
امریکا اور چین کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان مشترک ہے۔ یہ مسئلہ ہے اپنے اپنے معاشرے میں شدید نوعیت کی روز افزوں عدم مساوات کا۔ ویسے تو خیر دنیا بھر میں عدم مساوات پائی جاتی ہے اور بڑھ رہی ہے مگر دونوں بڑی طاقتیں اس معاملے میں زیادہ الجھنوں کا شکار ہیں۔ ایسا کسی نے سوچا نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اس طور واقع ہوگا۔ دونوں بڑی طاقتوں کی دو عشروں کی معاشی نمو سے توقع تھی کہ تمام ہی کشتیاں رواں رکھنے کی راہ ہموار ہوگی۔
امریکا اور چین میں تیزی سے پنپتے ہوئے متوسط طبقے کی بہبود یقینی بنانا جو بائیڈن اور شی جن پنگ کا ترجیحی ایجنڈا رہاہے۔ دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اُن کے سیاسی مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ دونوں ہی کو معاشرے میں عدم مساوات کا گراف نیچے لاکر پریشان حال لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بہبود سے ہم کنار کرنا ہے۔ دونوں ممالک کے فرق کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ امریکا میں جمہوریت ہے یعنی ووٹ اہمیت رکھتے ہیں جبکہ چین میں آمریت ہے جہاں رائے عامہ کی اہمیت ہے۔ یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے کہ چین میں رائے عامہ کی کچھ وقعت ہے بھی یا نہیں۔ امریکی صدر متوسط طبقے کی بہبود کا نعرہ لگاتے ہیں جبکہ چینی صدر کے نزدیک پورے معاشرے کے مشترکہ مفاد کی زیادہ اہمیت ہے۔
صدر جو بائیڈن اور صدر شی جن پنگ بڑی فرمز (بالخصوص ہائی ٹیک) کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاملہ غیر معمولی حد تک سیاسی ہوچکا ہے۔ امریکا میں ہائی ٹیک ایریا یعنی سلیکون ویلی اب بھی ڈیموکریٹس کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ اس کے باوجود کوشش کی جارہی ہے کہ قومی معیشت کے لیے شناخت کا درجہ رکھنے والے ادارے سیاسی معاملات پر اثر انداز نہ ہوں۔
مشکل یہ ہے کہ صدر بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کی اپنی اپنی پالیسیوں کی پریسکرپشنز ایک دوسرے کے یکسر خلاف ہیں۔ جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ کی ملازمتیں گھر لائی جائیں۔ صدر شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ اندرونِ ملک ملازمتیں پروان چڑھائی جائیں۔ عدم مساوات ختم کرنے کے جو بائیڈن کے ایجنڈے میں ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا ڈونلڈ ٹرمپ کا لگایا ہوا نعرہ نمایاں ہے۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران امریکا کی بہت سی ملازمتیں آؤٹ سروس کردی گئی تھیں یعنی دنیا بھر میں بیٹھے ہوئے تربیت یافتہ افراد امریکی اداروں کے لیے کام کر رہے تھے اور امریکیوں کو بے روزگاری کا سامنا تھا۔ اب امریکی صدر اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ ان ملازمتوں کو واپس لایا جائے یعنی امریکیوں کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔
اپنے ملک کے لوگوں کو اولیت دینے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کہیں نمایاں ہیں اور کہیں چھپے ہوئے۔ بائیڈن انتظامیہ امریکی تجارت اور سرمایہ کاری کو بھی تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے گوکہ بہت سے امریکی سرمایہ کار اس پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ متوسط طبقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کی جانے والی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
عالمی سیاست و سفارت اور معیشت میں ایک دیرینہ سوال یہ ہے کہ امریکا اور چین میں متوسط طبقے کا فروغ ایک دوسرے کے لیے موزوں اور کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھی عالمی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ عالمی سیاست میں بھارت کے بعد امریکا اور چین ایسی سب سے بڑی معیشتیں ہیں جن میں سماجی عدم مساوات نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں جِنی انڈیکس بروئے کار لایا جاتا ہے، جس میں مکمل مساوات کے لیے صفر اور مکمل عدم مساوات کے لیے ایک ہوتا ہے۔ امریکا کا عمومی اسکور ۴۱ء۰، چین کا ۴۷ء۰، یورپی یونین کا ۳۸ء۰؍اور او ای سی ڈی کا اسکور ۳۵ء۰ ہے۔ چین کی صورتِ حال آبادی میں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث زیادہ پریشان کن ہے۔ پھر طبقاتی ڈھانچے کا معاملہ بھی ہے۔ معاملات اندر کی طرف پلٹ رہے ہیں اور یہ کیفیت ایسی ہے جیسے اہرام کو الٹ دیا جائے۔
۲۰۲۲ء کے موسمِ خزاں میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس سے قبل (جس میں وہ اپنے لیے ممکنہ طور پر صدر کا تاحیات عہدہ چاہتے ہیں) شی جن پنگ نے مشترکہ خوش حالی کا نعرہ دیا ہے۔ وہ ممکنہ طور پر اعلیٰ سطح کی ملازمتوں کے لیے وقت کی وہ پابندی یا قید ختم کرنا چاہتے ہیں جو چیئرمین ماؤ زے تنگ نے عائد کی تھی۔
شی جن پنگ کی ٹول کِٹ میں بلند شرح والے ٹیکس، زائد آمدن والے شہریوں کی طرف سے قومی خزانے میں زائد عطیات، سماجی بہبود اور تعلیم کے پروگرامات کے لیے زیادہ فنڈنگ، بڑی نجی اجارہ داری کے خلاف سخت پابندیاں اور نئی ٹیکنالوجی تک آسان رسائی شامل ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ چین میں فلاحی ریاست کے تصّور کو وسعت دی جارہی ہے یا نجی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ شی جن پنگ کی سوچ چینی معاشی نظام میں ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اب کوئی چاہے تو اِسے ریاستی سرمایہ دارانہ نظام کہے یا پھر چینی خصوصیات کا حامل سوشل ازم قرار دے۔ چینی صدر چاہتے ہیں کہ بڑے کاروباری ادارے اپنی مارکیٹ ویلیو میں تھوڑی کمی کردیں۔ اس دوران شی جن پنگ ہاؤسنگ کے شعبے میں تھوڑی سی مہم جُوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ پراپرٹی جائنٹ ایور گرینڈ کے ہاتھوں پیدا ہونے والے بحران کے غبارے سے ہوا نکالی جاسکے۔ ہاں، یہ بات اب تک واضح نہیں کہ معیشت کو نئی سمت دینے کی کوشش میں وہ بحران کس طور ٹالا جاسکے گا، جو امریکا اور اسپین سمیت کئی معیشتوں میں دس پندرہ برس کے دوران ابھرا ہے۔
صدر شی جن پنگ متوسط طبقے کو مضبوط تر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طبقہ بھی کم و بیش ۴۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ وہ اس طبقے کی مجموعی آبادی ۲۰۳۵ء تک ۸۰ کروڑ کرنا چاہتے ہیں۔ جو بائیڈن نے کچھ ایسا ہی ہدف متعین کیا ہے۔ چین میں فرق صرف تعداد کا ہے۔ آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم کیون رِڈ چینی اُمور پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی صدر ایسی معاشی کیفیت چاہتے ہیں، جس میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ملے یعنی وہ ہاؤسنگ اور دوسرے اہم شعبوں میں اجارہ داری کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ شی جن پنگ ہاؤسنگ سمیت کسی بھی شعبے میں سٹہ بازی کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ اُن کے نزدیک یہ سب کچھ محض فرضی معیشت ہے۔ مینوفیکچرنگ، ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے جیسے حقیقی شعبوں میں سٹہ بازی کے خلاف جانے کی سوچ محض شی پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شی جن پنگ کے خیال میں حقیقی معیشت ہی چین کو ہر اعتبار سے عالمگیر برتری دلائے گی۔ یہ بنیادی سوچ ہی سیاست پر بھی اثر انداز ہوگی اور رواں صدی کے دوران امریکا اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کے شعبے میں برتری یقینی بنانے کی دوڑ میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
چین میں حکومت نجی تعلیمی مراکز اور مختلف سطحوں پر پرائیویٹ کلاسز کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کر رہی ہے۔ اس معاملے میں ’’علی بابا‘‘ کے مالک جیک ما کو بھی استثنٰی حاصل نہیں۔ شی جنگ پنگ تعلیم کے شعبے کو قابو میں رکھ کر اُسے ایک خاص سوچ یا نظریے کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر بھی امریکا میں سماجی بہبود کے پروگرام کے تحت معیشت کا توازن بحال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے جو ہدف مقرر کیا تھا وہ اب گھٹاکر ۱۷۵۰؍ارب ڈالر محدود کردیا گیا ہے۔ اس میں مفت تعلیم کی بنیادیں وسیع کرنا، جامعات کے طلبہ کے لیے قرضے نرم بنانا اور چند ملازمین کے لیے کم از کم اجرت میں اضافہ شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات اب حقیقت سے دور دکھائی دے رہے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جو بائیڈن کا سماجی بہبود کا ایجنڈا ری پبلکنز کے حلق سے اتر نہیں رہا کیونکہ اس ایجنڈے کی کامیابی سے ڈیموکریٹس کی پوزیشن مستحکم ہوگی اور جو بائیڈن کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ حیرت کی بات اگر ہے تو یہ کہ جو بائیڈن کو خود اُنہی کی پارٹی کے بعض سرکردہ ارکان کی مخالفت کا سامنا ہے۔
عدم مساوات کے خلاف لڑائی اب یورپ میں بھی اہمیت حاصل کرتی جارہی ہے۔ یہ لڑائی در اصل معاشی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا حصہ بھی ہے۔ اس کے نتیجے میں چالیس سال سے چلا آرہا دولت نواز رویہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکا اور چین کے صدور کا ایجنڈا ایک ہے لیکن اگر انہوں نے اس ایجنڈے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے پر زیادہ توجہ دی تو ان کے درمیان مخاصمت بڑھ جائے گی۔ اس لڑائی میں اب تک تو چینی صدر کامیاب دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ امریکی صدر کو محض سیاسی دشمنوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا نہیں بلکہ ان کی اپنی سیاسی پارٹی کے لوگ بھی ان کے خلاف کھڑے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Biden vs. Xi: The global battle for restoring domestic economic balance”. (“theglobalist.com. November 3, 2021)
Leave a Reply