
یہ سمجھنے کے لیے کہ بھارت کس قدر اور کتنی تیزی سے بدل رہا ہے‘ سونامی کے حوالے سے اُس کے اقدامات دیکھنے چاہییں۔ اس سے میرا مطلب ہندوستان کی حکومت کا ردِعمل نہیں ہے بلکہ بھارتی شہریوں کا انفرادی عمل ہے۔ سونامی کے المیے کو ابھی دو ہفتے ہی گزرے تھے کہ وزیراعظم ریلیف فنڈ میں‘ جو کہ ریلیف کی سب سے اہم ایجنسی ہے‘ جہاں لوگ اپنے عطیات جمع کراتے ہیں‘ ۸ کروڑ ڈالر کی رقوم جمع ہو گئیں۔ گجرات کا زلزلہ جو اپریل ۲۰۰۱ء میں آیا تھا‘ اس کی ریلیف فنڈ میں اتنی ہی رقم جمع ہونے میں تقریباً ایک سال لگے تھی۔ یاد رہے کہ ۲۰۰۱ء کے زلزلے کی شدت بہت زیادہ تھی (۹ء۷ ریکٹر اسکیل) اور اس زلزلے نے سونامی کے مقابلے میں زیادہ ہندوستانیوں کی جان لی تھی۔ یعنی تیس ہزار بھارتی لمقۂ اجل بنے تھے۔ میڈیا نے بھی اس زلزلے کو کافی کوریج دی تھی (بل کلنٹن نے فنڈ وصولی کی مہم کی سربراہی کی تھی)۔ ان چار سالوں میں جو تبدیلی آئی ہے‘ بھارت سے متعلق ایک انتہائی اہم اور نئی حقیقت ہے۔ یہ حقیقت ہندوستانی معاشرے کی روز افزوں دولت‘ قوت اور اعتماد کا مظہر ہے۔ چند سال پہلے تک بھارتی اخبارات حکومتی امور سے بھرے رہتے تھے اور جن میں کثرت سے مبہم محفّفات کا استعمال کیا جاتا تھا (مثلاً پی ایم‘ اے آئی سی سی میٹنگ میں UGC کی توسیع کا اعلان کرنے والے ہیں)۔ اخبارات‘ حکومت‘ اہم سیاسی پارٹیوں اور مختلف اداروں کی بیورو کریسی کی کارکردگیوں پر مبنی رپورٹیں شائع کرتے تھے۔ آج کے اخبارات اٹھا کر دیکھیے تو یہ تاجروں‘ ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والوں‘ فیشن ڈیزائنرز اور یقینا بالی ووڈ کے تذکروں سے بھرے ملیں گے۔ بالی ووڈ اس وقت ہر سال ہالی ووڈ سے زیادہ فلمیں بناتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا جو کہ ایک زمانے میں ملک کا انتہائی موقر روزنامہ تھا‘ اس کی شکل ایک رنگین ٹیبلوائڈ جیسی دکھائی دیتی ہے۔ گذشتہ ماہ بھارت کی سب سے بڑی اسٹوری سونامی کے علاوہ مکیش انبانی اور ان کے چھوٹے بھائی کے اختلاف سے متعلق تھی۔ مکیش انبانی بھارت کی سب سے بڑی صنعتی کمپنی ریلائنس انڈسٹریز کے کرتا دھرتا ہیں۔ بیس سال پہلے یہ داستان تجارتی خبروں سے مخصوص چھوٹے سے صفحے پر ہوتی۔ آج یہ فرنٹ پیج نیوز ہے۔ اس کی وجہ بہرحال سمجھ میں آتی ہے۔ ریلائنس کے اس وقت ۳۰ لاکھ شیئر ہولڈرز ہیں۔ نئی دہلی‘ جہاں گذشتہ ہفتہ مَیں گیا ہوا تھا‘ میں لوگ معاشی اصلاحات کے مواقع پر غور و فکر کرتے ہوئے پائے گئے۔ بعض کا خیال تھا کہ ہم بہت سست رفتار ہیں۔ بعض اس بات پر خوش تھے کہ کم از کم ہم آگے تو بڑھ رہے ہیں۔ یہ بحث دو دہائیوں سے جاری ہے۔ لیکن حقیقی کہانی یہ ہے کہ بھارت میں ۲۰ سالوں سے جاری تھوڑی مگر مستقل اصلاحات کے عظیم اثرات و نتائج سامنے آئے ہیں۔ گذشتہ ۱۵ سالوں سے بھارت چین کے بعد اپنی معیشت کو تیز رفتاری سے ترقی دینے والا دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کا اوسط شرحِ نمو چھ فیصد ہے۔ فی صد آمدنی ملک میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے اور دس کروڑ سے زائد بھارتی باشندے غربت سے باہر آچکے ہیں۔ بھارتی سرمایہ داریت کا حیوانی جذبہ جسے ایک عرصے سے دبا دیا گیا تھا پھر سے ابھر آیا ہے۔ گذشتہ دو تین سال کے عرصے میں اس ترقی نے بھارت کو خود اعتمادی جیسی اہم قوت سے نوازا ہے۔ پھر اعتماد سے غیرمعمولی منافع و فوائد حاصل ہوتے ہیں اور خود کفالت میسر آتی ہے۔
گروچرن داس جو کہ پروکٹر اینڈ گیمبل کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں اور اس بدلتے ہوئے رجحان کے متعلق اولین انکشاف کرنے والوں میں سے ہیں‘ نے مجھے ایک غریب نوجوان کا واقعہ سنایا جس سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ نوجوان نے داس سے کہا کہ کامیاب ہونے کے لیے اسے صرف تین کام کرنے ہیں۔ ونڈوز استعمال کرنا سیکھنا ہے‘ انوائس لکھنا جاننا ہے اور انگلش کے ۴۰۰ الفاظ یاد کرنے ہیں۔ داس نے اس سے پوچھا چار سو الفاظ کیوں؟ لڑکے نے جواب دیا‘ فارن لینگویج کا ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے ضروری ہے جو کہ کسی امریکی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اس وقت اس لڑکے کو شاید امریکن کالج میں داخلہ نہ ملے لیکن داس نے کہا کہ یہ انداز ہے پورے ہندوستان میں سوچنے کا۔ یقینا بھارتی حکومت کے تمام نمایاں اور معروف مسائل باقی رہتے ہیں مثلاً سبسڈیز‘ قوائد و ضوابط‘ لال فیثا شاہی‘ افسر شاہی اور نااہلی جو کہ ترقی میں اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ بہت سارے کلیدی مسائل پر مثلاً بجلی کی رعایتی قیمت‘ زراعت‘ نج کاری‘ لیبر قوانین جیسے مسئلے پر کمیونسٹ پارٹی کے تعاون سے بننے والی مخلوط حکومت پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی لانے سے قاصر معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہاں بھی چیزیں ہمیشہ کی بہ نسبت بہتر دکھائی دیتی ہیں۔ نئی حکومت اپنی تمام تر دشواریوں کے باوجود درحقیقت ایک مضبوط قسم کی اصلاح پسند حکومت ہے۔ اس کی رفتار سست تو ہو سکتی ہے لیکن یہ استقلال کے ساتھ آگے کی جانب گامزن ہو گی۔ بہرحال سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترقی اور اچھی حکومت کا مطالبہ کرنے کا رجحان وسیع ہو رہا ہے۔ بڑے شہروں کے تاجر مثلاً ممبئی‘ بنگلور اور چنئی کے تاجر اس مطالبے پر متحد ہو رہے ہیں کہ ایسی ہی حکومت تشکیل دی جائے جو ترقی کے موافق ہو۔ بعض تو مسائل خود ہی حل کر رہے ہیں۔ چنئی میں سڑکوں اور گلیوں کی صفائی کے لیے نجی گروہ میدان میں آگئے ہیں۔ پچھلے سال اس طرح کی کوئی ۱۷ ہزار انجمنیں تھیں‘ جنہوں نے ۴۰ فیصد شہر اور ۷۵ فیصد مضافات میں صفائی کا کام کیا‘ جس کے دائرے میں ۱۷ لاکھ گھر آئے تھے۔ بھارت کے غریب ترین حلقوں میں نجی تعلیم کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دور دراز کے دیہاتوں میں نجی ہیلتھ کلینکس کھل رہے ہیں۔ چین مشرقی ایشیا کے نمونے کو اپنا رہا ہے۔ یعنی ایک مضبوط حکومت سرمایہ دارانہ ترقی کو فروغ بھی دے رہی ہے اور منضبط بھی کر رہی ہے۔ تاریخی طور پر یہ غربت کا بہت ہی موثر علاج ہے۔ لیکن بھارت ایک نئی راہ اختیار کر رہا ہے جو کہ اس کی ضرورت ہے یعنی یہ کہ معاشرے میں ایسی صلاحیت کو فروغ دیا جائے کہ وہ خود ریاست کی خامیوں کی تلافی پر قادر ہو جائے۔ درحقیقت یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کی بے ہنگم ترقی بعض پہلوئوں سے ایک دوسرے بڑے‘ طاقتور اور مسائل سے نبرد آزما ملک کی ترقی سے ہم آہنگ ہے جہاں معاشرہ ریاست کے مقابلے میں روز افزوں بڑا نظر آتا ہے اور یہ ملک ہے امریکا۔ اس متوازی مثال کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۷ جنوری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply