
نئی شاہراہِ ریشم کے چاروں طرف تعمیرات چین کی قیادت کے اہم منصوبوں میں شامل ہیں۔ چین کے وہ دور دراز کے مغربی علاقے جو قازقستان کے ساتھ ملتے ہیں، یہاں کے گنبد نما گھر اور اونٹوں سے ملتی جُلتی رہائشیں موجود ہیں۔ مگر یہاں سے جو صورتحال سامنے آرہی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہاں پر ایک نیا شہر تعمیر ہونے جارہا ہے۔ چارسال پہلے دریافت ہونے والا یہ شہر قورغاس (Khorgos) اپنے اندر دنیا کے لیے بے پناہ کشش لیے ہے۔اس کشش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں دنیا کامصروف ترین inland port کا منصوبہ زیر غور ہے، جو چین کو دوبارہ شاہراہِ ریشم تعمیر کرنے پر اکسا رہا ہے۔
یہاں مزیدایسے تجارتی علاقے (free trade zones) بنائے جارہے ہیں، جو ہر روز تیس ہزار کاروباری افراد کے لیے آمدورفت کو ممکن بنائیں گے۔ یہاں مصنوعات کی تیاری کے لیے بہت بڑے اور جدید کارخانے تعمیر کیے جارہے ہیں، جن میں مصنوعات تیار کرنے والوں کو چینی حکومت کی طرف سے خصوصی طور پر دو سال تک کرایہ نہ دینے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ اس وقت رقم جمع کروانے والوں نے مرکزی گزرگاہ پر ٹرکوں کی قطاریں کھڑی کردی ہیں، جو زرعی آلات اور blue industrial piping (ایسے پائپ جو وسیع پیمانے پر ذرائع آمد و رفت میں استعمال ہوتے ہیں) کے حامل ہیں۔ ان ٹرکوں کے ڈرائیور نیند کی کمی کا شکار ہیں اور اپنی سرخ آنکھوں کے ساتھ اپنی گاڑیوں میں بیٹھے پوری دنیا کے سفر کی جانب اشارہ ملنے کے منتظر ہیں۔ آج کل قورغاس کی فضا گدلی اور مٹی سے اَٹی ہوئی ہے۔ یہ خیالات گوجیان بِن (Guo Jianbin) کے ہیں جو Khorgos Economic development zone administration committee کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا مزید یہ کہنا بھی ہے کہ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ جگہ مالی وسائل سے لبریز ہوگی۔
ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی وجہ سے چین کے وزیر اعظم نے قورغاس شہر کوانتہائی اہم قراردیا ہے۔ یہ ماضی کی قدیم شاہراہ ریشم کو ہائی ویز، بندرگاہوں، ریلویز کے ساتھ دوبارہ ملانے کا وہ منصوبہ ہے، جو ایشیا کو مشرقِ وسطیٰ کی جانب سے مغرب اور شمال سے افریقا سے ملادے گا۔ قورغاس کا یہ راستہ بڑے پیمانے پر کارگو کی نقل و حمل کو یورپ اور ایشیا تک ممکن بناسکتا ہے۔
یہاں ایک ایسا راستہ بنایا جا رہا ہے، جو سمندرکے ساتھ ساتھ چین کے کئی شہروں سے زمینی رابطے پیداکردے گا۔ افریقا اور ہر اس ملک کی بندرگاہ کے ساتھ رابطے کو ممکن بناسکے گا، جو سمندروں کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ چین کے ڈویلپمنٹ بنک کے مطابق ۹۰۰؍ارب امریکی ڈالرکی خطیر رقم سے تقریباً ۹۰ منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔ کینیا میں ۴۸۰ ملین امریکی ڈالروں سے سمندرکے درمیان ایک بندرگاہ بنائی جائے گی، جو بعد میں سڑکوں، ریلویز اور پائپ لائنز کے ذریعے جنوبی سوڈان کوایتھوپیا سے ملائے گی اور وہاں سے کیمرون کی بندرگاہ ڈوالا تک پہنچ جائے گی۔ ۳ء۷؍ارب ڈالر کی لاگت سے ترکمانستان سے چین تک ایک نئی پائپ لائن بچھائی جارہی ہے۔ یہ ہر سال چین کو ۱۵ ؍ارب کیوبک میٹر گیس فراہم کرے گی۔ چنگیزخان کے بعد سے اب تک بین الاقوامی سطح پراپنی عالمی خواہشات کو اتنے بڑے پیمانے پر چین نے کبھی آگے نہیں بڑھایا۔ مگر اس بارپرانی سڑی ہڈیوں اورراکھ پر زندگی گزانے کے بجائے اس چین کی نگاہ بندرگاہوں، شاہراہوں اور تیزترین ریلویز پر ہے۔ ’’ایک دوسرے سے تبادلے اجنبیت کو ختم کرتے ہیں، ساتھ مل کر سیکھنے سے نفرتیں ختم ہو جاتی ہیں اور بقائے باہمی کا تصور برتری جیسے منفی خیال کو ختم کرنے کا باعث بن جاتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ چینی صدرنے مئی میں ہونے والے ون بیلٹ ون روڈ فورم کے موقعے پر جاری اعلامیے میں کہی۔
یہ وہ اولین مقصد ہے جو چینی قیادت کو ایسے وقت میں عالم گیریت کوسہارا دینے میں مددکررہاہے، جبکہ امریکا اپنے بین الاقوامی معاہدوں پر ڈانواں ڈول ہورہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈمنصوبے سے دنیا کے ۶۵ ممالک میں قیام پذیر دنیا کی ۷۰فی صد آبادی تک اپنی مصنوعات پہنچانے میں کامیابی حاصل ہوگی۔ آبادی کے اس حجم کی ایک چوتھائی آبادی کو توانائی کی فراہمی کے عوض اورایک چوتھائی کو مصنوعات پہنچانے پر خدمات کے عوض جو منافع حاصل ہوگا، وہ دنیا کے کل منافع کا ۲۸ فی صد یعنی لگ بھگ۲۱ کھرب امریکی ڈالر ہے۔ بیجنگ اس معاملے میں پُر یقین ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی حدود میں بڑے پیمانے پر ایسی اقوام موجود ہیں جو بے پناہ وسائل رکھتی ہیں۔ لیکن بنیادی انفراسٹرکچرسے محروم ہیں اور چین اپنے وسائل کے ذریعے ان مسائل کو حل کرسکتا ہے۔
دیگر ممالک سے زمینی رابطہ ممکن ہونے کی صورت میں چین اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں پیدا کرے گااور ان روابط سے خوب فائدہ اٹھاے گا۔ چین کے وزیر تجارت زہونگ شان مارچ میں ہی یہ اعلان کر چکے تھے کہ چین کی کمپنیوں نے پہلے ہی ایک لاکھ ۸۰ ہزار نوکریاں پیدا کرلی ہیں۔ ون بیلٹ اینڈ روڈ کی مد میں ۱ء۱ ؍ارب امریکی ڈالر ٹیکس ریونیو کی شکل میں ادا بھی کیا جاچکا ہے۔ ہزاروں چینی انجینئر، کرین آپریٹر اور سٹیل کو پگھلانے والے اس عظیم منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ پروفیسر نک بسلے،جو ایک آسٹریلوی جامعہ میں ایشیائی تجارت کے ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ دنیا کے اس سب سے اہم حصے میں معاشی حکمتِ عملی طے کر نے کے لیے چین کی ہر صورت ضرورت ہوگی۔
چین آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اور معاشی طور پر امریکا کے بعد دوسرے درجے پر ہے۔ چین کے صدر کے مطابق یہ قدم بالکل درست ہے۔ چین کی کچھ عرصے پہلے کی تاریخ افراتفری، جنگ و جدل، خود کو مصیبت میں ڈالنے، معاشی تباہی اور غربت سے پُر ہے۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ چینی کمپنیاں یورپ کی کئی فٹبال ٹیموں کو خرید چکی ہیں، ہالی ووڈ میں فلم اسٹوڈیو کی مالک ہیں اور نیویارک سٹی کے والڈروف آسٹریاہوٹل ان کی ملکیت میں ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ سولر پینل، ہواسے چلنے والی ٹربائن، اور تیزترین ریلویز چین کے پاس ہیں۔ جنوری میں زی نے چین کے پہلے صدر کی حیثیت سے ورلڈاکنامک فورم سے خطاب کیاتو انھوں نے ایک مدبر، سمجھ دار اور بین الاقوامی شخصیت کے طور پرخود کو اس طرح پیش کیا کہ آنے والے وقت میں وہ دنیا کے لیے قوانین اور معیار ترتیب دینے والے ہیں اور دنیا ان پر عمل پیرا ہوگی۔
