زیب النساء حق نے مزید بتایا: ’’۲۱ دسمبر کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈے پھر ہمارے علاقے میں گھس آئے اور ہمارے مکانات کو آگ لگانا شروع کردی۔ انہوں نے ہمیں علاقے سے نکل جانے کا حکم دیا کیونکہ اُن کے فرمان کے مطابق بنگلہ دیش میں کسی بھی بہاری کو مکان کا مالک ہونے کا حق حاصل نہیں تھا۔ دو دن تک ہم لوگ کھلے آسمان کے نیچے پڑے رہے۔ ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ وہاں سے ہمیں ریڈ کراس کے ایک ریلیف کیمپ میں لے جایا گیا، زیب النساء حق ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچ پائی۔
۴۰ سالہ فاطمہ بی بی کے شوہر ٹونگی کی ایک تجارتی فرم میں ملازم تھے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچنے پر فاطمہ بی بی نے بتایا: ’’۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے مکان کو لوٹ لیا اور مزاحمت کرنے پر میرے شوہر عبدالرحمٰن کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا، ہمارے تینوں بیٹے باہر تھے۔ انہیں جب اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھائی کہ عوامی لیگ کے غنڈوں کو سبق سکھائیں گے۔ انہوں نے بعد میں رضاکار فورس میں شمولیت اختیار کی اور عوامی لیگ اور مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سے غنڈوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا جنہوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات کا تمام سامان لوٹنے کے بعد انہیں آگ لگائی تھی‘‘۔
’’دسمبر ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے ڈھاکا پر قبضہ کیا تو میرے تینوں بیٹے شہید کردیے گئے۔ ۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے پچیس تیس غنڈے ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور میرے شوہر کو قتل کردیا۔ گن پوائنٹ پر اُن غنڈوں نے مجھے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر سے نکل جانے کا حکم دیا۔ میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور قریبی جنگل میں چلی گئی جہاں صرف پانی تھا اور جنگلی پھل تھے۔ کئی دن تک اِسی خوراک پر گزارا تھا اور ہم پتوں پر سوتے تھے۔ بچے جب بھوک سے بلکتے تھے تو میری جان پر بن آتی تھی۔ غیر ملکی ریلیف ورکرز کی ایک ٹیم ہمارے نزدیک سے جیپ میں گزر رہی تھی۔ وہ لوگ ہمیں دیکھ کر رک گئے اور محمد پور کے ریڈ کراس کیمپ میں لے گئے جہاں ہم دو سال سے زائد مدت تک رہے‘‘۔
۳۳ سالہ نور جہاں کے شوہر مختار احمد ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کے محکمے میں ملازم تھے۔ اِن کی رہائش گلستان کالونی میں واقع سرکاری مکانات میں تھی۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر نور جہاں نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء میں ہم ڈھاکا میں غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کے دوران بچ نکلے تھے۔ مگر دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے ڈھاکا پر قبضہ کرلیا تو غنڈوں کے ایک گروہ نے میرے شوہر کو قتل کردیا۔ اِس سے بھی اُن کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ کچھ دیر بعد پندرہ بیس غنڈے پھر آئے اور ایک ایک چیز لوٹنے کے بعد ہمیں گھر سے نکال دیا۔ اب ہم سڑک پر تھے۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہمیں گھیر کر ایک عمارت میں پہنچادیا جہاں ۵۰۰ سے زائد بہاری خواتین اور بچوں کو رکھا گیا تھا۔ ان عورتوں کے شوہروں کو قتل کرنے کے ارادے سے اغوا کرلیا گیا تھا۔ غنڈوں نے ہم سے کہا کہ اگر کسی نے بھاگنے کی کوشش کی تو
اسے شوٹ کردیا جائے گا۔ پانچ دن تک ہم اللہ سے اپنی اور اولاد کی سلامتی کی دعائیں مانگتے رہے۔ اس کے بعد ہمیں ریڈ کراس کے ایک کیمپ منتقل کردیا گیا تھا۔ کیمپ میں بھی زندگی آسان نہ تھی۔ مکتی باہنی کے غنڈے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کرکے لے جاتے تھے۔ کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کہیں سلامت بھی ہیں۔ کئی افراد ایسے تھے جو کئی راتوں تک سو ہی نہیں سکے۔ جن خواتین کے شوہر اور بچے قتل کردیے گئے تھے وہ راتوں کو اٹھ کر چیخنے اور رونے لگتے تھے۔ ان کے بین سُن کر دِل دہل جاتے تھے‘‘۔
۳۰ سالہ انوری بیگم کے شوہر سید مصطفی حسین ڈھاکا میں ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کے ملازم تھے اور ان کی رہائش ڈھاکا کے نواحی علاقے میر پور میں تھی۔ انوری بیگم اکتوبر ۱۹۷۳ء میں اپنے بچوں کے ساتھ ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوئی۔ انوری بیگم نے بتایا: ’’مکتی باہنی کے غنڈوں نے جب غیر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع کیا تو میرے والدین سمیت میرے خاندان کے تمام افراد دیناج پور میں قتل کردیے گئے۔ دیناج پور میں میرے والد کا مکان اور چند دوسری املاک بھی تھیں۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہمارے مکان پر حملہ کیا اور سارا سامان لوٹ لیا۔ میرے شوہر اس لیے محفوظ رہے کہ وہ ڈیوٹی پر تھے‘‘۔
’’دسمبر ۱۹۷۳ء کے تیسرے ہفتے میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے میرے شوہر کو قتل کردیا۔ ان کی لاش بھارتی فوج کے ایک دستے نے گھر پہنچائی۔ ان کا گلا کاٹ دیا گیا تھا اور جسم پر جا بجا گہرے زخم تھے‘‘۔ اس کے فوراً بعد مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہمیں گھر سے نکال کر ریڈ کراس کے کیمپ میں پھینک دیا۔
۴۵ سالہ اللہ رکھی کے شوہر محمد یوسف کا ڈھاکا میں خاصا بڑا کاروبار تھا۔ یہ لوگ میر پور کے بلاک ڈی میں ذاتی مکان میں رہتے تھے۔ اللہ رکھی نے مارچ اور دسمبر ۱۹۷۱ء کے حوالے سے اپنی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے گھر کو اس وقت لوٹ لیا جب میں گھر میں اکیلی تھی۔ انہوں نے میرے شوہر اور بچوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کی دھمکی بھی دی۔ مگر پھر فوج آگئی اور ہم نے ۹ ماہ سکون سے گزارے‘‘۔
’’۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے ڈھاکا پر قبضہ کرلیا تب بنگالی انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے میرے گھر پر حملہ کیا اور میرے معمر شوہر کو گھر کے کمپاؤنڈ میں گولی مار دی۔ میرے دوبیٹے باتھ روم میں چھپ گئے تھے۔ جب مکتی باہنی کے غنڈے جارہے تھے تب اُن میں سے ایک شخص نے باتھ روم چیک کیا اور دونوں کو دیکھ لیا۔ اُنہوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو مکتی باہنی کے غنڈوںنے اُنہیں گھسیٹ کر نکالا اور میری آنکھوں کے سامنے اُنہیں گولی مار دی۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے مجھے گن پوائنٹ پر ٹرک میں بٹھایا اور ریڈ کراس کے کیمپ میں پہنچا دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ میرے شوہر اور بیٹوں کی لاشیں دریا میں پھینک دی گئیں۔ میرے بڑے بیٹے نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس کا کچھ سراغ نہ مل سکا‘‘۔
۲۵ سالہ سلمیٰ خاتون کے شوہر نظر عالم خان ڈھاکا میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ملازم تھے۔ اُنہیں بھی مکتی باہنی کے غنڈوں نے قتل کردیا تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے رنگ پور میں میرے شوہر کے بھائی اور والدین کو قتل کردیا تھا۔ مارچ کے تیسرے ہفتے میں غنڈوں نے ڈھاکا کے کملا پور اسٹیشن کے نزدیک بشابو کے علاقے میں ہمارے مکان پر حملہ کرکے سارا سامان لوٹ لیا۔ میرے شوہر گھر پر نہیں تھے، اس لیے بچ گئے‘‘۔
’’دسمبر ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں ایک دن میرے شوہر دفتر گئے اور واپس نہیں آئے۔ اس دوران چند غنڈوں نے پھر ہمارے گھر پر حملہ کیا اور سارا سامان لوٹ لیا۔ میرے شوہر تیسرے دن بھی گھر نہیں آئے تو مجھے فکر لاحق ہوئی اور میں ان کے دفتر پہنچی۔ دفتر پر باہر سے تالا لگا ہوا تھا۔ میں نے کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھا تو اندر مضبوط جسم والے چند افراد سامان الٹ پلٹ رہے تھے۔ ایک جگہ خون کے دَھبّے دکھائی دیے۔ میں سمجھ گئی کہ اِسی مقام پر قتلِ عام ہوا ہوگا۔ میں قریبی کوارٹرز میں مقیم اپنے شوہر کے ایک بنگالی دفتری ساتھی کے گھر گئی اور اس کی بیوی سے ملی تو اس نے بتایا کہ جس دن سے میرے شوہر لاپتا ہوئے تھے اُس دن مکتی باہنی کے غنڈوں نے دفتر پر حملہ کرکے تمام غیر بنگالی ملازمین کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اُن کی لاشیں دفتر کے عقب میں کھودے جانے والے ایک گڑھے میں پھینک کر مٹّی ڈال دی تھی‘‘۔
’’میں نے اپنے یتیم بچوں کے ساتھ ریڈ کراس کے کیمپ میں دو سال گزارے۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے مجھ سے کہا کہ بہاریوں کو بنگلہ دیش میں ایک انچ زمین کی ملکیت رکھنے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔
۲۲ سالہ قیصر جہاں نے ۱۹۷۲ء میں جان بچانے کے لیے سابق مشرقی پاکستان سے نیپال کا رخ کیا۔ دسمبر ۱۹۷۳ء میں وہ نیپال سے پاکستان پہنچیں۔ پاکستان پہنچنے پر انہوں نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں بیان کی: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے اواخر میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور گھر پر گولیوں کی بوچھار کردی۔ انہوں نے مکان کو لوٹا نہ آگ لگائی۔ میرے شوہر عزیز حسین کامیاب بزنس مین تھے۔ ہم محمد پور کے علاقے نور جہاں روڈ پر رہتے تھے۔ مارچ میں تو ہم کسی نہ کسی طور محفوظ رہے تھے مگر دسمبر ۱۹۷۱ء میں بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے پورے مشرقی پاکستان اور بالخصوص ڈھاکا کو کنٹرول کرلیا تو ہماری مشکلات کا آغاز ہوا‘‘۔
قیصر جہاں کے شوہر عزیز حسین دسمبر ۱۹۷۱ء کے اوائل میں کاروبار کے سلسلے میں چاٹگام گئے تھے۔ انہی دنوں چاٹگام سے غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کی خبریں آنے لگیں۔ ۱۷ دسمبر کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے محمد پور پر حملہ کیا اور بہت سے مکانات کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ سہمی ہوئی قیصر جہاں نے کُھلنا جانے کا فیصلہ کیا جہاں اُن کے چند رشتہ دار رہا کرتے تھے۔ قیصر جہاں نے مزید بتایا: ’’میں نے اپنے زیورات بیچے تاکہ ہم کسی نہ کسی طور سابق مشرقی پاکستان سے نکل سکیں۔ میں نے ایک ایجنٹ سے کلکتہ جانے کے لیے بات کی۔ اس نے خطیر رقم لی۔ ایک اور انسانی اسمگلر کے ذریعے ہم نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچے۔ وہاں ہم نے کئی دن انتہائی عُسرت میں گزارے۔ اقوام متحدہ نے ہمیں پاکستان منتقل کیا‘‘۔
۴۵ سالہ کلثوم کے شوہر عبدالکریم ڈھاکا میں ایک چھوٹی مگر کامیاب تجارتی فرم چلاتے تھے۔ جگن ناتھ ساہا روڈ پر ذاتی مکان میں اِس فیملی کی رہائش تھی۔ ۱۹۷۱ء کے اوائل میں کلثوم بیوہ ہوگئیں۔ ان کا ۲۴ سالہ بیٹا وسطی ڈھاکا کی ایک تجارتی فرم میں ملازم تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے کلثوم کے گھر پر حملہ کردیا اور لوٹ کر آگ لگادی۔ کلثوم کا بڑا بیٹا گھر پر نہیں تھا، اس لیے بچ گیا۔ مگر دسمبر ۱۹۷۱ء میں کلثوم کی چھوٹی سی دُنیا اُجڑ گئی۔ ’’۱۲ دسمبر کو میرا بیٹا محمد یاسین کام پر گیا۔ وہ بہت بہادر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بھارتی بمباری سے نہیں ڈرتا۔ شام کو شہری دفاع کے رضاکار اس کی مسخ لاش لے کر گھر آئے۔ جس عمارت میں وہ کام کرتا تھا، اس پر بھارت نے بمباری کردی تھی۔ دسمبرکے تیسرے ہفتے میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے میرے گھر پر حملہ کرکے سارا سامان لوٹ لیا۔ انہوں نے مجھے اور میرے تین چھوٹے بچوں کو گھر سے نکال دیا۔ ہم نے دو سال سے زائد مدت ریڈ کراس کیمپ میں گزاری۔ فروری ۱۹۷۴ء میں ہم پاکستان منتقل کیے گئے‘‘۔
۴۰ سالہ عائشہ بیگم کو ان کے تین یتیم بچوں کے ساتھ دسمبر ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا۔ انہوں نے کراچی پہنچنے پر اپنی بپتا اِن الفاظ میں سُنائی: ’’مارچ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکا کے نواح میرپور میں واقع ہمارے گھر پر مکتی باہنی کے غنڈوں نے حملہ کیا مگر فوج کی گاڑی دیکھ کر وہ فرار ہوگئے۔ میں اور میرے شوہر عبدالباری ، جو بینک میں نوکری کرتے تھے، بچوں کے ساتھ نو ماہ تک سُکون سے رہے۔ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک دن مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کردیا۔ انہوں نے سارا سامان لوٹ لیا۔ اِتنے میں میرے شوہر ڈیوٹی سے واپس آئے۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے اُنہیں پکڑ لیا اور پھر ہمارے سامنے ہی اُنہیں سینے میں گولی مار دی۔ انہوں نے مجھے بھی تھپڑ مارے اور دھمکی دی کہ مکان فوری خالی نہ کیا تو مجھے بھی قتل کردیا جائے گا۔ میں نے گڑگڑا کر التجا کی کہ شوہر کی تدفین تک تو مجھے مکان میں رہنے دیا جائے مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ پھر ان میں سے دو کو مجھ پر رحم آیا اور انہوں نے قریب ہی گڑھا کھود کر میرے شوہر کی تدفین میں مدد دی۔ میں اپنے بچوں کو لے کر ریڈ کراس کے کیمپ پہنچ گئی۔ ہم نے کیمپ میں دو سال گزارے‘‘۔
۳۰ سالہ نجم النساء اور ان کے شوہر میر پور کے علاقے میں چھوٹے سے ذاتی مکان میں رہتے تھے۔ ۱۹۷۴ء میں وہ اپنے یتیم بچوں کے ساتھ ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوئیں۔ نجم النسا کے شوہر سابق مشرقی پاکستان کی حکومت کے ملازم تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں ان کے مکان کو لوٹ لیا گیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں نجم النسا کے شوہر کو قتل کردیا گیا۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے شوہر کے قتل کی اطلاع دیتے ہوئے نجم النسا کو حکم دیا کہ وہ مکان خالی کردے کیونکہ بھارت سے واپس آنے والے بنگالیوں کا اس مکان پر زیادہ حق ہے۔ نجم النسا کو اس کے شوہر کی لاش کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ نجم النسا نے بتایا: ’’مکتی باہنی کے غنڈوں نے میرے سر پر اسٹین گن رکھ کر حکم دیا کہ مکان خالی کرکے نکل جاؤ۔ میں بیوہ اور میرے بچے یتیم ہوچکے تھے۔ ہم گھر سے نکل ہی رہے تھے کہ غنڈوں کا ارادہ بدل گیا۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ ایک عمارت میں لے گئے جس میں غیر بنگالی خواتین اور بچوں کو رکھا گیا تھا۔ مکتی باہنی کی یہ جیل کسی جہنم سے کم نہ تھی۔ ریڈ کراس والوں نے ہمارا سُراغ لگایا اور پھر ہم دو سال سے بھی زائد مدت تک ریڈ کراس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں رہے‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply