
ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا مر حلہ اُس وقت پورا ہو گیا، جب ۱۱؍مارچ ۲۰۱۷ء کو اس کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ ان نتائج کا سبھی کو بے صبری سے انتظار تھا۔ اس میں عوام بھی شامل تھے اور وہ سیاسی جماعتیں بھی، جو اپنی سیاسی بساط کے پھیلاؤ، اس کے استحکام یاپہلے سے حاصل شدہ دائرہ کو برقرار رکھنا چاہتی تھیں۔ ان پانچ ریاستوں میں ’’منی پور‘‘ اور ’’گوا‘‘ بھی تھے تو ’’پنجاب‘‘، ’’اتراکھنڈ‘‘ اور ’’اترپردیش‘‘ بھی۔ اس سب کے باوجود سب سے زیادہ دلچسپی جس ریاست سے تھی، وہ اتر پردیش ہی تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایک جانب حالیہ اسمبلی انتخابات میں اترپردیش ہی وہ ریاست تھی، جس میں اسمبلی سیٹ کے لحاظ سے سب سے زیادہ تعداد تھی، وہیں یہی وہ ریاست بھی تھی جو عموماً ملک کے سیاسی مزاج کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن جہاں برسرِ اقتدار اکھلیش حکومت کو اس ریاستی انتخابات اور اس کے نتائج سے حد درجہ دلچسپی تھی، وہیں مرکز میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکھلیش حکومت سے کچھ زیادہ نتائج کے اعلان کا بے صبری سے انتظار تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بے صبری کی ایک وجہ اس کی حد درجہ منظم و منصوبہ بند انداز میں کی جانے والی سعی و جہد تھی، جس کے نتائج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔ وہیں راجیہ سبھا میں اس کی کمزور حالت کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی یہی اترپردیش کے نتائج تھے۔ پھر چونکہ ۲۰۱۴ء کے آغاز ہی سے، جبکہ وہ مرکز میں برسر اقتدار آئے، ان انتخابات کے شدت سے منتظر تھے۔ آخرکار یہ انتظار ختم ہوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۴۰۳؍اسمبلی سیٹوں والی ریاست اترپردیش میں ۳۲۵ نشستوں پر بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ دوسری جانب اتراکھنڈ میں ۷۰ نشستوں میں سے ۵۷ نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تیسری ریاست پنجاب تھی، جہاں کُل ۱۱۷؍نشستوں میں سے کانگریس کو ۷۷ اور عام آدمی پارٹی کو ۲۲ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ وہیں منی پور اور گوا میں بھی بالترتیب کانگریس کو ۲۸ اور ۱۷ اور بی جے پی کو ۲۱ اور ۱۳؍نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
انتخابی نتائج نے جہاں ایک جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں اور ان کے کیڈر کو بے انتہا حوصلہ بخشا ہے۔ اس کے برخلاف ناکام ہونے والوں نے الزام تراشی سے کام لیا ہے۔ وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو ہر مرتبہ ہونے والے انتخابات اور اس کے نتائج کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑتا آیا ہے۔ اس مرتبہ بھی اس نے اپنی پہچان کو برقرار رکھا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اور کارگزار وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کانگریس سے آگے بھی اتحاد برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے دور میں ووٹ سمجھانے سے نہیں، بہکانے سے ملتا ہے۔ انتخابات کے نتائج سے مایوس اکھلیش نے کہا کہ کانگریس سے سماج وادی پارٹی کا اتحاد اور راہول گاندھی سے ان کی دوستی آگے بھی برقرار رہے گی۔ ساتھ ہی سماج وادی پارٹی کو ۲۹ فیصد ووٹ حاصل ہوئے، پھر بھی وہ ہار گئی، اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اکھلیش یادو کی یہ بات کہ ترقی کے کاموں کو انجام دیتے ہوئے لوگوں کو اس کے بارے میں سمجھایا جائے، اس سے ووٹ حاصل نہیں ہوتے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ اس کے باوجود ناکام ہونے والے ہر فرد کو اپنی خامیوں، کمیوں، کوتاہیوں اور منصوبہ بندی اور عمل کے درمیان جاری نقائص کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ اکھلیش حکومت گرچہ ترقی کو اپنی تشہیر کا محور بنائے ہوئے تھی، اس کے باوجود وہ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پارٹی اندرون خانہ اور بیرونِ خانہ کن مسائل سے دوچار تھی۔ یہاں تک کہ ان کے گھر اور خاندان خود ان مسائل کے فروغ کا ذریعہ تھا۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کامیاب ہو جاتے؟ اس سب پر مزید یہ کہ یہی اکھلیش حکومت اور سماج وادی پارٹی جو ہر مرتبہ سچر کمیٹی رپورٹ اور اس میں موجود مسائل کے حل کے لیے کم از کم اپنے منشور میں چند وعدے کرتی آئی ہے، پہلی مرتبہ ۲۰۱۷ء کے اسمبلی انتخابات میں اس نے ان مسائل اور اس سے وابستہ کمیونٹی کو نظرانداز کیا ہے۔ وہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اکھلیش حکومت کے برسر اقتدار دور میں جس قدر چھوٹے اور بڑے فسادات ہوئے اور جس طرح متاثرین کو نظر انداز کیا گیا، ان سب نے مل کر مظلومین کے ایک بڑے طبقہ کا دل پہلے ہی اچاٹ کر دیا تھا۔ نتیجہ میں بہوجن سماج پارٹی، کانگریس پارٹی، ایم آئی ایم، لوک دل اور چھوٹی و بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سننے میں آیا ہے کہ بی جے پی کو بھی مظلومین کا ووٹ ملا ہے۔ نتیجہ میں سماج وادی پارٹی اترپردیش اسمبلی میں ایک کمزور اپوزیشن بن کر سامنے آئی ہے۔
اسمبلی انتخابات اور اس کے نتائج کا اگر جلد بازی میں جائزہ لیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔اور وہ لوگ جو جلد بازی کا مظاہرہ کر تے نظر آرہے ہیں یا ناکامی اورافسردگی کے نتیجہ میں بیان بازیاں کر رہے ہیں،انہیں چاہیے کہ ذرا ٹھہراکر، اور اپنی گزشتہ پانچ سالہ سرگرمیوں کا ٹھنڈے دل سے گہرائی کے ساتھ micro basis پر تجزیہ کرتے ہوئے،بنایات اور لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔لیکن چونکہ الیکٹرانک میڈیا سوالوں کے جوابات فوراً چاہتی ہے لہٰذا جس کے منہ میں جو بات آتی ہے وہ کہہ گزرتا ہے۔ممکن ہے اس جلد بازی میں جاری کیے گئے بیان میں بھی کچھ سچائی ہو،اس کے باوجود جو بات ٹھہر کر غوروفکر کے بعد پیش کی جائے گی اس میں آگے کے لیے راہیں بھی کھلیں گی اور وہ خود بھی اپنے مسائل کودور کرنے اور اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔فی الحال ہم بہوجن سماج وادی پارٹی کی سپریمو مایاوتی کے اُس بیان کا تذکرہ کرتے ہیں، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کی اس قدر بڑی شکست کے پیچھے ای وی ایم مشینوں کی گڑبڑی ہے۔یعنی جن مشینوں کو ووٹ دینے کے لیے استعمال کیا گیا وہ ٹھیک نہیں تھیں، نتیجتاً وہ رزلٹ سامنے نہیں آیا جو حقیقتاً عوام نے ان میں بند کیا تھا۔مایاوتی کے اس بیان کا نوٹس الیکشن کمیشن آف انڈیا نے بھی لیا ہے اور ان کے اس بیان کوبے بنیاد بتایا ہے۔
دوسری جانب اترپردیش،اتراکھنڈ،گوا اور منی پور میں بی جے پی کی حکومت بننے کا فیصلہ ہو گیا ہے تو وہیں پنجاب ایک واحد ریاست ہے جہاں کانگریس کی حکومت بنتی نظرآ رہی ہے۔اگر پنجاب کی بات کی جائے تو عام آدمی پارٹی کو ۱۱۷ میں سے صرف ۲۲ سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل ہو ئی۔اس کے برخلاف جس قدر بڑے پیمانہ پر اور جتنی محنت اور لگن کے ساتھ عام آدمی پارٹی نے پنجاب کی سیاست میں حصہ لیا تھا، اور جس طرح ابتدا میں کانگریس کے خلاف پنجاب کی فضا ہموار ہوتی نظر آرہی تھی،ان دو وجوہات کی بنا پر اُنہیں پوری امید تھی کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی ممکن ہے حکومت بنالے۔لیکن جس طرح مرحلہ وار وہاں کی سیاست میں اتار چڑھاؤ آیا اور کیپٹن امرندر سنگھ نے اپنی سیاسی تجربہ کاری کی بناپر حالات میں تبدیلی پیدا کی نیز نوجوت سنگھ سدھو نے بھارتیہ جنتا پارٹی چھوڑ کر کانگریس پارٹی میں شامل ہونا پسند کیا،ان حالات اور دیگر اندرونی و بیرونی مسائل کی بنا پر عام آدمی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت پر روک لگ گئی۔ اس کے باوجود ایک ایسی سیاسی پارٹی جس کا وجود ہی صرف تین سال پہلے ہواہو،اُس نے دہلی کے بعد پنجاب میں اپنی سیاسی زمین کو ہموار کیااوربڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
آخر میں گفتگو کا اختتام اس بات پر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ بھی سوچیے اور ہم بھی اور وہ لوگ بھی جو کامیاب ہوئے اور جو ناکام،کہ یہی اسمبلی انتخابات ۲۰۱۵ء میں بہار میں بھی ہوئے تھے۔بی جے پی کے ساتھ ساتھ ریاستی پارٹیاں وہاں بھی موجود تھیں، جو ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہوچکی تھیں۔اس کے باوجود ۲۰۱۵ء میں بہار اسمبلی انتخابات میں تو بی جے پی اپنی تمام کوششوں اور صلاحیتوں کے باوجود ناکام ٹھہرتی ہے اور ریاستی پارٹیاں کامیاب ہو جاتی ہیں،ایسا کیوں ہے؟مزید یہ کہ اُن حالات میں اور آج کے حالات میں کیا فرق ہے؟وہ کامیابی اور یہ ناکامی دراصل کس کی ہے؟عوام کی،ریاستی سیاسی جماعتوں کی یا اس پورے کاسٹ سسٹم کی جس پر ہندوستانی سیاست کا آج تک انحصار ہے!
Leave a Reply