
چاٹگام کے علاقے آگرہ آباد میں واقع گل احمد جوٹ ملز کے سکیورٹی گارڈ ۴۲ سالہ جمداد خان نے بتایا: ’’میں نے جولائی ۱۹۷۱ء میں گل احمد جوٹ مل میں سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی تھی۔ اس سے قبل میں شمال مغربی صوبۂ سرحد (اب خیبر پختونخواہ) میں رہا کرتا تھا۔ چاٹگام میں میری رہائش نصیر آباد کے ایک کوارٹر میں تھی۔ میں نے غیر بنگالیوں کی زبانی مارچ ۱۹۷۱ء میں چاٹگام اور دیگر علاقوں میں ہونے والے قتلِ عام کے بارے میں سنا تھا۔ ایک دن میں گھر سے کام پر جارہا تھا کہ ایک مکان کے باہر مجھے ایک انسانی کھوپڑی دکھائی دی۔ مکان کے مرکزی دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ اندر چھوٹی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ وہاں بہت سے کپڑے بھی پڑے تھے۔ میں نے چند دوستوں کی مدد سے ایک قبر کھودی اور ان معصوموں کی باقیات دفنادیں۔ بعد میں کسی نے مجھے بتایا کہ یہ مکان بنگالی انتہا پسندوں اور باغیوں کا ٹارچر سیل تھا، جس میں انہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران بہت سی غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو قتل کیا تھا‘‘۔
’’۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سابق مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کے قبضے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ایک بار پھر غیر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔ مارے جانے والوں میں بہت سے پنجابی اور پٹھان بھی تھے، جو چاٹگام اور دیگر علاقوں میں کاروبار کرتے تھے یا وہاں انتظامی مشینری اور بڑی کمپنیوں میں ملازم تھے۔ غیر بنگالیوں کو ریڈ کراس کے قائم کردہ ریلیف کیمپوں میں پناہ دی گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈے روزانہ ان کیمپوں پر دھاوا بولتے اور بہت سے غیر بنگالیوں کو اغوا کرکے لے جاتے۔ مغویوں کو جیلوں میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں سمندر میں پھینک دی جاتی تھیں۔ ہندوستانی فوجیوں کی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے عوامی لیگ کے غنڈوں نے چاٹگام میں بہت سی قبریں کھود کر غیر بنگالیوں کی لاشوں کو بنگالیوں کی لاشیں بتاکر پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ لوگ پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے یہ ڈھانچے غیر ملکی اور بالخصوص بھارتی صحافیوں کو بھی دکھائے۔ بھارتی فوج نے انہیں ریڈ کراس کے کیمپوں سے غیر بنگالیوں کو اغوا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ ان کیمپوں میں بھی زندگی بہت دشوار تھی۔ ہم گندا پانی پینے اور سڑا ہوا کھانا کھانے پر مجبور تھے‘‘۔
تیس سالہ زیب النساء کے شوہر محمد احمد چاٹگام میں پوسٹ مین کی حیثیت سے تعینات تھے۔ زیب النساء نے اپنے شوہر کے قتل سے متعلق حالات کی عکاسی ان الفاظ میں کی: ’’۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو چاٹگام کے علاقے شولا شہر میں مکتی باہنی کے دس بارہ غنڈے ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ ان میں دو ہندو بھی تھے، جن کے نام ان کے ساتھیوں کی زبان سے سنے۔ انہوں نے میرے شوہر کو دبوچ لیا اور گولی مار دی، جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارے گھر کو لوٹ لیا۔ جب انہوں نے میرے بچوں پر پستول تانا تو میں ایک حملہ آور سے الجھ پڑی۔ میں نے پستول چھین تو لیا مگر اسے چلانا نہیں جانتی تھی۔ ان غنڈوں نے مجھے دبوچ کر گرادیا اور لاتیں ماریں۔ انہوں نے میرے شوہر کی لاش کو گھسیٹ کر ایک گڑھے میں ڈال دیا۔ ہمارے بنگالی پڑوسی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس قدر خوفزدہ تھے کہ اپنے گھروں سے نکل کر ہماری مدد کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ انہوں نے میرے شوہر کو دفنانے میں میری مدد کی‘‘۔
’’۲۶ مارچ کو ایک مسلح باغی میرے گھر آیا اور کہا کہ علاقے میں کسی بھی غیر بنگالی مرد کو زندہ نہ چھوڑنے کا حکم ملا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کسی بھی غیر بنگالی دوست یا سہیلی کو پناہ نہ دی جائے ورنہ مجھے چاروں بچوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ ہم بہت خوفزدہ تھے، ۲۷ مارچ کو ہم پچھلے دروازے سے نکلے اور تین میل چلنے کے بعد ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں چند برمی خاندان مقیم تھے۔ ہم نے وہاں پناہ لی۔ انہوں نے فرشتوں کی طرح ہمارا خیال رکھا۔ اپریل میں جب فوج نے چاٹگام کا کنٹرول سنبھال لیا تب ہم اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوئے۔ مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پھر ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مکتی باہنی والوں نے ہمارے مکان پر قبضہ کرلیا۔ میں اپنے چاروں بچوں کے ساتھ ریڈ کراس کیمپ میں رہی۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں ہمیں کراچی منتقل کردیا گیا‘‘۔
پچاس سالہ مجیبہ خاتون چاٹگام کے علاقے ساگون باغان کے کوارٹر نمبر ۷۸ کے میں رہتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو جب ان کا گھر مکتی باہنی کے غنڈوں نے لوٹ لیا تو ان کا بڑا بیٹا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا۔ حملہ آوروں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ واقعی مرچکا ہے، اس کی نبض اور دل کی دھڑکن چیک کی۔ مجیبہ خاتون کے بقول ان غنڈوں نے انہیں بڑی عمر کی ہونے کے باعث چھوڑ دیا۔ مجیبہ خاتون کا ایک اور بیٹا سنتاہار میں غیر بنگالیوں کا قتلِ عام دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ مشرقی پاکستان میں مجیبہ خاتون کے تمام رشتہ دار مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں کی ڈھائی ہوئی قیامت کی نذر ہوگئے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں مجیبہ خاتون کو چاٹگام کے ایک ریلیف کیمپ سے کراچی منتقل کیا گیا۔
۷۰ سالہ نبیہن بی بی چاٹگام کے علاقے رؤف آباد کے مکان نمبر ۱۰۰ میں رہتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں: ’’۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو پہلے حملے کے بعد باغیوں نے ہمارے علاقے پر کئی بار حملہ کیا۔ غنڈوں نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کیا اور میرے عمر رسیدہ شوہر عبدالمجید کو قتل کردیا۔ میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنے شوہر کی زندگی کی بھیک مانگی مگر ان کا کہنا تھا کہ انہیں حکم ملا ہے کہ علاقے میں کسی بھی غیر بنگالی مرد کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم تمہیں اِس لیے چھوڑ رہے ہیں کہ ایک دن تم ہمارے گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کروگی‘‘۔
’’جب فوج نے مارچ ۱۹۷۱ء کے آخر میں کارروائی کی اور اپریل میں چاٹگام سمیت ملک کے بیشتر حصوں پر ریاست کی رٹ بحال کردی، تب ہم نے تقریباً نو ماہ تک سکون سے زندگی بسر کی۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو جب بھارتی فوج نے سابق مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا اور بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آگیا تب مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے عسکریت پسند ایک بار پھر قتل و غارت پر تُل گئے۔ ہم سے کہہ دیا گیا کہ اپنے اپنے گھروں سے نکل جائیں کیونکہ کسی بھی غیر بنگالی کا بنگال کی ایک انچ زمین پر بھی کوئی حق نہیں۔ میں نے دو سال چاٹگام کے ایک ریلیف کیمپ میں گزارے اور فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچی‘‘۔
۲۷ سالہ تہمینہ خاتون کے شوہر چاٹگام کی امین جوٹ ملز میں کام کرتے تھے۔ اس جوڑے کی رہائش فیروز شاہ کالونی میں تھی۔ تہمینہ نے اپنے شوہر کے بہیمانہ قتل کی کہانی ان الفاظ میں سُنائی: ’’۱۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے چند عسکریت پسندوں نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان میں سے کسی نے میرے شوہر کا نام (امانت اللہ) بھی پکارا۔ میرے شوہر نے گھر سے نکل کر ان سے بات کی۔ انہوں نے میرے شوہر کو بتایا کہ کسی ضروری کام سے انہیں فوری طور پر امین جوٹ مل میں بلایا گیا ہے۔ جو لوگ ہمارے گھر پر آئے تھے ان میں ایک امین جوٹ مل ہی کا ملازم تھا اور میرے شوہر اسے جانتے تھے۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ نہ جائیں کیونکہ میں نے سُن رکھا تھا کہ غیر بنگالیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا جاتا تھا۔ میرے شوہر نے میری ایک نہ سنی اور ان کے ساتھ چلے گئے۔ ایک گھنٹے بعد ان میں سے ایک شخص واپس آیا اور مجھ سے کہا کہ میرے شوہر کی جان بچ سکتی ہے اگر میں فوری طور پر ۵۰۰ روپے دے دوں۔ میں نے گھر میں جو کچھ بھی بچاکر رکھا تھا، وہ نکالا اور اس غنڈے کو ۵۰۰ روپے دے دیے۔ میں اس کے پیچھے گئی تاکہ دیکھ سکوں کہ میرے شوہر کو کہاں رکھا گیا ہے۔ مگر وہ دوڑتے ہوئے چند ہی لمحوں میں غائب ہوگیا۔ میں جب گھر واپس آئی تو کچھ ہی دیر میں دو ٹرکوں پر غنڈے سوار ہوکر آئے اور ہمارے گھر کی ہر قیمتی چیز لوٹ کر لے گئے۔ وہ فرنیچر اور برتن بھی لے گئے۔ اگلے دن مجھے پتا چلا کہ میرے شوہر کو قتل کردیا گیا ہے۔ میں نے اپنے والد کے علاقے میں جانے کی کوشش کی مگر وہاں تو باغیوں کا کنٹرول تھا۔ دو دن بعد مجھے پتا چلا کہ غنڈوں نے میرے والد کو بھی قتل کردیا‘‘۔
۲۷ سالہ حلیمہ بی بی نے ۲۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو چاٹگام کے علاقے رؤف آباد میں اپنے شوہر محمد وکیل کو قتل ہوتے دیکھا۔ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ حلیمہ بی بی کے ۶ رشتہ داروں کی زندگی کے چراغ گل کرگیا۔ انہوں نے بتایا: ’’۲۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور غیر بنگالیوں کے مکانات لوٹنا شروع کردیے۔ انہوں نے تمام قیمتی اشیا لوٹنے کے بعد غیر بنگالیوں کے مکانات کو آگ لگادی۔ میں اور میرے شوہر جب جلتے ہوئے مکان سے نکلے تو غنڈوں نے میرے شوہر کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ میں نے گڑگڑاتے ہوئے ان سے التجا کی کہ مجھے بھی ختم کردیں کیونکہ اب میرا کوئی رشتہ دار نہیں بچا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ کچھ ہی دنوں بعد تم ہمارے گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کرتی دکھائی دوگی۔ میں نے اپنے شوہر کی لاش ایک چھوٹے سے گڑھے میں ڈال کر اس پر گیلی مٹی ڈال دی۔ میں نے ایک مسجد میں پناہ لی۔ جب پاکستانی فوج آئی تب حالات کچھ درست ہوئے۔ فوج نے مجھے ریلیف کیمپ میں منتقل ہونے کی پیشکش کی۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ کسی طرح میرے والد کے بارے میں معلوم کریں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ فوج نے جب تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے اُنہیں بھی قتل کردیا تھا‘‘۔ چاٹگام کے ریلیف کیمپ سے حلیمہ بی بی فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچی۔
۳۵ سالہ رومیشہ خاتون اپنے شوہر انظارالحق کے ساتھ چاٹگام کی حالی شہر ہاؤسنگ اسٹیٹ کے بلاک بی کے کوارٹر نمبر ۷۶۳ میں رہتی تھی۔ انظارالحق ریلوے میں ملازم تھے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے انظارالحق کو اغوا کرکے ایک عقوبت خانے میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔ رومیشہ خاتون دسمبر ۱۹۷۳ء میں اپنے تین بچوں کے ساتھ پاکستان پہنچی۔ اُس نے دکھ بھری کہانی ان الفاظ میں سُنائی: ’’بنگالی باغیوں نے ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو بھی ہمارے علاقے پر حملہ کرکے قتلِ عام کیا تھا۔ مگر خیر اس وقت انہوں نے ہمارے گھر کو نہیں لوٹا تھا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو انہوں نے ہمارے گھر کو بھی لوٹ لیا۔ تمام قیمتی سامان لے جاتے وقت انہوں نے ہم سے کہا کہ گھر میں رہیں، کیونکہ فرار کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ ہمارے پاس دفاع کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ وہ لوگ باورچی خانے سے چُھریاں تک لے گئے تھے‘‘۔
’’مکتی باہنی کے غنڈوں نے ۲۵ مارچ کی شب پھر ہمارے علاقے پر حملہ کردیا۔ انہوں نے میرے شوہر کو گھسیٹ کر گھر سے نکالا۔ میں نے ان کے پیروں میں گر کر اپنے شوہر کی زندگی کی بھیک مانگی۔ مگر ان میں سے ایک نے میرے سر پر لات ماری۔ جاتے ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ میرے شوہر کو ریسٹ ہاؤس لے جارہے ہیں۔ میں جانتی تھی کہ وہ میرے شوہر کو قتل کرنے کے لیے لے جارہے ہیں۔ سبھی جانتے تھے کہ سرکاری ریسٹ ہاؤس میں باغیوں نے عقوبت خانہ قائم کر رکھا تھا جہاں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ ہمارے علاقے سے سیکڑوں غیر بنگالیوں کو پکڑ کر ریسٹ ہاؤس میں قائم عقوبت خانے لے جایا گیا جہاں ان کی زندگی کے چراغ گل کردیے گئے۔ جب پاکستانی فوج نے چاٹگام کا کنٹرول سنبھال لیا تب میں نے اس سے استدعا کی کہ میرے شوہر کی لاش کا سراغ لگانے میں مدد کریں۔ فوج نے مجھے بتایا کہ لاشوں کو اس قدر مسخ کردیا گیا تھا کہ وہ ناقابل شناخت ہوگئی تھیں اور یہ کہ میرے شوہر کی لاش کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملا‘‘۔
۳۵ سالہ سلمیٰ خاتون نے بتایا کہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ان کے گھر پر بھی حملہ کیا اور ان کے شوہر علی رضا، ان کے چھوٹے بھائی اور بھتیجے کو قتل کرکے گھر کا سارا سامان لوٹ کرلے گئے۔ جاتے جاتے انہوں نے گھر کو آگ بھی لگادی۔ سلمیٰ خاتون نے اپنی داستان ان الفاظ میں سُنائی: ’’ہمارے گھر پر حملہ کرنے والے جنونی قاتل تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں علاقے میں تمام غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے وہ اس لیے چھوڑ رہے ہیں کہ جلد ہی میں ان کے گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کرتی ہوئی پائی جاؤں گی۔ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ریلیف کیمپ میں ڈھائی سال انتہائی اذیت میں بسر کیے اور فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچی‘‘۔
۴۰ سالہ فاطمہ بی بی کے شوہر عبدالرحمن بزنس مین تھے۔ یہ لوگ چاٹگام کے علاقے رؤف آباد کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو بنگالی باغیوں نے علاقے میں قتلِ عام کیا۔ عبدالرحمن کے مکان پر بھی حملہ ہوا۔ انہوں نے فاطمہ بی بی کے سامنے ان کے شوہر عبدالرحمن کو قتل کردیا اور گھر کا تمام قیمتی سامان لوٹ کر لے گئے۔ فاطمہ بی بی نے بتایا: ’’باغیوں نے جب غیر بنگالیوں کے مکانات پر حملے شروع کیے تب ان کے دو مقاصد پہلے سے طے شدہ تھے۔ ایک تو غیر بنگالی مردوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اور دوسرے گھر کا تمام قیمتی سامان لوٹ کر لے جانا۔ وہ لوٹو، جلاؤ اور قتل کردو کی پالیسی پر گامزن تھے۔ ایک ماہ تک چاٹگام میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ اس دوران انتہائی سفاکی سے غیر بنگالی مردوں کو چن چن کر قتل کیا گیا‘‘۔
’’ہمارے علاقے سے سیکڑوں معصوم بچیاں اغوا کرلی گئیں۔ ہمیں ان بچیوں کا کوئی سراغ نہ ملا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ باغیوں نے ان لڑکیوں کو بے حرمتی کے بعد قتل کرکے لاشیں دریائے کرنافلی میں پھینک دی تھیں‘‘۔ چاٹگام کے ایک ریلیف کیمپ میں ڈھائی سال سخت کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد فاطمہ بی بی اور ان کے بچے فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچے۔
۵۵ سالہ سعیدہ بیگم کے شوہر مقبول احمد خان ایسٹ پاکستان ریلوے کے ملازم تھے۔ ان کی رہائش چاٹگام کے علاقے فیروز شاہ کالونی کی سی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ نمبر ۲۱ میں تھی۔ فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچنے پر سعیدہ بیگم نے بتایا: ’’باغیوں نے ہمارے علاقے پر پہلا حملہ ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو کیا تھا۔ انہوں نے بیشتر مکانات کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی اور بہت سے غیر بنگالی مردوں کو اغوا کرکے لے گئے‘‘۔
’’باغیوں نے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو پھر حملہ کیا اور ہمارے اپارٹمنٹ میں گھس کر میرے شوہر کو رسیوں سے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے عمارت سے باہر لے گئے۔ ہمارے پڑوسی بے بس تھے کیونکہ وہ بھی باغیوں کے قہر سے محفوظ نہیں تھے اور بیشتر گھروں کے مردوں کو اغوا کرکے لے جایا جارہا تھا۔ باغیوں نے ہمارے اپارٹمنٹ سے ہر قیمتی چیز لوٹ لی اور ٹرک میں لاد کر لے گئے‘‘۔
’’جب فوج نے ۹؍اپریل کو چاٹگام کا کنٹرول سنبھال لیا تو میں نے اپنے شوہر کا سراغ پانے کے لیے شہر کا کونا کونا چھان مارا مگر ان کا کوئی نشان نہ ملا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ غیر بنگالی مردوں کو سلاٹر ہاؤس میں ٹھکانے لگانے کے بعد ان کی لاشیں دریائے کرنافلی میں پھینک دی گئی تھیں۔ دسمبر میں بھارتی فوج کی جانب سے مشرقی پاکستان پر قبضے کے بعد مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے مجھے میرے اپارٹمنٹ سے بھی بے دخل کردیا۔ دو سال سے زائد مدت تک ریڈ کراس کے ریلیف کیمپ میں رہنے کے بعد میں اکلوتے بیٹے کے ساتھ پاکستان منتقل ہوئی‘‘۔
۳۴ سالہ سعیدہ خاتون کے شوہر بیفاتی حسین چاٹگام پورٹ ٹرسٹ میں چوکیدار تھے۔ یہ لوگ چاٹگام کے علاقے حالی شہر کے روڈ نمبر ون، بلاک اے کے کوارٹر نمبر ۵۹۴ میں رہتے تھے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچنے پر سعیدہ خاتون نے بتایا: ’’قاتلوں کے ایک گروہ نے ۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ وہ میرے والد اور بڑے بھائی کو رسیوں سے باندھ کر لے گئے۔ انہوں نے ہمارے مکان کو لوٹنے کے بعد اسے آگ بھی لگادی‘‘۔
’’اسی دوپہر ایک بنگالی لڑکا، جو ہمارے خاندان سے اچھی طرح شناسا تھا، یہ بری خبر لایا کہ میرے والد اور بڑے بھائی کو قتل کرکے لاشیں دریا میں پھینک دی گئی ہیں۔ میرے شوہر پورٹ ایریا میں قتلِ عام سے محفوظ رہے۔ جب فوج نے چاٹگام کا کنٹرول سنبھالا تب میں اپنی والدہ کو جلے ہوئے مکان سے نکال کر اپنے گھر لے آئی‘‘۔
’’دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکا کے بعد مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ایک بار پھر قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر مارا گیا۔ ہمارا گھرانہ کسی نہ کسی طرح محفوظ رہا۔ نومبر ۱۹۷۲ء میں میرے شوہر کئی ماہ کی شدید علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ہمارے پاس ڈاکٹر کی فیس اور ادویہ کے پیسے نہیں تھے۔ سرکاری اسپتالوں میں غیر بنگالیوں کے لیے علاج کی بہتر سہولتیں حاصل کرنا انتہائی دشوار تھا‘‘۔
Leave a Reply