
اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنا پریشان کن رہا ہے، لیکن یہ عملی سیاست میں کار آمد ہوسکتے ہیں، انہیں کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
ایک دہائی پہلے مشرق وسطیٰ میں اسلامی تحریکیں ایک غیر معمولی طاقت تھیں،جب مشرق وسطیٰ کے آمروں نے عرب بغاوتوں کو دبانے کی کوشش کی اس وقت اخوان المسلمون اور اس کے زیر اثر جماعتوں نے ریاست اور اقتدار کو اپنے قبضے میں کرلیا ایسا لگتا تھا کہ اقتدار،محل،فوجی چھاؤنیوں اور خفیہ پولیس کے ہاتھوں سے نکل کر مسجدوں اور بیلٹ بکس میں تبدیل ہوگیا تھا۔
اس وقت عرب دنیا پریشان کن صورتحال سے گزر رہی ہے، جو اسلام پسند تحریکیں جمہوری رجحان رکھتی تھیں اور جمہوری اسلام کو لے کر آگے آناچاہتی تھیں وہ اب اس جمہوریت سے مایوس ہیں، اسلام پسند جمہوری جماعتیں اپنی حکومتوں کے ہاتھوں ظلم و تشددکا شکار ہیں، ان کے ووٹر بھی ان جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور مسلح جماعتیں بھی ان کے جمہوری اسلام کو چیلنج کر رہی ہیں، ان تنظیموں کے کارکن اسلام پسند جمہوری سوچ کی وجہ سے جیل کاٹ رہے ہیں اور ان میں سے کچھ جلا وطنی بھگت رہے ہیں۔قطر اسلامی جمہوری تحریکوں کے لیے مرکزی بینک کا درجہ رکھتا ہے، ٹرمپ کی پشت پناہی کے ساتھ عرب ممالک نے قطر کے خلاف سفارتی بحران پیدا کیا ہے اور اس پر معاشی پابندیاں عائد کر دی ہیں، سعودی عرب اور مصر اہل مغرب سے اس بات کے لیے درخواست گزار ہیں کے اسلامی جمہوری نظریاتی تنظیم الاخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگائی جائے۔
کچھ دنوں پہلے اسپین میں حملہ کرنے کے جرم میں کچھ پُرتشدد جہادیوں کو ہلاک کیا گیاتھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسے حملہ آوروں کو ہلاک کردیاجائے جو پرتشدد طریقے سے اسلام کو لوگوں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں لیکن اگر تشدد کی اندھی لاٹھی سے تمام پرامن اور جمہوری اسلام پسندوں کوبھی ہانکا گیا تو مسلم دنیا میں نفرت،جارحیت اور دہشت گردی ہی جنم لے گی۔
نناوے چہرے
بہت سی اسلامی تحریکیں معرض وجود میں آئیں ہیں ان میں سے ایک النہضہ ہے، جو کہ تیونس کی تنظیم ہے، اس تنظیم کا نام اسلامی جمہوریت ہے،فلسطین کی تنظیم حماس ہے جو کہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور انہیں اسرائیل میں خودکش حملوں کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تمام اسلامی تحریکوں کو تشدد کے ذریعے دبانے کے لیے احمقانہ دلائل دیے جاتے ہیں کہ مسلح اور اسلام پسند جمہوری جماعتیں سب برابر ہیں،یہ سب بنیاد پرست غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں اور ان سے سختی سے نمٹنا ہی ان کا حل ہے۔
زیادہ تردلائل تنازعات سے شروع کرتے ہیں تمام اسلامی تحریکوں پر ایک جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں اور عمومی طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کے سیاسی اسلام اور مسلح اسلامی جدو جہد میں بس تھوڑا سا ہی فرق ہے،داعش اور القاعدہ دونوں نے ہی اسلامی خلیفہ بنائے بس ان کے اوقات کار مختلف ہیں اورسیاسی اسلام اکثر جہادیوں کی نمو کا باعث رہاہے۔
سیاسی اسلام پر تنقید کرنے والے اخوان کے کردار کو بھی اسی میں شمار کرتے ہیں اخوان کے کردار کو متنازعہ بناتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں ایک طرف اخوان انگلش میں تقریر کرتے ہوئے مسلح جدوجہد کے خلاف بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ عربی میں بات کرتے ہوئے جہاد کو متعارف کراتے ہیں جیسے صدر مرسی نے کامیاب ہونے کے بعد مصر میں انتہا پسندی کو ہوا دی اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے نامور جہادی بھی الاخوان کی پیداوار ہیں جیسے القاعدہ کے ایمن الظواہری۔
اگر ان تمام اسلامی،مسلح تحریکوں اور جمہوری تحریکوں کی ایک ہی طرح سے ناپا جائے تو وہ مسلح تحریکیں جو اپنے ہر پُرتشدد کام کو جواز بخشتی ہیں کیوں سعودی عرب کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں کہتی؟کیوں کہ وہ سعودی عرب کو بھی جہاد کے خلاف ہی سمجھتی ہیں۔مسلح تحریکیں انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کو زمین پرخدا کی حکومت میں بد ترین تصور کرتی ہیں، سیاسی اور غیر سیاسی اسلام کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ایسا ہی ہے جیسے اٹلی کے تمام لوگوں کو ریڈ بریگیڈ سمجھاجائے کیوں کے وہ کارل مارکس کو پڑھتے ہیں۔
جمہوریت ہے کیا؟تنقید کرنے والوں کو پریشانی یہ ہے کہ دراصل سیاسی اسلام الیکشن کو اقتدار میں آنے کی ایک تدبیر کے طور پر استعمال کرتا ہے ایک وقت میں ایک آدمی ایک عدد ووٹ کے ذریعے انتخاب کرے۔ترکی کے صدر کبھی بہت مذہبی سوچ کے مالک سمجھے جاتے تھے لیکن اب وہ ایک آزاد پسند شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں،آج کل وہ اپنے دشمنوں سے نبرد آزما ہیں او ر ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کر رہے ہیں جیسا عرب آمر کیا کرتے تھے(حالانکہ انہیں الیکشن کے ذریعے منتخب کیا گیا ہے)۔مصر میں صدر مرسی نے یہ چاہا کے ملک کی دوسری تمام تنظیموں کو اقتدار سے الگ کردیاجائے اور صرف الاخوان ہی حکومت کرے،صدر مرسی یہ بھی چاہتے تھے کے کوئی بھی ان سے باز پرس کرنے والا نہ ہو حتی کہ وہ عدلیہ سے بھی ماورا ہوں اور ان کے انہی اقدامات نے مصر میں مظاہروں کو جواز بخشا۔
ناقدین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اردگان اور مرسی دونوں ہی برے ہیں تو ان کے لیے ایک وضاحت یہ ہے کہ ریاست کا اقتدار حاصل کرنے کے ان دونوں کے طریقہ کار میں بڑا فرق ہے اسی لیے مرسی اقتدار حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
ایک مثبت مثال ہم تیونس سے لے سکتے ہیں جہاں سے عرب بہار کا آغاز ہواتھا،تیونس نے لیبیا کی خانہ جنگی، مصر اور الجیریا میں خفیہ پولیس کے ذریعے اقتدارحاصل کرنے کے موضوع میں الجھنے سے گریز ہی کیا ہے،یہاں ہم تیونس کی اسلامی تحریک کی عقلمندی کو تسلیم کرتے ہیں انہوں نے آزاد پسند تنظیموں کو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کیا ہے ان کو اپنے ساتھ معاشی منافع میں شریک رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں حقیقی جمہوریت اتفاق رائے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مراکش کے بادشاہ نے بھی ایک مسلم رہنما کو پارلیمنٹ میں شامل کیا اور ایک مسلمان وزیرا عظم کو یہ اجازت دی کہ وہ ایک بڑے تنظیمی اتحاد کی رہنمائی کریں۔
اک بڑی غلطی وہ لوگ کر رہے ہیں جو یہ سوچ رہے ہیں کہ ریاست کو سیاسی اسلام سے بچانے کے لیے ملک پر ایک آمر بٹھا دیاجائے یا کو ئی تاحیات صدر بنا دیاجائے ایسے لوگ اپنی یادداشت درست کرلیں،تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ۱۹۷۹ میں شاہ ایران کا خاتمہ،صدام حسین کی عراق میں دہشت گردی،۱۹۹۲میں الجزائر میں اسلامی انتخابی کامیابی کو مسترد کرنے سے لیکر ۲۰۱۱شام میں بشار الاسد کا مظاہرین پر تشدد تک ان کے بدترین نتائج ہمارے سامنے یہ ثابت کرتے ہیں ظلم کی حکمرانی بہت تھوری سی ہے اوراس کے بطن سے ایک ناختم ہونے والی خانہ جنگی جنم لیتی ہے۔سوائے جنوبی کوریا اور تائیوان کے تمام خلیجی ممالک کے خود مختار آمر خطے میں خوشحالی اور امن کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
نہ سیسی نہ داعش
مرسی کی حکومت ختم ہوئے چار سال ہونے کو آئے ہیں اب یہ الزام لگانا مشکل ہے کہ مرسی، سیسی سے زیادہ خطرناک اور بدترین ثابت ہوسکتاتھا۔سیسی جس نے مرسی کی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا اب مصر پر حکمرانی کر رہاہے،سیسی نے مصری تاریخ کا بد ترین قتل عام کروایا،۲۰۱۳میں ہزاروں کی تعداد میں مرسی کے حامیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔مصر میں سیسی کے ظلم نے حسنی مبارک کے ظلم کو مات دے دی۔سینا میں باغی جہادیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور سیسی ابھی تک یہ نہیں طے کر پائے کہ وہ نوجوان نسل کے لیے روزگار کے مواقع کہاں اور کیسے پیدا کریں گے۔
مشرق وسطیٰ میں حکمرانوں کی گمراہی اور تشدد نے عرب دنیا کو بحران اور مصائب کی جانب دھکیل دیاہے جن سے جلدی نکلنا اب بہت مشکل ہے آمریت کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ان مشکلات سے نکلنے کا واحد راستہ خلیجی ممالک میں سیاست اور معیشت کو بتدریج فروغ دینا ہے اسی طرح لوگ تشددسے گریز کرنے اور جمہوریت کے احترام کا شعور پاسکیں گے،اور اس میں ہمیں اسلام پسندوں کو لازمی شامل کرنا ہوگا کیونکہ دین اسلام خلیجی ممالک کا مرکز و محورہے۔
آزاد پسندسیاست میں خدا کے وجود سے لے کر خواتین کے کردار تک کو لے کر بحث کرتے نظر آتے ہیں اس لیے کسی بھی اسلامی ملک میں عیسائی جمہوریت کا قائم رہنا مشکل ہے لیکن سیاسی اسلام عملی طور پر بہترین نتایج پیدا کرسکتا ہے انہیں کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اگر اسلام کو دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ سارے اسلام پسند متحد ہوکر انتہا پسندی اور مزاحمت کا راستہ اپنائیں گے،اعتدال پسندی کو مطلوب و مقصود رکھ کر ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا،غیر جانبدارانہ طور پر اصلاحات کے لیے کام کرنا ہوگا اور جنگ صرف نا گزیر حالات کے لیے ہونی چاہیے یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے مسلح پُرتشدد اسلامی گروہوں کو روکا جاسکتا ہے۔
(ترجمہ:سمیہ اختر)
“Blanket repression is the wrong way to deal with political Islamists”.(“The Economist”. August 26, 2017)
Leave a Reply