
راج شاہی اور ناٹور میں قتل عام
۳۰ سالہ عبدالباری ناٹور کی ایک ٹریڈنگ فرم میں ملازمت کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کے غنڈہ راج کے دوران بیوی اور والد سمیت عبدالباری کے خاندان کے ۶؍افراد جاں بحق ہوئے۔ عبدالباری نے اپنی بپتا اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میرے والد نے ۱۹۵۰ء میں پٹنہ سے پورے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اور مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے۔ چار سال جیسور میں رہنے کے بعد ہم ناٹور منتقل ہوگئے۔ ہم نے ناٹور کے علاقے بیر گنج میں اپنا مکان بنایا۔ اِس علاقے میں بہت سے غیر بنگالی خاندان آباد تھے۔ علاقے کے بنگالیوں سے ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں نے ہمارے علاقے میں ایک جلسے کا انعقاد کیا اور مقامی بنگالیوں کو غیر بنگالیوں پر حملے کرنے اور اُنہیں ختم کرنے کے لیے اُکسایا۔ خوفِ خدا رکھنے والے چند بنگالیوں نے عوامی لیگ کے باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ کسی بھی بنگالی کو غیر بنگالیوں کے قتل پر نہ اُکسائیں مگر اُن کی بات کا کسی بھی باغی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے میگا فون پر علاقے کے چند معروف و غیر معروف بہاریوں کی فہرست پڑھ کر سنائی جنہیں اُن کے ’’غلط اعمال‘‘ اور ’’بدسلوکی‘‘ کی سزا دی جانی تھی۔ اِن میں چند ایسے بہاری بھی شامل تھے جو انتہائی خدا ترس تھے اور کسی کے بھی کام آنے میں انتہائی مسرت محسوس کرتے تھے۔ ان میں سے چند ایک نے آگے بڑھ کر بنگالی باغیوں کے مجمع کے سامنے کہا کہ وہ ہر الزام کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر باغیوں کے سَروں پر تو خون سوار تھا۔ جن بہاریوں نے آگے بڑھ کر ہر الزام کا سامنا کرنے پر رضامندی ظاہر کی، اُنہیں اُسی وقت گولیوں سے بُھون دیا گیا۔‘‘
’’نصف گھنٹے کے اندر باغیوں نے پورے علاقے میں غیربنگالیوں کے قتل کا بازار گرم کر دیا۔ ان کے مکانات اور دکانیں لوٹ لی گئیں۔ ایک ہزار سے زائد غیر بنگالی موت کے گھاٹ اتارے گئے، جن میں میرے والد، میری بیوی، میرے دو بھائی، ایک بہنوئی اور میری خالہ شامل تھیں۔ انہوں نے میرے والد کو قتل سے قبل تشدد کا نشانہ بھی بنایا کیونکہ انہوں نے اللہ کے نام پر اُن سے خواتین اور بچوں کی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔ اُن درندوں نے علاقے کی بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کیا اور ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے پھینک دیا۔ باغیوں نے مجھ پر بھی حملہ کیا اور مجھے شدید زخمی کرنے کے بعد مُردہ سمجھ کر پھینک گئے۔ میں کچھ دن نزدیک کے ایک تباہ شدہ مکان میں چُھپا رہا۔ اپریل کے وسط میں جب پاکستانی فوج نے علاقے کا کنٹرول سنبھالا، تب میں نے اپنے پیاروں کی باقیات کو دفن کیا۔ ۱۹۷۱ء کے وسط میں مجھے ڈھاکا منتقل کیا گیا، جہاں سے میں فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچا‘‘۔
ساردا میں بھی غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یہ واقعات مارچ کے آخر اور اپریل کے اوائل میں رونما ہوئے۔ کم و بیش ۵۰۰ غیر بنگالیوں کو اِن درندوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور بھارتی دراندازوں نے مل کر نواب گنج کی جیل پر حملہ کیا اور وہاں موجود تمام جرائم پیشہ افراد کو چُھڑا لیا۔ جیل سے چُھوٹنے والے جرائم پیشہ افراد کو باغی اپنی صفوں میں شامل کر لیتے تھے اور پھر یہ سب مل کر غیر بنگالیوں پر مظالم ڈھانے لگتے تھے۔ راہ چلتے غیر بنگالیوں کو پکڑ کر اُنہیں جے بنگلا کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ جو ایسا کرنے سے انکار کرتا تھا، اُس پر غیر معمولی تشدد کیا جاتا تھا۔ ایک غیر بنگالی کلرک نے جب جے بنگلا کا نعرہ لگانے سے انکار کیا تو اُسے ایک گڑھے میں پھینک کر آگ لگا دی گئی۔ پھر اُس کے سر پر ڈنڈے برساکر اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نواب گنج میں مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران ایک ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کو شہید کیا گیا۔
سنتاہار میں قیامت
ضلع بوگرا میں ریلوے جنکشن والے قصبے سنتاہار میں مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی سے حالات کشیدہ ہوچلے تھے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے یہ افواہ پھیلانی شروع کردی تھی کہ ڈھاکا میں پاکستانی فوجیوں اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد نے بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنا شروع کردیا۔ اِس افواہ کو پھیلانے کا بنیادی مقصد سنتاہار میں بنگالیوں کو غیربنگالیوں کے خلاف اُکسانا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے کارکنوں اور ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے غیربنگالیوں کو قتل کرنا اور اُن کی املاک کو لوٹنا اور تباہ کرنا شروع کردیا۔ قتل و غارت کا سلسلہ ۲۷؍اپریل ۱۹۷۱ء تک جاری رہا اور اس وقت رکا جب پاکستانی فوج کے دستوں نے سنتاہار کا کنٹرول سنبھالا۔ سنتاہار میں غیربنگالیوں کی تعداد کم و بیش ۲۲ ہزار تھی۔ اِن میں سے ۱۵؍ہزار کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ سنتاہار ریلوے اسٹیشن پر سیکڑوں غیربنگالی ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ۲۶ مارچ کو ایک مسجد میں ۶۵ نمازیوں کو شہید کردیا گیا۔ ایک مسجد میں ۷۰ سے زائد خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اِن خواتین کو قتل کرنے والے بھارت سے دراندازی کرنے والے ہندو بنگالی تھے۔ مسجد میں شہید کی جانے والی بے بس خواتین وہ تھیں جن کے باپ، بھائی اور شوہر پہلے ہی قتل کیے جاچکے تھے۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں باغیوں نے ۶۰ غیربنگالیوں کو بے لباس کرکے پریڈ کرائی۔ ان میں سے چند بدنصیب لڑکیوں کو ان کے اغوا کار فرار ہوتے وقت بھارت لے گئے۔ جو غیربنگالی مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء میں بچ گئے تھے، اُنہیں دسمبر ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی نے قتل کردیا۔
۲۶ سالہ امان اللہ خان سنتاہار کی ریلوے کالونی کے کوارٹر نمبر۱۹۵ میں رہتے تھے۔ اُنہوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں غیربنگالیوں کے قتلِ عام کی داستان اِن الفاظ میں سُنائی: ’’باغیوں نے ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کی شام ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ ریلوے کالونی میں اکثریت غیربنگالیوں کی تھی۔ چند غیربنگالیوں کے پاس اسلحہ تھا۔ اُنہوں نے رات بھر مقابلہ کیا۔ اس دوران بہت سے بوڑھے غیربنگالیوں، عورتوں اور بچوں نے علاقے کی ایک مسجد میں پناہ لی۔ باغیوں کے پاس گولیوں کا ذخیرہ تھا۔ ہمارے پاس گولیاں ختم ہوگئیں تو اسلحہ کسی کام کا نہ رہا۔ پھر ایسٹ پاکستان رائفلز کے ۱۰۰ سے زائد منحرف سپاہی آئے اور اُنہوں نے ہمارا اسلحہ چھین لیا۔ باغیوں نے رانی پور پولیس اسٹیشن سے سارا اسلحہ لوٹ کر وہاں موجود تمام غیربنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ انہوں نے ہمیں یرغمال بنالیا۔ اگلے دن اُنہوں نے مسجد پر حملہ کرکے وہاں پناہ لینے والے تمام غیربنگالیوں کو شہید کردیا۔ جب پاکستانی فوج کے دستے پہنچے تو دیکھا کہ مسجد میں ۵۳ غیربنگالیوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ اِن بدنصیبوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ میں نے مسجد میں غیربنگالیوں کا قتلِ عام ریلوے اسٹیشن کے ایک اسٹور کی کھڑکی سے دیکھا تھا۔ شہر میں غیربنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ جب مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج نے قبضہ کرلیا تو میں نیپال بھاگ گیا۔ وہاں سے میں ستمبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان پہنچا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب باغیوں نے سنتاہار ریلوے کالونی کی مسجد میں غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا، اُن میں بہت سے بھارتی درانداز یعنی بنگالی ہندو بھی شامل تھے‘‘۔
⌂⌂⌂
Leave a Reply