بنگلا زبان کی حمایت میں چلنے والی تحریک اتنی مؤثر اور پُرکشش ثابت ہوئی کہ جماعت اسلامی جیسی دائیں بازو کی جماعت بھی اس کے دام میں آگئی۔ اُن کا اور اُن جیسے بعض دوسرے لوگوں کا خیال تھا بنگالی کو سرکاری زبان بنانے میں حَرَج ہی کیا ہے۔ ہر زبان کی طرح بنگالی بھی ایک ثقافتی ورثہ ہے اور جو لوگ بنگالی بولتے ہیں، اُن کی مادری زبان کو پاکستان کی سیاسی زندگی میں وہ مقام ملنا چاہیے جس کی وہ مستحق ہے۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں تھی۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے محسوس کرنے لگے تھے کہ بنگالی کے حق میں بھڑک اٹھنے والے جذبات کے پیش نظر اگر زبان کے معاملے میں ذرا رعایت برت لی جائے تو شاید بگاڑ کولگام دی جاسکے۔ مگر یہ سوچ صحیح ثابت نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں ملنے والی ہر رعایت کو سازشیوں نے اپنی فتح جانا اور مذموم مقاصدکے اگلے مرحلے کی طرف بڑھنے والا ایک قدم سمجھا۔ بلا لحاظ اس کے کہ طلبہ کے جذبات کو ٹھنڈاکرنے کے لیے کیا کچھ کیا گیا، دشمن کی پیش قدمی جاری رہی۔
نورالامین حکومت کی طرف سے بنگالی کے نفاذ کی مہم کو محض کنٹرول کرنے کی نیم دلانہ کوششوں کے باوجو د یہ تحریک پھیلتی چلی گئی۔ ۲۱ فروری کو پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کے نام پرعوامی مقامات پرشہید مینار اور یادگاریں تعمیر ہونے لگیں۔ تعلیمی اداروں پر خاص توجہ دی گئی۔ ہر اسکول اور کالج کے اپنے اپنے شہید مینار تھے جن کوہر سال ۲۱ فروری اور دیگر خاص موقعوں پر مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ تعظیم پیش کی جاتی تھی۔ حکومت کی مدد سے چلنے والے تعلیمی ادارے بھی اس کھیل میں شامل کرلیے گئے۔ یہ تقریبات مافوق الفطرت اور دیومالائی طرز کی پراسرار جوگیانہ رسوم کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں۔ ان تقریبات میں حصّہ لینے والے نوجوانوں کو اہمیت ملنے لگی اور ان کے نام اس طرح مشہور ہونے لگے جوکسی اور طریقے سے ممکن نہیں تھا۔ ان میں سے وہ جو ذرا تخلیقی ذہن رکھتے تھے، اپنی زندگی بامعنی بنانے کے لیے ان رسومات سے جذباتی اور نفسیاتی تسکین حاصل کرنے لگے۔ زبان کے نام پر بننے والی ہر یادگار بلالحاظ اس کے کہ اس کی شکل کتنی فحش اور عریاں علامتوں کو نمایاں کرنے والی ہو، نوجوانوں کے نزدیک ایک ایسے نشان کی حیثیت اختیار کرگئی جو پراسرار مگر مقدس اور زبردست امکانات کا حامل ہو۔
پاکستان کی یکجہتی کو خطرے میں ڈالنے والی اس تحریک کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہ اٹھانے کی ایک وجہ خود صاحبانِ اختیار بھی تھے۔ انتظامیہ کے ذمہ دار افسران اور وزرا سمیت مسلم لیگ کی نمایاں شخصیات سب کسی نہ کسی طرح لسانی تحریک کے جراثیم سے آلودہ ہوچکی تھیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ پوری طرح طلبہ کے ساتھ تھے۔ اُن میں سے بعض اساتذہ نے اعتراف بھی کیا کہ ۲۱ فروری کی تحریک کو منظم کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے طلبہ کی ہمت افزائی جاری رکھی، اسے فلسفیانہ بنیاد فراہم کی اور بنگالی قوم پرستی کو عقیدے کی حیثیت سے پروان چڑھایا۔ نوجوان سی ایس پی افسران بھی اسی چشمۂ فیض سے سیراب ہورہے تھے۔
شومیٔ قسمت، بنگالی زبان کی تحریک میں حصہ لینے والے نوجوان بطور سی ایس پی افسران بھرتی کیے جانے لگے۔ اس لیے کہ حکومت مشرقی پاکستان نے اپنے سیکرٹریوں کے مشورے پر طے کرلیا تھا کہ اس تحریک میں حصہ لینے کا مطلب پاکستان سے غداری نہیں سمجھا جائے گا۔ سازشیوں کو اور کیا چاہیے تھا۔ ریاست کے خلاف سازشوں میں بھرپور شرکت، طالب علم کی حیثیت سے پاکستان کے خلاف جذبات کا اظہار، لیکن پھر بھی ریاست کے معاملات میں شریک! وہی ریاست جس کو آپ تباہ کرنے کے درپے تھے۔ آپ کی ساری خطائیں معاف، جو کچھ کیا محض جوشِ جوانی تھا! مسٹر اے کے ایم احسان، اُن چار میں سے ایک تھے جنہوں نے ۱۹۴۸ء میں قائداعظم کی توہین کی تھی، نہ صرف سی ایس پی افسر تعینات کیے گئے بلکہ ۱۹۷۰ء میں جنرل یحییٰ خان نے وفاقی سیکرٹری مقرر کیا۔ ملک دشمن کارروائیوں کا کیا خوبصورت انعام تھا! مسٹر رب جو نظریۂ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے کی حیثیت سے جانے مانے تھے، وہ بھی اسی طرح وفاقی سیکرٹری مقرر کردیے گئے۔
پتا نہیں کیوں، مگر بہرحال حقیقت یہی ہے کہ صدر ایوب خان پر جب سے الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے دو سی ایس پی افسران کا جادو چلا تھا، بائیں بازو کے لوگوں کی ہمت افزائی اور دائیں بازو کے افراد کو نظرانداز کرنے کی پیہم اورمنظم کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔ دائیں بازو والے تو انتظامیہ کے نزدیک گھڑے گھڑائے احمق لوگ تھے جن کی نظریۂ پاکستان سے تکلیف دہ حد تک وفاداری مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھا رہی تھی۔ ایک صاحب، منیر چودھری، الطاف گوہر کے رازداں اور خاص گماشتے تھے اور انہی کے ذریعے مشرقی پاکستان کے سارے سُرخوں کا الطاف گوہر کے ساتھ رابطہ تھااور انہی کے توسط سے حکومت کو یقین دلایا گیا ہوگا کہ بائیں بازو والوں کے خلاف پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات بے بنیاد ہیں۔ یا شاید یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ الطاف گوہر خود اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ انجامِ کار پاکستان کو بالآخر ٹوٹ ہی جانا ہے۔ الطاف گوہر نے ایوب خان کے ساتھ یقینا وفاداری سے کام کیا ہوگا مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتاہے کہ بائیں بازو کے ایک دانشور کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان مخالف نظریات کواپنے دل میں جگہ نہیں دی ہوگی۔ الطاف گوہر کے ریکارڈ پر ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس سے نظریۂ پاکستان یا اسلام سے اُن کی عقیدت اور وابستگی کا اظہار ہوتا ہو۔ ذاتی طور پر وہ ایک پڑھے لکھے، باصلاحیت اور نفیس مگر اخلاقیات سے عاری انسان تھے۔ اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں جب وہ مشرقی پاکستان میں ڈپٹی سیکرٹری تعینات تھے، رسیائے شباب کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔ تھائی لینڈ کے ایک ثقافتی طائفے کی رکن خاتون کے ساتھ ملوث ہونے پر تو اُن کو جان چھڑانا مشکل ہوگئی تھی۔ زبان زدِ عام ہے کہ حکومت کو ان کی جان بخشی کے صلے میں ٹھیک ٹھاک معاوضہ دینا پڑگیا تھا۔
اخلاقی معاملات میں کمزوری سی ایس پی حلقوں میں کبھی بھی بُری بات نہیں سمجھی گئی۔ اس لیے اس تلخ واقعہ کے بعد بھی الطاف گوہر ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ مرکزی حکومت میں تبادلے کے بعد وہ اپنے مداحوں کی خاطر خواہ تعداد مشرقی پاکستان میں چھوڑ گئے جن میں زیادہ تر افراد شراب و شباب کے رسیا اور بائیں بازو سے وابستہ تھے۔ الطاف گوہر نے ان کو مایوس بھی نہیں کیا۔ وہ اپنے ’’دوستوں‘‘ کو بھولتے نہیں تھے۔ جب ایوب حکومت میں ان کو ایک بااختیار حیثیت حاصل ہوگئی اور وہ عملاً پاکستان پر حکمرانی کرنے لگے تو اُ ن کے یاروں کے مزے آگئے۔ صدرمملکت کی تھالی میں کھانا اور اُسی میں چھیدکرنے کے اپنے مذموم مقاصد کوبروئے کار لانااُن کا وتیرہ ٹھہرا۔ حکومتِ پاکستان کے قائم کردہ پریس ٹرسٹ آف پاکستان نے بنگالی روزنامہ ’’دینک پاکستان‘‘ کا اجرا کیاجس میں چُن چُن کر سُرخوں کو بھرتی کیا گیا۔ ہر وہ شخص جو بنگالی زبا ن پر عبور رکھتا ہے، اُن استعاروں، حوالوں، تجویزوں اور کہہ مکرنیوں کو دیکھ کر اندازہ کرسکتا ہے کہ کس طرح ایک سرکاری اخبارکے ذریعے خود حکومت کی ناک کے نیچے پاکستان کے خلاف مہم چلائی گئی۔
یہ ساری باتیں حکومتی مشینری اور انتظامیہ کے علم میں لانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ پریس اور انتظامیہ سب دشمنوں کے کنٹرول میں تھے۔ کسی باہر کے آدمی کو یہ ساری باتیں متضاد لگتی ہوں گی۔ کتنی ستم ظریفی کی بات تھی کہ اسلام اور نظریۂ پاکستان سے وابستگی رکھنے والی حکومت جو ایک طرف تو اپنے بنیادی نظریے کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کر رہی تھی تو دوسری طرف وہی حکومت ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھا رہی تھی جس کے نتائج خود اس کے لیے ناقابل قبول تھے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے روزنامہ ’’دینک پاکستان‘‘ اور پریس ٹرسٹ کے دوسرے اخبار ’’مارننگ نیوز‘‘ کی فائلوں کا مطالعہ کافی ہوگا۔ جہاں تک ’’مارننگ نیوز‘‘ کا تعلق ہے، وہ غیر بنگالی (یعنی پاکستانی) قوم پرستی کا پرچارکرتا تھا مگر صرف ادارتی صفحات تک۔ جہاں تک خبروں اور کالموں کا تعلق ہے، انہیں بنگالی رپورٹروں نے زہر سے بھر دیا تھا۔ غیر محسوس طریقے سے، جھوٹ بول کر، مغربی بازو کے ظلم اور استحصال کی کہانیاں سنا کرمغربی پاکستان کوسامراج کے طور پرنمایاں کیاتھا۔
دوسرے صاحب، جن کا میں نے ذکر کیا (وہ بھی بائیں بازو والوں کے لیے اتنے ہی مفید ثابت ہوئے جتنے الطاف گوہر!) قدرت اللہ شہاب تھے۔ اردو کے ایک افسانہ نویس! جو ہر وقت اپنے گرد واہ واہ کرنے والوں اور خوشامدیوں کا جھمگٹا چاہتے تھے۔ یہ کسی بھی ایسے شخص کو بااختیار پوزیشن پر برداشت نہیں کرسکتے تھے جو اُن سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرے۔ وہ اُسے ہٹواکر ہی دم لیتے تھے۔ انہوں نے ہی ایوب خان کو، دانشوروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے رائٹرز گلڈ کا آئیڈیا دیا تھا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں باک نہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لکھاریوں کی اکثریت غریب ہے، ادیبوں کی سرپرستی کے لیے بننے والی سرکاری انجمن نیک مقاصد حاصل کرسکتی تھی مگر یہاں کھیل ہی کچھ اور تھا۔ مسٹر شہاب کے ذاتی نظریات کی وجہ سے رائٹرز گلڈ بہت جلد سُرخوں کا گڑھ بن گئی۔
مجھے وہ کانفرنس اچھی طرح یاد ہے جس میں پہلی دفعہ گلڈ بنانے کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ جنوری ۱۹۵۹ء کا واقعہ ہے۔ میں مشرقی پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں شامل تھا اور دیگر دو مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ گلڈ کی دستور ساز کمیٹی کا ممبر نامزد ہوا تھا۔ مسٹر جسیم الدین اور مرحوم غلام مصطفی مشرقی بازو سے میرے دوسرے ساتھی تھے جبکہ مسٹر ابوالحسن بطور مبصر شریک تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے تجویز کیا کہ گلڈ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اردو اور بنگالی کے پانچ یا سات نمائندوں اور علاقائی زبانوں کے تین تین نمائندوں پر مشتمل ہو۔ تجویز بظاہر بڑی بے ضرر سی تھی مگر مجھے اندازہ تھا کہ اس تجویز کے منظور ہوتے ہی بائیں بازو والے شور مچا دیں گے کہ مشرقی پاکستان کو اس کے حق کے مطابق نمائندگی نہیں ملی۔ اس لیے کہ اردو اور علاقائی زبانوں کا مطلب تھا مغربی پاکستان! جو مشرقی پاکستان کے پانچ یا سات ووٹوں کے مقابلے میں کل ملا کرچودہ یا سولہ ووٹ ہوجاتے۔ مسٹر جسیم الدین اور مسٹر غلام مصطفی تو یہ نکتہ اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، مجھے ہی زبان کھولنی پڑی۔ میں نے بڑی آہستگی سے مسٹر شہاب کو بتایا کہ اگر ان کی تجویز منظور ہو گئی تو مشرقی پاکستان میں مخالفانہ ردِّعمل سامنے آئے گا۔ میرے اس اعتراض پر وہ بھونچکے رہ گئے اور انہوں نے اپنی تجویز کا متبادل جاننا چاہا۔ میں نے گزارش کی کہ رائٹرز گلڈ کو بہرحال ایک نیم سیاسی تنظیم کی حیثیت حاصل ہوگی، اس لیے ہمارے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ ہم دونوں صوبوں کے درمیان مساوات (Parity) کے اصول کو اختیار کریں۔اس طرح کسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کا امکان کم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور انتظام گلڈ کے امیج کو داغدار کر دے گا اور اس کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔
میرے منہ سے ابھی الفاظ ختم بھی نہیں ہوئے تھے کہ مسٹر شہاب ایک دم کھڑے ہوگئے۔ وہ مارے غصّے کے کپکپا رہے تھے۔ انہوں نے میری طرف انگلی اٹھائی اور دھاڑے، ’’میاں، آئندہ پیریٹی کی بات نہیں کرنا۔ پچھلے دس برسوں میں جو کچھ بھی غلط ہوا ہے، پیریٹی کے نام پر ہی ہوا ہے‘‘۔
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کردوں کہ قدرت اللہ شہاب اس وقت صدر ایوب خان کے سیکرٹری جنرل تھے اور ان کی طاقت اور اثر و رسوخ کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
اُن کے دوبدو آنا ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے مترادف تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میرے الفاظ نے اُن کو برانگیختہ کر دیا ہے لیکن پسپائی کا مطلب انصاف کا ’’جھٹکا‘‘ تھا جو مجھے منظور نہیں تھا۔ میں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جب تک وہ اپنی تجویز میں مناسب ترمیم نہیں کرتے، مَیں اس پورے عمل میں فریق بننے کو تیار نہیں ہوں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ غصّے میں بھڑک اُٹھے اور واک آؤٹ کرنے کی دھمکی دی۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ وہ جو چاہیں کریں مگر ان کی تجویز مجھے منظور نہیں ہے۔ اس سے مشرقی پاکستان کی صورتحال مزید خراب ہوگی اور ان لوگوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار آجائے گا جومشرقی پاکستان کے ساتھ مسلسل امتیاز برتنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ جاننے کے بعد کہ میں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہوں تو انہوں نے جھنجلا کرمشرقی پاکستان کو ایگزیکٹو کمیٹی میں اکثریت کی پیشکش کی اور کہا کہ برابری کی بات نہیں کرو۔ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اس پیشکش کو قبول کرلیا۔مسٹر شہاب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اکیلے پڑگئے ہیں۔ بالآخر انہیں مساوات (Parity) کے اصول کوماننا پڑا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے گیارہ گیارہ ممبروں کا فیصلہ ہوگیا۔
میں اس موقع کو اس لیے نہیں بھلا سکتا کہ مسٹر جسیم الدین اورمسٹر غلام مصطفی کی طرف سے مجھے حمایت نہیں ملی، حالانکہ مجھے پتا تھا کہ کمیٹی کے اجلاس سے باہر آتے ہی خاص طور پر مسٹر جسیم الدین وہ پہلے شخص ہوں گے جو قدرت اللہ شہاب کی تجویز پر واویلا مچائیں گے اور اسے مغربی پاکستان کے نوآبادیاتی مزاج کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے۔ جبکہ اندر انہوں نے زبان تک نہیں کھولی۔ اس کے برعکس جب جسیم الدین کا نقطۂ نظر پوچھا گیا تو انہوں نے شہاب کی تجویز کی تائید کی حالانکہ وہ خود کو بنگالی نیشنلزم کا چمپئن گردانتے تھے۔ ظاہر ہے میں سوائے اظہار افسوس کے کر بھی کیا سکتا تھا۔
یہ واقعہ اس طرح کے عمومی واقعات کی نمائندہ مثال تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے تعلقات کو آہستہ آہستہ کیسے زہر آلود کیا گیا۔ بنگالیوں کی عادت تھی کہ وہ اس وقت آواز بلند نہیں کرتے تھے، جب کوئی غلط کام ہو رہا ہوتا تھا۔ بلکہ پیچھے پیچھے آپس میں کانا پھوسی زیادہ کرتے تھے۔ پھر سازش، امتیاز اور ناانصافی کا شور بلند کردیتے تھے۔ موجودہ واقعہ میں بھی، اگر قدرت اللہ شہاب کی تجویز منظور ہوجاتی تو بڑی معصومیت سے اپنی مظلومیت کا رونا روتے لیکن اب جبکہ میں نے ان کی تکلیف پر آواز اُٹھانے کی ذمہ داری لے لی تو یہ اپنے مخصوص انداز میں مسٹر شہاب کی خوشامد میں لگ گئے اوراس طرح ظاہر کرنے لگے کہ جیسے میں نے منصفانہ نمائندگی کی بات کرکے شاید اپنی حد سے تجاوز کیا تھا۔
قدرت اللہ شہاب نے پہلے تین سال گزرنے پر مجھے ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت سے ہٹاکر اپنا بدلہ لے لیا۔ پھر اس کے بعدانہوں نے مجھے آدم جی ادبی انعامات کے ججوں کے پینل سے بھی ہٹادیا۔ میری جگہ ڈاکٹر سرور مرشدکو نامزد کیا گیا جو اِس وقت (۱۹۷۳ء میں) راجشاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اوروہاں پر عوامی لیگ کے کرتا دھرتا تھے۔
میں نے مذکورہ واقعہ جان بوجھ کر ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ پاکستان میں کیوں معاملات ایک ایک کرکے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے اور کس طرح خود مغربی پاکستانیوں کے تعاون سے بائیں بازو کے عناصر ایوانِ اقتدار میں داخل ہوگئے۔اس واقعہ سے اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ زبان کی تحریک کیوں زور پکڑتی چلی گئی۔ اس لیے کہ اسے غذا توخود مرکزی حکومت سے فراہم کی جا رہی تھی۔
مجھے ان معاملات کا کچھ کچھ اندازہ ہوگیا تھا، جس کے لیے ہمیں بنگالی تحریک کے ابتدائی دور میں جانا پڑے گا۔
۲۱ فروری کے واقعے کی پہلی سالگرہ نسبتاً خاموشی سے گزر گئی تھی اور اس کا چشم دید میں خود تھا۔ حکومت کی طرف سے جلوسوں کو روکنے کے لیے مکمل انتظام تھا اور لگتا تھا کہ کسی بھی گڑبڑ کو کچلنے کے لیے حکومت پوری طر ح تیار ہے۔ لیکن ۲۱ فروری ۱۹۵۴ء تک سب کچھ بدل چکا تھا۔ بہت بڑے پیمانے پر تقاریب کا انتظام کیا گیا تھا۔ حکومت نے ان کو روکنے کے لیے یونیورسٹی پر دھاوا بول کرطلبہ کی ایک بڑی تعداد کو کلاس روم سے گرفتار کرلیا۔
اس موقع پر پولیس افسران کے جذبات کا تضاد محسوس کیا جاسکتا تھا۔ ایک طرف تو وہ سرکاری ڈیوٹی سمجھ کر طلبہ کی بے دردی سے پٹائی کررہے تھے اور گرفتار بھی کر رہے تھے تو دوسری طرف وہ ان کے ’’عظیم مقصد‘‘ کی وجہ سے ان سے ہمدردی بھی محسوس کر رہے تھے۔
۱۹۵۴ء کے عام انتخابات کے بعد بنگالی زبان کی تحریک اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسٹر نورالامین اور ان کی مسلم لیگ کا صفایا ہوگیا اور ان کی جگہ جگتو فرنٹ کی حکومت اقتدار پر فائز ہوگئی۔ جگتو فرنٹ میں عوامی لیگ، اے کے فضل الحق کی کرشک پرجا پارٹی اور بعض دوسرے گروپ شامل تھے۔ انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ۲۱ فروری کو عام تعطیل کا اعلان کردیا اور وعدہ کیا کہ جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا تھا، وہاں ایک عظیم یادگار تعمیر کی جائے گی۔تقریباً دو مہینے بعد جب مرکزی حکومت کو احساس ہوا کہ صوبائی حکومت کی سرگرمیاں حد سے بڑھ رہی ہیں تو اس نے روک ڈالنے کی کوشش کی مگر تعمیر کا کام توشروع ہوچکا تھا۔
بحوالہ: کتاب ’’شکستِ آرزو (جب پاکستان دولخت ہوا)‘‘۔
ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی
Leave a Reply