
اگر میں تحریکِ پاکستان کی تاریخ لکھنے بیٹھ ہی گیا ہوں تو پھر لازم ہے کہ میں ان مراحل کی بھی نشاندہی کروں جن سے گزر کر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ اس کام کے لیے ہمیں اس کی سیاست، معیشت اور معاشرتی ارتقا کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آئین کی تشکیل میں تاخیر اور اناڑی پن کا مظاہرہ، مکارانہ سیاست اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں پر عوام کے اعتماد کا فقدان اور ان کی نیتوں پر شبہ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کو سقوطِ پاکستان کی تاریخ رقم کرتے وقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاہم میری کوشش تو اُس خرابی کو سمجھنے کی ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کیا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کی سوچ کو یکسرمخالف سمت کی طرف موڑ دیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اعلیٰ سطح پر بہت سی غلطیاں ہوئیں اور حکومت نے بعض اوقات عوامی رجحانات کے مقابلے میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ اسے زیادہ سے زیادہ مایوس کن کہا جاسکتا ہے، مگر یہ سب کچھ ۱۹۷۱ء میں پیش آنے والے اندوہناک واقعات کی معقول توجیہہ نہیں ہوسکتاجس نے پاکستان کے پرخچے اڑا دیے۔ ہاں اگر ہم کسی سازش کے امکان کو پیش نظر رکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ریاست پہلے دن سے ایسے اندرونی اور بیرونی ایجنٹوں کی آماجگاہ بنی رہی تھی جو پاکستان کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے اور جنہوں نے لیڈروں کی ہر غلطی اورہر فروگزاشت سے ماہرانہ انداز میں فائدہ اٹھاکر عوام کو بھڑکایا۔
پاکستان کو ثقافتی، سیاسی اور معاشی تینوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔ ہر محاذ پر ایک غیرمحسوس حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ دشمن کا پہلا کام تو یہ تھا کہ مملکت کی خیرخواہی کا لبادہ اوڑھ کر ہر کام میں شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں، غلط فہمیوں کو فروغ دیا جائے اور مسائل کو تنازعہ بنا کر کھڑا کر دیا جائے۔ اگر کوشش کامیاب ہوگئی تو پیدا ہونے والی غلط فہمی کو پال پوس کر بڑا کر کے اس میں حقیقت کا رنگ بھردیا جائے۔ یہی موقع ہوتا تھا جب کچھ اور مسائل کھڑے کرکے قومی منظر نامے پر ایک سیاہ تصویر پینٹ کردی جاتی تھی۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ اگرعوام کی توجہ ان مسائل پر کم ہوجاتی تو کمال ہوشیاری سے اسی طرح کے چند اور مسائل ایک نئے انداز میں اٹھا کر طوفان کھڑا کردیا جاتا۔ ہدف ایک ہی ہوتا تھا کہ معاشی اعتبار سے مشرقی پاکستان کے عوام کا خون چوسا جارہا ہے، سیاسی اعتبار سے اُن کو غلام بنایا جارہا ہے، اُن کی ثقافت کو مٹایا جارہا ہے۔
اور اس پورے ہنگامے میں دشمن کا ساتھ کون دیتا تھا؟ ہماری اپنی خوش فہمیاں، ناتجربے کاریاں، حماقتیں، بے حسی اور صحیح وقت پر فیصلہ کن اقدام کی کمی! اگر ہم دشمن کو یہ سارے ’اتحادی‘ فراہم نہ کرتے تو وہ کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ ہمیں بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری تباہی کی ذمہ دار تنہا دشمن کی چالبازیاں نہیں۔ہماری بے بصیرتی بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔ آنے والے صفحات میں ہم دشمن کی مہم اور حکمت عملی کا تجزیہ کریں گے اور سیاسی، معاشی اور ثقافتی، تینوں پہلوؤں سے پہنچنے والے نقصان کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ ہم اپنے تجزیے کا آغاز ثقافتی محاذ سے کرتے ہیں۔
بحیثیت مسلمان بنگالیوں کی موجودہ نسل (یا کم از کم گزشتہ دو نسلوں) کی ثقافتی لحاظ سے ایک کمزوری، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اُن کی عربی اور فارسی سے عدم واقفیت ہے۔ جس کے نتیجے میں بنگال کے مسلمان باقی مسلم دنیا سے کٹ کر رہ گئے اور وہ نادیدہ رشتہ اور غیرمحسوس تعلق ختم ہو کر رہ گیا جو انہیں روحانی طور پر امت مسلمہ سے جوڑ کر رکھ سکتا تھا۔ عربی اور فارسی سے نا بلد مسلمان آہستہ آہستہ یہ احساس کھو بیٹھتا ہے کہ وہ ایک بڑے وجود کا حصہ ہے۔ وہ اسلامی تاریخ سے بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنے ملک سے باہر مسلمانوں کے کارنامے اس کے اندر کوئی احساس فخر پیدا نہیں کرتے۔ جواہر لال نہرو نے ۱۹۳۵ء میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان، اپنے ماضی کے کارناموں پر مشترکہ احساسِ فخر سے پیدا ہونے والا تعلق ہی مضبوط رشتہ کا باعث ہوتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے بعدتعلیم کے شعبے میں نئے رجحانات، بالخصوص عربی اور فارسی کی اہمیت کوپسِ پشت ڈالنے سے مشترکہ احساسِ تفاخر آہستہ آہستہ مٹتا چلا گیا۔ گو کہ یہ رجحانات پورے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں پروان چڑھ رہے تھے، مگر بنگال سے باہران کے اثرات اتنے شدید نہیں تھے۔
اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے پاس اردو کی صورت میں ایک ایسا متبادل ذریعہ موجود تھا جس نے انہیں مسلمانوں کے علمی سرمائے سے کسی نہ کسی درجے میں جوڑے رکھا۔ جبکہ بنگالیوں کی زنبیل میں ایسا کچھ نہیں تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اردو بذات خود مسلمانوں کی کامیابی کی مظہر تھی۔ اس کے بڑے بڑے مصنفین، سب مسلمان تھے۔ جنہوں نے ایک ایسا علمی ماحول تخلیق کردیا تھا جس کی جڑیں گہری اور اسلامی اقدار میں پیوستہ تھیں۔ عربی اور فارسی کی بیشتر مستند کتابیں اردو میں ترجمہ ہوچکی تھیں۔اس کا ذخیرۂ الفاظ (بالخصوص چیزوں کے نام اور ان کی صفات)، زیادہ تر عربی اور فارسی کے الفاظ پر مبنی تھا۔ اردو کے شاعروں کا تخیل عربی اور فارسی سے مستعار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اردو بولنے والا مسلمان عربی اور فارسی سے کٹ جانے کے باوجود باقی دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثہ سے جُڑا رہا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بنگال کے لوگوں نے اپنے ارد گرد ہندوؤں کی کامیابیوں کے جھنڈے ہی لہراتے دیکھے۔ گو کہ مسلمانوں نے سولہویں صدی میں ہی بنگالی زبان کی آبیاری شروع کردی تھی اور یہ بھی صحیح ہے کہ مسلم حکمرانوں کی پشت پناہی کے بغیر بنگالی پروان نہیں چڑھ سکتی تھی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگالی زبان کے چوٹی کے لکھنے والوں میں مسلمانوں کا نام خال خال ہی آتا ہے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انیسویں صدی میں بنگالی زبان کی نشاۃ ثانیہ میں مسلمانوں کاحصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
