
ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک کی طرح بھارت کے لیے بھی یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز ہے مگر حیرت زدہ رہ جانے سے بات نہیں بنتی۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ردعمل بھی دینا پڑتا ہے۔ اس وقت بھارتی قیادت بہت حد تک تذبذب کا شکار ہے۔ چین، پاکستان، ترکی اور روس کھل کر میدان میں آچکے ہیں اور خطے کے سیاسی اور اسٹریٹجک محرکات تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بھارت، ایران اور افغانستان کو ساتھ ملاکر ایک طرف پاکستان کے لیے اور دوسری طرف سنگارپور، ویتنام، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے عسکری اور تجارتی نوعیت کا اشتراکِ عمل کرکے چین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جو کچھ بھارت کر رہا ہے اُس کے نتیجے میں صرف خرابیاں بڑھیں گی۔ (مترجم)
آستانہ میں پاکستان اور بھارت دونوں ہی کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت مل گئی۔ بھارت کے لیے یہ پیش رفت خوش آئند ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اُسے یقینی طور پر اس بات سے بھی دکھ پہنچا ہوگا کہ اُس کا حریف بھی اس فورم میں اُس کے مقابل کھڑا ہے۔
سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے بھارت کو جن حالات نے پریشان اور متحرک رکھا ہے وہ اب تھوڑی بہت راحت کا اہتمام بھی کر رہے ہیں۔ بھارت کے لیے بنیادی مسئلہ پالیسی تیار کرنے سے زیادہ پالیسی کی سمت متعین کرنے کا ہے۔ بھارتی قیادت اب تک مخمصے میں مبتلا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آسکا ہے کہ ملک کو یوریشین طاقت میں تبدیل کرے یا پیسفک قوت میں۔ ایک طرف چین اور وسط ایشیا کی ہارٹ لینڈ ریاستیں ہیں اور دوسری طرف بحر ہند اور بحرالکاہل کی ساحلی ریاستیں۔ نئی دہلی اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکا ہے کہ خود کو ایشیا کے قلب میں مرتکز رکھے یا بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے میں۔
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھارت کا وسط ایشیا سے تعلق بڑھا ہے، مضبوط تر ہوا ہے۔ ثقافتی اور تہذیبی سطح پر بھی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ آریوں سے مغلوں تک سبھی وسط ایشیا سے آئے تھے۔ بھارت نے عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کردار وسیع تر کرنے کے حوالے سے چند ایک کوششیں کی ہیں اور بڑی قوتوں کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ بھی کچھ ہے مگر اِس میں خاطر خواہ کامیابی اب تک مل نہیں سکی ہے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بھارتی قیادت پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ایشیا کی اندرونی قوتوں سے جیتنا اس کے بس کی بات نہیں۔
بہت حد تک پاکستان بھارتی عزائم کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہے۔ جب تک برطانیہ بھارت پر حکمران تھا، بھارتی سیاست دان اور عسکری قوت ایشیا میں زیادہ اندر جاکر اپنے اثرات قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ ۱۹۴۷ء میں برطانیہ سے آزادی ملنے پر بھارتی قیادت کو ایشیا کے قلب میں واقع ریاستوں سے روابط بڑھانے کا موقع ملا۔
بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت کا خواہش مند تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ اُسے بھی اندازہ ہے کہ آج کی دنیا کثیر قطبی ہے یعنی اِس میں کوئی ایک قوت تمام امور پر متصرف نہیں۔ سب کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ امریکا واحد سپر پاور ضرور ہے مگر پوری دنیا کو چلانے کی اہلیت اب اس میں نہیں رہی۔ روس بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ باقی دنیا کو کنٹرول کرسکے۔ چین کا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ تال میل کی پالیسی اپنائی جائے یعنی تمام بڑی اور ابھرتی ہوئی قوتوں کے ساتھ مل کر چلا جائے۔
۱۹۹۱ء کے بعد ابھرنے والی دنیا میں امریکا واحد سپر پاور ہونے کے ناتے قدرے بے لگام رہا ہے۔ اس کے عزائم کا سیلاب روکنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ بھارت نے سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس کے ساتھ مل کر وسیع تر یوریشین اتحاد تشکیل دینے کی سمت قدم بڑھایا تھا تاکہ امریکی اثرات کو محدود رکھنے کا کوئی موثر میکینزم تیار کیا جاسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور یورپ کے اپنے مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں مگر امریکا مجموعی طور پر بے لگام رہا ہے اور اب تک اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا آیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں، فطری طور پر، خرابیاں زیادہ پیدا ہوئی ہیں۔
بھارتی قیادت کا مخمصہ یہ ہے کہ اُسے امریکا پر بھی پورا بھروسا نہیں اور ساتھ ساتھ چین اور روس کے حوالے سے بھی اس کے تحفظات ہیں۔ بھارتی پالیسی ساز اس بات کو سمجھتے ہیں کہ امریکا اُن کے مفادات کی نگرانی نہیں کرسکتا۔ یہی سبب ہے کہ بھارت نے BRICS، SCO اور AIIB سمیت ہر اُس فورم میں شمولیت اختیار کی ہے جس میں چین اور روس بھی موجود ہیں۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر حال ہی میں چین میں منعقدہ ون بیلٹ ون روڈ سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرکے بھارت نے یہ بتادیا کہ وہ علاقائی سیاست و معیشت میں اپنا کردار گھٹانے کو تیار نہیں۔ بھارت کو اس بات کا پوری شدت سے احساس ہے کہ امریکا اور یورپ سے بڑھ کر اب چین اس کے لیے زیادہ پریشان کن ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت ملنے سے بھارت کے تحفطات دور تو کیا ہونے ہیں، مزید بڑھیں گے۔ مثلاً بھارت یہ دعویٰ کرتا نہیں تھکتا کہ پاکستان دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم سے یہ بات نہیں کہی جاسکے گی اور وہاں پاکستان کو قبول کرنا پڑے گا۔ اور پھر یہ بات بھی ہے پاکستان پر عائد کیے جانے والے دراندازی اور دہشت گردی کے الزامات کے حوالے سے شنگھائی تعاون تنظیم میں چین بھارتی قیادت کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا یعنی یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ (چین) پاکستان کے خلاف جاسکتا ہے۔ ہاں، بھارت پر ضرور دباؤ بڑھے گا کہ کشمیر پر پاکستان سے بات کرکے اختلافات ختم کرے اور کسی تصفیے کی راہ ہموار کرے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا فریم ورک چاہے گا کہ تمام علاقائی تنازعات ختم کردیے جائیں تاکہ وسیع تر معاشی اشتراکِ عمل کی راہ ہموار ہوسکے۔
بھارت کے لیے پریشانی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ روس کا جھکاؤ واضح طور پر چین اور پاکستان کی طرف ہے۔ بھارتی قیادت ماضی میں متعدد امور پر روس سے مدد مانگتی رہی ہے اور مدد ملتی بھی رہی ہے مگر اب روس ایسا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسری طرف چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ذریعے اپنی معیشت کو فوکس کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں بھارت کو کچھ زیادہ ملے گا نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس پورے کھیل سے الگ بھی نہیں رہ سکتا۔ ایسی صورت میں زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے نام پر اپنی بات منوائے، مگر وہ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں زیادہ نہیں۔ یاد رکھنا پڑے گا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر چین کو پاکستان کے خلاف جانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ چین اس پورے کھیل میں بنیادی فریق ہے اور پاکستان کا حلیف بھی۔ وسط ایشیا کی ریاستوں سے بھارت زیادہ روابط چاہتا ہے مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس سے کشیدگی کم کرنے پر خاص توجہ دینا بھارت کے لیے ناگزیر ہے۔
امریکا میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر کے منصب پر فائز ہونا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ترتیب دی ہوئی پالیسی اور حکمت عملی میں توازن زیادہ نہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے بگاڑ زیادہ پیدا ہو رہا ہے۔ روس اور چین کے درمیان اختلافات ابھریں گے۔ ایک طرف تو ٹرمپ روس کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف چین سے بھی مکمل بگاڑ مول نہیں لینا چاہتے۔ ایسے میں بھارت کو روس چین اختلافات سے استفادہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اُسے اپنے لیے مزید امکانات بھی پیدا کرنا ہیں۔
روس اور چین دونوں ہی کثیر قطبی دنیا کی بات کر رہے ہیں۔ دونوں کو اندازہ ہے کہ کوئی ایک ملک پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ چند بڑی قوتیں مل کر ایک پُول تیار کریں اور دنیا بھر کے معاملات کو ڈھنگ سے چلانے کی کوشش کریں۔ روس اور چین امریکی صدر سے الگ الگ معاہدے کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ وسط ایشیا کے حوالے سے بھی دونوں کی سوچ ہم آہنگ نہیں۔ ایسے میں بھارت کے لیے ایک اچھا آپشن انتظار کرنے کا ہے۔ اُسے اطمینان سے دیکھنا چاہیے کہ بڑی طاقتوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اگر بھارت یہ محسوس کرے کہ وہ ایشیا کے اندرونی حصوں میں زیادہ دور تک نہیں جاسکتا اور اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں تو اُسے بحرہند اور بحرالکاہل پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ یوریشیا میں اگر وہ اپنی بات زیادہ نہیں منوا سکتا تو پھر روس چین تعاون سے پہنچنے والے نقصان کا دائرہ محدود رکھنے پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ یہی اس کے لیے بہترین آپشن ہے۔
اگر امریکا غیر متوازن ہوجائے اور روس و چین کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے تو بھارت کو جاپان اور مغربی یورپ سے اشتراکِ عمل کے ذریعے اپنے مفادات کو تحفظ دینا چاہیے۔
بھارت کو یہ بات سمجھنا پڑے گی کہ دو الگ الگ تھیٹرز میں اُسے حالات کے مطابق متحرک رہنا ہے۔ ایک طرف یوریشیا ہے اور دوسری طرف بحر ہند و بحرالکاہل کا خطہ۔ وہ ان میں سے ہر خطے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتا۔ ایسے میں لازم ہے کہ وہ زیادہ یکسوئی سے وہاں کام کرے جہاں اس کے لیے امکانات زیادہ اور زیادہ بارآور ہوں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Beware of Beijing”.(“Indian Express”. June 8,2017)
Leave a Reply