
نارکل ڈنگا میں قتلِ عام
۲۲ سالہ مقصود احمد بھیر مارہ کا طالب علم تھا۔ وہ نارکل ڈنگا کے قتلِ عام میں اپنے دو بھائیوں اور چچا سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ ۲۲ اور ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کی بات ہے۔ مقصود احمد نے بتایا: ’’نارکل ڈنگا اور بھیرمارہ میں بنگالی اور غیر بنگالی مل جل کر بہت پیار اور ہم آہنگی سے رہتے تھے۔ نارکل ڈنگا میں ہماری رہائش فیروز کالونی میں تھی، جس کے بیشتر مکین غیر بنگالی تھے۔ کچھ برس پہلے ایک غیر بنگالی بزرگ کا انتقال ہوا تو بنگالیوں اور غیر بنگالیوں نے مل کر اُن کا مزار تعمیر کرایا۔ فیروز بابا کے عرس کے موقع پر ہر سال ان کے مزار پر ہزاروں بنگالی اور غیر بنگالی جمع ہوتے تھے۔ ہمارے علاقے کی مسجد میں بھی ہر نماز کے لیے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے تھے‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے سے عوامی لیگ کے کارکنوں نے افواہیں پھیلا کر منافرت کی فضا پیدا کرنی شروع کر دی تھی۔ ہمیں اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ بھارت سے چند مسلح بنگالی بھیرمارہ اور نارکل ڈنگا آئے تھے اور انہوں نے عوامی لیگ کے کارکنوں کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینی بھی شروع کر دی تھی‘‘۔
’’۲۳ مارچ کو عوامی لیگ کے ۵۰۰ غنڈوں نے اسٹین گنوں اور رائفلوں سے مسلح ہو کر ہمارے علاقے پر حملہ کر دیا اور ذرا سی دیر میں سیکڑوں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جن خاندانوں نے مزار کے احاطے میں پناہ لینے کی کوشش کی، اُنہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ غیر بنگالیوں کے تمام مکانات لوٹ لیے گئے۔ ظالموں نے بچوں کو بھی نہ بخشا اور انہیں بھی موت کی نیند سلا دیا۔ بنگالی باغیوں نے بہت سی غیر بنگالی عورتوں اور جوان لڑکیوں کو اغوا کر لیا۔ ان لڑکیوں کو بے حرمت کیا گیا اور پسپا ہونے سے قبل باغیوں نے اُن میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ علاقے میں قتلِ عام شروع ہونے سے قبل مَیں گھر سے نکل گیا تھا اور کئی دن تک اناج کے ایک بڑے گودام میں چھپا رہا۔ باغیوں نے میرے چچا اور دو بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران بھیرمارہ اور نارکل ڈنگا میں شہید کیے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد کم و بیش دو ہزار تھی۔ شہدا کی درست تعداد معلوم کرنا اِس لیے مشکل تھا کہ باغیوں نے بہت سے غیر بنگالیوں کو جلتے گھروں میں پھینک دیا تھا۔
۵۲ سالہ ضمیر علی کی رہائش نارکل ڈنگا کی فیروز پور کالونی میں تھی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری دو ہفتے انہوں نے اپنے ایک کزن کے ہاں رائٹا میں گزارے۔ ان کے کزن نے ایک بنگالی خاتون سے شادی کی تھی۔ ضمیر علی نے بتایا کہ مارچ کے آخری ہفتے میں بنگالی باغیوں نے رائٹا میں چھ غیر بنگالی خاندانوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں دریائے پدما میں پھینک دی تھیں۔ مارچ کے وسط میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے ضمیر علی کے کزن کے گھر پر بھی حملہ کیا۔ اُس کے سُسر کا علاقے میں اثر و رسوخ تھا اور میرے کزن کی بیوی نے بھی باغیوں کی منت سماجت کی، تب کہیں جاکر گلو خلاصی ممکن ہوسکی۔ ضمیر علی دسمبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل ہوئے۔ ضمیر علی جب رائٹا میں تھے، تب نارکل ڈنگا میں ان کے ایک کمرے کے مکان کو باغیوں نے لوٹ لیا۔ ضمیر علی کی بیوی اور بیٹا ۱۹۶۷ء میں چیچک کی نذر ہوچکے تھے۔ ضمیر علی نے بتایا کہ جب پاکستانی فوج نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے، تب رائٹا اور ضلع کشتیا کے دیگر شہروں اور قصبوں سے ہزاروں باغیوں نے بھارت میں پناہ لی۔ جن غیر بنگالی لڑکیوں نے باغیوں کے ساتھ جانے یا ان کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کی، اُنہیں انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
۴۴ سالہ رزاق علی مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں کمار کھلی میں تھے۔ وہ بھیرمارہ کی ایک تجارتی فرم میں کلرک تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کمار کھلی میں کم و بیش سو غیر بنگالی مرد و زن موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ رزاق جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل ہوئے۔ انہوں نے اپنی کہانی ان الفاظ میں سنائی: ’’میں کلکتہ میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والد بہاری تھے مگر میں بنگالی بہت روانی سے بولتا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے بعد میں نے مشرقی پاکستان میں رہائش اختیار کرنا پسند کی۔ مجھے ضلع کشتیا زیادہ پسند آیا۔ باغیوں نے بھیرمارہ میں سیکڑوں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں غیر شادی شدہ تھا اور ایک بنگالی خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس خاندان کو ہم کلکتہ کے زمانے سے جانتے تھے۔ جب بنگالی باغیوں نے غیر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع کیا، تب میں آفس کے کام سے کمار کھلی گیا ہوا تھا۔ میں چونکہ بنگالی روانی سے بولتا تھا، اس لیے باغی اندازہ نہ لگا سکے کہ میں غیر بنگالی ہوں۔ ۲۸ مارچ کو میں نے کمار کھلی کے راستوں پر سیکڑوں غیر بنگالیوں کی لاشیں دیکھیں۔
رنگ پور میں قتلِ عام
عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی سپاہیوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں رنگ پور میں بھی غیر بنگالیوں کا قتلِ عام کیا۔ بنگالیوں کی اکثریت والے علاقوں میں آباد غیر بنگالیوں کو ڈرا دھمکا کر اُن کے مکانات سے بے دخل کر دیا گیا۔ چند غیر بنگالیوں کو اغوا کر کے قریبی کھیتوں میں قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے باغیوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔ باغیوں نے مارچ کے دوسرے ہفتے میں رنگ پور میں مکمل جنگ کا اعلان کر دیا، جس کے نتیجے میں غیر بنگالیوں کی اکثریت والے علاقوں پر مسلح باغیوں نے حملے کر کے کم و بیش پانچ ہزار مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
باغیوں نے منافرت کی جو آگ بھڑکائی تھی، اُس کے شعلوں نے ضلع رنگ پور کے ہر شہر اور ہر قصبے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ سعید پور، لال منیر ہاٹ اور نیلفاماری میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان تھی۔ شہید ہونے والوں کی درست تعداد معلوم کرنا یہاں بھی انتہائی دشوار تھا کہ بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا یا اُن کی لاشیں جلتے ہوئے گھروں میں راکھ ہوگئیں۔
۲۵ سالہ محمد یوسف موٹر مکینک تھا اور رنگ پور کے علاقے عالم نگر کالونی میں رہتا تھا۔ بنگالی باغیوں کے شروع کیے ہوئے قتل عام میں یوسف کے گھر کے افراد سمیت گیارہ رشتہ دار موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اپنے گھرانے میں صرف وہی بچا۔ جام شہادت نوش کرنے والوں میں اس کے والدین، پانچ بھائی اور چار قریبی رشتہ دار شامل تھے۔ قاتلوں کے ایک گروہ نے انہیں مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں نشانہ بنایا۔ محمد یوسف کو فروری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا۔ اُس نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’۲۷مارچ ۱۹۷۱ء کی شب عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں پر مشتمل کم و بیش ۵۰۰ درندوں نے ہمارے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ عالم نگر کالونی میں اکثریت بہاریوں کی تھی۔ اُن ظالموں نے پہلے تو مکانوں کو لوٹا اور پھر قتل عام شروع کردیا۔ جو لوگ جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے، اُن پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی۔ قاتلوں کا ایک گروہ ہمارے چھوٹے سے گھر میں بھی داخل ہوا اور گھر کے تمام افراد پر گولیوں کی بوچھار کردی۔ ہم سب کو گولیاں لگیں اور سب کے جسم سے خون بہنے لگا۔ میرے جسم کے نچلے حصے میں گولی لگی اور میں خون بہنے سے بے ہوش ہوگیا۔ صبح ہونے پر جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ گھر بھر میں صرف میں ہی زندہ رہ پایا تھا۔ فوج کے آنے تک (یعنی کم و بیش ایک ہفتے تک) میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں چھپا رہا‘‘۔
محمد یوسف نے مزید بتایا کہ رنگ پور میں بنگالی باغیوں نے جو کچھ کیا وہ کوئی فوری عمل نہ تھا بلکہ اُس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور غیر بنگالیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ بنگالی باغی اِس حد تک سنگ دل بھی ہوسکتے ہیں۔
۲۱ سالہ جنید احمد رنگ پور کے ایک کالج کا طالب علم تھا اور اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ ست گنبد نامی علاقے میں کرائے کے ایک مکان میں رہتا تھا۔ ۲۳ مارچ کو جب باغیوں نے ست گنبد کے مکینوں پر حملہ کیا تو جنید بھی زخمی ہوگیا۔ اُسے جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل کیا گیا۔ جنید نے اپنی داستانِ الم اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میرے والد، عقیل احمد، پٹنہ ہائی کورٹ میں کلرک تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت میرے والد نے مشرقی پاکستان منتقل ہونا پسند کیا اور رنگ پور کو اپنا گھر بنایا۔ میں رنگ پور میں پیدا ہوا۔ ہم سب بہت روانی سے بنگالی بولتے تھے مگر پھر بھی ہمیں بہاری ہی کہا جاتا تھا۔ بہار میں ہمارا کوئی بھی رشتہ دار نہیں تھا۔ رنگ پور ہی ہمارا گھر تھا‘‘۔
’’۱۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو مسلح باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور چند غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگائی۔ ان کے ہاتھوں متعدد غیر بنگالیوں نے جامِ شہادت بھی نوش کیا۔ اِس واقعے سے غیر بنگالیوں کے دِلوں میں خوف بیٹھ گیا۔ اب تو ہر روز غیر بنگالیوں سے گندے سُلوک کے واقعات رونما ہونے لگے۔ بنگالی باغیوں نے غیر بنگالیوں کو مختلف طریقوں سے پریشان اور ہراساں کرنا شروع کردیا‘‘۔
’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہمارے علاقے پر کم و بیش ۶۰۰ مسلح باغیوں نے حملہ کردیا۔ انہوں نے ہم پر گولیوں کی بوچھار کردی۔ ہمارے پاس دفاع کے لیے کوئی ہتھیار نہ تھا۔ پہلے اُنہوں نے مکانات کو لوٹا اور پھر اُنہیں آگ لگادی۔ اُنہوں نے میرے گھر کے تمام افراد پر بھی گولیاں برسائیں۔ میری قسمت اچھی تھی کہ بچ گیا‘‘۔
’’میرا خیال ہے ہمارے علاقے میں عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنے والے غیر بنگالیوں کی تعداد کم و بیش پانچ ہزار تھی۔ ان میں ۷۰۰ خواتین اور ۲۳۰۰ بچے بھی شامل تھے۔ باغیوں نے ۵۰۰ سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اُن میں سے بیشتر کو قتل کردیا۔ چند ایک کو باغی اپنے ساتھ بھارت لے گئے‘‘۔
رنگ پور کی عالم نگر کالونی کے ۴۸ سالہ جمال احمد نے بتایا: ’’کشور گنج میں باغیوں نے تمام ہی غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جمال احمد ایک جنرل اسٹور کے ملازم تھے اور کام کے سلسلے میں قریبی شہروں اور قصبوں میں جاتے رہتے تھے۔ وہ بنگالی بہت روانی سے بولتے تھے اور کشور گنج میں اُن کے کئی بنگالی اور غیر بنگالی دوست تھے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ۲۳ اور ۲۴ مارچ کو جب لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا تب جمال احمد کشور گنج میں تھے۔ باغیوں نے ایک بڑے مجمع کو غیر بنگالیوں کے خلاف اُکسایا اور پھر غیر بنگالیوں کو لوٹ کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو کئی دن جاری رہا۔ باغیوں نے غیر بنگالیوں سے کچھ بھی استفسار نہ کیا اور اُنہیں گولیوں سے بُھوننے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جمال احمد جب اپریل ۱۹۷۳ء کے تیسرے ہفتے میں رنگ پور میں اپنے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی بیوی اور سالی کو اغوا کیا جاچکا ہے۔ اُنہوں نے دونوں کو کئی ماہ تک دیوانہ وار تلاش کیا مگر کچھ پتا نہ چلا۔ جمال احمد کو نومبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل کیا گیا۔
جمال احمد نے بتایا کہ بدر گنج، ماہی گنج، کونیا اور پیر گاچا میں رہنے والے غیر بنگالیوں کا انتہائی بے دردی سے صفایا کردیا گیا۔ یہ سب کچھ مارچ کے آخری ہفتے اور اپریل کے پہلے نصف کے دوران ہوا۔ عوامی لیگ کے جن غنڈوں نے غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کے منصوبے بنائے تھے وہ پاکستانی فوج کے ایکشن کے بعد بھارت کی ریاست مغربی بنگال بھاگ گئے۔ جمال احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے مغربی بنگال کے ہندو بنگالیوں کو کشور گنج میں دیکھا تھا، جو مسلح تھے۔ بہت سے غیر بنگالیوں کو کشتیوں میں قتل کرنے کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا۔
☼☼☼
Leave a Reply