
دنیا کی نصف سے زائد آبادی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مرتکز ہے۔ یہ لوگ دن بہ دن امریکا سے بعید تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر افراد کے لیے امریکا اقتصادی جنت ہے مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں اس ملک سے ڈر بھی بہت لگتا ہے۔ دن رات امریکا کے بارے میں خدشات پالنا ان کا بہترین مشغلہ ہے۔ بہت سوں کو تو صحیح ڈھنگ سے نیند ہی اس وقت آتی ہے، جب وہ امریکا کو دو چار گالیاں دے چکتے ہیں! ایسا کیوں ہے؟ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا سے نفرت کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ امریکی پالیسیوں کو ان خطوں میں ہمیشہ شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟
کشور محبوبانی نے اپنی کتاب ’’بی یونڈ دی ایج آف انوسینس‘‘ میں اس امر پر بحث کی ہے کہ دنیا بھر میں امریکا سے جو نفرت پائی جاتی ہے، اس کا بنیادی سبب خود امریکی پالیسیوں کا استحصال پسند ہونا ہے۔ امریکا جو کچھ ہوا کرتا تھا، اب نہیں رہا۔ اس کی حیثیت اور نوعیت بدل گئی ہے۔ امریکا کے بانیوں نے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا تھا، جس میں مساوات اور شخصی آزادی ہو۔ ان کے جا نشینوں نے ان بنیادی آئیڈیلز کو نظر انداز کرکے دنیا پر حکومت کرنے کے بارے میں سوچا اور اس سوچ پر خاصے بھونڈے انداز سے عمل کیا۔ امریکا اپنے ابتدائی دور میں مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے امید کی کرن تھا۔ اس نے ایک ایسی دنیا کا تصور دیا، جس میں مساوات ہوگی اور لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں گے۔ دنیا بھر کے لوگ امریکا میں آباد ہوئے اور ایک نئی زندگی کی ابتدا کی۔ یہ دنیا کی بھی نئی ابتدا تھی۔
سنگاپور سے تعلق رکھنے والے کشور محبوبانی کا شمار عصر حاضر کے بڑے سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کیریئر ڈپلومیٹ کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے اور اب علمی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مغربی اور ایشیائی جرائد میں ان کی تجزیاتی تحریریں شائع ہوئیں تو برطانوی ہفت روزہ ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے انہیں ایشیا کا ٹوئن بی قرار دیا۔ ٹوئن بی نے تاریخ کے میدان میں اپنی طبیعت کی جولانیاں دکھائی ہیں اور کشور محبوبانی نے بھی گزرے ہونے زمانوں کا جائزہ لے کر آنے والے زمانوں کی بات کی ہے۔ ان کا خاص موضوع امریکا ہے، جو دنیا بھر میں تبدیلیوں کا بنیادی سبب ہے۔ کشور محبوبانی امریکا کو ایک ایسے تناظر میں دیکھتے ہیں، جسے بیشتر تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ کشور محبوبانی نے امریکا کو قریب سے دیکھا ہے۔ امریکی معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں ان کے سامنے بے نقاب ہیں۔ سنگاپور کے مستقل مندوب کی حیثیت سے انہوں نے اقوام متحدہ میں بارہ سال گزارے ہیں۔ اس دوران انہوں نے امریکا کو موضوع کی حیثیت سے دیکھا، پرکھا اور برتا ہے۔ امریکا اور باقی دنیا کے درمیان تعلق کا تجزیہ انہوں نے خوب کیا ہے۔ دو عشروں کے دوران بین الاقوامی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر ان کی خوب نظر ہے۔
’’بی یونڈ دی ایج آف انوسینس‘‘ میں کشور محبوبانی نے ہمیں اس امریکا کا دیدار کرایا ہے، جو ایشیا اور دیگر خطوں کے لوگوں کی نظر میں بسا ہوا ہے۔ امریکا کو صرف گالیاں دینے والوں سے اختلاف کرتے ہوئے کشور محبوبانی نے لکھا ہے کہ امریکا وہ ملک ہے، جس نے دنیا کا نظام مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس ملک نے اربوں انسانوں کو پرامید رہنا سکھایا ہے۔ امریکا نے علوم اور فنون کی سطح پر پیش رفت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ شخصی آزادی پر بھی غیر معمولی زور دیا ہے۔ امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر ایسا عالمی نظام ترتیب دیا، جس کی بدولت کئی اقوام کو بہتر ڈھنگ سے پنپنے کا موقع ملا، مگر سرد جنگ کے خاتمے پر اس ملک نے راستہ بدل لیا۔ اب تک وہ ایک خصوصی ملک تھا، اب اس نے عام ملک کا روپ دھار لیا۔ اس نے دوسروں کی پریشانیوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا۔ اس کے فیصلوں سے کئی ممالک بلکہ خطوں پر عجیب و غریب اثرات مرتب ہو رہے تھے مگر اس نے ان اثرات کے بارے میں سوچنا ترک کردیا۔ امریکی پالیسی سازوں نے صرف اپنے قومی مفادات کو ہر حال میں ترجیح دینا شروع کی۔ چین اور اسلامی دنیا کو یکسر نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ افغانستان اور عراق میں جو کچھ ہوا اس نے اخلاقی اقدار کے حوالے سے امریکا کی ساکھ مزید خراب کردی۔ گوانتا نامو بے جیل کے واقعات نے امریکا کو اہل جہاں کی نظر میں مزید گرادیا۔
کشور محبوبانی کا استدلال ہے کہ امریکا اور باقی دنیا کے درمیان خلیج پاٹنے کی کوشش نہ کی گئی تو امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ امریکا کے پاس اب بھی وقت ہے کہ راستہ بدل لے اور باقی دنیا کو اپنے ساتھ ملاکر چلے۔ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی رائے عامہ تبدیل کرنے کے لیے امریکا کو مفاد پرستی پر مبنی اقدامات سے گریز کرنا ہوگا اور ان خطوں کی ترقی کی راہ میں مزاحم ہونے سے بھی باز رہنا ہوگا۔ کتاب سے اقتباسات پیش خدمت ہیں:
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد ’’نیوز ویک‘‘ کے ایڈیٹر فرید زکریا نے ’’وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے ایک کور اسٹوری لکھی۔ یہ کور اسٹوری پڑھ کر بیشتر امریکیوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ انہیں بلا جواز نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کو بے قصور گردانا گیا اور ان پر حملہ کرنے والوں کی شدید مذمت کی گئی۔ بیشتر امریکیوں کو اپنی بے گناہی کا تو یقین تھا، مگر اس بات سے وہ انجان بنے ہوئے تھے کہ دنیا بھر میں لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ امریکی ان سے کیوں نفرت کرتے ہیں!
امریکا کا سب سے بڑا تضاد یا المیہ یہ ہے کہ اس کے شہری دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور معلومات حاصل کرنے کے ذرائع تک ان کی رسائی بھی قابل رشک ہے، مگر اس کے باوجود عالمی سیاست کے بارے میں ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بیشتر امریکیوں کو بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنی حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ امریکی حکومت کے اقدامات سے دنیا بھر میں خرابیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں، مگر اس حقیقت کو بیشتر امریکیوں نے نظر انداز کر رکھا ہے۔
میں نے اپنی اس کتاب کے ذریعے امریکیوں کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا بھر میں پونے تین ارب انسان رات دن ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی کے ہر معاملے پر امریکی پالیسیاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ امریکی حکومت جو کچھ کرتی ہے اور امریکی کارپوریٹ ادارے جو گل کھلاتے ہیں، ان سے امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رجحان پر قابو پانے کے لیے خود امریکی عوام کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی حکومت کو باور کرانا ہوگا کہ قومی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر اس کے ہر اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ’’روشوم‘‘ ایک ایسی مووی تھی جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ایک ہی معاملے کو کتنے زاویوں سے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ ہر قوم اور ہر نسل کے لوگوں کو اپنے اپنے کلچر اور جغرافیائی خواص کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے۔ یہ ان کا پیدائشی حق ہے جو چھینا نہیں جاسکتا۔ امریکیوں اور امریکی حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔ دوسروں کو احترام دیے بغیر ان سے احترام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ امریکی تجزیہ نگار چند اصطلاحات کی مدد سے عالمی حالات کا تجزیہ کرنے کے عادی ہیں۔ دوسروں کی زبان اور ان کے پس منظر سے انہیں کچھ خاص غرض نہیں۔ امریکی دانشوروں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ دوسروں کا نقطہ نظر بھی اہم ہوتا ہے۔ غیر امریکی تناظر کی بھی اہمیت ہے۔ اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیے بغیر معاملات کے درست ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دوسروں کی توقعات بھی اہم ہیں۔ ان کی بات سنے بغیر کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں۔ امریکا چاہے تو اپنی پالیسیاں تبدیل کرکے ایک بار پھر ساکھ بحال کرسکتا ہے۔ وہ واحد سپر پاور ہے اس لیے اس کی طاقت بھی غیر معمولی ہے۔ اس غیر معمولی طاقت کو مثبت کاموں پر صَرف کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کا دل جیتنے کے لیے ان کی بات ماننا ہوگی، ان کا نقطہ نظر سمجھنا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر امریکا اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافے کا عمل روک نہیں سکتا۔ امریکا کے بانیوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسا ملک قائم کر رہے ہیں جو دوسروں کی رائے کا احترام کرے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی عوام اور حکومت اپنے بانی قائدین کی بات پر عمل کریں۔
٭ اسلام اور مغرب
اسلام کے حوالے سے مغرب کی پالیسیوں میں استحکام کا پایا جانا امر محال ہے۔ خود مغربی دانشور بھی اب اس بات کو واضح طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں بگاڑ پیدا کرکے خود کو الگ کرلینا ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے مغربی دنیا کا وتیرہ رہا ہے۔ اہل دانش اس بات پر زور دیتے آرہے ہیں کہ اسلامی دنیا کو نظر انداز کرنے کی پالیسی تَرک کرکے امریکا اور یورپ کو اب اسلامی ممالک کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہیے۔ ایسا نہ کیا گیا تو ایک نیا بلاک معرض وجود میں آسکتا ہے، جو مغرب کی قائدانہ حیثیت کو چیلنج کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
اسلامی دنیا کو مسلسل نظر انداز کرکے مغرب بھیانک غلطی کر رہا ہے۔ متعدد اسلامی ممالک میں امریکا اور یورپ نے مل کر خرابیاں پیدا کی ہیں اور اب ان سے یکسر لاتعلقی اختیار کرلی ہے۔ یہ ایسی غلطی ہے، جسے کسی بھی طور قبول اور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی ممالک کے حوالے سے امریکا اور یورپ کی کوئی ایسی مربوط پالیسی رو بہ عمل نہیں جسے بنیاد بناکر کہا جاسکے کہ اسلامی دنیا کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں مدد دی جارہی ہے۔ اسلامی دنیا میں مغرب نے صرف اپنے دشمن پیدا کیے ہیں۔ مغربی دنیا کی زبردست مادّی ترقی سے متاثر ہوکر اسلامی دنیا سے کروڑوں افراد مغربی ممالک میں کام کر رہے ہیں اور بس بھی گئے ہیں، مگر انہوں نے مغرب کو اس کی روح کے ساتھ قبول نہیں کیا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب میں بسے ہوئے مسلمانوں میں مغربی حکومتوں اور تہذیب سے نفرت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ بلا جواز نہیں۔ مغرب نے جو بویا تھا وہی کاٹ رہا ہے۔
امریکا اور یورپ کی ترجیحات میں اسلامی دنیا کی مدد کرنا اب بھی شامل نہیں۔ یہ دونوں مل کر اسلامی ممالک کو پس ماندہ رکھنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کی حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ انتہا پسندی کو واحد آپشن کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے۔ اسلامی دنیا میں زیادہ سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنا بظاہر مغربی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ ہے۔ امریکا اور یورپ اس حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کرسکتے کہ انہوں نے سو سال کے عرصے میں تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں پوری اسلامی دنیا کو اپنا دشمن بنالیا ہے۔
اسلامی دنیا سے ڈیلنگ کے معاملے میں امریکا اور یورپ کی پالیسیوں میں جو تضاد اور کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس سے نمٹنے میں اکیسویں صدی کا بڑا حصہ ضائع ہوگا۔ مغرب کی بنیادی غلطی یہ تصور ہے کہ جدید دنیا میں اس کے مفادات کو اسی وقت تحفظ حاصل ہوگا جب اسلامی ممالک شدید غربت کی چکّی میں پستے رہیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی عدم استحکام کی راہ اپنائی گئی ہے۔