۱۸؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء کوچینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں مجلس میں ان کے الفاظ پڑھنے کے قابل ہیں۔ انھوں نے کہا؛ ’’اب یہ وقت ہے، جب ہم اس دنیا کے سٹیج کی سب سے اہم جگہ پر خود کھڑے ہوں‘‘۔
یہ دور رس نگاہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے لیے بالکل بھی خوشگوار نہیں رہی، جو اپنے ملک کی شاہراہوں، پُلوں اور توانائی کے منصوبوں کے لیے ابھی تک ایک کھرب کے بل پاس نہیں کرسکے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آدھے سے زیادہ امریکی جانتے ہیں کہ ان کی بنیادی ضرورت کیا ہے۔ ٹرمپ کی Trans Pacific Partnership trade agreement میں بے جا مداخلت نے امریکا کو کمزور کردیا ہے۔ بحرالکاہل کی ایک طاقت ہونے کے ناطے اورامریکا کے پیرس معاہدے سے نکل جانے کے بعد اب دنیا چین کو عالمی سربراہ کی نظرسے دیکھ رہی ہے۔
شاہراہِ ریشم کا وہی جاہ جلال بحال کرنے میں ہزارہا مشکلات درپیش ہیں۔ ان میں سب سے اہم سوال دنیا کی ایسی قوموں کی معیشت میں اربوں ڈالر لگا دینا ہے، جوایک طرف غریب ترین ہیں، تو ساتھ ساتھ معاشی طورپر انتہائی غیر مستحکم بھی۔جہاں ایک طرف مصنوعات کی گرتی قیمتوں نے کچھ منصوبوں کے بارے میں اندازے غلط ثابت کیے ہیں تو دوسری طرف کچھ منصوبے سیاسی ہوا کا رُخ میزبان ملکوں کی جانب موڑ رہے ہیں۔ یہ مستقبل میں پیدا ہونے والی مشکل قورغاس والوں کو صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ایک ٹرین چگ (جو آہستہ مگر طویل سفرکے لیے ہوتی ہے) ۷۰۰۰میل کا سفر کرے گی۔ جس میں وہ مصنوعات بنانے والی ۲۷ کمپنیوں کے مراکز سے گزرکرمغرب کے ۱۱ ؍ملکوں تک پہنچے گی۔ یہ دنیا کی سب سے لمبی راہداری ہوگی، جس کا زیادہ تر سفرپرانی شاہراہِ ریشم پر ہوگا۔ جس پر تجارتی قافلے ہاتھی دانت، پستے، اور کھجوریں لے کر مغرب کی منڈیوں تک جا رہے ہوں گے۔ Guo کہتا ہے کہ پچھلے سال ۲۰۵۰ کارگو ٹرینیں قورغاس سے گزری ہیں۔ اور اسے پورا یقین ہے کہ اس سال ۲۰۱۷ء میں یہ تعداد ۵۰۰۰ تک ضرورجائے گی۔
قورغاس Tak-lamakan صحرا کے کنارے واقع ہے۔ یہ اس قدر نامہربان زمین ہے کہ اسے موت کے علاقے کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ابھی تک دنیا کا سب سے دور دراز علاقہ ہے۔ Khorgos یوریشیا پول (یورپ اور ایشا) سے محض ۱۰۰ ؍میل کے فاصلے پر ہے، جو دنیا کے کسی بھی سمندر سے دور ترین جگہ ہے۔ جہاں تک رسائی کبھی آسان نہیں رہی۔
آج Taklamakan کے مغرب میں چینی شہر Xinjiang کا ایسا علاقہ ہے جو اپنے سیاسی معاملات خود دیکھتا ہے۔ جس کی سرحد سات وسطی ایشیا اورجنوبی ایشیا کی ریاستوں سے ملتی ہے۔ اس لحاظ سے زمینی حصے پر یہ بیلٹ ایندروڈ کا مرکز ہے۔ قدیم شاہراہِ ریشم کا ۳۵۰۰ میل کا سلسلہ اس الاسکا جتنے رقبے کے علاقے سے گزرتا ہے۔ جہاں Taklamakan کے جنوب پرخشک اور بنجر ٹیلے شمالی علاقے کے سرسبز اور وسیع گھاس کے میدانوں سے الگ ہوجاتے ہیں۔
مگر Xinjiang بھی چین کا ایک انتہائی غیرمستحکم علاقہ ہے۔ یہ علاقہ Uighur ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے،جہاں مسلمانوں کویہ محسوس ہوتاہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔ان پرنسلی بنیادوں پر مقدمات چلائے جاتے ہیں، اس لیے اکثر ہنگامہ آرائی کا شکار رہتا ہے۔ سرکاری اعداد کے مطابق ۲۰۰۹ء میں صوبائی دارالحکومت Urumqi میں فسادات پھوٹ پڑے، جس کے نتیجے میں ۱۹۷ ؍لوگ ہلاک ہوئے۔ یہاں امن وامان کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ تک لینے کے لیے ایکسرے اور کھوج لگانے والے آلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ شہر کے مرکزی بازاروں میں پولیس اپنی رائفلوں پر سنگینیں لگائے اپنی مسلح کاروں کے قریب کھڑے لوگوں پر ایسے حملہ کرنے کو تیار رہتے ہیں جیسے کوئی زندہ بھیڑ کسی قصائی کی دکان پر اپنا آخری وقت دیکھ رہی ہو۔ یہ چین کا واحد صوبہ ہے جو ۴جی موبائل کی سہولت نہیں رکھتا، کیونکہ سرکارکے مطابق اگر ان کو یہ سہولت دستیاب ہوئی تو ممکن ہے یہ لوگ جہادی مواد ڈاؤن لوڈکرنا شروع کردیں۔ ایک طرف تو بیلٹ اینڈروڈ کے شوپیس قورغاس میں حکومت استحکام کو بنیادی اہمیت دیتی ہے اوریہاں کاروباری شخصیتوں کو بہترین ماحول مل رہا ہے،لیکن دوسری طرف جنوب کے پرآشوب علاقوں میں اویغور (Uighurs) کو کسی قریبی گاؤں تک میں جانے کے لیے سرکاری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ ترقی قابلِ قبول نہیں۔ ایک Uighurs ٹیکسی ڈرائیور(جس کانام بتانا ممکن نہیں) کا کہنا تھا کہ پہلے حالات زیادہ اچھے تھے۔ اس کا کہناتھا کہ سردیوں میں وہ wild turkey (ایک جنگلی جانور) کا شکار کرتا تھا گرمیوں میں بیر چنتا تھا۔ ہمیں یہ سب (بے جا سیکورٹی اقدامات) نہیں چاہیے۔ جبکہ دوسری جانب امن وامان کا مسئلہ بھی کوئی چھوٹا نہیں۔ میانمارمیں پائپ لائن اور ڈیم، مغربی افریقا میں بندرگاہیں، پن بجلی منصوبے اور تانبے کی کانیں افغانستان میں، یہ سب ہنگامہ آرائی کے لیے تاوان کے طور پر ضبط کی جاسکتی ہیں۔ پچھلے سال کینیامیں مقامی آبادی کی طرف سے ریلوے ملازمین پرحملہ کیاگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوکریوں کے معاملے میں مقامی آبادی کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ رکھاگیا۔ ممکن ہے چین کو اپنی فوجی نفری مجبوراَ ان علاقوں میں بڑھانی پڑے جوشورش زدہ ہوں۔ جس سے بین الاقوامی سطح پر امن وامان کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز افریقا منتقل ہو جائے گا۔ اگست میں چین نے اپنی پہلی سمندرپار فوجی چھاؤنی کا افتتاح جبوتی میں کیا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ چین کی طرف سے اقوام متحدہ کو امن قائم رکھنے کے لیے مہیا کیے جانے والے دستے باقی چار مستقل ارکان سے زیادہ ہیں۔ Institute of International Affairs at Nanjing University کے ڈین زین فینگ کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ کے لیے سب سے گھمبیر مسئلہ امن و امان کا ہی ہے۔
معاشی صورتحال کو دیکھاجائے تویہ سوال بہت سے پہلو سامنے لاتاہے۔ اتنے بڑے منصوبے کی ابتدا کیسے کی جاسکتی ہے؟
قورغاس سے مغربی ممالک تک مصنوعات بذریعہ مال بردارٹرین پہنچانے پر اخراجات سمندری راستے سے تین گنا زیادہ ہیں۔ جس میں دگنی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں تحلیل ہوگی، جب کہ اس میں وقت کی بچت ضرور ہو رہی ہے۔ چینی فیکٹریوں سے مغربی ممالک تک جوسفر سمندری راستے سے ۳۵ دن کا تھا وہ اب ۱۸ ؍دن کاہوگا۔ کچھ مصنوعات مہنگے کرائے کے باوجود کم وقت میں پہنچنے پر فائدے میں رہیں گی۔ کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تو ہوائی جہاز کے ذریعے جاتی ہیں، کیوں کہ ان کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جبکہ الیکٹرانکس اور گھریلو استعمال کی چیزوں کو بھیجنے کے لیے سستے ترین وسائل دیکھے جاتے ہیں تاکہ منافع کی شرح زیادہ رہے۔
مجموعی معاملات میں چین کپڑے، الیکٹرانکس اور تعمیرات کا سامان قورغاس سے مغربی ممالک کو بھیج رہا ہے، مگر Guo کہتا ہے کہ یہ سامان لے کرجانے والا واپسی پر بالکل خالی ہاتھ آرہا ہے۔ مغرب کی طرف یہ سفر اخراجات کے حوالے سے کسی طور بھی مناسب نہیں، ادھر وسط ایشیائی ریاستوں کی معیشت اتنی مضبوط نہیں۔ قورغاس کے فر ی ٹریڈززون میں قازقستان سے محض دس فیصد کے قریب کاروباری لوگ آرہے ہیں۔ جبکہ چینی (mink furs) کپڑے کی ایک قسم) جارجیا کی سرخ شراب اور سائبیریا کا شہد زیادہ خریدتے ہیں۔ قازقستانی rust-bucket (ایک قسم کی مشینی گیم) چھوٹی بسوں کی clutch-ing plastic chairs، سستے بستر، اور counterfeit sneakers (دھوکا اور فراڈ کرنے میں استعمال ہونے والے آلات) کی خریداری کے لیے قطاردرقطار آرہے ہوتے ہیں۔ (فری ٹریڈزون)کی ایک دکان کے ایک منیجر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس نوے فیصد گاہک چینی ہیں۔
چینی صدر کی بیلٹ اینڈروڈ کو ذاتی سرپرستی میں لیے جانے پربہت سے ایسے منصوبے بھی تکمیل کی طرف گامزن ہیں جن پر بہت سے سوالات موجود تھے۔ مثال کے طور پر ایک ٹرین کی پٹڑی جو لاؤس (ایک ملک جو چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوا ہے) کے ذریعے بچھائی جارہی ہے، ۷ ؍ارب امریکی ڈالر سے تیارہوگی،جو کہ چین کی آدھی آبادی کے GDP کے برابر ہے۔ اس منصوبے کو ۷۰فیصد سرمایاکاری چین دے رہا ہے۔ جب کہ باقی ۳۰فیصد لاؤس کی حکومت اداکررہی ہے۔ وہ بھی ایک طرح سے چین ہی اداکررہا ہے (چینی اسٹیٹ بنک کی ایک کنسوریشم کی طرف سے قرضے کی صورت میں)۔
ایرمیکا ڈاونزجو کہ CNA میں ایک ماہرِمعاشیات ہیں اور جنہوں نے چار سال اس بیلٹ اینڈ روڈ پر تحقیق کی، ان کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کی طرف سے معاشی امداد کے باوجود اپنا سارا مال و متاع اس منصوبے میں جھونک دینا ایک کمزور قدم ہے۔
چوکس اور ہوشیار بینکر اس منصوبے کو ’’ون بیلٹ ون ٹریپ‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
۲۰۱۳ء میں جب چینی صدرنے اس منصوبے کا اعلان الماتے میں کیا،تب قیمتیں اپنے وقت کی انتہائی سطح پرتھیں۔ مگر یہ عمودی رفتارسے نیچے آئی ہیں۔ مگر چین اس بات کا اہل ہے کہ خسارے کے سودوں کو منافع میں تبدیل کرسکے۔
اس کی پچھلی تین دہائیوں سے سامنے آنے والی معاشی اٹھان اس بات کا ثبوت ہے کہ چینی حکومت سرمایہ داری میں ہر لحاظ سے آگے ہے۔ اس کے پاس وسائل ہیں۔ اس کا GDP (خالص قومی پیداوار) پچھلے سال ۲ء۱۱؍کھرب امریکی ڈالر تھا، جو کہ قدرے بہترتھا اورپھر بہت آہستہ سے مگر بتدریج بڑھتا گیا۔ جس میں اگست تک کا ۵ء۴۸ ارب کا بچا ہوا trade surplus بھی شامل ہے۔ مشترکہ سرمایہ جو بیلٹ اینڈ روڈ کے لیے مختص کیا گیا اس میں Silk Road Fund, Asian Infrastructure Investment Bank (AIIB), New Development Bank, China Development Bank, Export- Import Bank of China and the nation’s humanitarian aid budget کے تعاون سے ۲۶۹؍ارب امریکی ڈالرشامل کیے گئے۔ باقی یعنی ۹۰۰ ؍ارب ڈالر نجی چینی بینکوں اور میزبان ممالک کی طرف سے شامل کیے گئے۔ بیجنگ کے پاس اتنی مرکزی قوت ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ پر سفر کرنے والے تاجروں کو ہزار ہا ترغیبات اور تحریکیں دے کر جس کام کو کرنے کا تہیہ کرلیااسے تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود خطرات موجود ہیں۔
ایک چینی ماہر کا کہنا ہے کہ چینی یہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ وہ اس تیزی سے بدلتی صورتحال میں بھی اپنے لیے سرمایہ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آخرمیں نتیجے کے طور پر بیشک بہت سے منصوبے منافع نہ دے سکیں۔ لیکن یہ انفرا اسٹرکچر ابتدا سے ہی مثبت پہلو لیے ہوئے ہے، اس بات سے قطع نظر کہ سرمایہ دار اپناسرمایہ کم کرلیں، یا واپس لے لیں، سڑکیں، پُل، سرنگیں لوگوں کو آپس میں ملانے اور تجارت کو بڑھانے میں مدد دیں گی۔ The Asian Development Bank کے مطابق ایشیا کواپنی بنیاد (infrastructure) کھڑی کرنے کے لیے ۲۰۳۰ء تک ۲۶ٹریلین ڈالر یا تقریباً ۷ء۱؍ارب ہرسال درکار ہیں۔
کئی ایسے ممالک جو اس بیلٹ اینڈ روڈ کے کنارے پر واقع ہیں، وہاں تھوڑا سا لگایا گیا سرمایہ بھی ان لوگوں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لاسکتا ہے۔
اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے بجز، نئی شاہراہ ریشم جغرافیائی سیاست کی ایک ابتدائی چال ہے۔ Hambantota بندرگاہ جو سری لنکا کے جنوب میں ۲۰۱۰ء میں تعمیرکی گئی اور جس کا سارا سرمایہ چین نے فراہم کیا، پہلے دن سے کام شروع کرچکی ہے۔اس سال جولائی میں سری لنکن حکومت نے اس کے ۷۰ فیصد حصص چین کی ایک کمپنی، جو سری لنکا کی جانب سے اس کو چلارہی تھی، کو۱ء۱ ؍ارب ڈالر میں فروخت کردیے تھے۔ مگر بھارت اس معاملے پر تشویش میں مبتلا ہے۔ اس کے خیال میں یہ بندرگاہ کسی جنگی مقصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب سی پیک بھی پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے قریب کررہا ہے۔ جس سے چینی صوبے Xinjiang تک انتہا پسندوں کی رسائی مزید مشکل ہوگی۔ Asian Infrastructure Investment Bank جس کا ہیڈکوارٹر بیجنگ میں ہے، ۲۰۱۶ء میں بیلٹ اینڈ روڈ کو سرمایہ فراہم کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا، مگر اس کا ایک اور مقصد بھی تھا کہ دنیا کو دکھادیا جائے کہ چین واقعی کسی multilateral development bank کو بین الاقوامی معیار کے مطابق چلا بھی سکتا ہے۔ آنے والے وقت میں جب دنیا کو دیے جانے والے احکامات کے مرکز بدل رہے ہیں، اور امریکا کی اس مہم جس میں وہ اقوام کو اس منصوبے کا حصہ بننے سے روک رہا ہے،کچھ کے شامل نہ ہونے کے باوجود اس کے اپنے قریب ترین حواری یعنی آسٹریلیا اور برطانیہ بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ چین نے جس وقت یہ خیال دنیا کے سامنے پیش کیا، اس وقت کچھ غیرتسلی بخش پہلو موجود تھے۔ مگر AIIB کے صدر Jin Liqun نے TIME کو اپنے بیجنگ کے دفتر میں بتایا کہ غیرتسلی بخش پہلو تسلی بخش کیے جاسکتے ہیں۔ اور یہ وقت ہے کہ لوگوں کو اس تصور کی تعریف کرنی چاہیے۔
امریکا ابھی تک اس حقیقت کو جھٹلا رہا ہے کہ یہ بیلٹ اینڈروڈ کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ جون میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ تبصرہ کیا کہ چین کے باقی علاقوں کی نسبت اس آزاد تجارتی علاقے(فری ٹریڈزون)میں تھوڑی سی آزادی زیادہ ہوگی۔ اس سے زیادہ اس کا کچھ فائدہ نہیں۔ اور امریکا نے ایک کمتر درجے کا وفد بھی مئی میں ہونے والے ایک فورم میں بھیجا، جو بیجنگ میں منعقد ہوا۔ اس سے اگلے ماہ جون میں چینی میڈیا نے یہ خبردی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بیجنگ کے ایک اعلیٰ افسر سے کہا کہ وہ اس پراجیکٹ میں تعاون کرنے کو تیار ہے مگر وہائٹ ہاؤس نے ایسی کسی بھی خبر کی تردید کی ہے۔
اس کے بعد ۳؍اکتوبر کوامریکا کے سیکرٹری دفاع Jim Mattis نے سی پیک پر بھارت کا رٹارٹایا یہ اعتراض لگایا کہ اس کے روٹ متنازعہ کشمیرسے گزررہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جو عالمگیریت کے تحت ایک دوسرے سے قریب آرہی ہے اور جہاں کئی بیلٹ اینڈ روڈ موجود ہوں، ایسے میں کسی ایک قوم کی طرف سے کسی ون بیلٹ ون روڈ کے روکنے کا حکم دینا قطعی طور پر ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نئی شاہراہِ ریشم چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے سیاسی اثررسوخ کی ایک تازہ مثال ہے۔ جبکہ دوسری جانب بے مقصدلڑائیوں، اور شخصیات سے مڈ بھیڑ نے امریکی خارجہ پالیسی کو مربوط کرنے میں کافی نقصان پہنچایا ہے۔۔ باوجود اس کے کہ چین دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہا ہے، وہ فری ٹریڈ کا اس وقت کا فاتح بنا ہوا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ چین نے اپنی معیشت کو ایک خوبصورت بیوروکریسی کی شکل میں بڑا دیدہ زیب شکل میں رکھا ہوا ہے، ایک طاقتور اسٹیٹ کی شکل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی شامل ہے،ان سب کے باوجود چین نے ان منصوبوں کو ایک مبہم مگر جاذب، باہمی تعاون اور انسان دوست شکل میں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک فلاحی راہنما ثابت کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
قورغاس اس وقت کسی صحرا کا نہیں بلکہ تعمیرات اور صنعت کے ایک مرکز کی تصویر کشی کررہا ہے۔ Guo کہتا ہے، ہمارا اگلا قدم اپنی صلاحیتوں کو ذرائع آمدورفت میں مزید بہتری، معلومات کا بہترین نظام وضع کرنے، معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سیاحت اور ہوائی اڈے کی تعمیر بھی ہے۔ اس سے چھوٹے شہروں اور قصبوں، جو قورغاس کے مشرق و مغرب میں واقع ہیں، کے خوابوں کی تکمیل ہوگی اور سیاحت فروغ پائے گی۔
(ترجمہ: محمد آصف)
“Big Plans for China’s New Silk Road”. (“Time”. May 18, 2017)
Leave a Reply