پہلی جنگ عظیم سے قبل بنگال میں جس نسل نے ہوش سنبھالا، ان کے لیے بنگال میں مسلمانوں کی کامیابیوں کی علامات ثبت ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس لیے کہ ان کا تعلیم یافتہ طبقہ نہ صرف عربی اور فارسی سے آشنا تھا بلکہ اردو بھی جانتا تھا۔ اُن میں سے بہت سے لوگوں نے تو اردو کو اپنی زبان کے طور پر اختیار کر لیا تھا۔ ایسی صورت میں ہندوؤں کے مقابلے میں اگرمسلمان مصنفوں نے بنگالی زبان میں شاہکار تخلیق نہیں کیے تو اس سے ان کی عزتِ نفس پر کوئی آنچ نہیں آتی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ برصغیر میں علمی میدان میں اگر کوئی کارنامہ انجام دینا ہے تو اسے اردو ہی میں ہونا چاہیے۔ انیسویں صدی میں اٹھنے والی بنگالی زبان کی نشاۃِ ثانیہ کی تحریک، اردو میں مسلمان مصنفین کے اُس دستے سے مختلف نہیں تھی جس کی قیادت مولانا حالی ؔکر رہے تھے۔ حالیؔ مسلمانوں کو جس طرح اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام اردو میں دے رہے تھے، ٹھیک اُسی طرح بنگالی زبان میں بنکم چندر چٹرجی ہندوؤں کے لیے تحریک کا باعث بن رہے تھے۔ مسدس حالی نے جس طرح مسلمانوں کو جمود توڑ کر کچھ کر گزرنے کی دعوت دی، ٹھیک اُسی طرح چٹرجی کا ناول’آنندمٹھ‘ ہندوؤں کے لیے مہمیز بنا۔ غالبؔ، میرؔ، سوداؔ اور شبلی نعمانی کے شہ پارے جس طرح مسلمانوں کے لیے باعث فخر ہیں اسی طرح بنکم چندر چٹرجی اور مائیکل دت کی تخلیقات ہندوؤں میں احساسِ تفاخر پیدا کرتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں بنگالی مسلمانوں کی نئی نسل عربی و فارسی سے ناواقف تھی اور اردو بھی اس کے لیے اجنبی تھی۔ اس کا کل دارومدار بنگالی پر تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ نسل ان زبانوں میں محفوظ، مسلمانوں کے عظیم علمی ورثے سے کٹ کر رہ گئی۔ اگر شمالی ہندوستان کی طرح بنگال میں بھی مستند اسلامی کتب مقامی زبان میں منتقل ہو جاتیں تواُن کا احساسِ بیگانگی اتنا شدید نہ ہوتا (جس کا مظاہرہ ۱۹۷۱ء میں کیا گیا)۔ بنگالی زبان کا کل علمی سرمایہ ہندوؤں کی تخلیقات پر مبنی تھا، جو فطری طور پر ہندو ثقافت کو پروان چڑھاتا تھا اور جس کی بنیاد ہندو دیومالا کے اساطیر اور عقائد تھے۔ مسلمانوں کے لیے لے دے کر چند منظوم خطبات تھے، وہ بھی ایسی زبان میں جس کا محاورہ نئی نسل کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے بنگالی ادب اور ثقافت کو اپنانے کا مطلب، اپنی ثقافت سے ناطہ توڑنا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت کو احساس ہی نہیں تھا کہ عربی، فارسی اور اردو سے تعلق ٹوٹنے کے بعد وہ کس نقصان سے دوچار ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، ہم نے ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ڈھاکا یونیورسٹی میں ایسٹ پاکستان لٹریری سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سوسائٹی کے قیام کا بنیادی مقصد بنگالی زبان و ادب میں مسلم لہجے کوپروان چڑھانا تھا۔ ہم کوئی انقلاب برپا کرنے نہیں نکلے تھے۔ البتہ ہمارے پیش نظر قاضی نذرالاسلام اور ابوالمنصور احمد جیسے لوگوں کی کوششوں کو آگے بڑھانا تھاجو بنگالی زبان اور ادب میں کسی حد تک اسلامی تناظر کو اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان دونوں شخصیات کی تربیت میں اسلامی ماحول نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔گو کہ یہ خود عربی، فارسی اور اردو نہیں جانتے تھے مگر اُن کا بچپن جس اسلامی ماحول میں گزرا تھا، اس کی وجہ سے ان کے تحت الشعور میں عربی، فارسی اور اردو موجود تھی۔ فارسی کی غزلیات اور عربی کے قصائد سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کی تخلیقات میں کسی حد تک اسلامی رنگ بھی موجود تھا اور ان کی سوچ اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ اگرمسلم بنگال میں نذرالاسلام جیسی چنداور شخصیات یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی رہتیں تو مسئلہ شاید خود ہی حل ہوجاتا۔ ایک طرف ہندو مصنفین کی پوری کہکشاں تھی، دوسری طرف اکیلا نذرالاسلام! ظاہر ہے مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور پھر نذرالاسلام پر بھی پورا بھروسا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ انفرادیت پسند تھے۔ اپنی مرضی کے مطابق لکھتے تھے۔ اگر ان کی تحریریں بنگالی میں مسلم لہجے کو فروغ دیتی تھیں تو وہیں ان کی بعض دوسری تحریریں اس کے برعکس سوچ کو تقویت دیتی تھیں۔
میں ثقافتی زوال کے جس عمل کی بات کر رہا ہوں، وہ اجتماعی نفسیات کے مطالعے اور تحقیق کے لیے ایک اچھا موضوع بن سکتا ہے۔ بنگال کا مسلم معاشرہ ایک خاموش، مگر گہری تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا۔ نئے تعلیمی انتظامات کے نتیجے میں ایک ثقافت کو ترک کرکے آہستہ آہستہ دوسری اور مخالف ثقافت کو اپنا نے کا عمل جاری تھا۔ افراد غیر محسوس طریقے سے اپنا ثقافتی ورثہ چھوڑ کر مخالف تہذیبی اقداراختیار کر رہے تھے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو تحریک پاکستان دراصل بنگال کے مسلمانوں کو ہندوازم کی طرف جانے سے روکنے کی تحریک تھی۔ مگر یہاں زبان نے کچھ اور پیچیدگیوں کا اضافہ کردیاتھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں مسئلے کا ادراک نہیں تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں فضل الحق اور سہروردی جیسے لوگوں نے،جو ٹھیٹ اسلامی ماحول سے نکل کر آئے تھے، اس طرف دھیان نہیں دیا۔ ان کی نسل کے نمایاں مسلمان رہنما مثلاً خان بہادر عبدالمومن، بُردوان کے جناب ابوالقاسم، سر عبدالرحیم اور سر عبدالحلیم غزنوی وغیرہ سب روایتی مذہبی تعلیم سے آراستہ تھے، جس کا سارا زور اردو اور فارسی پر ہوتا تھا۔ سرعبدالرحیم کے گھر میں اردو بولی جاتی تھی، حالانکہ ان کا تعلق مدناپور کے ایک بنگالی گھرانے سے تھا۔ اسی طرح بقیہ تین نام بھی بنگالی بولنے والوں کے ہیں مگروہ ایسے ماحول سے وابستہ تھے جس میں اردو رچی بسی تھی۔ یقینا وہ انیسویں صدی کے ہندو قلم کاروں کو اپنی تہذیبی اقدار کا نمائندہ نہیں سمجھتے تھے۔
اس کے مقابلے میں ابو الہاشم (ابوالقاسم کے صاحبزادے) کا رویہ بالکل مختلف تھا۔ وہ اس طبقے کے ترجمان سمجھے جاتے تھے جو خود کو مسلمان سے زیادہ، بنگالی کہلوانا پسند کرتا تھا۔ اسی طرح وہ غالبؔ کے مقابلے میں ٹیگورؔ کو اور حالیؔ کے مقابلے میں چٹرجی کو اپنے عوام کی آواز سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک غیر بنگالی مسلمان کی حیثیت ایک ایسے اجنبی سے زیادہ نہیں تھی جس میں اور بنگالیوں میں کوئی قدر مشترک نہ ہو۔
اپنے ماضی اور روایات کے ساتھ رویوں کی یہی تبدیلی تھی جس نے پچاس کی دہائی میں لسانی تحریک کو زور و شور سے پروان چڑھایا۔ اب وہ نسل صاحبِ اختیار تھی جس نے صرف بنگالی کلاسیکی شہ پاروں کے زیر اثر ہوش سنبھالا تھا۔ دوسری طرف مجموعی ثقافتی ماحول بھی نیا روپ دھار چکا تھا۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply