
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کوانتخابی کامیابی پر مبارک باد دینے میں کافی تاخیر کی، یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی۔ گزشتہ چار برس کے دوران سعودی ولی عہد نے یمن پر بدترین بمباری کی، جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اورچین کے ساتھ مل کریورینیم کی افزودگی کا خفیہ پروگرام شروع کیا۔امریکی ڈیموکریٹ کے ارکان جلد سعودی عرب کے ساتھ امریکا کا اتحاد ختم کرنے کے لیے بائیڈن سے اپیل کریں گے، لیکن بائیڈن کو اس تجویز کی مخالفت کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اتحادختم کرنے سے کسی کے رویے میں بہتری نہیں لائی جاسکتی۔اس کے بجائے بائیڈن کو مغربی اتحادیوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ مل کر نیااتحاد قائم کرنا چاہیے،جس میں سعودی عرب بھی شامل ہو۔ تاکہ امریکاکوسعودی عرب کی جانب سے جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی روکنے میں مدد مل سکے۔ ری پبلکن اور کانگریس ارکان سعودی عرب سے تنگ آچکے ہیں۔ گزشتہ برس صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں پارٹیوں کی حمایت سے کی جانے والی قانون سازی کو ویٹو کردیا تھا، جس کے ذریعے یمن پر بمباری کے جواب میں سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس قانون سازی کے حق میں کانگریس میں ہر ڈیموکریٹ رکن نے ووٹ دیا۔ لیکن خاص طور پر ٹرمپ کے قریبی ری پبلکن سینیٹر لُنڈسے گراہم نے بھی حمایت کی۔
بائیڈن دیگر ڈیموکریٹ ارکان کے مقابلے میں سعودی عرب پرزیادہ تنقید کرتے رہے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۹ء میں اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں جوبائیڈن کہہ چکے ہیں ’’میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہم سعودی عرب کومزید ہتھیار فروخت نہیں کریں گے‘‘۔
جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش اور انسانی حقوق کی پامالی پر سعودی عرب کو جواب دہ ٹھہرانا سمجھ آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح کیا جائے۔سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روک کر اس کے جوہری عزائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کوروکا نہیں جاسکتا۔
اگر واشنگٹن سعودی عرب میں اصلاحات چاہتا ہے تو اس کو غور کرنا ہوگا کہ ریاض کی سب سے بڑی پریشانی کیا ہے شاید امریکا کی جانب سے ساتھ چھوڑ دینے کا خدشہ، اور اس خوف کی جڑیں عرب بہار میں پائی جاتی ہیں۔ عرب بہار کے آغاز پر امریکی صدر باراک اوباما نے مصر میں جمہوری مظاہرین کی حمایت کی تھی، اس وقت امریکا کے اتحاد ی آمر حسنی مبارک اقتدار سے مضبوطی کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔
سعودی شاہی خاندان کے افراد سمجھتے ہیں کہ امریکا ان کے ساتھ بھی حسنی مبارک جیسا دھوکا کرسکتا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں ایران سے جوہری معاہدے کے بعد ہی سعودی عرب کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جوہری معاہدے کو سعودی عرب کے اندرونی حلقوں میں امریکا کی جانب سے ایران سے دوستی اور سعودی عرب سے غداری کرنے کے مترادف سمجھا گیا۔ ریاض کے لیے ٹرمپ صدر اوباما سے بہتر ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ نے انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظرانداز کیا اور ایران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا۔ لیکن ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کے امریکا پر انحصار پر طنز کرتے ہوئے ۲۰۱۸ء میں کہا تھا ’’بادشاہ ہم آپ کی حفاظت کر رہے ہیں، شاید آپ ہمارے بغیر دو ہفتوں کے لیے حکومت قائم نہیں رکھ سکتے‘‘۔ کانگریس کی جانب سے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کی حالیہ کوششوں نے ریاض کی جانب سے امریکا کے حوالے سے خدشات کو مضبوط کردیا۔جس کے بعد یہ کوئی اتفاق نہیں کہ سعودی ولی عہد نے چین کے ساتھ مل کر ایک خفیہ جوہری پروگرام شروع کیا۔ وہ یمن میں ایرانی اثر و رسوخ کوسعودی وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ محمد بن سلمان سمیت بہت سی حکومتی شخصیات کو لگتا ہے کہ سعودی عرب چین سے تعلقات قائم کرکے اپنے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرسکتا ہے، تو پھر واشنگٹن پر مسلسل انحصار کرنے کا کیا فائدہ۔ اگر امریکا نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے نئی سوچ اختیار نہیں کی تو پورا خطہ آسانی کے ساتھ جوہری کشیدگی کا شکار ہوجائے گا، سعودی جوہری ہتھیاروں کا نشانہ ایران، اور ایرانی جوہری ہتھیار وں کا نشانہ ریاض ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی اور مصر بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال سے خوفزدہ اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کو بہتر بنانے میں لگا ہے۔ اگر بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے گی تو ریاض کے طرزِ عمل میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔
امریکا کی جانب سے انسانی حقوق اور جوہری سرگرمیوں پر شام، ایران، شمالی کوریا اور کیوبا جیسے ممالک پر لگائی گئی پابندیاں ان ممالک کو تبدیل نہیں کرسکیں، تو پھر سعودی عرب کو کیسے تبدیل کریں گی۔ اگر امریکا سعودی عرب سے اتحاد ختم کرلیتا ہے تو بھی ریاض کے جوہری عزائم ختم اور انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں کی جاسکتی ،جس کے خطے پر طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ تحفظ کا احساس دلانے کے لیے ریاض کو مغرب اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی ایک نئی علاقائی تنظیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ جو دفاعی، توانائی، معاشی اور معاشرتی ترقی کے معاملات میں کثیر الجہتی تعاون کرے۔ اس تنظیم کی بنیاد چند ممالک مل کربھی رکھ سکتے ہیں، جس میں امریکا، یورپی یونین، برطانیہ، سعودی عرب، اردن، عمان، متحدہ عرب امارات، بحرین اور تیونس جیسی چھوٹی ریاستیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ جس کے ذریعے ریاض کو یقین دلایا جائے کہ واشنگٹن اور مغربی اتحادی سعودی عرب کو ایران اور دیگر بیرونی دشمنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔اس سے سعودی عرب کا خوف کم کرکے جوہری ہتھیاروں کے حصول اور یمن میں اندھا دھند بمباری روکی جاسکتی ہے۔ ایک نئے مشترکہ علاقائی تربیتی مرکز کے ذریعے یہ اتحاد مسلح افواج کو بہتر تربیت اور اسلحے سے لیس کرے گا، تاکہ وہ عسکری طور پر مکمل خود کفیل ہوسکیں۔ اگر کسی رکن ریاست پر حملہ ہوتا ہے تو مغرب زمینی فوج فراہم کرنے کے علاوہ ہر طرح کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کرے گا۔
واشنگٹن پہلے ہی خلیج فارس کی پہلی جنگ اور دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں مقامی اتحاد قائم کرنے کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے۔ اس طرح کے معاہدے کے لیے امریکا اور یورپ کے نجی شعبے کو انفرااسٹرکچر پراجیکٹ اور کاروباری منصوبوں کے لیے مالی معاونت اور مہارت فراہم کرنا ہوگی تاکہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو راغب کیا جاسکے۔ امریکا کی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کے اہداف کے لیے قرض کی ضمانت اور مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس نوعیت کا طویل مدتی سرمایہ کاری منصوبہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ قابل عمل ہوسکتا ہے۔ مغربی ممالک کوترقیاتی بینکوں کے ذریعے غیر جوہری توانائی منصوبوں، قدرتی گیس اور پائپ لائن جیسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں دھوپ اور گیس کی بہتات ہے، اس ذریعے سے جوہری ری ایکٹرز کے مقابلے میں زیادہ توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔ سفارتی طور پر یہ اتحاد ممبران کے درمیان علاقائی تنازعات حل کرنے کا ایک فورم بھی تشکیل دے گا۔ اس کے بدلے میں سعودی عرب اور دیگر مشرق وسطیٰ کی ریاستیں ۱۹۶۸ء کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار نہ ہونے اور عسکری کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی پاسداری کا عہد کریں گی۔ اگرچہ اس تنظیم کو چھوٹے پیمانے پر شروع کیا جاسکتا ہے، لیکن اس اتحاد کو توسیع دی جانی چاہیے۔ عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد تل ابیب بھی اس تنظیم کا حصہ بن سکتا ہے، مستقبل میں مصر اور ترکی بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سوویت یونین کو مارشل پلان میں شمولیت کی دعوت دینے کی طرح ایران کے لیے بھی تنظیم کے دروازے کھلے رہنے چاہییں۔ ایران اور خطے کے دیگر رکن ممالک کو یورینیم کی افزودگی روکنے، ساتھی ممالک کے خلاف فوجی آپریشن اور پراکسی وار بند کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ اب تک تہران ان دو باتوں کے لیے تیار نظر نہیں آتا ہے۔ بہرحال اتحاد کو غیر جوہری مستقبل کے معاشی فوائد اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کے سیکورٹی فوائد کو اجاگر کرنا چاہیے۔ اس معاہدے کے ذریعے عرب ریاستوں اور اسرائیل کوخطے میں بڑھتی ایرانی مہم جوئی کا موثر انداز میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے واشنگٹن کو ثابت کرنا ہوگا کہ وائٹ ہاؤس میں کسی تبدیلی کا اس معاہدے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جس کے لیے امریکی سینیٹ اس معاہدے کو محفوظ بناسکتی ہے۔ کانگریس کو بھی اس معاہدے کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کی منظوری دینی چاہیے، کانگریس کے ارکان اس منصوبے کی حمایت میں قرارداد بھی منظور کرسکتے ہیں۔
اگر سعودی عرب کو یقین دلایا جاسکے کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے موجود رہے گا، تو واشنگٹن سفارتی طور پر بہت بہتر پوزیشن میں ہوگا، جس کے ذریعے امریکا ریاض اور دیگر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو بدترین صورتحال میں جانے سے بچا سکتا ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ اس طرح ہی ہوا، تو سعودی ولی عہد کی جانب سے بائیڈن کو انتخابی فتح پر مبارکباد دینے میں تاخیر پر پچھتاوا ہوگا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Biden can’t ostracize Riyadh”.(“Foreign Policy”. Dec. 6, 2020)
Leave a Reply