کئی سال قبل جب کہ میں جرنل (ر) حمید گل سے راولپنڈی میں انٹرویو کر رہا تھا ۔ ایک بوڑھا آدمی جو ایسا لباس زیب تن کیا ہوا تھاجسے نو جوان نسل Burmuda Shorts کا نام دیتی ہے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔جرنل حمید گل کے ساتھ میں حکومتوں کو معزول کرنے میں چیف آف آرمی اسٹاف کے کردار کو موضوع بحث بنائے ہوئے تھا ۔ اس خاص لمحے میں گفتگو جنرل اسلم بیگ پر مرکوز تھی جنہیں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی میں ایک اہم کردار خیال کیا جاتا ہے ۔ جوں ہی یہ گفتگو کورکمانڈروں اور آئی ایس آئی کے کردار کی جانب بڑھی برمودہ شارٹس میں ملبوس صاحب نے دلچسپ انکشافات اس حوالے سے کیا کہ کور کمانڈروں نے بے نظیر کی حکومت کو معزول کرنے کی مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن یہ وہ نکتہ نہیں ہے جسے میںنمایاں کرنا چاہ رہا ہوں۔
مجھے جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ بوڑھا آدمی لاہور کا سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ(ر) جنرل محسود ہے جو کہ ماہر سخن گو ہے۔ پھر گفتگو مزید آگے بڑھی جس میں تمام کور کمانڈر ز بالعموم اور کراچی میں تعینات کور کمانڈر بالخصوص موضوع گفتگو تھے۔ موخر الذکر کمانڈر کے پاس عالی شان سوار دستے تھے جو انہیں گھر سے باتھ آئی لینڈ میں واقع آفس تک لے کر آتے تھے ۔ ان کی گاڑی ون وے روڈ پر غلط سمت میں بہت ہی بے رحمی سے چلائی جاتی تھی،’’حفاظتی وجوہات‘‘ کی بنا پر ۔ اس عمل پر نا پسندیدگی کا اظہار کر تے ہوئے محسود نے دعویٰ کیا کہ جب وہ لاہور کے کورکمانڈر تھے تو انہوں نے اس طرح کا طرز عمل کبھی اختیا ر نہیں کیا۔حمید گل اور میں دونوں ہی اس بات سے بہت متاثر ہوئے ۔
بہرحال محسود اگرچہ ان تمام مراعات سے لطف اندوز نہیں ہوئے جن سے کراچی میں ان کے ہم منصب ہوتے رہے لیکن اس کے باوجود جنرل محسود اب بھی بعض مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ لیکن انہیں تنہا شخص قرار نہیں دیا جاسکتاجو ان مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔ بہرحال یہ بات عام لوگوں کے علم میں ہے کہ فوجی افسران قابل رشک اور غیر معمولی مراعات و سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔جنرل ٹکا خان کا ہی معاملہ لے لیجئے جنہیں ’’بنگال کا قصاب‘‘ کے طورپر جانا جاتا ہے ۔ مجھے اب بھی ان کی ایک تصویر یاد ہے جس میں ایک شخص ان کے جوتوں کے فیتے باندھ رہا تھا ۔ اس کے باوجود برمودہ لباس میں ملبوس ریٹائر جنرل جو حکومتوں کی تنصیب اور معزولی پر گفتگو کر رہے تھے سادگی کامرقع معلوم ہو رہے تھے، اس دور کے مقابلے میںجب کہ وہ کور کمانڈر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ وہ بہت معمولی لباس میں تھے(میرے خیال میں ایسا لباس شاذو نادر ہی کوئی پہنتا ہو گا ) اور نہ ان کے لیے کوئی پروٹو کول تھا لیکن زیادہ تر جنرل جب ریٹائر ہو جاتے ہیں تو سادہ زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ مثلاً جنرل گل، جنرل بیگ، جنرل وحید کاکڑ، جہانگیر کرامت اور اس طرح کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں سبھی اس طرح کی سادہ زندگی گزارنے لگتے ہیںجس طرح کے سر زمین پاک کے دوسرے شہری گزارتے ہیں۔
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اہمیت آدمی کی نہیں ہے بلکہ اس کی وردی کی ہے۔ جس منصب پر وہ براجمان ہیں وہ منصب ان کے لیے مراعات، سہولیات و اقتدار لاتا ہے۔ جب وہ اس منصب سے سبکدوش یابرطرف ہو جاتے ہیں تو پھر وہ آپ، میری اور دوسروں کی طرح کے ہی عام آدمی ہوتے ہیں اگرچہ اس کے باوجود کہ ان کے پاس دولت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن بعض اوقات اقتدار سے ان کا معزول ہونا ان کے لیے ذلت و رسوائی کا بھی سبب ہوتاہے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دوران ایسا ہی معاملہ ایک جنرل کے ساتھ تھا۔ اس کے متعلق یہ افواہ تھی کہ وہ ملک کے فوجی آمر سے بھی زیادہ خوف ناک معلوم ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسے بہت ہی ذلیل طریقے سے نکالا گیا ۔ جب اسے مارچنگ آرڈرز دیے گئے تو اس نے مبینہ طور پر اسٹاف کار طلب کیا تاکہ وہ ضیاء صاحب کے پاس واپس جا سکے۔ اس کو اس وقت انتہائی صدمہ ہوا جب اس سے بہت نرمی کے ساتھ یہ کہہ دیا گیا کہ کار اس وقت ان کے لیے دستیاب نہیں ہے۔عروج سے اس طرح کے زوال کی داستان بہت طویل ہے مثلاً کیا آپ کو معلوم ہے کہ جنرل عثمانی ان دنوںکہاں ہیں؟ کس قدر وہ اہم اور قابل اعتماد آدمی تھے جب فوج نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فیصلہ کن اقدام کیا تھا اور مشرف جو ابھی جہاز ہی میں تھے دریافت کیا تھا کہ جنرل عثمانی کہاں ہیں؟ لیکن آج کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ جنرل عثمانی کہاں ہیں اور نہ کسی کو ان کی پروا ہے ۔ چونکہ اب وہ وردی میں نہیں ہیں لہذا اب وہ کسی کام کے آدمی نہیں ہیں ۔ اس طرح کے واقعات ہمیں عجیب و غریب لگتے ہیں، ایسے وقت میں جب کہ ہم باوردی لوگوںکو صاحبِ اقتدار دیکھنے کے عادی ہیں اس لیے کہ وہ معاشرے کا بہت ہی قدرت مند حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔ در اصل ان کا اقتدار اس لیے ختم ہو جاتا ہے کہ آغاز میں وہ ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں تھا۔
چنانچہ جب ان کی وردی اتر جاتی ہے تو وہ بے حیثیت وجود میں تبدیل ہوجاتے ہیں ٹھیک اسی طرح جس طرح دندان شکستہ ایک بے ضرر ناگ ہو تا ہے۔ لہذااس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ لوگ وردی سے چپکے رہنے کے لیے ہر قسم کے نا پسندیدہ اقدام کر بیٹھتے ہوں۔ لیکن کوئی بھی اس وردی میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتا ہے ۔ یہ ساری باتیں میرے ذہن میں آتی ہیں جب میں اسلام آباد میں ہونے والے ڈرامے کا نظارہ کرتا ہوں۔ مشرف کتنے دنوں تک باقی رہیں گے یہ کوئی قیاس ہی کر سکتاہے۔ ہم انتظار اور مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ : ’’ہیرالڈ ‘‘ کراچی، نومبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply