جنرل یحییٰ خان سے مذاکرات کی ابتدا میں عوامی لیگ کی قیادت چاہتی تھی کہ ایک ایسے عبوری آئین پر اتفاق کرلیا جائے، جس کے تحت وفاق کے خاصے کمزور لنک سے دو خود مختار ریاستیں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان جڑی ہوں۔ یہ رابطہ اتنا کمزور ہونا چاہیے کہ شیخ مجیب الرحمن جب چاہیں، آزاد اور خود مختار بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کرسکیں۔ ۲۶ مارچ کی شب ڈیڑھ بجے ایک فوجی دستے نے شیخ مجیب الرحمن کو ڈھاکا میں دھان مندی کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔ رات بھر کنٹونمنٹ ایریا میں فوجی حراست میں رکھے جانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو اگلے ہی دن مغربی پاکستان بھیج دیا گیا جہاں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
ڈھاکا میں فوجی آپریشن اس قدر تیز اور کارگر تھا کہ ۲۶ مارچ کا سورج طلوع ہوتے ہی پورے شہر پر فوج کا کنٹرول تھا۔ ڈھاکا میں فوج کی موجودگی اس قدر مستحکم تھی کہ عوامی لیگ کسی بھی سطح پر من مانی کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ مشرقی پاکستان کے دیگر علاقوں میں البتہ فوج کی پوزیشن کمزور تھی کیونکہ نفری بھی زیادہ نہ تھی اور بعض علاقوں میں لاجسٹک سے متعلق مسائل بھی تھے۔ عوامی لیگ کے پونے دو لاکھ کارکن غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد قتل کر رہے تھے۔ ان کی املاک کو آگ لگائی جارہی تھی۔ اس خرابی کو روکنے میں فوج کو تین دن سے تین ہفتوں تک کا وقت لگا۔ ۲۵ اور ۲۶ مارچ کی درمیانی شب ڈھاکا کے نواح میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے سیکڑوں غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس امر کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ ڈھاکا میں بھارتی سفارتی مشن کے اندر عوامی لیگ کے کارکن ٹرانسمیٹر کے ذریعے بھارت کے اعلیٰ حکام سے رابطے میں تھے اور بالخصوص سرحدی پٹی میں سرگرمیوں کے حوالے سے ان سے ہدایت حاصل کر رہے تھے۔ ۲۶ مارچ کو ’’فری بنگال ریڈیو‘‘ کی نشریات شروع ہوئیں، جس کے ذریعے عوامی لیگ کے مشتعل کارکنوں کی غیر معمولی فتوحات کے دعوے کیے گئے۔ یہ ریڈیو بھارتی حکام کی ’’ذہنی اولاد‘‘ تھی اور یہ قائم بھی بھارتی سرزمین پر کیا گیا تھا۔ دوسری طرف آل انڈیا ریڈیو اور بھارتی اخبارات نے اپنا کام جاری رکھا۔ یہ لوگ جلتی پر تیل چھڑک رہے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو نے خاصے زہریلے انداز سے معاملات کو بیان کیا۔ بعض فرضی آئٹمز بھی پیش کیے گئے تاکہ جذبات مشتعل کیے جاسکیں۔ اِن میں جنرل ٹِکا خان کے قتل کی فرضی خبر بھی شامل تھی۔ پروپیگنڈے کے بھارتی ماہرین اور عوامی لیگ کے کارکنوں کا ایک گروپ کلکتہ میں بیٹھا منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
فوجی دستوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں سے جو رائفلیں چھینیں، وہ بھارت کے شہر ایشا پور کی آرڈننس فیکٹری میں تیار کی گئی تھیں اور ان کے لیے گولیاں بھارتی شہر کرکی میں واقع آرڈننس فیکٹری میں تیار کی گئی تھیں، جن پر اِن دونوں اداروں کے مارکس لگے ہوئے تھے۔ بھارتی قیادت نے مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری دنوں میں سرحدی علاقوں میں بارڈر سیکورٹی فورس کی آٹھ بٹالینز بنگلہ دیشی باغیوں کی مدد کے لیے میدان میں اتاریں۔ ڈھاکا کے علاقے نواب گنج میں فوج نے عوامی لیگ کے ایک لیڈر کا خط پکڑا، جس میں اس نے بھارتی حکام سے استدعا کی تھی کہ بڑے پیمانے پر اسلحے کی فراہمی کے لیے سرحد کے اُس پار ایک میٹنگ رکھی جائے۔
ڈھاکا کے نواح میں بہاریوں کی ایک کچی بستی کو آگ لگانے کے بعد عوامی لیگ کے کارکنوں نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ اس بستی کو فوج نے آگ لگائی ہے۔ جڑواں صنعتی شہر نارائن گنج میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے جن غیر بنگالیوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا، ان کی لاشیں بوڑھی گنگا میں بہائی گئیں یا پھر مکانات کو آگ لگاکر اُن میں پھینک دی گئیں۔
امریکی صحافی پیگی ڈرڈن ۳ مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی کوریج کے لیے ڈھاکا پہنچی تھی۔ اس نے شہر کے بنگالی علاقوں میں عوامی لیگ کی طرف سے پروپیگنڈے اور بنگالیوں کو بغاوت پر اُکسانے سے متعلق سرگرمیوں کی تفصیل اپنے اِس مضمون میں بیان کی ہے، جو ۲ مئی ۱۹۷۱ء کو ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا۔ وہ کہتی ہیں: ’’یکم مارچ کو صدر جنرل یحییٰ خان کی جانب سے قومی اسمبلی کے سیشن کے التوا کے اعلان کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بنگالی آبادی نے شدید احتجاج اور طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا۔ ان میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین، بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے۔ وہ جگہ جگہ مظاہرے کرتے اور نعرے لگاتے پھرے۔ انہوں نے ایک الگ ریاست کے لیے اپنے عزم کا بھی بلا جھجھک اظہار کیا۔ یہ سب کچھ کئی ہفتوں تک چلتا رہا۔ ڈھاکا میں پاکستان مخالف مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف شدید نعرے بازی کی جاتی رہی۔ شیخ مجیب الرحمن نے ۲ مارچ کو پورے صوبے میں پانچ روزہ ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس ہڑتال کے دوران تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں کام بند رہا۔ دکانیں بھی نہیں کھولی گئیں اور سائیکل تک نہیں چلائی جاسکی۔ ڈھاکا کی صورتِ حال بہت عجیب تھی۔ طوفان سے پہلے کا سنّاٹا شہر پر محیط تھا۔ چند ایک مظاہروں سے شور برپا ہوا اور کچھ ہلچل مچی، ورنہ مجموعی طور پر شہر اس قدر خاموش تھا کہ لوگوں کو انجانے خوف نے گھیر لیا۔ شہر بھر میں ٹریفک پر پابندی تھی، اس لیے میں اور میرے شوہر روزانہ دس سے بیس میل تک پیدل چلتے تھے اور اس دوران ہم خالی سڑکوں اور ویران بازاروں سے گزرتے تھے‘‘۔
’’ڈھاکا میں غیر بنگالیوں کے خلاف فضا اس قدر ناسازگار تھی کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو لوٹا اور قتل کیا ہی جانا تھا، کبھی کبھی یورپی باشندوں کے خلاف بھی نفرت اور اشتعال کی لہر سی اٹھتی تھی اور ان پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے ڈھاکا کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں انگریزی کے تمام سائن بورڈ توڑ ڈالے۔ ہوٹل کا انگریزی حروف میں فروزاں نام بھی توڑ دیا گیا۔ ایک دو مرتبہ لابی میں فائر بھی ہوا، جس سے لوگ سہم گئے۔ ہوٹل کے سوئس مینیجر نے سوئمنگ پول کے استعمال پر پابندی عائد کردی اور تمام مہمانوں سے کہا گیا کہ وہ کھانے کے سِوا اپنے کمروں سے باہر نہ آئیں۔ ہڑتال کے باعث عملہ بھی کم رہ گیا تھا اور ہوٹل میں کھانے کے تمام آرڈرز کی تکمیل نہیں ہوسکتی تھی‘‘۔
بنگالیوں میں غیر بنگالیوں کے خلاف اس قدر نفرت بھردی گئی تھی کہ مغربی ممالک سے آئے ہوئے صحافیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پیگی ڈرڈن اور ان کے شوہر ہی کو نہیں بلکہ اور بھی بہت سے مغربی صحافیوں کو بُری صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے پیگی ڈرڈن نے ۲ مئی ۱۹۷۱ء کو ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں لکھا: ’’ہڑتال کے پہلے دن ڈھاکا کی بیت المکرم مسجد کے نزدیک انتہائی مشتعل نوجوانوں کے ایک گروپ نے مجھے اور میرے شوہر کو لوہے کی سلاخوں سے مارنا شروع کیا۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ عوامی یوتھ کا ایک گشتی دستہ اس طرف آ نکلا جس نے شر پسندی پر تُلے ہوئے نوجوانوں کو مار بھگایا اور ہمیں عوامی لیگ کے ایک دفتر تک پہنچایا۔‘‘
’’نیو یارک ٹائمز‘‘ ہی کے میلکم براؤن نے مئی میں بنگلہ دیش کا سفر کیا اور انہوں نے ۶ مئی کو ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والے ڈسپیچ میں لکھا: ’’مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل ٹکا خان نے میڈیا کو بتایا کہ فوج نے ۲۵ مارچ کو جب پورے مشرقی پاکستان کا کنٹرول سنبھالنے کا آپریشن شروع کیا، تب ایک رات میں ۱۵۰؍ افراد کو قتل کردیا گیا۔ اس دوران ڈھاکا مجموعی طور پر پرسکون تھا۔ جنرل ٹکا خان کا کہنا تھا کہ فوج نے کسی بھی نوجوان یا گروپ کو نشانہ نہیں بنایا۔ جب فوج پر فائر کھولا گیا، تب اس نے کارروائی کی۔ ہم نے یونیورسٹی بند کردی تھی۔ جب وہ بند تھی تو کسی کے پاس اس کی حدود میں رہنے کا جواز نہ تھا۔ ہم نے اندر چھپے ہوئے لوگوں سے باہر نکلنے کو کہا تو انہوں نے فائر کھولا۔ جواب میں ہم (فوج) نے بھی کارروائی کی‘‘۔
’’رائٹرز‘‘ نیوز ایجنسی کے مارس کوئنٹنس نے مئی کے اوائل میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ ۶ مئی کے ڈسپیچ میں مارس کوئنٹنس نے لکھا: ’’مشرقی پاکستان کے ملٹری گورنر جنرل ٹکا خان نے میڈیا کو بتایا کہ پورے مشرقی پاکستان میں صورتِ حال قابو میں ہے۔ جنرل ٹکا خان نے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں قتلِ عام ہوا مگر یہ فوج نے نہیں کیا۔ فوج نے جب یہ دیکھا کہ قتلِ عام بڑھ گیا ہے تو اس نے ۲۵ مارچ کو کنٹونمنٹ سے باہر قدم رکھا۔ صرف ایک عمارت میں ۵۰۰؍ افراد کو دھکیل کر اسے آگ لگادی گئی۔ مشرقی پاکستان میں بہت کچھ ہوتا رہا مگر مغربی پاکستان کے لوگوں کو نہیں بتایا گیا تاکہ وہاں شدید ردعمل نہ ہو۔ جنرل ٹکا خان کا کہنا تھا کہ فوج نے فائرنگ میں کبھی پہل نہیں کی۔ جب کہیں سے فائر ہوا تو جواب میں فائرنگ کی گئی۔ ڈھاکا کی دو جامعات میں باغی نوجوانوں کو گھیرنے کے بعد باہر نکلنے کا موقع دیا گیا۔ یہ لوگ خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے۔ مگر انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے فوج پر فائرنگ کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈھاکا آپریشن ۲۶ مارچ کا سورج طلوع ہوتے ہی مکمل کرلیا گیا تھا‘‘۔
بیرونی میڈیا نے پاکستانی فوج پر ڈھاکا کے تعلیمی اداروں کی مکمل تباہی کا الزام عائد کیا تھا۔ مارس کوئنٹنس نے ڈھاکا یونیورسٹی کا دورہ کرکے صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد ۷ مئی کو اپنے ڈسپیچ میں لکھا: ’’جمعہ کو غیر ملکی صحافیوں کو ڈھاکا یونیورسٹی لے جایا گیا جہاں اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال میں باغی نوجوانوں اور فوج کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی تھی۔ میڈیا کو بتایا گیا کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں جن باغی نوجوانوں نے پناہ لے رکھی تھی، وہ خود کار ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ خانہ ساز بموں سے بھی مسلح تھے۔ انہوں نے فوج کے خلاف مزاحمت کی اور بلا جواز فائرنگ کرتے رہے۔ فوج نے انہیں باہر نکلنے پر مجبور کرنے کے لیے راکٹ داغ کر لابی میں ایک بڑا سوراخ بھی بنایا۔ میڈیا کے نمائندوں کو یونیورسٹی کا وہ حصہ بھی دکھایا گیا جہاں باغی نوجوان نشانہ بازی کی مشق کرتے اور حکومت سے ٹکرانے کی تربیت حاصل کیا کرتے تھے‘‘۔
پاکستانی فوج نے مغربی میڈیا کے نمائندوں کو اُن بھارتی فوجیوں سے بھی ملوایا جنہیں انہوں نے سرحد عبور کرکے ملک میں داخل ہونے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ ان فوجیوں سے ضبط کیے جانے والے ہتھیار بھی میڈیا کے نمائندوں کو دکھائے گئے۔ ’’رائٹرز‘‘ کے مارس کوئنٹنس نے اس حوالے سے ۷ مئی کے ڈسپیچ میں لکھا: ’’بھارت کے جن فوجیوں کو گرفتار کیا گیا تھا، انہوں نے مترجم کی مدد سے بتایا کہ انہوں نے رات کے وقت خار دار باڑ ہٹاکر سرحد عبور کی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کے دوسرے بہت سے ساتھی پہلے ہی سرحد عبور کرچکے ہیں‘‘۔
’’ڈھاکا میں آرمی ہیڈ کوارٹر نے مغربی میڈیا کے نمائندوں کے سامنے وہ اسلحہ پیش کیا، جو بھارتی ساخت کا تھا۔ ان میں رائفلیں، مارٹر گولے اور دستی بم شامل تھے۔ ان تمام اشیا پر بھارت میں بنائے جانے والے ثبوت کی مارکنگ موجود تھی‘‘۔
لندن کے اخبار ڈیلی ’’ٹیلی گراف‘‘ نے ۷؍ اپریل ۱۹۷۱ء کی اشاعت میں اپنے نمائندے کا بھیجا ہوا مراسلہ شامل کیا، جس میں ڈھاکا کے علاقہ ڈنڈی میں واقع فیکٹری کے ایک ملازم کا آنکھوں دیکھا حال بھی شامل تھا: ’’۲۶ مارچ کو جنرل یحییٰ خان کے نشری خطاب کے بعد بڑی تعداد میں غنڈوں نے فیکٹری کا رخ کیا۔ انہوں نے پہلے تو فیکٹری اور اس کے دفتر کا سامان لوٹا اور پھر لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ میرے چار ڈائریکٹرز کے گھر گئے۔ یہ تمام افراد مغربی پاکستان کے تھے۔ انہیں ان کے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ جلادیا گیا۔ مارے جانے والوں کی مجموعی تعداد ۳۰ تھی۔ جس کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی، اسے بھی بے دردی سے قتل کردیا گیا‘‘۔
۲ مئی ۱۹۷۱ء کو لندن کے ’’دی سنڈے ٹائمز‘‘ نے لکھا: ’’مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے متعلق معلومات جمع کرنے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ فوج میں بڑے پیمانے پر بغاوت ہوئی اور پورے مشرقی پاکستان میں ہزاروں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ دو بڑے شہروں سے اب تک بیس ہزار لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک ہوسکتی ہے‘‘۔
’’۸۰ سے زائد عینی شاہدین کے انٹرویوز سے معلوم ہوا ہے کہ بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور آتشزنی کے بعد قتل کا بازار گرم ہوا۔ مردوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بے حرمتی، چھاتیاں کاٹ ڈالنے اور پھر قتل کرنے کے بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ بہت سے بدنصیبوں کی آنکھیں نکال دی گئیں۔ غیر بنگالیوں پر شدید مظالم ڈھائے گئے بالخصوص سول سروس اور فوج سے تعلق رکھنے والے پنجابیوں کو خاص طور پر سفاکی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
ڈھاکا کی لال مٹیا کالونی کے بلاک بی میں کوارٹر نمبر ۴۹ میں مقیم ۲۳ سالہ محمد حنیف نے بتایا کہ اس نے ڈھاکا یونیورسٹی کے جگن ناتھ ہال میں جنونی طلبہ کے ہاتھوں ایک غیر بنگالی کا سر قلم ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس بدنصیب کو اس لیے موت کے گھاٹ اتارا گیا کہ اس کے رشتہ دار تاوان کی رقم (تین ہزار روپے) ادا کرنے سے قاصر رہے تھے۔ محمد حنیف ڈھاکا کی ٹائگر وائر کمپنی کا ملازم تھا۔ اس نے کراچی منتقلی کے بعد بتایا: ’’۲۴ مارچ کی دو پہر میں نے ایک رکشہ والے سے ٹوٹی پھوٹی بنگالی میں کہا کہ وہ مجھے لال مٹیا لے چلے۔ رکشہ والا جان گیا تھا کہ میں غیر بنگالی تھا۔ اس نے اچانک رکشہ کا رخ موڑا اور میرے چیخنے چلانے کے باوجود مجھے جگن ناتھ ہال کے کمپاؤنڈ میں پہنچادیا۔ وہاں چھ سات مشتعل طلبہ نے مجھے گھیر لیا۔ یہ لوگ مجھے ایک کمرے میں لے گئے جہاں تلاشی لی۔ انہوں نے مجھ سے گھڑی اور ڈیڑھ سو روپے چھین لیے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے رشتہ داروں کو خط لکھوں کہ مجھے چھڑانے کے لیے تین ہزار روپے دیں۔ میں نے کہا کہ سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔ انہوں نے رسی سے میرے ہاتھ باندھے اور مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے جہاں کئی غیر بنگالی بندھے پڑے تھے۔ جس لڑکے نے مجھ سے خط لکھنے کے لیے کہا تھا، وہ کمرے کے ایک کونے میں گیا جہاں ایک غیر بنگالی بندھا پڑا تھا۔ اس نے اپنے ’شکار‘ سے بنگالی میں کہا کہ تاوان کے لیے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہے اور اب تک رشتہ داروں نے رقم کا انتظام نہیں کیا۔ پھر اس نے کہا کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہاتھ پیر بندھا ہوا شخص بہت چلایا اور گڑگڑاکر رحم کی بھیک مانگی مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ چھ غنڈوں نے اسے پکڑا اور ایک نے چاقو سے اس کی گردن اڑادی‘‘۔
’’میں نے جو منظر دیکھا تھا، اس نے میرے ہوش و حواس چھین لیے تھے۔ میں نے ان غنڈوں سے کہا کہ میں تاوان کی رقم کے لیے اپنے اہل خانہ کو خط لکھ دوں گا۔ انہوں نے میرے بھائی کے نام خط لکھوایا۔ میں نے لکھا کہ تین ہزار روپے کا بندوبست کرو تاکہ میری جاں بخشی ہو۔ ۲۵ مارچ کی صبح لکھے جانے والے خط میں تاوان کی ادائیگی کے لیے صرف ایک دن کی مہلت دی گئی تھی۔ ۲۶ مارچ کی صبح تک رقم کا بندوبست نہ ہوتا تو میری گردن بھی اڑا دی جاتی۔ یہ میری اور دوسرے بہت سے محبوس افراد کی خوش نصیبی تھی کہ فوج نے ۲۵ مارچ کی رات آپریشن کیا۔ جگن ناتھ ہال میں عوامی لیگ کے غنڈوں اور فوج کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ہم سب کو فوج نے بحفاظت نکال لیا‘‘۔
ستمبر ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا سے کراچی پہنچنے پر باچا خان نے بتایا: ’’میں دس پٹھانوں کے گروپ میں زندہ بچ جانے والا واحد پٹھان ہوں۔ ڈھاکا کے علاقے موہاکھلی میں واقع ڈیلٹا کنسٹرکشن کمپنی میں ہم گارڈز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں نے دیگر تمام گارڈز کو قتل کر ڈالا۔ میں نے رات کی تاریکی میں ایک درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ مارچ شروع ہوتے ہی عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں اور بالخصوص مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا تھا۔ صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے ہم سب چوکنّے تھے۔ رات کو چند شر پسندوں نے مل کر ہمارے کوارٹرز پر حملہ کردیا۔ تین پٹھان گارڈز کو انہوں نے ایک ہی ہَلّے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ باقی چھ گارڈز اور میں نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس تین بندوقیں تھیں۔ کچھ دیر تک ہم لڑتے رہے مگر ان کے پاس اسلحہ بھی زیادہ تھا اور تعداد میں بھی وہ ہم سے زیادہ تھے۔ بالآخر ہم کمزور پڑنے لگے۔ میں نے رات کی تاریکی سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کوارٹر سے کچھ دور ایک درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ میں نے صبح کو جب جاکر دیکھا تو تمام گارڈز مرے پڑے تھے۔ ان کا اسلحہ شر پسند لے گئے تھے‘‘۔
ڈھاکا کی بنگال ربر انڈسٹریز کے ملازم ۳۶ سالہ چاند میاں نے بتایا کہ شر پسندوں نے اُس کی جھونپٹری کو آگ لگائی اور اُس کے نو سالہ بیٹے کو قتل کردیا۔ چاند میاں ایئر پورٹ کے نزدیک تیج گاؤں کے علاقے کی بستی نکھل پاڑا میں رہتا تھا۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی پہنچنے پر چاند میاں نے عینی شاہد کی حیثیت سے بتایا: ’’میں جس علاقے میں رہتا تھا، وہ فیکٹری سے بہت نزدیک تھا۔ میں نے کچھ رقم بچاکر ایک پلاٹ خریدا تھا۔ پکا مکان بنانے کی سکت مجھ میں نہیں تھی، اس لیے میں نے جھونپڑی ڈال لی تھی تاکہ کسی نہ کسی طور گزر بسر کرلوں۔ ہم میاں بیوی نو سالہ بیٹے کے ساتھ رہتے تھے۔ پڑوس میں سب بنگالی تھے جن سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی سے ماحول میں خاصا تناؤ تھا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ غیر بنگالیوں کے خلاف تشدد کی لہر چلنے والی ہے‘‘۔
’’۱۷ مارچ کو چند غنڈوں نے ہمارے علاقے میں غیر بنگالیوں کو قتل کرنا اور ان کے مکانات کو آگ لگانا شروع کردیا۔ انہوں نے میری جھونپڑی بھی جلادی اور میرے نو سالہ بیٹے کو مار ڈالا۔ میرے بیٹے نے کم عمری کے باوجود مزاحمت کی کوشش کی۔ میں جب فیکٹری سے واپس آیا تو دیکھا کہ جہاں میری جھونپڑی تھی، وہاں اب راکھ کا ڈھیر پڑا ہے۔ میری بیوی بیٹے کی لاش پر گریہ کناں تھی‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply