادات کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے اور دوسروں کو کچھ زیادہ نہیں دینا چاہتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر نو اور عمومی بہبود کے لیے امریکا کے مارشل پلان کی طرح بی آر آئی بھی چین کی طرف سے ایک ایسا منصوبہ ہے، جو دنیا کو یہ باور کرائے گا کہ چین دوسروں کا بھی بھلا چاہتا ہے اور عالمگیر سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیے تو چین کی سوفٹ پاور ڈپلومیسی کے لیے بی آر آئی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
چوتھا: چین نے امریکا سے سیکھا ہے کہ اپنی کرنسی مضبوط ہو تو بہت سے فوائد خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں۔ چین نے اپنی کرنسی یوآن کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بی آر آئی سے جُڑے ہوئے ممالک کے درمیان تجارت یوآن میں ہوتی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بھی طے پایا ہے کہ دو طرفہ تجارت کے لیے دونوں اپنی اپنی کرنسی استعمال کریں گے۔
یہ بات پورے یقین سے تو نہیں کہی جاسکتی کہ بی آر آئی مکمل طور پر کامیاب ہوگا تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ چین نے اس منصوبے پر بہت کچھ لگادیا ہے اور بہت کچھ ہے جس کے وقیع پانے کا مدار اس منصوبے کے کامیاب ہونے پر ہے۔ ایسے میں یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چین اِس ایک منصوبے کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار کرنے کی خاطر کسی بھی حد سے گزر جائے گا۔ بی آر آئی کی بھرپور کامیابی کا بنیاد اصلاً اِس نکتے پر ہے کہ چین اندرونی سطح پر معاشی ناہمواری دور کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتا ہے اور عالمی سطح پر معیشتی نوعیت کے نشیب و فراز سے بحسن و خوبی کس طور گزرتا ہے۔
انو انور دی ڈینیل کے انوئے ایشیا پیسفک سینٹر فار سکیورٹی اسٹڈیز کے ریسرچ فیلو ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Belt and road initiative: Why China pursues it” (“South Asia Journal”. October 31, 2019)
Leave a Reply