اسرائیل نے افریقا سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو اپنے اندر سمونے اور مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں بہت کی ہیں مگر دو عشروں کے دوران کی جانے والی یہ کوششیں اب تک بار آور ثابت نہیں ہوسکیں۔
۱۹۹۱ء کے اوائل میں جب ایتھوپیا میں خانہ جنگی چھڑی تو ۱۴ ہزار یہودیوں کو اسرائیل نے اپنے اندر سمولیا۔ ان یہودیوں کو طیاروں کے ذریعے اسرائیل منتقل کیا گیا۔ ایتھوپیا کے جن یہودیوں کو اسرائیل میں بسایا گیا ان میں سمادار گیٹو بھی شامل تھی۔ ’’کالے یہودی‘‘ کہلانے والے ان یہودیوں کے لیے اسرائیل میں آباد ہونا گویا زندگی کے سب سے اہم اور حسین خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا تھا۔
مگر خواب اور حقیقت میں بہت فرق ہے۔ سمادار گیٹو کے والدین اب عمر کی پچاسویں دہائی میں ہیں۔ انہوں نے کبھی عبرانی نہیں سیکھی۔ اب وہ بیشتر وقت بیروزگار رہتے ہیں۔ اس کے بھائی نے لازمی فوجی خدمات کو تاخیر سے اپنایا تاکہ اہل خانہ کو معاشی امور میں مدد دے سکے۔ ۲۶ سالہ سمادار گیٹو ایک پیکنگ پلانٹ میں کام کرتی ہے اور تل ابیب سے ایک گھنٹے مسافت پر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جن ایتھوپیائی یہودیوں کو وہ جانتی ہے ان میں سے بیشتر اسرائیلی معاشرے میں ضم نہیں ہوسکے۔ ان میں غربت اور ناخواندگی عام ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ’’یہ لوگ ایتھوپیا میں اچھے تھے۔ وہاں وہ شراب پیتے تھے نہ سگریٹ اور چوریاں بھی نہیں کرتے تھے‘‘۔
بیس سال قبل ایتھوپیا سے جن یہودیوں کو لاکر اسرائیل میں بسایا گیا تھا اب ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہوچکی ہے مگر ان میں سے بیشتر کی حالت ایسی نہیں جسے قابل رشک قرار دیا جاسکے۔ چند ایک نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے اور فوج میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچ پائے ہیں۔ اسرائیل کے دیگر یہودیوں کے مقابلے میں ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے یہودیوں میں غربت تین گنا زیادہ ہے۔ اور بیروزگاری تو تقریباً دگنی ہے۔ ان سیاہ فام یہودیوں کے بچوں میں اسکول کی تعلیم ادھوری چھوڑنے کا رجحان عام ہے اور جامعات میں بھی ان کی نمائندگی خاصی ناقابل ذکر ہے۔ ہاں، جیلوں میں ان کی نمائندگی غیر معمولی ہے اور خاص طور پر نابالغوں کی جیل میں افریقی یہودیوں کی نمائندگی دوسروں سے چار گنا ہے۔
آخر ایسا کیا ہوا؟ بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے ’’آپریشن سولومن‘‘ کے تحت ایتھوپیا سے لائے جانے والے افریقی یہودیوں پر ان یہودیوں کے مقابلے میں تین گنا خرچ کیا جو سابق سوویت یونین سے لائے جاتے تھے۔ انہیں رہائشی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ روزگار کا اہتمام کیا گیا۔ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھا گیا۔ امریکی یہودیوں نے بھی افریقی یہودیوں کی آباد کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے دل کھول کر عطیات دیئے۔ کروڑوں، بلکہ اربوں ڈالر ان یہودیوں کی بہتر انداز سے آباد کاری پر خرچ کیے گئے۔ مگر بیورو کریسی کی سطح پر چند ایک غلطیاں ہوئی ہیں جن کے باعث ان یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کا خواب مکمل طور پر شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکا ہے۔ معاشی صورت حال کے مطابق درست فیصلے نہیں کیے گئے۔ تعصب بھی اس بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہے۔ اسرائیل میں پہلے سے مقیم اور بالخصوص سفید فام یہودیوں نے ان سیاہ فام یہودیوں کو کھلے دل اور خندہ پیشانی سے قبول نہیں کیا۔ ’’فرینڈز آف ایتھوپین جیوز‘‘ نامی امریکی تنظیم کی ڈائریکٹر سوزین پولیک کہتی ہیں کہ جس قدر فنڈنگ کی گئی تھی اور جو جوش و جذبہ دکھائی دے رہا تھا اس کی روشنی کہیں بہتر نتائج متوقع تھے۔
ایتھوپیا سے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی اسرائیل کی طرف نقل مکانی ربیوں، امدادی کارکنوں اور جاسوسوں کے درمیان اشتراک عمل کی کہانی ہے۔ افریقی یہودی خود کو افسانوی شہرت رکھنے والے اس بارہویں یہودی قبیلے سے متعلق بتاتا ہے جو لاپتہ ہوگیا تھا۔ مگر یہ دعویٰ متنازع ہے۔ مؤرخین میں اس امر پر اختلاف ہے تاہم ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اوائل میں اسرائیل کے یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے افریقی یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کی منظوری دی۔ قحط سے جان بچاکر یہودی پیدل سوڈان میں داخل ہوئے۔ تب اسرائیل کا خفیہ ادارہ موساد حرکت میں آیا اور ’’آپریشن موزیز‘‘ کے نام سے افریقی یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کی ابتداء کی۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے اواخر میں جب ایتھوپیا شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا تب سوزین پولیک اور دوسرے بہت سے امدادی کارکنوں نے افریقی یہودیوں کو نکالنے اور اسرائیل پہنچانے میں غیر معمولی معاونت کی۔ ابتدائی مرحلے میں انہیں عدیس ابابا پہنچایا گیا۔
ان یہودیوں کے لیے عمدہ پلاننگ کی گئی تھی۔ حکومت نے انہیں مستقل بسانے کے لیے رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کی تیاری کی اور تب تک انہیں عارضی مکانات میں ٹھہرایا گیا۔ انہیں اچھی خاصی رقم بھی دی گئی تاکہ یہ مکانات خرید سکیں اور بہتر زندگی شروع کرنے کے قابل ہوسکیں۔ مگر کوئی کام نہ ملنے اور بہتر معاشی امکانات نہ ہونے کے باعث انہوں نے ملک کے پست ترین علاقوں میں مکانات اور اپارٹمنٹس خرید کر جیسے تیسے جینا شروع کردیا۔ اس کے نتیجے میں ان میں غربت اور پس ماندگی برقرار رہی۔
اسرائیلی حکومت نے افریقی یہودیوں کو پس ماندگی کے شکنجے سے نکالنے کے لیے ان کے بچوں کو سرکاری بورڈنگ اسکولوں میں داخل کرنے کی ترغیب دی۔ افریقی یہودیوں کے لیے ایک ایڈووکیسی گروپ چلانے والی میشا اوڈن ہائمر کا کہنا ہے کہ ان اسکولوں میں داخل ہونے والے بیشتر افریقی بچے وہ تھے جن کے گھر کا ماحول درست نہ تھا۔ اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے تو تیار نہ ہوسکے، ہاں انہیں ہنر سکھاکر کام پر لگادیا گیا جس کے نتیجے میں ان میں حکومت کے لیے شدید مخاصمانہ جذبات پیدا ہوئے۔ ایک اور امدادی کارکن یزاک وانڈا کا کہنا ہے کہ ان افریقی یہودیوں کے لیے اسرائیل کے سسٹم کو سمجھنا اور اس سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرنا بہت دشوار تھا۔ ۳۷ سالہ وانڈا نے اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ نقل مکانی کی تھی۔
ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو ایک اور مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ جو تعلیم ادھوری چھوڑتے ہیں اور بالخصوص جن کی کالج کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے انہیں عام اسرائیلی ملازمت دینے سے گریز کرتے ہیں۔ یزاک ڈیسی ایتھوپیا کے یہودیوں کی قانونی امداد کے لیے ٹیبیکا (Tebeka) نام کا ادارہ چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق سوویت یونین سے اسرائیل پہنچنے والے یہودیوں میں ۳۵ فیصد کھیتوں میں کام کرتے ہیں جبکہ تعلیم ادھوری چھوڑنے والے افریقی یہودیوں میں سے صرف ۱۵ فیصد کو کام مل پاتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے سابق فوجیوں میں سے ۶۵ فیصد کو بڑے کھیتوں میں بخوشی کام پر رکھا جاتا ہے۔ نیتنیا میں اپنے آفس میں ڈیسی نے ایسے سیکڑوں افریقی یہودیوں سے ملاقات کی ہے جن کا شکوہ ہے کہ کام کے معاملے میں ان سے تعصب برتا جاتا ہے۔ ایک اسکول کے خلاف مقدمہ بھی دائر کیا گیا جس پر تعصب برتنے کا الزام تھا۔ اس اسکول میں افریقی یہودیوں کے بچوں کو الگ پڑھایا جاتا تھا۔
ایسا نہیںہے کہ افریقی یہودیوں کے ساتھ ہر مقام پر تعصب برتا جاتا ہے۔ بیشتر اسرائیلیوں نے انہیں گلے لگایا ہے اور بہت سے افریقی یہودیوں نے اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے غیر معمولی محنت بھی کی ہے۔ مگر مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے۔ افریقی یہودیوں کو ابھی بہت محنت کرنی ہے۔ امریکیوں میں یہ احساس نمایاں ہوتا جارہا ہے کہ انہوں نے افریقی یہودیوں کی بہبود کے لیے جو فنڈز دیئے تھے وہ درست انداز سے استعمال ہوئے بھی یا نہیں۔ پولیک کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں افریقی یہودیوں کی بہبود سے متعلق منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ’’امریکیوں میں اب تک تو یہ رجحان کار فرما رہا ہے کہ ہمارا کام فنڈز اسرائیلیوں کو دینا ہے اور انہیں کو بہتر اندازہ ہے کہ کب اور کہاں کتنا خرچ کرنا ہے‘‘۔ مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ صرف فنڈز اور نیک ارادوں سے کچھ نہ ہوگا۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۲۸ مارچ ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply