چالیس سالہ عائشہ بیگم کو تین بچوں کے ساتھ دسمبر ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا سے پاکستان بھیجا گیا۔ وہ بتاتی ہیں: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا مگر فوج کے گشتی یونٹ کو دیکھتے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ہم ۹ ماہ تک میر پور میں اپنے مکان میں سکون سے آباد رہے۔ میرے شوہر عبدالباری بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی کے چند ورکر اور مقامی غنڈوں نے مل کر ہمارے گھر کو لوٹ لیا۔ میرے شوہر گھر پر نہیں تھے۔ غنڈوں نے مجھے حکم دیا کہ بچوں کو لے کر فوراً گھر سے نکل جاؤں اور ریڈ کراس کے کیمپ کا رخ کروں۔ اسی اثناء میں میرے شوہر آگئے۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے انہیں پکڑ لیا اور سینے میں گولی مار دی۔ میں یہ منظر دیکھ کر سکتے میں رہ گئی، ذہن ماؤف ہوکر رہ گیا۔ مکتی باہنی کے ایک ورکر نے مجھے تھپڑ مار کر کہا کہ بچوں کو لے کر فوراً چلی جاؤ۔ میں نے ان سے التجا کی کہ میرے شوہر کی تدفین میں میری مدد کرو۔ ان میں سے چند ایک راضی ہوئے، پھر انہوں نے گھر کے قریب ہی ایک کھلی جگہ پر گڑھا کھودا اور یوں میرے شوہر کی تدفین ہوئی۔ میں بچوں کو لے کر ریڈ کراس کیمپ چلی گئی جہاں ہم دو سال رہے‘‘۔
۳۰ سالہ نجم النساء نے اپنے تین یتیم بچوں کے ساتھ محمد پور کے ریڈ کراس کیمپ میں دو سال گزارے۔ انہیں جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل کیا گیا۔ نجم النساء نے بتایا: ’’میرے شوہر مشرقی پاکستان حکومت کے ملازم تھے۔ ہم نے میر پور میں ایک مکان خریدا تھا اور اس میں آباد تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں ہمارے مکان کو چند غنڈوں نے لوٹ لیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے میرے شوہر کو ان کے دفتر میں گھس کر قتل کردیا۔ ۱۸ دسمبر کو مکتی باہنی کے ورکر ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور بتایا کہ میرے شوہر کو قتل کیا جاچکا ہے۔ مگر انہوں نے میرے شوہر کی لاش کا کچھ پتا نہ بتایا۔ انہوں نے اسٹین گنیں اٹھا رکھی تھیں۔ میرے سر پر ایک اسٹین گن کی نالی رکھ کر انہوں نے حکم دیا کہ فوری طور پر گھر چھوڑ دو کیونکہ بھارت سے واپس آنے والے بنگالی اب ان مکانوں میں رہیں گے‘‘۔
’’میں بیوہ ہوچکی تھی اور میرے تینوں بچے اب یتیم تھے۔ پہلے تو مکتی باہنی کے غنڈوں نے مجھ سے کہا کہ ریڈ کراس کے کیمپ میں جاؤ مگر پھر ان کا ارادہ بدل گیا اور وہ مجھے ایک بڑی عمارت میں لے گئے۔ وہاں بہت سے غیر بنگالیوں کو رکھا گیا تھا۔ مرد قتل کیے جاچکے تھے۔ یہ جگہ کسی جہنم سے کم نہ تھی۔ ریڈ کراس کے کارکنوں نے ہمیں دیکھ لیا اور وہ ہمیں کیمپ میں لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں قتل کرنے کی تیاری کی جاچکی تھی۔ ذرا سی تاخیر ہو جاتی تو ہم سب قتل کر دیے جاتے‘‘۔
بہت سے عینی شاہدین نے بتایا کہ ڈھاکا سے کچھ فاصلے پر مختلف مقامات پر مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ٹارچر سیل قائم کرکے غیر بنگالیوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا۔ کیرانی گنج، جوئدیپ پور، مداری پور، منشی گنج، روپ گنج، پوبیل، تنگی باڑی، چاند پور، متلب بازار، حاجی گنج اور بیدیا بازار میں غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھائی گئی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے اور چوتھے ہفتے میں جب مکتی باہنی کے غنڈوں نے انسانیت سوز مظالم ڈھانے کی ابتدا کی تب بہت سے غیر بنگالی خاندان چھوٹے علاقوں سے نکل کر ڈھاکا میں جمع ہونے لگے اور انہوں نے اکثریتی علاقوں کی شکل میں رہنا شروع کیا۔ ہزاروں غیر بنگالیوں کے مکانات کا پورا سامان لوٹ لیا گیا۔ غیر بنگالی تاجروں کی زندگی بھر کی کمائی بھی لوٹ لی گئی۔ اس دوران چند ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ڈھاکا سے ۲۲ میل دور جوئدیپ پور میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو ریلوے ٹریک اور شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کردیں تاکہ فوج کی نقل و حرکت روکی جاسکے۔ فوج کو جوابی کارروائی کرنی پڑی۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں مکتی باہنی کے مسلح غنڈوں نے کیرانی گنج اور منشی گنج میں بہت سے غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی۔ انہوں نے چند غیر بنگالیوں کو قتل بھی کردیا۔ مارچ کے آخری ہفتے میں چاندپور میں بھی غیر بنگالیوں کے خلاف تشدد کی لہر اٹھی تاہم ہلاکتوں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ بیدیا بازار میں ایک درجن سے زائد غیر بنگالی خاندانوں کو ختم کرکے ان کی املاک لوٹ لی گئیں۔ غنڈوں نے چند تاجروں کو تاوان کی غرض سے یرغمال بنالیا۔ پوبیل اور تنگی باڑی میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے درجنوں خوش حال غیر بنگالیوں کو لوٹ کر قتل کردیا۔ بہاریوں کی دکانوں پر حملہ کرکے انہیں لوٹ لینا ان دنوں محبوب ترین مشغلہ تھا۔ ان علاقوں سے نوجوان غیر بنگالی لڑکیوں کے اغوا کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ عوامی لیگ کے غنڈے اور ان کے ساتھی محبوس غیر بنگالی لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے پھینک دیا کرتے تھے۔ بھارتی سرحد سے متصل کئی علاقوں میں عوامی لیگ کے غنڈے غیر بنگالیوں کو پکڑ کر ساتھ لے گئے اور ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔
نارائن گنج میں دہشت کا راج
نارائن گنج میں پاکستان فیبرک کمپنی کی فیکٹری میں اوورسیئر کے طور پر کام کرنے والے ۳۸ سالہ اصغر علی خان نے بتایا: ’’غنڈوں کے گروہ نے حکم دیا تھا کہ ہماری فیکٹری میں تمام غیر بنگالیوں کو قتل کردیا جائے‘‘۔
نارائج گنج ڈھاکا سے متصل صنعتی علاقہ تھا۔ اصغر علی خان نے مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران نارائن گنج میں غیر بنگالیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کے بارے میں بتایا: ’’نارائن گنج میں غیر بنگالی زیادہ تعداد میں آباد نہ تھے۔ اس علاقے میں کام کرنے والے بیشتر غیر بنگالی دن بھر فیکٹری میں کام کرنے کے بعد شام کو ڈھاکا سے جڑے ہوئے علاقوں میں واپس چلے جاتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے بنگالیوں کو غیر بنگالیوں کے خلاف اکسانا شروع کردیا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات پر نشان بھی لگادیے۔ یہ گویا ان مکانات کو لوٹنے کی تیاری تھی۔ ۲۱ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے فیکٹری اور اس سے متصل کوارٹروں پر حملہ کردیا۔ ان کوارٹروں میں غیر بنگالی ورکر اور ان کے اہل خانہ رہا کرتے تھے۔ فیکٹری کو انہوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا مگر غیر بنگالی مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کو بے دردی سے قتل کردیا‘‘۔
’’میں اپنے کوارٹر میں تنہا رہتا تھا۔ جب میں نے عوامی لیگ کے غنڈوں کو دیکھا تو اپنے ایک انتہائی عزیز بنگالی دوست کے گھر میں داخل ہوا۔ اس نے مجھے چھپالیا، یوں میری جان بچ گئی۔ ۲۶ مارچ کی دوپہر کو فوج فیکٹری پہنچی اور وہاں مارے جانے والے ۱۶۰ غیر بنگالیوں کی تدفین کا اہتمام کیا‘‘۔
اصغر علی خان نے بتایا کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے جنہیں شہید کیا تھا، ان کی ایک ایک چیز لوٹ لی۔ حملہ آور اس قدر سفاک تھے کہ انہوں نے غیر بنگالیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ بے روزگار بنگالیوں کو روزگار اسی وقت مل سکتا ہے، جب غیر بنگالیوں کو ختم کردیا جائے! تمام غیر بنگالیوں کو بہاری کہا جاتا تھا۔
۳۸ سالہ گلزار حسین نے بتایا کہ مکتی باہنی کے غنڈوں نے بندوق کی نوک پر غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کیا اور انہیں ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے پھینک دیا۔ گلزار حسین نے ۲۱ مارچ ۱۹۷۱ء کو ۲۲ غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل ہوتے دیکھا تھا۔ نومبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان واپسی پر گلزار حسین نے بتایا: ’’میں نارائن گنج میں جوٹ کا کاروبار کرتا تھا اور کرائے کے ایک مکان میں رہتا تھا، جو مرکزی کاروباری علاقے سے زیادہ دور نہ تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے سے عوامی لیگ کے غنڈے نارائن گنج میں حالات خراب کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ اس کوشش کا بنیادی مقصد پوری غیر بنگالی آبادی کو ختم کرنا تھا‘‘۔
’’۲۱ مارچ کو میں ڈھاکا جانے والی بس میں سوار تھا اور سامنے کے حصے میں بیٹھا تھا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے بس کو روک لیا اور تمام مسافروں کو مخاطب کرکے کہا کہ بنگالی اور غیر بنگالی الگ الگ قطار بنائیں۔ میں بنگالی اچھی طرح بول لیتا تھا اور لہجہ بھی بنگالیوں والا تھا، اس لیے میں بس سے اترتے وقت بنگالیوں کی قطار میں داخل ہوگیا۔ جو لوگ بنگالیوں کی قطار میں تھے، ان سے بنگالی میں چند جملے ادا کرنے کو کہا گیا۔ میں اس آزمائش میں پورا اترا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے بنگالیوں کی قطار میں کھڑے ہونے والوں سے کہا کہ منتشر ہوجائیں۔ اس کے بعد ان غنڈوں نے تمام غیر بنگالی مردوں کو مار ڈالا۔ دو جوان غیر بنگالی لڑکیوں کو وہ خالی بس کے اندر لے گئے اور ان کی بے حرمتی کی۔ ان کی عزت سے کھیلنے کے بعد انہوں نے ان دونوں لڑکیوں، چند دوسری غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو گولی مار دی۔ اُسی دن نارائن گنج کے ایک کاروباری علاقے میں غیر بنگالیوں کی دکانیں لوٹ لی گئیں‘‘۔
۲۵ سالہ نسیمہ خاتون نارائن گنج کے علاقے پانچ بوٹی میں اپنے شوہر قمرالحسن کے ساتھ رہتی تھی، جو خوردنی تیل تیار کرنے کے کارخانے میں ملازم تھا۔ اپنی چار سالہ یتیم بچی کے ساتھ جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر اُس نے اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت کی کہانی یوں سُنائی: ’’نارائن گنج میں ۳مارچ ہی سے شدید کشیدگی تھی۔ عوامی لیگ کے غنڈے بنگالی مزدوروں کو غیر بنگالیوں کے قتل پر اُکسا رہے تھے۔ ۲۵ مارچ کی شب باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے میں غیر بنگالیوں کے مکانات لوٹنے کی کوشش کی مگر جب اُنہوں نے فوجی ایکشن کا سُنا تو نو دو گیارہ ہوگئے‘‘۔
’’۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبر جیسے ہی عام ہوئی، عوامی لیگ کے غنڈوں نے لوٹ مار اور قتلِ عام شروع کردیا۔ ہمارے علاقے میں بھی غیر بنگالیوں کے گھروں پر عوامی لیگ کے غنڈے ٹوٹ پڑے اور گھروں سے زیورات، نقدی، کپڑے، فرنیچر اور حد یہ ہے کہ باورچی خانے کا سامان تک لوٹ لیا۔ جس وقت ہمارے گھر کو لوٹا گیا، میرے شوہر گھر پر نہیں تھے‘‘۔
’’گن پوائنٹ پر ۵۰۰ سے زائد بوڑھے غیر بنگالی مردوں، عورتوں، لڑکیوں اور بچوں کو ریوڑ کی طرح ہانکتے ہوئے باغی ایک ویران پڑے ہوئے اسکول میں لے گئے۔ اس دوران ایک تین سالہ بچے نے ماں کی گود ہی میں دم توڑ دیا۔ اس بے چاری نے گڑگڑاکر فریاد کی کہ چھوٹا سا گڑھا کھود کر بچے کو دفنانے کی اجازت دی جائے۔ باغیوں کے درندہ صفت سرغنہ نے بچے کی لاش عورت سے چھین کر دریا میں پھینک دی۔ یہ وہی دریا تھا جس کے کنارے بیٹھ کر ہم اپنی تکان اتارا کرتے تھے۔ میرا گلا خشک ہو رہا تھا۔ جب میں نے تھوڑا سا پانی مانگا تو عوامی لیگ کے غنڈوں کے سرغنہ نے مجھے تھپڑ مارا اور بندوق کی نوک میرے بازو میں چبھوتے ہوئے مجھے اسکول کے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہال میں دھکیل دیا‘‘۔
