
چند سال پہلے کی بات ہے، میں یروشلم سے مغربی کنارے اور وہاں سے بیت اللحم گیا۔ میرا رات کا کھانا ’’ٹائم میگزین‘‘ کے فری لانس فلسطینی صحافی جمیل حماد مرحوم کے ساتھ تھا۔ وہ ایک شریف، وضعدار اور نرم گو انسان تھے اور جب سیاست کی بات آتی تو ان کی رائے بڑی متوازن ہوتی تھی۔ کھانے کے بعد میں واپس یروشلم کی طرف گیا اور مجھے اس ویران و تاریک دیوار سے گزرنا پڑا جو مغربی کنارے کو باقی اسرائیل سے جدا کرتی ہے۔ ایک خاتون اسرائیلی فوجی نے مجھے روکا اور مجھ سے میرے کاغذات کے متعلق پوچھا۔ میں نے اسے اپنا پاسپورٹ دکھا دیا۔
ـ’’تم امریکی ہو!‘‘ اس نے غیر رسمی انداز میں کہا۔
ـ’’میں تو امریکا سے محبت کرتی ہوں۔ تمہارا تعلق امریکا میں کہاں سے ہے؟‘‘
میں نے جواباً اُسے بتایا کہ میرا تعلق نیویارک سے ہے۔
’’زبردست!‘‘ اُس نے جاندار مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور پھر وہ سنجیدہ ہو گئی۔ اُس نے مجھ سے پوچھا ’’تم وہاں کیا کر رہے تھے، اُن جانوروں کے ساتھ؟‘‘ اس کا اشارہ دیوار کے اُس پار فلسطینیوں کی طرف تھا۔
یہی اس بات کا جواب ہے کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اسرائیلی انتخابات کیوں جیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابات جیت گئے، باوجود اس کے کہ معاشی میدان میں اُن کی کارکردگی پر زبردست سوالیہ نشان موجود تھا اور لوگ اُن کے طور طریقوں سے بیزار آئے ہوئے تھے۔ تقریباً دو سو سابق اسرائیلی فوجیوں اور انٹیلی جنس راہنماؤں نے بھی سرِ عام نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی تھی کیونکہ اـن کے نزدیک وہ خطرناک حد تک جارحانہ تھی۔
نیتن یاہو جیت گئے، کیونکہ انھوں نے متعصب رویہ اپنایا۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ بہت سارے یہودی اب عربوں کے بارے میں ویسا ہی سوچتے ہیں، جیسا باقی دنیا کبھی یہودیوں کے بارے میں سوچتی تھی۔ یہودیوں کے پاس ایسا سوچنے کی وجہ ہے۔ اُن کے ساتھ جنگیں لڑی گئی ہیں، اُن پر بِلاامتیاز راکٹ داغے گئے ہیں اور اُن پر وحشیانہ دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ عرب میں بے پناہ یہودی مخالف تعصب رہا ہے۔ اور تو اور ایرانیوں اور دیگر اطراف سے نسل کشی کی دھمکیوں پر مبنی نفرت انگیز بیانات آتے رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل میں بھی افسوس ناک احساسِ برتری اور منزل کو پالینے کا زعم موجود رہا ہے۔
یہ سب کچھ آغاز سے ہی موجود رہا ہے۔ ایری شیوت کی شاندار کتاب ’’مائی پرامسڈ لینڈ‘‘ (My Promised Land) پڑھیے، آپ کو تفصیلات مل جائیں گی کہ ۱۹۴۸ء میں اپنے آبائی وطن کے حصول کی خاطر یہودیوں نے کس طرح قتلِ عام کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قتلِ عام ضروری تھا۔ اس کے بغیر اسرائیل کبھی وجود میں نہ آپاتا۔ مگر کچھ بھی کہیں، تھا تو وہ قتلِ عام ہی۔ عورتیں اور بچے قتل ہوئے اور جو سلوک رَوا رکھا گیا، وہ تب ہی ممکن ہے، جب دشمن کو انسان نہ سمجھا جائے۔ یہی وہ ماضی ہے جس کی بازگشت نیتن یاہو کے انتخابات سے پہلے کے بیانات میں سنائی دیتی رہی۔ بالخصوص تَب، جب انھوں نے یہودیوں کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی کہ وہ اُنھیں ووٹ دیں، کیونکہ عربوں کو باہر سے پیسہ ملا ہے اور وہ بڑی تعداد میں بسوں میں بھر کر ٹولیوں کی صورت ووٹ دینے آرہے ہیں۔