مغرب کی دوسری بھیانک غلطی نے پہلی غلطی کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور ممکنہ طور پر یہ لاشعوری عمل کا نتیجہ ہے۔ مغرب نے جدید علوم اور فنون میں اپنی مہارت سے اسلامی دنیا کو بہتر ڈھنگ سے مستفید نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں علمی سطح پر اسلامی ممالک پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے یورپ کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے مارشل پلان تیار کیا۔ ایسا ہی پلان جاپان کے لیے بھی تیار کیا گیا۔ جنگ سے تباہ حال جاپان کو معاشی اور علمی اعتبار سے نئی زندگی دی گئی۔ اسلامی دنیا کے معاملے میں امریکا نے ایسا کیوں نہیں کیا، اس کا سبب ایک بڑی علمی بحث کے ذریعے طے کیا جاسکتا ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اسلامی دنیا کو امریکا اور یورپ سے علوم اور فنون کے معاملے میں غیر معمولی مدد درکار تھی۔ مگر اس کا اہتمام کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا۔ کیا یہ اسٹریٹجک غلطی تھی یا سوچ لیا گیا کہ اسلامی ممالک کو پسماندگی سے دوچار رکھنا بہتر ہے؟ اس کا جواب مغربی اور اسلامی دنیا کے مؤرخین ہی بہتر طور دے سکیں گے۔
اسلامی دنیا کے حوالے سے مغرب کی تیسری بڑی اسٹریٹجک غلطی یہ ہے کہ اعتدال پسند عناصر کی بروقت حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، اور جن لوگوں نے اعتدال پسندی کی راہ اپنائی ان پر شک ہی کیا جاتا رہا۔ اسلامی ممالک میں جن اعتدال پسند عناصر نے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کی ان کی نیت پر شک کیا گیا اور انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ کئی مسلم ممالک میں اعتدال پسند سیاسی جماعتوں نے حکومت بنائی تو مغربی دنیا ان کے پیچھے پڑگئی۔ مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے مسلم نوجوان اسلامی دنیا کی پسماندگی دیکھ کر الجھن میں مبتلا ہیں، مگر پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی معاشروں کی زبوں حالی پر کڑھنے والے ان مسلم نوجوانوں کا ہیرو اسامہ بن لادن نہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے سیاسی اور معاشی اعتبار سے مغرب کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں اور اپنی مذہبی اقدار اور تہذیبی روایات بھی برقرار رکھیں۔ اسلامی دنیا کے اعتدال پسند عناصر کی یہ سوچ کسی بھی اعتبار سے ناقابل قبول نہیں۔ مسلم دنیا کے اعتدال پسند طبقات اپنی تہذیب اور علمی قوت کا احیا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں انہیں مغرب سے مدد درکار ہے۔ یہ لوگ مغرب کے بہترین شراکت دار ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کی بات سننا مغرب کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ چند عشروں کے دوران مغرب نے ان لوگوں کی مدد کی ہے جو اسلامی دنیا میں اعتدال پسند طبقات کو کچلنے میں مصروف ہیں!
مغرب کی چوتھی بڑی اسٹریٹجک غلطی یہ ہے کہ اس نے اسلامی دنیا میں جدید سیکولر تعلیم کے فروغ پر توجہ نہیں دی۔ جدید طریقِ تعلیم کے تحت تیار کیے جانے والے معاشرے اپنے دور کے تمام تقاضوں کو نبھانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ مغرب نے ایک طرف تو اسلامی معاشروں میں جدید سیکولر تعلیم کو فروغ نہیں دیا اور دوسری طرف ان اسلامی مدارس کو ملنے والے فنڈ سے چشم پوشی برتی جو ہر معاملے میں غیر معمولی شدت پسندی سکھا رہے تھے۔ شدت پسندی سکھانے والے مدارس سے مکالمے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ انہیں مرکزی دھارے سے الگ کردیا گیا۔ کسی بھی معاشرے میں شدت پسندی پر مائل ذہن کو اعتدال کی راہ پر لانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول میں عشرے بھی صَرف ہوجاتے ہیں۔
اسلامی دنیا کے حوالے سے مغرب کی پانچویں بڑی اسٹریٹجک غلطی یہ ہے کہ مغربی سیاسی قائدین نے محض اپنے قلیل المیعاد فائدے کے لیے اسلامی دنیا میں طویل المیعاد فوائد کو نظر انداز کیا۔ اور یوں اسلامی دنیا میں ایسی سیاسی تبدیلیاں لائی گئیں، جو مغرب کے چند قائدین کے لیے تھیں۔ مغربی ممالک میں انتخابات کے زمانے میں اسلامی دنیا سے خوفزدہ کرکے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ یورپ میں یہ تصور عام کردیا گیا ہے کہ اسلامی دنیا پس ماندہ رہے تو اچھا ہے، ترقی یافتہ اسلامی دنیا اس کے لیے سب سے بڑے خطرے کی شکل میں سامنے آئے گی۔
نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔ جنرل پرویز مشرف کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے امریکا سے بھرپور مدد درکار تھی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے بھرپور کردار کے عوض قومی سطح کے چند فوائد طلب کیے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی امداد ملے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل کوٹے میں اضافے کی درخواست کی۔ امریکی صدر جارج واکر بش نے شمالی کیرولائنا کے چند ٹیکسٹائل ووٹروں کو ناراض کرنے سے گریز کیا اور قومی مفاد کو داؤ پر لگادیا۔ یہ معاملہ صدر اور ری پبلکن پارٹی کے لیے ووٹوں کا تھا۔
یورپ کا معاملہ خاصا مختلف ہے۔ جدیدیت سے اسلامی دنیا کو دور رکھنے میں یورپ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مگر جغرافیائی اعتبار سے یورپ اس قابل نہیں کہ اسلامی دنیا سے براہ راست زیادہ دیر متصادم رہ سکے۔ امریکا بہت دور واقع ہے۔ یورپ اور شمالی افریقا کو صرف بحیرۂ روم الگ کرتا ہے۔ یہ چھوٹا سا سمندر مسلمانوں کی راہ میں مزاحم نہیں ہوسکتا۔ شمالی افریقا سے ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔ یورپی حکومتوں کے لیے ان سے نمٹنا بڑا مسئلہ ہے۔ یورپ اس معاملے میں بدحواسی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کے بجائے اسے اسلامی دنیا کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور پسماندہ اسلامی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا چاہیے تاکہ وہ ہر معاملے میں یورپ کا رخ کرنے کے بارے میں سوچنا کم کردیں۔ یورپ نے جو غیر معمولی ترقی کی ہے اس میں اسلامی دنیا کے قدرتی وسائل کی بندر بانٹ کا بھی اہم کردار ہے۔ اس حوالے سے اسلامی ممالک میں یورپ کے لیے نفرت کا پایا جانا ذرا بھی حیرت انگیز نہیں۔ یہ دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا کہ یورپ نے اسلامی دنیا کو جدید علوم اور فنون سے دور رکھنے کے سلسلے میں کوئی باضابطہ فیصلہ کیا ہوگا۔ بعض غلط فہمیوں کے نتیجے میں معاملات اور تعلقات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا اور یورپ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ یورپی باشندوں کے ذہنوں میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ اسلامی دنیا ان کی ترقی سے خائف ہے اور اس ترقی کے ثمرات کو مٹانا چاہتی ہے۔ جب تک یہ تاثر زائل نہیں ہوگا تب تک یورپ کے لوگ اسلامی دنیا کو مکمل طور پر نہیں اپنائیں گے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران اسلامی ممالک کی سیاسی، معاشی اور علمی ناکامی پر یورپ کی جانب سے کبھی مسرت کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یورپ نے بیسویں صدی میں بے مثال ترقی کی اور دوسری طرف اس کی سابق مسلم نوآبادیاں مشکلات سے دوچار ہوتی چلی گئیں، مگر اس ناکامی پر یورپ نے کبھی فخر کا اظہار نہیں کیا۔ اس نوعیت کا اظہار شائستگی کے اصولوں کے منافی ہے۔ مگر یورپ کے لیے پالیسیاں تیار کرنے والوں نے یہ ضرور طے کرلیا تھا کہ اسلامی ممالک کو پس ماندہ رکھنے ہی میں یورپ کی بہتری ہے۔ اب ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی سوچ سراسر غلط تھی۔
اسلامی ممالک کو پس ماندگی کے دائرے سے نکال کر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے۔ اس معاملے میں امریکا اور یورپ کو مرکزی کردار ادا کرنا ہے۔ جب تک یہ اہم کام نہیں کیا جائے گا، سیاسی اور علمی سطح پر خرابیاں پیدا ہوتی رہیں گی۔
میں نے گزشتہ بائیس سال میں سے گیارہ سال امریکا میں گزارے ہیں۔ اس دوران بہت سے امریکیوں سے میری دوستی ہوئی ہے اور میں ان تک وہ رائے پہنچانے میں کامیاب ہوا ہوں جو میں نے امریکا کے بارے میں قائم کی ہے۔ بہت سے امریکیوں کو اس بات کا احساس ہے کہ باقی دنیا سے ان کے ملک کا تعلق تیزی سے بگڑ رہا ہے، مگر وہ اس تبدیلی کے بنیادی اسباب نہیں جانتے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا نے امریکا کو نفرت کی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ امریکا سے نفرت بہت پہلے سے کی جارہی ہے اور اس کے اسباب بھی پہلے سے موجود تھے۔
