
جب فوج نے چاٹگام کو باغیوں کے شیطانی قبضے سے آزاد کرایا تب غیر بنگالیوں کے زخم کسی حد تک مندمل ہوئے اور انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی زندگی کو دوبارہ جوڑ کر آگے بڑھنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے جلے ہوئے مکانات کی مرمت کی اور انہیں دوبارہ رہنے کے قابل بنایا۔ مگر ان کے تمام خواب ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ایک بار پھر زمین پر آ رہے جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے مل کر مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا۔ ہزاروں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کے مرمت شدہ مکانات کو پھر آگ لگادی گئی اور جو کسی نہ کسی طور بچ گئے تھے، انہیں دھکیل کر ریڈ کراس کے کیمپوں تک پہنچادیا گیا۔
امریکی اخبار ’’واشنگٹن ایوننگ اسٹار‘‘ نے ۱۲؍ مئی ۱۹۷۱ء کو مارٹ روزنبام کی ایک رپورٹ شائع کی۔ روزنبام ان ۶ غیر ملکی (مغربی) اخبار نویسوں میں سے تھے جنہوں نے مئی ۱۹۷۱ء میں سابق مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ رپورٹ میں لکھا تھا: ’’ساحلی شہر چاٹگام میں بنگالیوں نے بڑے پیمانے پر غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ پٹ سن کی ایک مل کے ری کریئیشن کلب میں ۱۸۰؍ غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ بہت سے جنونی بنگالیوں نے قتل عام سے قبل لوٹ مار بھی کی اور بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بھی بنایا۔ بنگالی سویلینز اور لبریشن ٹروپس نے بھارت سے تعلق رکھنے والے مہاجروں (بہاریوں) کو چُن چُن کر قتل کیا۔ بازاروں اور بستیوں میں اُن کا تعاقب کیا گیا، لوٹ مار کی گئی، قتلِ عام ہوا۔ بہت سی غیر بنگالی عورتوں کو راستے ہی میں زیادتی کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔
’’دی واشنگٹن ایوننگ اسٹار‘‘ نے ۱۲ مئی ۱۹۷۱ء ہی کے شمارے میں ’’ایسوسی ایٹڈ پریس‘‘ (امریکا) کا ایک مراسلہ بھی شائع کیا، جس میں لکھا تھا: ’’جن نامہ نگاروں نے اس ساحلی شہر (چاٹگام) کا دورہ کیا، انہیں معلوم ہوا کہ بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوئی ہے۔ بھاری گولہ باری کی گئی، بڑے پیمانے پر املاک کو آگ لگائی گئی اور باغیوں کے ہاتھوں ہزاروں غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اتارا گیا‘‘۔
’’اصفہانی جوٹ مل میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی جس میں ۱۵۲ غیر بنگالی خواتین اور بچوں کی باقیات تھیں۔ اُنہیں دسمبر میں اصفہانی جوٹ مل کے کلب میں گھیر کر قتل کیا گیا تھا‘‘۔
’’اصفہانی جوٹ مل کے اندر کئی مقامات پر جلے ہوئے کپڑے اور کھلونے بھی پڑے ہوئے تھے۔ ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ چاٹگام میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء سے ۱۱؍ اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران باغیوں اور عام بنگالیوں نے ہزاروں غیر بنگالیوں اور بالخصوص مہاجروں (بہاریوں) کو موت کے گھاٹ اتارا۔ باغیوں نے چاٹگام پر ۲۵ مارچ کو قبضہ کیا تھا اور فوج نے بھرپور ایکشن کے ذریعے ۱۱؍ اپریل کو قبضہ ختم کرایا تھا‘‘۔
’’مقامی افراد نے بتایا کہ مل کے ایک شعبے میں باغیوں نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ۳۵۰ نوجوانوں کو جلاکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا‘‘۔
’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے نامہ نگار میلکم براؤن نے ۱۰؍ مئی ۱۹۷۱ء کو اپنے ایک مراسلے میں لکھا: ’’چاٹگام پر فوجی ایکشن سے قبل باغیوں اور عام بنگالیوں نے بہاریوں کی عمومی خوش حالی سے شدید حسد کے مارے انہیں بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
لندن کے ’’دی سنڈے ٹائمز‘‘ کے پاکستان میں نمائندے انتھونی میسکارنہیز نے اپریل کے آخری دو ہفتوں کے دوران سابق مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انتھونی میسکارنہیز کا ایک مراسلہ ۲ مئی ۱۹۷۱ء کو ’’دی سنڈے ٹائمز‘‘ کی اشاعت میں شائع ہوا۔ ’’چاٹگام میں ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنگ کرنل کو شہید کردیا گیا۔ اس کی اہلیہ امید سے تھی۔ باغیوں نے اسے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اس کا پیٹ چیر دیا۔ شہر کے ایک اور حصے میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک اعلیٰ افسر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس کے دو بیٹوں کے سر قلم کر دیے گئے۔ افسر کی بیوی کا پیٹ چیر کر اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس کے برہنہ جسم پر اُس کے بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔ ایسی بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کی لاشیں ملیں، جن کے پیٹ میں بنگلہ دیشی جھنڈیوں کی ڈنڈیاں گڑی ہوئی تھیں‘‘۔
’’مغربی پاکستان کے باشندے چاٹگام اور کھلنا میں بڑی تعداد میں تھے، اس لیے وہاں ان کا قتلِ عام بھی زیادہ ہوا۔‘‘
ڈارلنگٹن (ڈرہم) سے شائع ہونے والے ’’دی ناردرن ایکو‘‘ نے ۷؍ اپریل ۱۹۷۱ء کی اشاعت میں لکھا: ’’یو ایس ایڈ پروجیکٹ سے وابستہ ایک امریکی انجینئر لیون لمسڈن نے بتایا کہ فوج کے آنے اور بھرپور ایکشن کے ذریعے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے سے قبل چاٹگام کی بنگالی اکثریت غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرتی رہی تھی‘‘۔
چاٹگام میں مکتی باہنی اور عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے انسانیت سوز مظالم سے کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہونے والے پانچ ہزار سے زائد غیر بنگالی (بالخصوص بہاری) ایک جہاز کے ذریعے مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں کراچی پہنچے۔ انہوں نے چاٹگام میں علیحدگی پسند غنڈوں کے ہاتھوں توڑے جانے والے مظالم کی رونگٹے کھڑے کرنے والی داستانیں سُنائیں۔ وفاقی حکومت نے ان تمام داستانوں کی اشاعت اس خیال سے رکوادی کہ مقامی آبادی میں بنگالیوں کے خلاف شدید نفرت جنم لے سکتی تھی۔ (یاد رہے کہ اس وقت کراچی سمیت پورے مغربی پاکستان میں کم و بیش بیس لاکھ بنگالی آباد تھے۔)
چالیس سالہ محمد اسرائیل اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ انہی کے گھر میں رہا کرتے تھے۔ ان کا گھر چاٹگام کے علاقے پہاڑ تلی میں تھا۔ ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو غیر بنگالیوں کے قتلِ عام میں محمد اسرائیل نے بہن، بہنوئی اور شیر خوار بھانجے کو کھودیا۔ انہوں نے بتایا: ’’ہم کئی سال سے چاٹگام میں آباد تھے۔ ۳ مارچ کو پانچ ہزار سے زائد بنگالی مظاہرین نے مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کی قیادت میں اصفہانی جوٹ مل کی کالونی پر حملہ کردیا۔ اس کالونی میں غیر بنگالی بڑی تعداد میں سکونت پذیر تھے۔ مظاہرین میں سے بہتوں کے ہاتھ میں مشعلیں اور بندوقیں تھیں۔ غیر بنگالیوں کی طرف سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی مگر اس کے باوجود انہوں نے مکانات کو آگ لگانا اور لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ مکانات کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگائی گئی اور جن لوگوں نے جلتے ہوئے مکانات سے نکل بھاگنے کی کوشش کی، انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا‘‘۔
’’دس غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ انہوں نے دروازے پر برسٹ مارا۔ میرے بہنوئی فائرنگ کی زد میں آئے اور انہوں نے اسی وقت دم توڑ دیا۔ میری بہن کے پیٹ میں چُھرا گھونپ دیا گیا۔ اس کے ہاتھوں میں بچہ تھا جسے چھین کر انہوں نے گولی مار دی۔ اس کے بعد انہوں نے مکان کو لوٹ لیا۔ میں کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوا اور کئی دن تک کمپاؤنڈ میں چھپا رہا۔ قاتلوں کے گروہ نے دو ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کے مکانات کو آگ لگائی۔ بہت سے مقتول جلتے ہوئے مکانات میں ڈال دیے گئے‘‘۔
محمد اسرائیل کو دسمبر ۱۹۷۱ء میں ایک بار پھر انسانیت سوز مظالم دیکھنا پڑے جب بھارتی فوج نے سابق مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا۔ محمد اسرائیل دسمبر ۱۹۷۳ء کو بنگلہ دیش سے کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ شائستہ مزاج رکھنے والے بہت سے بنگالی بھی مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے طرزِ عمل سے حیران اور سکتے کی سی حالت میں تھے۔ خود انہیں بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ہم زبان و ہم نسل اس قدر انسانیت سوز مظالم کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ شائستہ مزاج لوگ مظالم روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ باغی بنگالیوں کے پاس اسلحہ تھا۔ چاٹگام میں باغیوں نے ۳ مارچ کو جو کچھ کیا، اس سے ان کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ غیر بنگالیوں کے قتلِ عام اور مشرقی پاکستان کو آزاد ملک بنانے کی راہ میں اب پولیس یا کوئی اور قوت مزاحم نہیں ہوگی۔
۲۳ سالہ نور محمد صدیقی چاٹگام کی فیروز شاہ کالونی میں کرائے کے مکان میں اپنے والدین کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس نے چاٹگام پر ڈھائی جانے والی قیامت کے بارے میں بتایا: ’’۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو پانچ ہزار سے زائد مظاہرین نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے فیروز شاہ کالونی پر دھاوا بول دیا۔ ان کے ساتھ ایسٹ پاکستان رائفلز کے چند مسلح منحرف سپاہی بھی تھے۔ ان منحرف سپاہیوں نے اپنی وردیاں بھی پہن رکھی تھیں۔ غیر بنگالیوں کی طرف سے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا جسے اشتعال انگیز قرار دیا جاسکے، مگر اس کے باوجود ان ہزاروں مظاہرین نے غیر بنگالیوں کی پوری آبادی پر حملہ کردیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے سیکڑوں مکانات کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی۔ مٹی کا تیل اور پٹرول وہ ساتھ لائے تھے۔ یہ صرف اللہ کا کرم تھا کہ میں بچ گیا‘‘۔
’’جب حملہ آور آئے تب میں نے خود کو ایک اسٹور روم میں چھپالیا۔ جب میں نے باہر نکل کر دیکھا تو سیکڑوں مکانات جل کر راکھ ہوچکے تھے۔ ان کا سارا سامان پہلے ہی لوٹ لیا گیا تھا۔ پورے علاقے میں جلتے ہوئے گوشت سے اٹھنے والا تعفن پھیلا ہوا تھا۔ چند ایک زخمیوں کو مُردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ بے چارے امداد کے لیے تڑپ رہے تھے مگر امداد پہنچنے میں بہت دیر لگی۔ پولیس غائب ہوچکی تھی۔ اگلے دن قاتل گروہ ایک بار پھر ہمارے علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے تھا۔ بچے کھچے مکانات کو آگ لگادی گئی اور جن لوگوں نے جلتے ہوئے مکانات سے نکل کر جان بچانے کی کوشش کی، انہیں سڑک پر گولیاں مارکر کر موت کی نیند سُلادیا گیا۔ رات آئی تو غیر بنگالی لڑکیوں پر قیامت ٹوٹی۔ اُنہیں اغوا کرکے ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور خالی مکانات میں قتل کرکے پھینک دیا گیا۔ بہت سے بچوں کو جلتے ہوئے مکانات میں جھونک دیا گیا اور گن پوائنٹ پر ان کی ماؤں کو مجبور کیا گیا کہ وہ انہیں جلتے ہوئے دیکھیں۔ صرف دو دنوں میں ایسی قیامت برپا ہوئی کہ فیروز شاہ کالونی کو دیکھ کر لگتا تھا اس پر ایٹم بم برسادیا گیا ہے‘‘۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے قتل عام میں نور محمد نے اپنے تقریباً تمام ہی رشتہ داروں کو گنوادیا۔ وہ اپریل ۱۹۷۱ء میں کراچی پہنچا۔ وہ کہتا ہے: ’’جو کچھ مارچ ۱۹۷۱ء میں ہوا تھا، وہ میرے حافظے میں اب تک تازہ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک پورا گروہ تمام انسانی اقدار بھول گیا تھا۔ باغیوں اور ان کے ہم نوا بنگالیوں پر جنون سوار تھا۔ دولت کی ہوس تھی۔ خون کی پیاس تھی۔ ایک ماہ تک لوگوں کو لوٹ کر قتل کیا جاتا رہا۔ مکانات تباہ کردیے گئے اور لڑکیوں کی آبرو ریزی کی گئی۔ پاکستان نواز بنگالیوں نے اگر اس قتل عام اور آبرو ریزی کو روکنے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہا تو انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘‘۔
چالیس سالہ شریفاں کی آنکھوں کے سامنے ہی اُن کے شوہر اور دو جوان بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ وہ اپنے دُکھوں کا تذکرہ اِس طور کرتی ہیں: ’’میرے شوہر اور دونوں جوان بیٹے چاٹگام کے ایک تجارتی ادارے میں ملازمت کرتے تھے۔ ہماری رہائش چاٹگام کے علاقے لطیف آباد کی ایک جھونپڑی میں تھی۔ ۳ مارچ کو ایک جنونی ٹولے نے ہمارے علاقے پر حملہ کرکے غیر بنگالیوں کے جھونپڑوں کو آگ لگانا شروع کردی۔ انہوں نے غیر بنگالی مردوں اور نوجوانوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ جو لوگ آگ سے بچنے کی کوشش کرتے تھے، اُن پر گولیاں برسادی جاتی تھیں‘‘۔
’’ایک قاتل گروہ نے نعرے بازی کرتے ہوئے ہمارے جھونپڑوں کو آگ لگادی اور پھر ان کی فائرنگ سے میرے دونوں بیٹے شدید زخمی ہوگئے۔ میں اور میرے شوہر بے بس تھے کہ اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے شدید زخمی حالت میں پاکر بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے ساڑھی کا پَلّو پھاڑ کر اُن کی مرہم پٹی کی کوشش کی مگر دس منٹ کے اندر اُنہوں نے دم توڑ دیا۔ میں نے اور میرے شوہر نے ایک قریبی مسجد میں پناہ لی مگر کچھ ہی دیر میں قاتل گروہ وہاں بھی پہنچ گیا اور جن لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی، ان پر حملہ کردیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ مسجد میں چھپے ہوئے تمام غیر بنگالی مردوں کو مار ڈالیں گے۔ عورتوں نے ان کے پیر پڑ کر، گڑگڑاتے ہوئے گزارش کی کہ مردوں کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ ان میں بیشتر عمر رسیدہ تھے۔ ایک حملہ آور نے مجھے لات ماری۔ پھر میں نے فائر کی آواز سُنی اور میرے شوہر میرے سامنے ہی گرے۔ اُن کے سینے میں گولی ماری گئی تھی۔ جس جگہ گولی ماری گئی تھی، وہاں سے خون کا فوّارہ بلند ہو رہا تھا۔ میں یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوگئی اور کئی گھنٹوں تک مجھے ہوش نہ آیا‘‘۔
’’مسجد میں جن عورتوں کے شوہروں اور بیٹوں کو قتل کردیا گیا تھا، انہوں نے اپنی ساڑھیوں اور دوپٹوں سے لاشوں کو ڈھانپ دیا۔ ہمارے پاس کوئی کدال یا کوئی اور ایسی چیز نہ تھی جس سے لاشوں کو دفن کرنے کے لیے گڑھا کھودا جاسکتا۔ جینے کے نام پر صرف سانس کی آمد و رفت رہ گئی تھی۔ آنکھوں میں آنسو بچے تھے، اور دلوں میں خوف۔ اِسی حالت میں ہم نے تین ہفتے مسجد میں گزارے۔ جب فوج نے کارروائی کی تب ہمیں وہاں سے نکل کر کسی محفوظ مقام پر جانے کا موقع ملا۔ دسمبر میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرکے اسے بنگلہ دیش بنا ڈالا، تب ایک بار پھر ہمیں مکتی باہنی والوں نے خوفزدہ کرنا شروع کیا مگر ریڈ کراس والوں نے ہمیں بچاکر ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں ہم کراچی پہنچ پائے۔‘‘
۳۷ سالہ سید سمیع احمد آٹھ ارکان پر مشتمل گھرانے میں زندہ بچ جانے والے واحد فرد تھے۔ انہوں نے ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو چاٹگام کے علاقے حالی شہر پر ڈھائی جانے والی قیامت کی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’عوامی لیگ کے کارکنوں، عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں سمیت تقریباً چار ہزار جنونی بنگالیوں نے ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو دن ڈھلے حالی شہر پر حملہ کیا۔ میں کام کے سلسلے میں گھر سے دور، شہر کے ایک دور افتادہ علاقے میں تھا۔ سفاک قاتلوں نے میرے گھر کو لوٹنے کے بعد میری بیوی، چار چھوٹے بچوں، میرے تیرہ سالہ بھائی اور میری بیوی کی کم عمر بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے میرے گھر کے ایک حصے کو آگ بھی لگادی۔ ہمارے علاقے میں ۲۳، ۲۵ اور ۲۷ مارچ کو بمشکل ۱۵؍ فیصد غیر بنگالی بچ پائے۔ قتل کرتے وقت یہ سفاک درندے کہتے تھے کہ کسی بھی بہاری کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ بہاری سے ان کی مراد تھی ہر غیر بنگالی مسلم۔ لٹیروں اور قاتلوں میں ہندو بھی بڑی تعداد میں تھے۔ ان کے پاس اسلحے اور گولیوں کا ذخیرہ تھا‘‘۔
فوجی ایکشن کے بعد سید سمیع احمد اس قابل ہوسکا کہ اپنے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہ سکے۔ مگر جب دسمبر میں بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا تو ایک بار پھر غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھائی گئی۔ سمیع احمد نومبر ۱۹۷۳ء میں کراچی پہنچ پائے۔
بیس سالہ محمد نبی جان چاٹگام کی وائرلیس کالونی میں ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کے قتلِ عام کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو جنونی بنگالیوں کے ایک ٹولے نے وائر لیس کالونی پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے مکانات کو لوٹ کر آگ لگانا شروع کی۔ غیر بنگالیوں کے مکانات شناخت کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ ان پر بہت پہلے سُرخ نشانات لگائے جاچکے تھے۔ قاتل گروہ ٹولیوں میں بٹ گیا اور پھر اس نے غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھانا شروع کی۔ قاتلوں کی ٹولیوں میں ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہی بھی تھے۔ بیشتر حملہ آور مسلح تھے۔ یہ لوگ کسی بھی گھر میں گھستے، چند سوالات پوچھتے اور پھر برسٹ مار دیتے۔ گھر کے ہر فرد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد وہ گھر کو لوٹتے۔ لاشوں سے بھی زیورات نوچ لیے جاتے‘‘۔
’’چند باغی ہمارے مکان میں بھی گھس آئے۔ انہوں نے میرے والد اور بھائی کو برسٹ مار کر خون میں نہلا دیا۔ ایک گولی میری ٹانگ میں لگی اور میں گرگیا۔ میں تقریباً تین گھنٹے تک بے ہوش رہا۔ جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میرے والد زندہ ہیں مگر خون زیادہ بہہ جانے سے ان کی حالت غیر ہوچکی ہے۔ چند گھنٹوں کے بعد فوجی ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور ہمیں اسپتال منتقل کیا، جہاں ہمارا علاج کیا گیا۔‘‘ چاٹگام کی وائر لیس کالونی کے کوارٹرز نمبر ایل ۱۴۔جی میں رہائش رکھنے والے محمد نبی جان کا خیال ہے کہ علاقے میں ۷۵ فیصد سے زائد غیر بنگالی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے انہیں دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کے قبضے کے بعد قتل کردیا گیا۔ محمد نبی جان دسمبر ۱۹۷۳ء میں کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
☼☼☼
Leave a Reply