یہ بات مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ عرب، اسرائیل کی ۲۰ فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عیسائیوں کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے اور اُ ن میں بعض تو براہِ راست حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کی نسل سے ہیں۔ تقریباً وہ سب ہی عبرانی زبان بولتے ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک شخص اسرائیل کا شہری ہے اور اسرائیلی جمہوریت کو یہ گمان رہا ہے کہ وہ سب برابر کے شہری ہیں۔ لیکن عوام نے نیتن یاہو کے تعصب کا ساتھ دے کر اِس گمان کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔
دوسرا گمان یہ رہا ہے کہ اسرائیلی عوام دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات شاید اب بھی درست ہو۔ لیکن جب فلسطینیوں کو الگ ریاست کا حق دینے سے نیتن یاہو نے انکار کیا، تو جس بڑی تعداد میں ووٹر لکڈ پارٹی کی طرف راغب ہوئے، اُس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی کثیر تعداد اُس ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے تصور کی حامی ہے جس میں مغربی کنارے کے علاقے یہودیہ اور سامریہ بھی شامل ہوں۔ اس صورتِ حال نے اسرائیلی جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دو ریاستی حل کا متبادل ایک ریاستی حل ہے اور اگر مغربی کنارے کے عربوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے تو آگے چل کر وہ ریاست صرف یہودی ہی ہوسکتی ہے۔
مسلم دنیا میں کافی لوگ ہوں گے اور یورپ میں بھی، جو کہیں گے کہ یہ نتائج بالکل حیران کن نہیں ہیں اور یہ کہ اسرائیل ایک بے رحم، متعصب ظالم ریاست کا روپ دھار چکا ہے۔ بعض اوقات اسرائیل نے حقیقتاً ایسا رویہ اپنایا ہے۔ لیکن بیشتر ایسا تب ہوا ہے، جب اُسے زبردست اشتعال دلایا گیا۔ یہ ایک ہولناک ستم ظریفی ہے کہ اسرائیلی انتخابات نے امریکی نوقدامت پرستوں اور یورپی یہود مخالفوں کو یکساں خوش کیا ہے۔
جب میں ایک چھوٹا لڑکا تھا تو میری دادی مجھے اسرائیل کے قومی ترانے کی لوری دیتی تھیں۔ میں آج بھی اسے سُنتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ تقریباً ہر سال ہونے والے میرے اسرائیل کے دورے ہمیشہ یادگار رہے ہیں۔ ایک دہائی پہلے مَیں نئے مہاجرین کے اعزاز میں دیے جانے والے استقبالیہ میں موجود تھا۔ وہ مہاجرین ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ روسی، ایرانی اور ایتھوپیائی۔ اور اس وقت میں نے سوچا کہ اگر روسی اور ایتھوپیائی باشندے اِس طرح گھُل مِل سکتے ہیں تو آخر سامی نسل کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں؟ یہودی اور عرب کیوں نہیں؟
یہ ایک خواب تھا کہ کسی نہ کسی طور یہودی اور عرب ایک دوسرے کے ساتھ مِل کر رہنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بالآخر وہ مل کر ایک ایسا متحرک معاشرہ تشکیل دے دیں گے جس میں ایک دوسرے کا وجود اور تعصب ساتھ ساتھ موجود ہو۔ یہ خواب تھا کہ انسانیت اور نسل کے رشتے مذہبی تفرقات کو پیچھے دھکیل دیں گے۔ شروع سے ہی یہ ایک دیوانے کا خواب تھا اور اب تو ایسا ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اپنے مستقبل کی خاطر بنیامین نیتن یاہو یہودی تاریخ کو تکلیف دہ بنا چکے ہیں، کیونکہ وہی ہیں جنھوں نے اسرائیل کی سیاست میں عرب مخالف تعصب کو ایک صریح عنصر بنا دیا ہے۔ یہ حقیقت کسی المیے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ قابلِ شرم اور باعثِ شرمندگی ہے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Benjamin Netanyahu’s Disgrace in Victory”. (“Time”. March 18, 2015)
Leave a Reply