
عالمی سطح پر کچھ کر دکھانا ممکن نہ ہو تب بھی کم از کم جنوبی ایشیا کا چودھری بننے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں وہ سب کچھ کیا جو کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود بھارت کو اب تک اس مقام تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے، جہاں وہ ایک نمایاں قوت کے طور پر دکھائی دے۔ ایک طرف تو بھارت کے گوناگوں مسائل ہیں اور دوسری طرف تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی و علاقائی حالات۔ آج کی دنیا کو جن پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے اُن کا حل تلاش کرنے میں ترقی یافتہ ممالک کو بھی مستقل نوعیت کی الجھنوں کا سامنا ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں بھارت کے لیے تیزی سے پنپنے اور خود کو علاقے کا چودھری بنانے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے۔
نریندر مودی اور اُن کی ٹیم نے بھارت کو کہاں پہنچادیا ہے اِس سوال پر بحث ہوتی رہی ہے اور ہو بھی رہی ہے۔ آج بھارت کی سیاست عجیب موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ آئینی طور پر بھارت سیکیولر ہے مگر سیاست سے سیکیولر ازم یوں نکل چکا ہے کہ ڈھونڈے نہیں ملتا۔ سنگھ پریوار کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے معاملات کو یوں بگاڑا ہے کہ اب پوری سیاست ہی مذہب کی بنیاد پر پھیلائی جانے والی منافرت کی نذر ہوکر رہ گئی ہے۔
کورونا کی وبا نے بھارت کی معیشت کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔ مودی سرکار کے دوسرے عہد میں بھی بھارت کے لیے کہیں کوئی آسانی پیدا ہوسکی ہے نہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے نوٹوں کی تبدیلی کے نام پر پوری قوم کو شدید پریشانی سے دوچار رکھا۔ ساتھ ہی ساتھ ملک بھر میں مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ گائے کا گوشت کھانے اور بیچنے کے الزام میں متعدد مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ ہندُتوا فورسز نے ملک کو یوں جکڑ رکھا ہے کہ اب چھٹکارے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ انتہا پسند ہندوؤں کو جب کچھ بھی نہیں سُوجھتا تو مسلمانوں سے نفرت کا کارڈ کھیل جاتے ہیں۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔
مودی سرکار نے ہندُتوا فورسز کو خوش کرنے اور عام ہندوؤں کو اپنی طرف تیزی سے متوجہ کرنے کے لیے مقدس مقامات کو تعمیر و ترقی کے نئے مرحلے سے گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایودھیا کے بعد کاشی، متھرا اور بنارس میں بھی شاندار مندر تعمیر کیے جارہے ہیں۔ بعض پرانے مندروں کو توسیع کے ذریعے وسیع و عریض کمپلیکس کی شکل دی جارہی ہے۔ مندروں کے ساتھ ساتھ شاپنگ مالز اور انٹر ٹینمنٹ ایریا بھی بنائے جارہے ہیں۔ یہ سب مذہب کے نام پر ہو رہا ہے اور مقصود ہے ووٹ بینک مضبوط بنانا۔
بھارت کے معروف ہندی اخبار ’’نو بھارت‘‘ نے نریندر مودی اور اُن کے ساتھیوں کے بوئے ہوئے انتہا پسندی کے بیج اور مذہب کے نام پر کی جانے والی ووٹ بینک کی سیاست پر خاصا چشم کُشا تبصرہ کیا ہے۔
بارہ برس میں وہ مہنگائی دکھائی نہیں دی جو آج دکھائی دے رہی ہے۔ کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جس کی قیمت عام آدمی کو سُکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔ بے روزگاری بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بھارتی سیاست میں مذہب کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے۔ ہر بڑی اور چھوٹی جماعت کی قیادت اب صرف مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی تیاریاں کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ مذہب کو سیاست کی بنیاد بناکر کچھ اس انداز سے سُکون کا سانس لیا جارہا ہے گویا تمام بنیادی مسائل حل کیے جاچکے ہیں اور سیاست کی گرم بازاری کے لیے صرف مذہب رہ گیا ہے۔
حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف، آج بھارت میں ہر طرف مذہب کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کی بات ہو رہی ہے۔ پورے ملک میں وزیر اعظم نریندر مودی کو پوجا پاٹ کرتے، آرتی میں شریک ہوتے اور گنگا میں اشنان کرتے دکھایا جارہا ہے۔ اُنہیں چیلنج کرنے والے بھی خود کو مذہب کا اُن سے بڑا محافظ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ راہل گاندھی چیخ چیخ کر اپنے ہندو ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کاشی میں جو کچھ تعمیر نو کے نام پر ہو رہا ہے اُس کا سہرا اکھلیش یادو اپنے سر باندھنے کی کوشش میں جُتے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے اگلے انتخابات میں خود کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی رہنما بنانے کی کوشش میں مصروف مغربی بنگال کی ممتا بینرجی نے مندر، مسجد اور گرجا کی تصویر والے پوسٹر اور بینر چھپواکر اپنی پارٹی ترنمول کانگریس کی پوری سیاست کو مذہب کے کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔ ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی مذہب کے نام پر سیاسی دکان چمکاکر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط تر کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی بھرپور انتخابی فتوحات مذہب کے سائے ہی میں دکھائی دے رہی ہیں۔
ملک کی کم و بیش تمام بڑی اور جھوٹی سیاسی جماعتوں کے منشور اور ترجیحات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں لگتا ہی نہیں کہ ملک میں مذہب کے علاوہ بھی کوئی ایسا نکتہ ہے جس پر سیاست کی جاسکے۔ ترقی و خوش حالی کے مختلف پیمانوں کے مطابق جائزہ لیجیے تو بھارت آج بھی اچھا خاصا پچھڑا ہوا ہے۔ ۲۰ فیصد سے زائد بھارتی باشندے آج بھی ناخواندہ ہیں۔ ۲۵ فیصد سے زائد بھارتی باشندے خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق مسلسل بڑھ رہا ہے۔ بھارت وہی ملک ہے جو کورونا وائرس کی وبا سے بمشکل نکلا۔ تب ملک مرگھٹ میں تبدیل ہوکر رہ گیا تھا۔ شاید ہی کوئی ہو جس کے گھر، خاندان، دوستوں یا جاننے والوں میں سے کسی کو موت چُھوکر نہ گزری ہو۔ جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو کاندھا دیا وہ اور جو اپنے پیاروں کا آخری دیدار بھی نہ کرسکے وہ اتنی جلدی اُس مشکل گھڑی کو کیسے بھول گئے؟ جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے وہ تو چاہیں گے ہی کہ لوگ کورونا کی دوسری لہر کے ہاتھوں پیدا ہونے والی تباہی کو بھول جائیں۔ وہ تو یہ بھی چاہیں گے کہ لوگ یہ بھی بھول جائیں کہ ڈانوا ڈول قومی معیشت بھی اپنی جگہ ایک بڑی آفت اور مصیبت ہے۔ ملک ترقی کی راہ سے ہٹ چکا ہے۔ سیاسی تماشوں سے ہٹ کر دیکھنے کی کوشش پر لوگوں کو دکھائی دے گا کہ ملک انتہائی پریشان کن مسائل میں گِھرا ہوا ہے۔
اس وقت ملک کو ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو یہ بتائے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کیسے ملے گا، مہنگائی پر کس طور قابو پایا جاسکے گا، بچے اسکول کس طرح جاسکیں گے، اسپتالوں میںڈاکٹر اور بستروں کی تعداد کیسے بڑھے گی۔ ملک کی مجموعی حالت تو یہ ہے کہ آکسیجن جیسی انتہائی بنیادی ضرورت بھی آسانی سے پوری نہیں ہوتی۔ مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ قومی وجود خطرے میں ہے۔ ایسے میں اس بات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ کون سا مندر کب اور کہاں بنے گا۔ عوام کس پارٹی کو حکومت چلانے کے لیے چُنیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے منشور کے ذریعے ترجیحات ظاہر کرنے کا موقع موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات طے کرچکی ہیں، یہ ٹھان لی گئی ہے کہ الیکشن صرف مذہب کی بنیاد پر لڑنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں فی الحال یہ نکتہ شامل نہیں کہ عوام کا معیارِ زندگی کیوں کر بلند کیا جاسکتا ہے۔
کورونا کی وبا نے بھارت کی معیشت کو شدید نوعیت کی شکست و ریخت سے دوچار کیا ہے۔ ہزاروں صنعتی یونٹ بند کردیے جانے سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے عوام کا سُکون سے جینا دوبھر کردیا ہے۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی بار قومی معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ متمول افراد تو یہ جھٹکا برداشت کرسکتے ہیں، عام آدمی کیا کرے کہ وہ تو شدید غربت کی چَکّی میں پِس رہا ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کی محنت کے نتیجے میں جن کروڑوں افراد کو کسی نہ کسی طور غربت کے دائرے سے نکالنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی وہ دوبارہ غربت کے دائرے میں جاچکے ہیں۔ کم ازکم بارہ برس کے دوران ایسی مہنگائی دکھائی نہیں دی اور بے روزگاری کا تو ۴۵ سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
Leave a Reply