
۵۵ سالہ حمیدہ خاتون، جو دیناج پور کے صدر اسپتال میں نرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی آئی تھی، بہت سے دوسرے بد نصیب اور مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ دیناج پور میں دریا کے کنارے قائم ایک عقوبت خانے میں اپنی موت کا انتظار کر رہی تھی کہ پاکستانی فوج نے بر وقت پہنچ کر انہیں عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے درندوں سے نجات دلائی۔ فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر حمیدہ خاتون نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’ہم دیناج پور میں طویل مدت سے آباد تھے۔ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی وہاں بغاوت کی آندھی چلے گی اور ہمیں ان مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا، جن کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا‘‘۔
’’عوامی لیگ کے کارکنوں نے ۲۳ مارچ کو ہمارے علاقے کے تمام غیر بنگالی مردوں کو حکم دیا کہ وہ علاقے کے ہائی اسکول میں امن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کریں۔ جب تمام غیر بنگالی مرد اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے، تب عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور گھروں سے تمام قیمتی اور کارآمد اشیا لوٹ لیں۔ اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والا ایک غیر بنگالی نصف شب کو دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والے تمام غیر بنگالی مردوں کو اسکول کے کمپاؤنڈ میں قتل کردیا گیا ہے۔ اگلی صبح عوامی لیگ کے غنڈوں نے علاقے کی تمام غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو جمع کرکے دریا کے کنارے واقع عقوبت خانے پہنچایا، جہاں ہم نے غیر بنگالی مردوں کا لرزہ خیز قتلِ عام دیکھا۔ ان کی لاشیں دریا میں پھینکی جارہی تھیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ دو ایک دن میں ہمیں بھی قتل کرکے دریا برد کردیا جائے گا۔ ہمارے گروپ میں جوان عورتیں اِکّا دُکّا ہی رہ گئی تھیں۔ تمام غیر بنگالی لڑکیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے یرغمال بنالیا گیا تھا۔ بغیر چھت کے اس عقوبت خانے میں جو مناظر ہم نے دیکھے، مرتے دم تک انہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ ہم نے شدید جسمانی اور ذہنی تشدد سہا اور پھر اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کردیا۔ ہم نے سوچ لیا کہ اب ہمارا بچنا انتہائی دشوار ہے اور ہم موت کے منہ میں چلے ہی جائیں گے۔ مگر پھر پاکستانی فوج آئی اور اس نے ہمیں اس عقوبت خانے سے نکال کر ریڈ کراس کے کیمپ پہنچایا‘‘۔
’’ہمیں سعید پور کے کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں باغی ہمارے خون کے پیاسے ہوگئے کیونکہ میں نے فوج کو مارچ ۱۹۷۱ء میں غیر بنگالیوں کے قتل کا بازار گرم کرنے والوں کے بارے میں پوری تفصیل سے بتایا تھا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد مجھے اٹھارہ ماہ تک جیل میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے رہا کیا گیا اور اس کے فوراً بعد پاکستان منتقل کردیا گیا‘‘۔
تیس سالہ خاتون النساء کے شوہر دیناج پور پولیس میں تعینات تھے۔ خاتون النساء نے اپنی المناک کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میں عقوبت خانے کے مناظر اب تک بھلا نہیں سکی۔ وہاں لکڑی کے بڑے تختے تھے جن پر بدنصیب غیر بنگالیوں کو لِٹاکر ذبح کردیا جاتا تھا۔ میں نے وہاں بڑے ٹب بھی دیکھے جن میں پانی گرم کرکے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے یرغمالیوں کو ڈبکی دی جاتی تھی۔ دریا کنارے قائم عقوبت خانوں میں باغیوں نے یرغمالیوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت دینے کے انوکھے طریقے وضع کیے تھے۔ انسانیت سوز تشدد ڈھاکر انہیں جیسے خوشی ملتی تھی۔ جن غیر بنگالی مردوں کو قتل کردیا گیا تھا، ان کی بیوائیں، بہنیں، مائیں اور بچے کسی بھی وقت قتل کر دیے جانے کے انتظار میں تھے۔ انہیں عقوبت خانوں میں سخت مشکل حالات کا سامنا تھا۔ ایسے میں پاکستانی فوج کے دستوں کی آمد سے اُن پر سے موت کے سائے ٹلے اور وہ ریلیف کیمپوں میں منتقل ہوئے۔ خاتون النساء اپنے تین بچوں کے ساتھ فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچیں۔
خاتون النساء نے مزید بتایا: ’’دیناج پور میں عوامی لیگ کے کارکن اور ان کے ساتھی غنڈے ۲ مارچ ۱۹۷۱ء سے خرابیاں پیدا کر رہے تھے اور حالات کو ابتر بنانے کی راہ پر گامزن تھے۔ وہ غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنا رہے تھے۔ ۱۷ مارچ ۱۹۷۱ء سے انہوں نے غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنا اور ان کی عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ۲۱ مارچ کو ہمیں اطلاع ملی کہ ہمارے علاقے پر باغیوں کا بڑا حملہ ہونے والا ہے۔ میرے شوہر عبدالغفار مجھے اور تینوں بچوں کو لے کر گھر کے پچھلے دروازے سے نکلے اور آبادی سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع درختوں کے جھنڈ میں چھپ گئے۔ علاقے کے بہت سے لوگوں نے پہلے ہی وہاں پناہ لے رکھی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہمارے علاقے میں فائرنگ شروع ہوگئی۔ کئی مکانات کو آگ لگادی گئی۔ آگ کی لپٹیں ہمیں درختوں کے جھنڈ سے بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ باغیوں نے علاقے میں رہ جانے والے غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ بہتوں نے گھر کو چھوڑ کر درختوں کے جھنڈ میں پناہ لی ہے، تو انہوں نے ہماری سمت فائر کھول دیا۔ ہم میں سے کئی ایک کو گولیاں لگیں اور وہ زخمی ہوگئے مگر پھر بھی ہم خاموش رہے تاکہ باغیوں کو یقین نہ ہو کہ ہم وہاں چھپے ہوئے ہیں۔ قریب ہی قبرستان تھا۔ ہم دھیرے دھیرے قبرستان کی طرف بڑھتے گئے کیونکہ قبریں ہمیں گولیوں سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتی تھیں۔ صبح ہوئی تو ہم نے خالی پڑے ہوئے ایک اسکول میں پناہ لی۔ وہاں ہم تین دن رہے۔ یہ تین دن ہم نے سخت مشکل میں گزارے۔ اس دوران دن کو ہم قریبی تالاب سے پانی لاتے تھے۔ تین دن تک ہم نے جنگلی پھل اور بعض جڑیں کھاکر گزارا کیا۔ ۲۹ مارچ کو مسلح باغی آئے اور میرے شوہر سمیت تمام غیر بنگالیوں کو یرغمال بناکر لے گئے۔ جنہوں نے مزاحمت کی، انہیں رسیوں سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم عورتوں نے گڑگڑاکر ان سے اپنے شوہروں، بھائیوں اور دیگر مردوں کی جاں بخشی کی استدعا کی، مگر انہیں ہم پر رحم نہ آیا۔ ان میں سے ایک نے انتہائی سفاک لہجے میں کہا: ’’ہم تمہیں اس لیے چھوڑ رہے ہیں کہ تم ہمارے گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کروگی۔‘‘ پھر وہ تمام غیر بنگالی مردوں کو اسلحے کے زور پر دریا کے کنارے قائم عقوبت خانے لے گئے جہاں انہیں قتل کردیا گیا۔ اگلے دن وہ سفاک درندے پھر آئے اور غیر بنگالی عورتوں کو اور بچوں کو اسلحے کے زور پر اپنے ساتھ لے گئے‘‘۔
’’جب ہم دریا کے کنارے قائم عقوبت خانے کے نزدیک پہنچے تو شدید خوف نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہر طرف خون پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے غیر بنگالی مردوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ یہ عقوبت خانہ زمین پر جہنم کی تصویر تھا۔ درختوں سے رسیاں لٹک رہی تھیں۔ بہتوں کو ان رسیوں کی مدد سے پھانسی دی گئی، اُن کے سر درختوں پر لٹکا دیے گئے۔ جن بدنصیبوں کو قتل کردیا گیا تھا، ان کے جسم کے ٹکڑے وہیں پڑے ہوئے تھے، سڑے ہوئے گوشت اور ہڈیوں کی شدید بُو نتھنوں میں گھستے ہی انسان کو چکرانے پر مجبور کردیتی تھی۔ ایک درجن سے زائد افراد کو ہماری آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس کے بعد ایک بنگالی باغی نے چیخ کر حکم دیا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو ذرا دور لے جاؤ، یہاں بدبو بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کا حکم سنتے ہی باغیوں نے یس میجر کہا اور ہماری طرف دوڑے۔ ہم میں طاقت اور زندہ رہنے کی لگن دونوں ہی ختم ہوچکی تھیں۔ مزاحمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہم بوجھل قدموں سے ان کے بتائے ہوئے مقام کی طرف چل پڑے۔ ہمیں یقین ہوچلا تھا کہ اب کسی بھی لمحے ہماری موت کا فرمان جاری ہوگا اور ہمیں صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ ہم موت کو گلے لگانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے تھے۔ فرار کی کوئی بھی کوشش فضول ہی ثابت ہوتی۔ وہاں ۵۰۰ سے زائد باغی تھے جن میں سے نصف مسلح تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں جلد از جلد ختم کرکے اِس اذیت سے نجات دلائیں۔ مگر پھر اچانک ہماری تقدیر بدل گئی۔ تمام باغی اچانک بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم نے حیران ہوکر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ایک درجن سے زائد فوجی ایک گاڑی میں سوار ہوکر ہماری طرف آ رہے ہیں۔ ان کی اللہ اکبر کی صدائیں فضا میں زندگی کا پیغام پھیلا رہی تھیں۔ یہ پاکستانی فوجی ہمارے لیے رحمت کے فرشتے ثابت ہوئے تھے اور یوں ہماری جان بچ گئی۔ ہمیں یرغمال بنانے والے، جو تعداد میں بہت زیادہ تھے، بزدلوں کی طرح قریبی جنگل میں جا چھپے۔ فوجیوں نے عورتوں اور بچوں کو ریلیف کیمپ جبکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا اور جن بدنصیبوں کو قتل کیا جاچکا تھا انہیں سپردِ خاک کیا‘‘۔
’’دسمبر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہم پر نئی قیامت ڈھائی۔ جہاں بھی موقع ملا، انہوں نے ہمیں اذیت دی۔ اب جبکہ ہم پاکستان میں ہیں، ایسا لگتا ہے، جیسے نئی زندگی ملی ہے‘‘۔
پچاس سالہ حسینہ بیگم دیناج پور میں اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کبیر احمد خان متمول تھے اور مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ حسینہ بیگم نے شوہر کو کھونے کے بعد غم سے نڈھال ہونے کے باوجود اپنے خاندان کے ایک وکیل دوست کی دو جوان لڑکیوں کی جان بچائی۔ حسینہ بیگم کے دونوں بیٹے اس دوران ایک محفوظ ٹھکانے پر رہے۔ جب پاکستانی فوج نے دیناج پور کا کنٹرول حاصل کیا، تو انہوں نے دونوں بیٹوں کو بلاکر فوج میں بھرتی کرادیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کی لڑائی میں دونوں بیٹے جنگی قیدی بنالیے گئے۔ حسینہ بیگم دسمبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل ہوئیں۔
☼☼☼
Leave a Reply