میں ایشیائی ہوں۔ سنگاپور کے ایک ہندو گھرانے میں میرا جنم ہوا۔ میرے پڑوس میں مسلمان بھی رہتے تھے اور چینی بھی۔ ہندو، مسلمان اور چینی مل کر دنیا کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں۔ اور میں نے امریکا میں بھی اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا ہے۔ اس کا مجھے دہرا فائدہ پہنچا ہے۔ اب میں امریکیوں اور ایشیائیوں کی رائے بہتر طور پر جانتا ہوں۔ میں بتاسکتا ہوں کہ خرابی کہاں کہاں ہے۔ امریکی انتظامیہ دنیا کو سمجھنے اور برتنے کے معاملے میں کوتاہ نظری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ باقی دنیا کو نظر انداز کرکے امریکا فلاح نہیں پاسکتا۔ اسے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ میں سنگاپور کے مستقل مندوب کی حیثیت سے پوسٹنگ کے دوران مجھے امریکا کے طول و عرض میں سفر کا موقع ملا، میں نے مختلف شہروں میں خطاب کیا۔ اس طور مجھے اندازہ ہوا کہ میں امریکا کو کسی حد تک سمجھنے میں کامیاب رہا ہوں۔ امریکی معاشرہ اتنا قابل مذمت نہیں، جتنا دنیا اسے سمجھتی ہے۔ امریکی حکومت کا معاملہ مختلف ہے۔ پالیسی تیار کرنے والوں نے ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچنا شاید ترک کردیا ہے۔ میں امریکی معاشرے کو جانتا ہوں اور اس کی بیشتر خوبیوں اور خامیوں پر نظر ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ امریکی عوام خود اپنے حکمراں طبقے کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو کچھ بھی خارجہ پالیسی کے محاذ پر کیا جارہا ہے، وہ امریکی عوام سے پوچھ کر نہیں کیا جارہا۔ میں چاہوں گا کہ امریکی عوام کا نقطۂ نظر بھی سمجھا جائے اور دوسری طرف امریکیوں کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ان کی حکومت کے فیصلے پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
٭ مصنف کا سوانحی خاکہ
فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد کشور محبوبانی نے سفارت کاری کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نام کمایا۔ انہوں نے ۱۹۷۱ء میں سنگاپور کی وزارت خارجہ سے وابستگی اختیار کی اور ۲۰۰۴ء میں ریٹائر ہوئے۔ سفارت کار اور تجزیہ نگار کی حیثیت سے ان کا کیریئر قابل رشک رہا ہے۔ انہوں نے کمبوڈیا، ملائیشیا اور واشنگٹن میں خدمات انجام دیں۔ جنوری ۲۰۰۱ء اور مئی ۲۰۰۲ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء اور پھر ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۴ء تک انہوں نے اقوام متحدہ میں سنگاپور کے مستقل مندوب کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
کشور محبوبانی نے ۱۹۶۷ء میں صدارتی اسکالرشپ حاصل کی۔ ۱۹۷۱ء میں انہوں نے سنگاپور یونیورسٹی سے فلسفے میں فرسٹ کلاس میں آنرز کیا۔ کینیڈا کی ڈیلہوزی یونیورسٹی سے انہوں نے ۱۹۷۶ء میں ماسٹرز ڈگری لی۔ یہ ڈگری بھی فلسفے میں تھی۔ ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۲ء تک وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل افیئرز کے فیلو رہے۔ ۱۹۹۵ء میں کینیڈا کی ڈیلہوزی یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ سنگاپور کی حکومت نے انہیں ۱۹۹۸ء میں پبلک ایڈمنسٹریشن (گولڈ) میڈل دیا۔ جون ۲۰۰۴ء میں انہیں نیو یارک میں فارن پالیسی ایسوسی ایشن میڈل دیا گیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کشور محبوبانی اگست ۲۰۰۴ء میں نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں لی کوآن یو اسکول آف پبلک پالیسی کے ڈین مقرر ہوئے۔ سنگاپور اور امریکا کے کئی اداروں کے وہ مشیر ہیں۔ معروف امریکی جریدے ’’فارن افیئرز‘‘ میں ان کا پہلا مضمون ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا تھا۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل جرائد میں ان کے درجنوں مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ برطانوی جریدے دی اکانومسٹ اور امریکی جریدے ٹائم میں ان کا پروفائل موجود ہے۔ اب تک کشور محبوبانی کی ۶ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
Leave a Reply