
پیرس کی سڑکوں خصوصاً شانزے لیزے پر ایک نمائش کے اشتہارات آویزاں ہیں، جو تیراکی کے لباس بکنی (Bikini) کے ستّر سال مکمل ہونے پر جوزف فرائز آرٹ گیلری میں بکنی کے خالق فیشن ہاؤس “Reard” کے تعاون سے لگائی گئی ہے۔ لوئی ریرڈ وہ شخص ہے جس نے تیراکی کا یہ لباس تخلیق کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ عظیم دوم ختم ہو چکی تھی۔ اس جنگ سے ایک سبق عالمی طاقتوں نے یہ لیا تھا کہ جس کے پاس ایٹمی قوت ہوگی، وہی فاتح ہوگا۔ امریکا کی طرح یہ طاقتیں بھی ایٹمی قوت کے لیے سرگرداں تھیں۔
لیکن امریکا اپنی ایٹمی قوت کو بڑھانے کے لیے دیوانہ ہوا جا رہا تھا۔ اس نے بحرالکاہل میں مارشل آئی لینڈز کے نزدیک ۲۳ جزیروں کے ایک جھرمٹ کو ایٹمی دھماکوں کے تجربات کے لیے منتخب کر لیا۔ یہ علاقہ تقریباً ۸ مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ ان جزائر کے جھرمٹ کا نام ’’بکنی‘‘ ہے۔ یہاں ۱۹۴۶ء سے لے کر ۱۹۵۸ء تک امریکا نے ۲۳ ایٹمی تجرباتی دھماکے کیے۔ یہ علاقہ ناریل کے درختوں کے لیے مشہور تھا اور اس بے آباد علاقے میں چند ہزار نفوس تھے جو سکون اور اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے۔
انھیں یہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ لوئی ریرڈ گاڑیوں کا انجینئر تھا اور شوقیہ طور پر کپڑوں کی ڈیزائننگ بھی کرتا تھا۔ چونکہ لفظ بکنی دنیا بھر میں ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے بہت زیادہ زیر بحث تھا، اس لیے اس نے بھی اسی نام کی مناسبت سے ملبوسات کی دنیا میں ایٹمی دھماکا کرنے کا سوچا۔ اس نے تیراکی کے لباس کے طور پر دو کپڑوں پر مشتمل ایک لباس تخلیق کر دیا جو سمندر پر جاتے ہوئے، یا پھر کسی اور عوامی مقام پر نہانے، یا تیرنے کے لیے پہنا جاسکے اور جس سے کم جسم ڈھانپا جا سکے۔ ۵ جولائی ۱۹۴۶ء کو اس ملبوس کی نمائش کی گئی۔ معاشرہ سیکولر اور لبرل اخلاقیات پر تشکیل پایا جا چکا تھا، حکومتوں کے نزدیک فحاشی اور عریانی بنیادی طور پر ایک ذاتی فعل تھا اور سیکولرازم کے علمبردار عریانیت کو عورت کے جذبہ حریت اور آزادی کے ایک نعرے کے طور پر لیتے تھے۔
اس لیے حقوق نسواں کے علمبرداروں نے یہ تحریر کرنا شروع کر دیا کہ وہ دقیانوسی اور فرسودہ لوگ جو عورتوں کو جسم کی نمائش سے روکتے ہیں وہ دراصل اسے محکوم رکھنے کی سازش کرتے ہیں۔ عورت اسی وقت اپنے تمام غلامانہ بندھنوں سے آزاد ہو گی جب اسے اپنے جسم کی تمام خوبصورتیوں کو نمایاں کرنے بلکہ پوری طرح عریاں کرنے کا مکمل حق حاصل ہو جائے گا۔ یہ نعرہ دراصل حقوق نسواں کا نہیں تھا بلکہ فیشن انڈسٹری کا تھا جو عورت کو بازار میں لا کر کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ فیشن انڈسٹری کا سب سے بڑا ہتھیار مس ورلڈ اور مس یونیورس کے مقابلۂ حسن ہوتے ہیں، جن کے اردگرد اس وقت ڈیڑھ سو ارب کی انڈسٹری گھومتی ہے۔
۱۹۵۱ء میں مس ورلڈ مقابلہ میں حصہ لینے والیوں کو ’’بکنی‘‘ کے تیراکی ملبوس کو پہننے پر مجبور کیا گیا۔ شہرت کی بھوکی اور میڈیا میں زندہ رہنے کی خواہشمند اداکارائیں میدان میں اتریں۔ ۱۹۵۳ء کے Canes فلم فیسٹیول میں برشی باردت نے تیراکی کا یہ لباس ساحل پر پہنا اور خبروں کی زینت بنی۔ اس کو دیکھ کر ریٹا ہیورتھ اور ایوا گارڈنر نے بھی ’’بکنی‘‘ پہن کر ساحلوں کی سیر کی اور مقبول ہوئیں۔ جب لوگوں نے ان بڑی اداکاراؤں کو اس طرح جسم کی نمائش کرتے دیکھا تو نفرت اور شوق دونوں کے جذبات ابھرے۔ اب اسے پردہ اسکرین پر لاکر مقبول بنایا جانا تھا۔
مقبول جیمز بانڈ سیریز کی ایک فلم ’ڈاکٹر نو‘ میں ارسلا اینڈرس نے ایک جزیرے میں یہ لباس زیب تن کیا، جہاں جیمز بانڈ کا جہاز گرتا ہے۔ ایک ویران جزیرے میں فرانسیسی ڈیزائنر کی تیار کردہ ’’بکنی‘‘ کیا ذہنی اختراع ہے۔ مال کمانا ہو تو عورت جس جگہ اور جہاں چاہے، جیسے چاہے بے لباس کر دو۔ اس کے بعد ۱۹۶۶ء میں ایک فلم بنائی گئی ’’حضرت عیسیٰ سے دس لاکھ سال پہلے‘‘۔ اس میں اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ راکیل ویلچ نے یہ لباس ہرن کی کھال میں تیار کردہ پہنا۔ کیا کمال ہے ذہنی عیاشی کا کہ دس لاکھ سال پہلے کسی عورت کو موجودہ دور کے فیشن زدہ کپڑوں میں دکھا کر مال بیچنا اور اسے بازار میں جسمانی نمائش کے لیے تیار کرنا ہو تو ہرن کی کھال سے بالکل ویسی ہی ’’بکنی‘‘ تیار کر لی جائے جیسی لوئی ریرڈ نے پیرس میں کی تھی۔
اب تو ’’بکنی‘‘ دنیا بھر میں بکنے والا سب سے مقبول لباس بن گیا۔ گزشتہ سال اس کی فروخت ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہی نہیں بلکہ عورت کو تماشہ بنانے کے لیے ساحل پر رنگ گندمی کرنے Tanning یعنی آفتابی غسل کا نسخہ تھمایا گیا۔ اس کے لیے اربوں ڈالر کے سن بلاک فروخت ہوئے۔ بکنی کے اندر جسم کا حصہ باقی جسم سے ہم رنگ کرنے کے طریقے وضع ہوئے۔ یوں فیشن انڈسٹری کا پہیہ چلنے لگا۔ انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے علمبرداروں نے اس تیراکی کے لباس کو روم کے قدیم تہواروں میں ڈھونڈ نکالا۔ انھیں تو فلورا کے نام پر برہنہ دوڑ بھی مل گئی۔
انہیں یہ سب پتا تھا کہ رومن بادشاہ یہ سب کچھ مردوں کی ہوس بجھانے اور معاشرے کو جنس زدہ کر کے عورت کی تذلیل کرنے کے لیے کرتے تھے۔ بلکہ ان مفکرین نے اسے عورت کا پیدائشی حق قرار دیا اور کہا کہ چونکہ عورت کے پاس ایک خوبصورت جسم ہے اس لیے وہ جب تک اس کی نمائش نہیں کرتی وہ مکمل طور پر آزادی کی معراج حاصل نہیں کر سکتی۔ فیشن ڈیزائنر اور ان سے متعلق میڈیا کے لوگ کس قدر شیاطینی ذہن کے مالک ہوتے ہیں کہ بچوں کے کارٹون بنانا ہوں تو اس میں ٹارزن اور اس کی ساتھی کو اسی حلیے میں دکھاتے ہیں جس میں جدید مغربی لوگ رہتے ہیں۔ ٹارزن کو جنگل میں حجام میسر آجاتا ہے اور وہ مستقل طور پر کلین شیو ہوتا ہے اور اس کی ساتھی کو فرانس کا بہترین ڈیزائنر مل جاتا ہے جو اس کے لیے ’’بکنی‘‘ کا لباس تیار کر کے دیتا رہتا ہے۔ مال بیچنا ہو تو سب جائز ہے۔ اخلاق، اقدار، عقل اور منطق جائے بھاڑ میں۔ پیرس میں جہاں ’’بکنی‘‘ کی سترسالہ تقریبات منائی جا رہی تھیں، وہاں اخبارات اور ٹیلی ویژن پر ایسی تصاویر اور ویڈیو نظر آتی ہیں جن میں ایک خاتون ساحل پر اپنے بچوں کے ساتھ پورے کپڑے میں ملبوس ہے اور سپاہی اسے زبردستی کپڑے اتارنے کو کہہ رہے ہیں۔ سمندر پر پہننے والے پورے لباس کو برقینی کہا جاتا ہے۔
اس پر سب سے پہلے Canes کے میئر نے پابندی لگائی۔ Nice کی عدالت نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ لیکن تاریخِ یورپ کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت نے عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اس وقت فرانس کے ۳۰ ساحلی شہروں کے میئرز نے برقینی پر پابندی لگا رکھی ہے اور عدالت کا حکم یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ ہم نے یہ سب ’’ایمرجنسی‘‘ کے طور پر کیا ہے اور آج بھی یہ پابندی قائم ہے۔ غصے میں بپھرے فرانس کے یہ میئرز کہتے ہیں کہ ہماری طرح بے لباس ہو کر ساحلوں پر آؤ ورنہ تمہیں تفریح کا بھی حق نہیں۔ جو قوم لباس کے بغیر ساحل بناتی ہے اور اسے انسانی حقوق کا حصہ سمجھتی ہے۔ وہ کپڑے پہنے افراد کے لیے علیحدہ ساحل کبھی نہیں مخصوص کرے گی۔ وہ جانتے ہیں کہ عورت کو بے لباس کرنے میں ہی تو سارا کاروبار ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں عورت بنیادی طور پر شرم و حیا کی صفت رکھتی ہے۔ اسے شرم و حیا یاد دلا دی گئی تو سب ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا کاروبار۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کراچی۔ یکم ستمبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply