
اپوزیشن کی احتجاجی تحریک
۱۲ ؍جون ۲۰۱۱ء کو بنگلا دیش میں اپوزیشن کی مسلسل ۳۶ گھنٹوں کی طویل ہڑتال نے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس ہڑتال نے بنگلا دیش کے اندر اور باہر عالمی میڈیا میں بھی اچھی خاصی اہمیت حاصل کی۔ یہ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کی اس حکومت کے خلاف چَھٹی اور جماعت اسلامی کی دوسری ہڑتال تھی۔ اس سے پہلے بی این پی نے مختلف ایشو پر تنہا چار ہڑتالیں کیں۔ لیکن جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن پارٹیوں نے ان ہڑتالوں کی حمایت تو کی، لیکن شریک نہیں ہوئیں۔ ۵ جون کو پہلی دفعہ ۱۲ گھنٹوں کی کامیاب ہڑتال بی این پی کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کی مشترکہ کال پر ہوئی۔ تب وہ عوام کے ہر طبقے کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ہڑتال توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب ثابت ہوئی۔ اپوزیشن اور عوام کے تیور دیکھتے ہوئے حکومت نے ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے بھرپور تیاری کی تھی۔ پولیس، ایلیٹ فورس اور عوامی لیگ کے کارندوں نے سڑکوں پر قبضہ جما لیا اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن کو ہڑتال کی کامیابی کے لیے کسی جتن کی ضرورت نہ تھی۔
اس ہڑتال میں پورے ملک کے عوام نے اپوزیشن کا بھرپور ساتھ دیا۔ بنگلا دیش جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم اظہرالاسلام نے ڈھاکا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عوام میں حکومت کے خلاف اتنی بیداری آئی ہے کہ اگر ہم جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے بھی ہڑتال کی کال دیں تب بھی اسی طرح سے کامیاب ہوگی۔ ۵ جون اس ہڑتال نے اپوزیشن اور عوام کو بڑا حوصلہ دیا اور ۱۲ جون کی ہڑتال کے لیے راہ ہموار کی۔ ہڑتالوں کے اس سلسلے کا بنیادی مقصد شیخ حسینہ واجد حکومت کے کیئرٹیکر گورنمنٹ سسٹم کے خاتمے کے اقدام کے خلاف احتجاج تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ہڑتالوں کا مقصد دستور کی بعض شقوں کی بحالی اور تحفظ بھی تھا۔ جن میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، مسلم دنیا کے ساتھ گہرے تعلقات، جنگی جرائم کے سلسلے میں گرفتار لوگوں کی رہائی کی دفعات شامل ہیں۔
بنگلا دیش میں ہڑتال کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن حسینہ واجد حکومت نے جس طرح سے ان کو ناکام بنانے کے لیے تیاریاں کیں، ان کو بنگلا دیش کے بعض اخبارات نے جنگ کی تیاری کے مترادف قرار دیا۔ ۱۲ جون کی ہڑتال سے ایک دن پہلے ۱۱ جون ۲۰۱۱ء کو حکومت نے ایک نیا حربہ یعنی گشتی عدالتیں (Mobile Courts) متعارف کرایا۔ ڈھاکا شہر میں ۱۰ موبائل کورٹس بنیں۔ ۵۰ سے زیادہ لوگوں کو پکڑ کر موقع پر سزائیں سنائی گئیں اور جیل میں بند کر دیا گیا۔ بنگلا دیش کے عوام، انسانی حقوق کی تنظیموں، دانشوروں، وکلاء اور اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ موقف تھا کہ یہ انسان کے بنیادی حقوق اور بنگلا دیش کے دستور میں درج شہری حقوق کے سراسر خلاف ہے۔ وکلاء رہنما کا کہنا تھا کہ موبائل کورٹ قانون اور انصاف کے ساتھ مذاق ہے۔ کیونکہ اس طرح ملزمین کو اپنی صفائی اور دفاع کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ زندگی کے مختلف طبقوں کی تنقید سے حکومت زچ ہوگئی۔ موبائل کورٹ کے قیام سے حکومت کو بدنامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا۔ یہ ایک ایسا دام ثابت ہوا جس میں خود صیاد ہی پھنس کر رہ گیا۔ صرف یہی نہیں ہڑتال ناکام بنانے کے لیے پولیس نے اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے، گرفتاریاں کیں، لوگوں کومارا پیٹا، علماء و مشائخ کے جلوس پر حملہ کیا اور بی این پی کے مرکزی دفتر کو ۳۶ گھنٹوں تک مکمل طور پر منجمد کر کے رکھ دیا۔ جماعت اسلامی اور چھاترو شبر کے جلوس پر حملہ کیا گیا۔ لوگوں کو زخمی کیا گیا اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ جماعت اسلامی کے قائدین کا کہنا ہے کہ بہت سے بے گناہ لوگ گرفتار ہوئے اور بے شمار لوگوں کو موبائل کورٹس نے سزا سنائیں۔ ماہ جون کی دوسری ہڑتال کے پہلے دن اتوار کو بی این پی کے دو سابق وزراء الطاف حسین اور حفیظ الدین کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ لیکن حکومت کے ان تمام حربوں کے باوجود ۳۶ گھنٹوں کی یہ طویل ہڑتال مکمل طور پر کامیاب رہی۔ موجودہ حکومت سے عوام کی اکتاہٹ کی تازہ مثال یہ ہے کہ بنگلا دیش کے مقبول عام چھ قومی روزناموں نے اپنے الگ الگ سروے میں قارئین کے سامنے ایک سوال رکھاکہ ’ہڑتال جس سے روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے، کیا اس کی حمایت کرنی چاہیے؟‘ تو تقریباً اسّی (۸۰) فیصد قارئین کا جواب یہ تھا کہ تمام تر تکالیف کے باوجود ہڑتال کی حمایت کرنی چاہیے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ بنگلا دیش میں اپنی مدت پوری کرنے والے امریکی سفیر جیمسن ایف موری آرٹی نے حال ہی میں کہا تھا کہ کیئرٹیکر گورنمنٹ سسٹم کے علاوہ بھی شفاف الیکشن ہو سکتا ہے۔ اخبارات نے اپنے قارئین سے اس بارے میں رائے مانگی تو ۷۸ فیصد قارئین نے سفیر صاحب کے مذکورہ بیان کو کُلّی طور پر مسترد کرتے ہوئے کیئرٹیکر گورنمنٹ سسٹم کی حمایت کی۔ یاد رہے کہ مذکورہ چھ قومی اخبارات عوامی لیگ کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔
حسینہ واجد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کیئرٹیکر گورنمنٹ سسٹم پر اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ ایک اخبار نے وزیراعظم کے اس بیان پر قارئین کی آراء معلوم کرنے کے لیے یہ سوال کیا کہ کیا بی این پی کو اس کا رسپانس دینا چاہیے؟ اس کے جواب میں ۹۶ء۸۳ فیصد لوگوں نے کہا کہ اپوزیشن کو گورنمنٹ کی اس دعوت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلا دیش کے عوام سمجھتے ہیں کہ آزاد اور شفاف انتخابات کے لیے کیئر ٹیکر گورنمنٹ سسٹم کا کوئی متبادل نہیں۔ اس لیے اس پر مذاکرات کی گنجائش بھی نہیں۔
نتائج کے اعتبار سے اس ہڑتال کی کامیابی کا اندازہ حکومت کے ذمہ داران کے بیانات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ شاہارا خاتون (Shahra) نے کہاکہ ہڑتالیں ملکی مفاد میں نہیں ہیں، اس لیے ہڑتال نہیں ہونی چاہئیں۔ نیز اپوزیشن کو ہڑتال سے باز آجانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ عوامی لیگ جب اپوزیشن میں ہوگی تب وہ ہڑتال نہیں کرے گی۔ ہڑتال کے دوسرے اور آخری دن عوامی لیگ کے جائنٹ جنرل سیکرٹری اور وزیراعظم کے معاون خصوصی محبوب العالم حنیف نے اپوزیشن سے یہ اپیل کی کہ وہ آئندہ ہڑتال جیسے سخت پروگرام نہ دیا کریں۔ اپیل، درخواست اور نرم لب و لہجہ عموماً عوامی لیگ کا شعار نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ عوامی ردعمل کے سبب عوامی لیگ میں گھبراہٹ پیدا ہوئی ہے۔
اپوزیشن کی آئندہ تحریک جلد شروع ہونے کو ہے۔ اس تحریک کا (کئی اہم مطالبوں کے ساتھ) بنیادی مطالبہ مڈٹرم الیکشن ہوگا۔ اپوزیشن نے دو دن کے ایک لانگ مارچ کا پروگرام بھی بنایا ہے۔ جس کی قیادت بی این پی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیا کریں گی۔ وہ کئی سو کلومیٹر کے سفر کے دوران کم سے کم ۵۰ روڈ سائیڈ عوامی جلسوں سے خطاب کریں گی۔ اس وقت مڈٹرم الیکشن کے مطالبے سے اپوزیشن جماعتوں کی بقا وابستہ ہے۔ کیونکہ عوامی لیگ کی قیادت میں گرینڈ الائنس کو موجودہ پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے۔ وہ آئندہ کم سے کم مزید دو ٹرم کے لیے اقتدار میں رہنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کیئرٹیکر گورنمنٹ سسٹم کا خاتمہ چاہتی ہے۔ عوامی لیگ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عوامی لیگ کی قیادت میں الیکشن ہوگا تو وہ کبھی بھی آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن نہیں کہلا سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کیئرٹیکر سسٹم کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس سسٹم کو کالعدم قرار دینے کے عوامی لیگی اقدام نے اپوزیشن کو تحریک چلانے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ جس کو اپوزیشن پوری طرح استعمال کررہی ہے۔ بیگم خالدہ ضیا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حسینہ واجد حکومت کو جلد سے جلد مڈٹرم الیکشن کے لیے مجبور نہ کیا گیا تو اپوزیشن کا سیاسی مستقبل تاریک ہو جائے گا اور یہی بات بیگم خالدہ ضیا نے ۹ جون کی شام کو بند کمرے کے اجلاس میں بی این پی کے خصوصی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ یہ تحریک ہماری بقا کا سوال ہے۔ آپ لوگوں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ حکومت کے خلاف ہماری لڑائی طویل ہے۔ اس لیے آپ آنے والے ۳۶ گھنٹوں کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ لیکن گرفتاری سے اپنے آپ کو بچائیں۔ کیونکہ آگے آپ نے بہت کام کرنا ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply