
مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں کی قتل و غارت سے سابق مشرقی پاکستان میں پٹ سن کی صنعت و تجارت کا مرکز کُھلنا بھی بری طرح متاثر ہوا۔ ۴ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں کے ایک بڑے جتھے نے مقامی ٹیلی فون ایکسچینج پر حملہ کرکے مشینری تباہ کردی اور کئی غیر بنگالی ملازمین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اگلے ہی دن غنڈوں کے ایک اور جتھے نے شہر کے مرکز میں کئی دکانوں کو لوٹ کر ایک ہوٹل سمیت آگ لگادی۔ بندوقوں، بھالوں اور لاٹھیوں سے مسلح گروہ نے دولت پور اور خالص پور کے علاقوں میں غیر بنگالیوں کے مکانات پر حملے کیے اور ۵۷؍افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کی مسخ لاشیں کئی دن بعد ملیں۔
کُھلنا میں برسوں سے سکونت پذیر غیر بنگالیوں کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے باغیوں نے ۶ مارچ کو ایک بڑا جلوس نکالا۔ جلوس کے بعض شرکا نے اسلحے کی چند دکانیں لوٹنے کی کوشش بھی کی جس کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ سول انتظامیہ مفلوج ہوچکی تھی۔ پولیس صرف تماشا دیکھتی رہی۔ مشتعل باغیوں نے غیر بنگالیوں اور وفاقی حکومت کے خلاف اپنے بغض کا کھل کر اظہار کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے جن افسران اور اہلکاروں نے باغیوں کا ساتھ نہیں دیا، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔
مارچ کے دوسرے ہفتے میں کھلنا میں باغیوں کی سرگرمیاں مزید زور پکڑ گئیں اور انہوں نے قتل و غارت کے لیے غیر بنگالیوں کے مکانات، دکانوں اور دیگر املاک کی نشاندہی کا عمل مکمل کرنے کے بعد انہیں نشانہ بنانا شروع کردیا۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ تیسرے ہفتے کے دوران کھلنا مکمل طور پر باغیوں کی مذموم سرگرمیوں کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ باغیوں نے کھلنا جیسور روڈ کو کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا تھا۔ یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ کوئی بھی غیر بنگالی جان بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے ۵ مارچ کے قتلِ عام سے بچ نکلنے والوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔
عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے ۲۳ مارچ کو قتل و غارت کا بازار مکمل طور پر گرم کردیا جس کے نتیجے میں کھلنا اور اس سے ملحق آبادیوں میں کم و بیش پانچ ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ موت کا یہ رقص فوجی دستوں کی آمد تک جاری رہا۔ باغیوں نے عقوبت خانے قائم کر رکھے تھے جن میں غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ باغیوں نے بیشتر لاشیں کھلنا کے نزدیک بہنے والے دریاؤں میں بہادیں یا پھر شہر سے ملحق آبادیوں میں پھینک دیں۔ بہت سے غیربنگالیوں اور پاکستان کے حامی بنگالیوں کو قتل کیے جانے سے قبل شدید اذیت کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
بہت سے لوگوں نے دریاؤں میں ایسی لاشیں دیکھیں جن کے گلے اور پیٹ کٹے ہوئے تھے۔ باغیوں نے کھلنا اور اس کے نواح میں پٹ سن کے بہت سے کارخانے اور دیگر کاروباری املاک لوٹ کر تباہ کردیں۔ قاتل جتھوں نے بہت سے غیر بنگالیوں کو انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بوائلرز میں پھینک دیا۔ خالص پور اور دولت پور میں غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ ان کے مکانات اور جھونپڑوں کو آگ لگادی گئی۔ مارچ کے آخری ہفتے کے دوران کھلنا میں پولیس، ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی سپاہیوں، انصار والنٹیئر فورس اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔
عوامی لیگ نے کھلنا اور اس کے نواح میں تربیتی کیمپ قائم کر رکھے تھے، جن میں نوجوانوں کو قتل و غارت اور لوٹ مار کی تربیت دی جاتی تھی۔ بہت سے غیر بنگالی کاروباری افراد اور ان کے اہل خانہ کو اغوا کرکے تاوان میں بھاری رقوم وصول کی گئیں۔ ان میں بہت سے بدنصیب ایسے بھی تھے جنہیں ان کے رشتہ داروں سے تاوان کی منہ مانگی رقوم وصول کرنے کے بعد بھی قتل کردیا گیا۔
جن بنگالیوں نے اپنے غیر بنگالی دوستوں کو پناہ دی، انہیں بھی انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ کھلنا میں قتل و غارت دیکھنے والوں نے بتایا کہ فوج نے ۲۹ مارچ کو شہر کا کنٹرول سنبھالا۔ تب تک شہر ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے اس پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کردیا گیا ہو۔ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران کھلنا شہر کا دورہ کرنے اور ستم رسیدہ لوگوں سے ملاقات کرنے والے مغربی و پاکستانی صحافیوں نے بتایا کہ کھلنا میں باغیوں کے ہاتھوں شہادت پانے والوں کی تعداد ۹ ہزار سے زائد تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد خاصی کم ہے کیونکہ باغیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترنے والوں کی تعداد ۵۰ ہزار تک تھی۔ سیکڑوں غیر بنگالیوں نے جب کھلنا سے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کی تو انہیں قریبی قصبوں اور دیہاتوں میں بھی نشانہ بنایا گیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ مسلح باغیوں نے ۲۸ مارچ کو کھلنا میں پیپلز جوٹ ملز اور کریسنٹ جوٹ ملز پر حملہ کرکے وہاں کم و بیش پانچ ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ کھلنا کی ریلوے کالونی میں آباد چھ ہزار غیر بنگالیوں کو بھی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سی غیر بنگالی جوان عورتوں کو غنڈوں نے اسلحے کے زور پر یرغمال بنایا اور قریبی دیہات کے اجڑے ہوئے مکانات میں ہوس اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے بہت سی عورتوں کو ان کے اغوا کاروں نے بعد میں قتل بھی کردیا۔ ان میں سے بہت سی عورتیں بھاگ کر باریسال پہنچیں، جہاں انہیں پاکستانی فوج نے بچایا اور ڈھاکا لاکر محمد پور اور میر پور کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچایا۔
’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے نامہ نگار میلکم ڈبلیو براؤن نے مئی ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ ۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو اس کا بھیجا ہوا مراسلہ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا جس میں لکھا تھا: ’’کھلنا میں صحافیوں کو مختلف فیکٹریز میں وہ مقامات دکھائے گئے جہاں مغویوں کے سر تن سے جدا کرنے کے لیے فریم بنائے گئے تھے۔ وہاں بدنصیب مقتولین کے خون آلود کپڑے اور خواتین کے بال بکھرے پڑے تھے۔ یہی وہ مقامات تھے جہاں بنگالی باغیوں نے ہزاروں غیر بنگالیوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا تھا‘‘۔
کھلنا میں غیر بنگالیوں پر جو قیامت ڈھائی گئی، اس کے بارے میں رونگٹے کھڑے کرنے والی رپورٹ ۹ مئی ۱۹۷۱ء کو واشنگٹن کے اخبار ’’سنڈے اسٹار‘‘ میں شائع ہوئی۔ رپورٹ میں لکھا تھا: ’’فوج نے کل ہمیں ایک ایسی فیکٹری کا دورہ کرایا جہاں مسلح باغیوں نے بہاریوں، مغربی پاکستان کے دیگر باشندوں اور چند دوسرے غیر بنگالیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا۔ ان بدنصیبوں پر مارچ کے دوران اور اپریل کے پہلے ہفتے میں قیامت ڈھائی گئی تھی۔ ہمیں لکڑی کا ایک فریم دکھایا گیا جس پر زنجیریں بھی لگائی گئی تھیں۔ یہ فریم غیر بنگالی عورتوں و بچوں کو تشدد کے بعد ذبح کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا‘‘۔
’’بہت سے درختوں پر رَسّے لٹک رہے تھے جن کے ذریعے غیر بنگالیوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ جن بدنصیبوں کو ان درختوں پر پھانسی دی جاتی تھی، انہیں قریب ہی بہنے والے دریا میں پھینک دیا جاتا تھا۔ کھلنا کے غیر بنگالی آبادی والے علاقوں میں دکانیں اور مکانات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیے گئے تھے‘‘۔
اس امر کے بہت سے شواہد ملے ہیں کہ جب فوج نے مشرقی پاکستان کے دیگر شہروں اور قصبوں کی طرح کھلنا کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، تب عوامی لیگ کے مسلح باغیوں نے فرار ہوکر بھارت کا رخ کیا۔ وہاں انہیں صرف پناہ نہیں ملی بلکہ ہیروز کی طرح استقبال کیا گیا۔ کھلنا میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے بنگالی باغیوں میں بہت سے ہندو بھی شامل تھے، جو غیر بنگالیوں بالخصوص بہاریوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ کھلنا میں آباد بنگالیوں کو اس قدر ڈرایا دھمکایا گیا تھا کہ غیر بنگالیوں پر عوامی لیگ کے غنڈوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ہمت اُن میں نہ رہی۔
☼☼☼
Leave a Reply