’’ہم ایک ہفتے تک اِس ہال میں رہے جو کسی جہنم سے کم نہ تھا۔ ہمیں یرغمال بنانے والے دن رات گالیاں اور دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ ایک معمر خاتون کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ انہوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں سے التجا کی کہ اُنہیں علاج کے لیے ڈھاکا جانے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ معمر خاتون نے ذہانت کا مظاہرہ کیا اور محمد پور میں ریڈ کراس کے کیمپ پہنچ کر افسران کو ہم سب کے بارے میں بتایا۔ انٹر نیشنل ریڈ کراس کی ایک ٹیم ہماری مدد کو پہنچی اور ہمیں نکال کر کیمپ میں پہنچایا۔ کیمپ میں ہم پر مکتی باہنی کے غنڈوں نے دو بارہ حملہ کیا۔ ان کی فائرنگ سے دو بیمار خواتین سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔ اپریل ۱۹۷۲ء تک حالات کچھ بہتر ہوگئے اور عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کے اغوا کی وارداتیں گھٹ گئیں۔ ریڈ کراس کیمپ کے حکام نے میرے شوہر کا سُراغ لگانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ۱۶ دسمبر کے بعد جو کچھ ہوا وہ ذہن میں رکھتے ہوئے یہی سمجھ لیا گیا کہ میرے شوہر بھی دوسرے ہزاروں غیر بنگالیوں کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے‘‘۔
نارائج گنج میں پٹ سن کے کاروبار سے منسلک ۵۲ سالہ اللہ رکھا نے بتایا کہ مکتی باہنی کے غنڈوں نے پٹ سن کے گوداموں کو آگ لگائی اور جاں بحق ہونے والے غیر بنگالیوں کی لاشیں اُن میں جھونک دیں۔ اللہ رکھا نارائن گنج کے علاقے پٹوا ٹولی میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ مارچ ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر اللہ رکھا نے بتایا: ’’۱۹۶۰ء کے عشرے کے وسط ہی سے ڈھاکا اور نارائن گنج کے غیر بنگالیوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ایک دن ان کے لیے مشرقی پاکستان میں معاشی سرگرمیاں جاری رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ عوامی لیگ کے رہنما مشرقی پاکستان کے سیدھے اور سادہ بنگالیوں کے ذہنوں میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف زہر انڈیل رہے تھے‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء میں مجھے محسوس ہوا کہ عوامی لیگ کا پروپیگنڈا رنگ لاچکا ہے کیونکہ پٹ سن کے جس کارخانے سے میرا تعلق تھا، اس کے بیشتر بنگالی مزدوروں کے ذہنوں میں غیر بنگالیوں کے خلاف زہر بھرچکا تھا اور وہ کھل کر اُن پر تنقید کرنے لگے تھے۔ ۱۷ مارچ کو لاوا پھٹ پڑا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں کی سربراہی میں شر پسند بنگالیوں کے ایک بڑے جتھے نے اصفہانی جیوٹ فیکٹری پر حملہ کیا۔ انہوں نے جیوٹ مل میں کام کرنے والے اور فیکٹری سے ملحق کالونی میں رہائش پذیر سیکڑوں بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کرکے دریائے سیتا لکھیہ میں پھینک دیا۔ میں اپنے ایک بنگالی دوست کے گھر میں چھپ گیا، اس لیے بچ گیا‘‘۔
چاٹگام میں حیوانیت کا برہنہ رقص
مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ نے جو بغاوت کی اُس کے نتیجے میں غیر بنگالیوں کو سب سے زیادہ جانی نقصان ساحلی چاٹگام میں اٹھانا پڑا۔ اگست ۱۹۷۱ء میں حکومت پاکستان کے تحت شائع ہونے والے وائٹ پیپر میں بتایا گیا تھا کہ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران عوامی لیگ کے غنڈوں نے جو بغاوت برپا کی، اس میں کم و بیش پندرہ ہزار غیر بنگالی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، مگر عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں غیر بنگالیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ ہزاروں لاشیں دریائے کرنافلی اور خلیج بنگال میں پھینک دی گئیں۔ بنگالی باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے لیے ۱۷؍ مقتل تیار کیے تھے۔ ان تمام عمارتوں کو لاشوں سمیت جلاکر خاک کردیا گیا۔ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ بنگالی باغیوں کا بنیادی مقصد ۱۲ سال سے زائد عمر کے ہر غیر بنگالی کو مشرقی پاکستان کی سرزمین سے ختم کردینا تھا۔ چاٹگام میں غیر بنگالیوں پر جو قیامت ڈھائی گئی اس کی مثال کھلنا، جیسور، دیناج پور اور میمن سنگھ کے سِوا کہیں نہیں ملتی۔
چاٹگام جیسے سرسبز اور انتہائی خوبصورت نظاروں سے مزین شہر میں قتل و غارت کا سلسلہ ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کی جانب سے بغاوت کے باضابطہ اعلان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا۔ اُس رات ہزاروں باغی مسلح ہوکر گھروں سے نکل آئے اور غیر بنگالیوں کے ہزاروں مکانات، جھونپڑیوں اور دکانوں کو لوٹ کر آگ لگانا شروع کردی۔ وائر لیس کالونی اور فیروز شاہ کالونی جیسے گنجان آباد علاقوں کے مکینوں پر باغیوں کے ہاتھوں زیادہ تباہی آئی۔ فیروز شاہ کالونی میں ۷۰۰ مکانات کو آگ لگائی گئی اور ان میں موجود مرد، خواتین اور بچے راکھ کا ڈھیر ہوگئے۔ جلتے ہوئے مکانات سے جو لوگ کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اُنہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
چاٹگام میں غیر بنگالیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت سے کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہونے والوں نے بعد میں قتل و غارت کی جو تفصیل بیان کی، اُسے سُن اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس تفصیل کو سُن کر ایسا لگتا ہے جیسے زمین پر جہنم قائم کر دی گئی تھی۔ مالدار غیر بنگالیوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کیا گیا اور اِس پر بھی اُنہیں چھوڑا نہیں گیا بلکہ اذیت خانوں میں قتل کردیا گیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ چاٹگام میں انسانیت سوز مظالم اور قتل و غارت کی ساری منصوبہ بندی عوامی لیگ کی ہائی کمان سے تعلق رکھنے والے ایم آر صدیقی نے کی تھی۔ چاٹگام میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی نگرانی بھی اُسی نے کی۔ چاٹگام کے چند علاقوں میں ۳ مارچ کی شب جو قیامت ڈھائی گئی اس کے بعد باغیوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے شہر کے دیگر علاقوں میں بھی غیر بنگالیوں کو خاصی آزادی اور بے باکی سے نشانہ بنانا شروع کردیا۔ رؤف آباد، حالی شہر، دوتالا، کالر گھاٹ، حمزہ آباد اور پہاڑ تلی کے علاقوں میں غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ساتھ ہی باغیوں نے غیر بنگالی مردوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرکے قتل کرنا بھی جاری رکھا۔
مارچ کے پہلے دو ہفتوں میں چاٹگام کے مختلف علاقوں سے غیر بنگالی مردوں کو اغوا کرکے موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ مرحلہ وار جاری رہا۔ عوامی لیگ نے اپنے کارکنوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی خاص تربیت دی۔ یہ اسلحہ دکانوں اور پولیس اسٹیشنوں سے لوٹا گیا تھا۔ بھارت نے بھی عوامی لیگ کے کارکنوں کے لیے اسلحہ فراہم کیا۔ آرمی اور نیوی کے اہلکاروں کو حکم دیا گیا کہ جب تک حملہ نہ ہو، وہ فائر نہ کھولیں۔ ایسے ہی احکام کے تحت پولیس بھی غیر موثر ہوکر رہ گئی تھی۔ چاٹگام اور اس سے ملحق علاقوں میں قانون نافذ کرنے والی مشینری مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ سول فائر فائٹنگ یونٹ، جس کے بیشتر اہلکار بنگالی تھے، کوما میں چلا گیا تھا۔ فائر بریگیڈ کی جو گاڑیاں جلتے ہوئے مکانات تک پہنچنے کی کوشش کرتی تھیں، اُنہیں باغی تباہ کردیتے تھے۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں چاٹگام میں باغی اس حد تک مضبوط ہوگئے کہ اُنہوں نے شہر میں تعینات فوجیوں کو بھی للکارنا شروع کردیا۔ ۱۸ مارچ کی شب باغیوں نے ہر اُس علاقے میں تباہی پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا جس میں غیر بنگالی رہتے تھے۔ بیشتر غیر بنگالیوں کے لیے یہ رات قیامت سے کم نہ تھی۔ قاتل گروہ گھروں میں گھستے اور اندھا دھند فائرنگ کرکے وہاں موجود تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارتے تھے۔ باغیوں اور شر پسندوں کو حکم دیا گیا تھا کہ غیر بنگالیوں کے گھروں میں جو چیز بھی حرکت کرتی دکھائی دے اُسے ختم کردو۔
۲۳ مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر عوامی لیگ نے یومِ مزاحمت منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ اُس رات ایک بار پھر غیر بنگالیوں کی بستیوں پر دھاوا بولا گیا۔ کئی مقامات پر پاکستان کا پرچم جلایا گیا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز، نیم فوجی یونٹ انصارز اور پولیس کے منحرفین کی مدد سے عوامی لیگ کے باغیوں کی بڑی تعداد مسلح ہوچکی تھی۔ ۲۵ مارچ کو باغیوں نے ساحلی علاقے میں آرمی اور نیوی کے اہلکاروں پر بھی حملہ کردیا اور شہر کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردیے۔ نواحی علاقے آگرآباد سے بندر گاہ تک جانے والی شاہراہ بند کردی گئی تاکہ فوج کو کسی بھی نوعیت کی کمک آسانی سے نہ مل سکے۔
بہت سی گاڑیاں کھڑی کرکے راستے مکمل طور پر بند کردیے گئے تاکہ ٹریفک ممکن ہی نہ رہے۔ ساحلی علاقے میں تمام اسلحہ ڈپو باغیوں نے لوٹ لیے تھے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز سے تعلق رکھنے والے بنگالی فوجی بھی باغیوں سے جاملے تھے، جس کے نتیجے میں ان کا چاٹگام اور ڈھاکا پر قبضہ کرنے کا منصوبہ کامیابی کی طرف رواں تھا۔
۲۵ مارچ کو رات گئے وفاقی فوجی دستوں نے ڈھاکا، چاٹگام اور دیگر علاقوں میں باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کا بنیادی مقصد قتل و غارت کی روک تھام کے ساتھ ساتھ باغیوں کو پیش قدمی سے روکنا تھا تاکہ ریاست کی رٹ برقرار رکھی جاسکے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں تقریباً پونے دو لاکھ مسلح باغی متحرک تھے اور ان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی سرکوبی کرنے کے لیے فوجی خاصی نامناسب تعداد میں تھے۔ کئی مقامات پر فوج کو باغیوں کا کنٹرول ختم کرانے میں ایک ہفتے سے ایک ماہ تک کا وقت لگا۔ فوج نے ساحلی شہر چاٹگام میں ایئر پورٹ اور بندر گاہ کو تو خاصی تیزی سے اپنے کنٹرول میں کرلیا مگر شہر کے رہائشی علاقوں میں باغیوں کی دہشت ۹؍اپریل ۱۹۷۱ء تک برقرار رہی۔ اس دوران باغیوں نے مزید کئی ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ باغیوں کا آپریشنل ہیڈ کوارٹر چاٹگام میں ایسٹ بنگال رجمنٹل سینٹر میں قائم تھا اور عوامی لیگ کے مرکزی دفتر میں انہوں نے اذیت خانہ قائم کر رکھا تھا، جس میں غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ غیر بنگالیوں کو قتل کرنے سے پہلے سرنج کے ذریعے ان کے جسم سے خون نکال لیا جاتا تھا۔
عثمانیہ گلاس ورکس، حافظ جیوٹ ملز، اصفہانی جیوٹ ملز، چاٹگام کی دیگر فیکٹریاں، ببیر ہٹ کی امین جیوٹ ملز، چندرا گھونا کی کرنافلی پیپر اینڈ ریان ملز اور دیگر کارخانوں اور آبادیوں میں غیر بنگالیوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کی تفصیل سُنے تو وسطِ ایشیا کے ہُن بھی شرما جائیں۔ ان میں سے بیشتر علاقوں میں باغیوں نے مارچ کے اواخر اور اپریل ۱۹۷۱ء کے اوائل میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ کئی آبادیوں میں ایک بھی غیر بنگالی کو زندہ نہیں چھوڑا گیا۔
چاٹگام کے گورنمنٹ ریسٹ ہاؤس میں کم و بیش چار ہزار غیر بنگالیوں کو قتل کیا گیا۔ باغیوں کے آلۂ کار بن جانے والے بنگالی ڈاکٹروں نے بے قصور غیر بنگالیوں کے جسم سے خون اور آنکھیں تک نکال لیں۔ عجلت میں کھودے گئے گڑھوں میں لاشوں کو دھکیل کر ان پر مٹی ڈال دی گئی۔ جس زخمی میں زندگی کی ذرا بھی رمق دکھائی دیتی تھی، اس کی کھوپڑی میں گولی مار دی جاتی تھی۔
باغیوں نے چند بنگالی ائمہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ غیر بنگالیوں کے قتل کا فتویٰ جاری کریں۔ چاٹگام فائر بریگیڈ کے مرکزی
دفتر کے نزدیک ایک مسجد میں ان غیر بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا جنہیں ان کے گھروں سے اٹھایا گیا تھا۔
پہاڑ ٹلی، کالر گھاٹ اور حالی شہر میں درندگی اور سفاکی کے خطرناک ترین مظاہر دکھائی دیے۔ غیر بنگالیوں کے مکانات کو پیٹرول اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگائی گئی اور پھر انہیں اس آگ میں جھونک دیا گیا۔ مارچ کے اواخر اور اپریل کے اوائل میں چاٹگام اور اس سے ملحق علاقوں میں کم و بیش چالیس ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ لاشوں کو ندی نالوں، دریاؤں اور سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا، اس لیے چاٹگام اور اس سے ملحق علاقوں میں جاں بحق ہونے والوں کی اصل تعداد کا اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکتا۔ باغیوں میں ہندو بھی بڑی تعداد میں تھے جنہوں نے مساجد کو شہید کیا، مزارات کو تاراج کیا اور قرآن کے نسخوں کو بھی شہید کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
زیر نظر کتاب کی تیاری کے لیے جن عینی شاہدین کا انٹرویو کیا گیا، اُنہوں نے چاٹگام میں غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھانے والے ایم آر صدیقی کو قصائی قرار دیا۔ چاٹگام اور اُس سے ملحق علاقوں میں غیر بنگالیوں کا جو قتل عام ہوا اور ان کی املاک کو لوٹ کر آگ لگانے کا جو سلسلہ چلا، اُس کا ماسٹر مائند ایم آر صدیقی تھا۔ اُسی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ غیر بنگالیوں کو قتل کرنے سے قبل اُن کے جسم سے خون نچوڑ لیا جائے اور ان کے اعضاء نکال کر معذور بنگالیوں کو لگائے جائیں۔ ہزاروں غیر بنگالیوں کی لاشوں کو گڑھوں میں پھینک کر ان پر مٹی اور کچرا ڈال دیا گیا۔
جب فوج نے آپریشن کیا تو باغیوں کے پاس پسپا ہونے کے سوا چارہ نہ رہا مگر اس حالت میں بھی انہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم رکھا اور مساجد اور اسکولوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح جمع کی جانے والی غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ہزاروں غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ ۱۴ سے ۳۰ سال تک کی غیر بنگالی لڑکیوں اور عورتوںکو بھی اغوا کرکے ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھات اتارا گیا۔ بہت سے باغی اس قدر سفاک تھے اور ان کی ذہنی پستی اس حد تک تھی کہ ماؤں کے سامنے بیٹوں اور بیویوں کے سامنے شوہروں کو قتل کرنے میں اُنہیں خاص لذت ملتی تھی۔ وہ بہت سی عورتوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ اپنے بیٹوں اور شوہروں کو قتل ہوتے دیکھیں۔
(۔۔جاری ہے!)
Leave a Reply