
کُھلنا کے صنعتی علاقے خالص پور کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ۳۷ سالہ نثار احمد خان نے بتایا: ’’عوامی لیگ کے غنڈوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور پولیس کے اہلکاروں نے ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو کھلنا کے بہت سے علاقوں میں سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر سے پاکستان کا پرچم اتار کر بنگلہ دیش کا مجوزہ پرچم لہرایا۔ مارچ کے وسط سے باغیوں نے قتل و غارت کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ بہت سی عمارتوں میں عقوبت خانے قائم کرکے ہمیں قتل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے‘‘۔
’’میں خالص پور کے سیکٹر جی ٹین کے ایک مکان میں کرائے پر رہتا تھا۔ میرا اسکول پیپلز جوٹ ملز کے نزدیک واقع تھا۔ پیپلز جوٹ ملز کے نزدیک کچے مکانات میں کم و بیش ۱۵؍ہزار غیر بنگالی رہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں عوامی لیگ کے رہنماؤں اور پولیس افسران نے غیر بنگالیوں کو یقین دلایا تھا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ علاقے کی مرکزی مسجد میں غیر بنگالی امام کی موجودگی میں عوامی لیگ کی مقامی قیادت اور پولیس افسران نے عہد کیا تھا کہ اس علاقے میں کسی بھی غیر بنگالی کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے بعد غیر بنگالیوں نے اپنے دفاع کا اہتمام کرنے یا جان بچانے کے لیے ڈھاکا کی طرف کوچ کرنے سے گریز کیا‘‘۔
’’باغیوں نے ۲۳ مارچ کو قتلِ عام شروع کیا جو اگلے دن بھی جاری رہا۔ مسلح باغیوں نے غیر بنگالیوں کے لیے فرار کے تمام راستے بند کردیے تھے۔ شہر سے باہر جانے والے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں۔ بندوقوں، اسٹین گنوں، دستی بموں، چاقوؤں اور بھالوں سے مسلح باغیوں نے نہتے غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو گھیر کر قتل کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ دو دن جاری رہا۔ غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مکانات سے تمام قیمتی اور کارآمد اشیا لوٹنے کے بعد انہیں آگ لگادی گئی۔ جلتے ہوئے مکانات سے بھاگنے کی کوشش کرنے والوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ بہت سی عورتوں اور بچوں نے مرکزی مسجد اور اسکول کی عمارتوں میں پناہ لی۔ مسجد کے پیش امام نے جب باغیوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر اللہ کے نام پر درخواست کی کہ وہ بے گناہوں کو نہ ماریں، تو انہیں بھی شہید کردیا گیا۔ رحم کا لفظ باغیوں نے اپنے ذہنوں سے کھرچ کر پھینک دیا تھا‘‘۔
’’بہت سی بچیوں اور جوان عورتوں کو باغیوں نے یرغمال بناکر اسکول کی عمارت میں رکھا ہوا تھا، جہاں ان پر مجرمانہ حملے کیے گئے۔ جن عورتوں یا لڑکیوں نے مزاحمت کی، انہیں وہیں گولی مار دی گئی۔ کئی لڑکیوں نے عزت بچانے کے لیے اسکول کی بالائی منزلوں سے چھلانگ لگادی۔ باغی بہت سے معمر غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو دریا کے کنارے قائم عقوبت خانوں میں لے گئے۔ وہاں انہیں انتہائی بے دردی سے قتل کرکے لاشیں دریا میں پھینک دی گئیں۔ شہر کے مرکزی علاقوں میں شہید کیے جانے والوں کی لاشوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ قریب ہی میرے دوست صغیر احمد خان کا بھی مکان تھا۔ اسے بھی لوٹ کر آگ لگادی گئی۔ باغیوں نے گھر میں موجود ہر فرد کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
’’۲۵ مارچ کو میرے اسکول کا ایک بنگالی اٹینڈنٹ میرے پاس آیا اور بتایا کہ اسکول کی عمارت غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشوں سے اَٹی پڑی ہے۔ اس نے قتلِ عام کی ایسی تفصیل بیان کی کہ میری روح کانپ کر رہ گئی‘‘۔
’’فوج نے ۳۰ مارچ کو جب کھلنا شہر کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھال لیا، تب میں اپنے اسکول گیا اور وہاں گلی سڑی لاشیں دیکھ کر میرا ذہن ماؤف ہوگیا۔ لاشیں اٹھوانے، انہیں سپردِ خاک کرنے، خون کے دھبے مٹانے اور تعفن ختم کرنے میں ہمیں ایک ماہ لگ گیا‘‘۔
۱۹۷۲ء میں، بنگلہ دیش کے قیام کے بعد، جب عوامی لیگ کے غنڈوں نے کُھلنا میں دوسرا قتلِ عام کیا تو نثار احمد خان جان بچانے کے لیے نیپال چلے گئے۔ وہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں پاکستان آئے اور اب کراچی میں سکونت پذیر ہیں۔
۲۹ سالہ محبوب عالم کُھلنا کی پیپلز جوٹ ملز میں سینئر اکاؤنٹس کلرک تھے۔ ۱۹۷۳ء میں پاکستان پہنچنے پر انہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے واقعات یوں بیان کیے: ’’میں کھلنا کے علاقے خالص پور کی اولڈ کالونی میں رہتا تھا۔ کھلنا میں سکونت پذیر غیر بنگالیوں کی نصف تعداد خالص پور میں رہائش رکھتی تھی اور بہتوں نے شاندار و پرکشش مکانات تعمیر کیے تھے۔ ہماری آبادی کے نزدیک ہی بنگالی مزدوروں کی بستی تھی جو پیپلز جوٹ ملز میں کام کرتے تھے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ان مزدوروں کو بھی غیر بنگالیوں کے خلاف اکسانا شروع کردیا تھا‘‘۔
’’۲۳ اور ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء کو پانچ ہزار مسلح باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور ہزاروں نہتے غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کردیا۔ باغیوں نے ہمارے علاقے ہی میں ایک عقوبت خانہ بھی بنا رکھا تھا جس میں وہ مالدار غیر بنگالیوں کو یرغمال بناکر رکھتے تھے اور ان کے اہل خانہ سے تاوان میں بھاری رقوم وصول کرنے کے بعد بھی انہیں اذیتیں دے کر قتل کردیتے تھے۔ متمول غیر بنگالی گھرانوں کی عورتوں کو گن پوائنٹ پر مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اس جگہ کی نشاندہی کریں جہاں انہوں نے نقدی اور طلائی زیورات چھپا رکھے ہیں۔ ان کے پیاروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا‘‘۔
محبوب عالم کے بہت سے رشتہ دار قتل کردیے گئے۔ خود محبوب عالم نے ایک بنگالی دوست کے گھر میں چھپ کر جان بچائی۔
۳۰ سالہ انصار احمد درزی ہیں اور کھلنا کے علاقے خالص پور میں ان کی دکان تھی۔ انہوں نے پاکستان پہنچنے پر بتایا: ’’۲۳ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں پر مشتمل ایک جتھے نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ انہوں نے چوبیس گھنٹے تک غیر بنگالیوں کا قتلِ عام جاری رکھا۔ انہوں نے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور تمام قیمتی و کارآمد اشیا لوٹنے کے بعد ان کے مکانات کو آگ لگادی۔ چند ہی گھنٹوں میں ہنستی گاتی بستی آگ اور خون کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ جن غیر بنگالیوں نے بھاگ نکلنے کی کوشش کی، ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ قاتل ٹولے نے بچ نکلنے کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں اور ان کے اسنائپرز نے لوگوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ گھر کی چھت پر چھپ گیا اور ہم کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ فوج نے ۳۰ مارچ کو کھلنا کا کنٹرول سنبھالا مگر ہمیں لاشوں کو سپردِ خاک کرنے میں کئی دن لگ گئے‘‘۔
مارچ ۱۹۷۱ء میں کھلنا کی کریسنٹ جوٹ ملز میں قتل و غارت کا مشاہدہ کرنے والے ۳۴ سالہ اے ایس سیف اللہ نے بتایا: ’’کریسنٹ جوٹ ملز میں کام کرنے والوں، ان کے اہل خانہ اور علاقے میں سکونت پذیر دیگر غیر بنگالیوں کا بہیمانہ قتلِ عام ۲۳ سے ۲۹ مارچ تک جاری رہا۔ دو دن ایسے تھے جب عوامی لیگ کے غنڈے، ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہی اور پولیس اہلکار نفرت کی آگ میں اندھے ہوکر ہر اُس غیر بنگالی کو موت کے گھاٹ اتارتے چلے گئے جو انہیں دکھائی دیا۔ بعد میں ان غیر بنگالیوں کو قتل کیا گیا جنہیں باغیوں نے تاوان کی وصولی کے لیے اغوا کیا تھا۔ کریسنٹ جوٹ ملز کے کمپاؤنڈ میں تین کمرے بنے ہوئے تھے۔ باغیوں نے ان تینوں کمروں کو ملاکر عقوبت خانے میں تبدیل کردیا تھا۔ ہزاروں غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو اس عقوبت خانے میں کئی دن تک خوراک اور پانی کے بغیر رکھا گیا اور پھر انہیں ناقابلِ بیان سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ ۳۰ مارچ کو جب فوج نے کھلنا شہر کا کنٹرول سنبھالا، تب میں نے کریسنٹ جوٹ ملز کے اس عقوبت خانے کو دیکھا۔ لاشیں تو ہٹائی جاچکی تھیں مگر خون کے دھبے موجود تھے۔ ایک برتن میں مجھے چند انسانی آنکھیں دکھائی دیں۔ عوامی لیگ کے درندوں نے نہتے اور معصوم انسانوں کی آنکھیں تک نکال لی تھیں۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ معصوم بچوں، نہتی عورتوں اور بے جان سے معمر مردوں کو ستاکر، موت کے گھاٹ اتار کر اور ان بے کسوں کی آنکھیں نکال کر باغیوں کو کون سی راحت نصیب ہوتی ہوگی‘‘۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے جب کھلنا میں نیا قتلِ عام شروع کیا، تب اے ایس سیف اللہ بمشکل جان بچاکر نکلے اور مختلف دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے ۱۹۷۲ء میں پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
۶۵ سالہ فردوس عالم کھلنا کے نزدیک فولٹالہ قصبے کے علاقے لیاقت آباد کالونی میں رہتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کی کہانی اُنہوں نے اِن الفاظ میں بیان کی: ’’فولٹالہ کی لیاقت آباد کالونی پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بسائی تھی۔ اس میں وہ ۴۰۰ مسلم گھرانے آباد کیے گئے تھے جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں بہار اور مغربی بنگال سے جان بچاکر مشرقی پاکستان میں پناہ لی تھی۔ بعد میں اس میں مزید غیر بنگالی گھرانے بھی آباد ہوتے گئے اور اس کی آبادی ۱۵؍ہزار نفوس تک جا پہنچی‘‘۔
’’عوامی لیگ کے کارکنوں نے ۲۳ مارچ کو ہمارے علاقے میں پریڈ کی اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔ آبادی کے بزرگوں نے نوجوانوں کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان کے خلاف لگائے جانے والے نعروں سے ہرگز مشتعل نہ ہوں اور تصادم سے گریز کریں۔ عوامی لیگ کے یہ کارکن شام کو سیکڑوں مسلح افراد کے ساتھ واپس آئے۔ یہ مسلح افراد شاید ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرفین تھے۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کے جھونپڑوں کو آگ لگانا شروع کردی۔ باغیوں نے آگ بھڑکانے کے لیے ناریل کے درختوں کی خشک ٹہنیوں سے کام لیا جو بہت تیزی سے آگ پکڑتی ہیں۔ جن لوگوں نے جلتے ہوئے جھونپڑوں سے بچ نکلنے کی کوشش کی، اُن پر گولیاں برسادی گئیں‘‘۔
’’گھروں کو جلتا اور اپنے پیاروں کو خون میں نہایا ہوا دیکھ کر ہماری بستی کے بہت سے نوجوانوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ چند ایک نوجوانوں کے پاس آتشیں اسلحہ بھی تھا۔ انہوں نے باغیوں کا چار گھنٹے تک مقابلہ کیا۔ مگر پھر ان کے پاس گولیاں ختم ہوگئیں۔ دوسری طرف باغیوں کو کمک ملتی رہی۔ جب ہمارے نوجوانوں کے پاس لڑنے کے لیے کچھ نہ بچا تو انہیں گھیر کر اس قدر بے رحمانہ انداز سے قتل کیا گیا کہ اُن مناظر کو بیان کرنے کے لیے الفاظ موجود نہیں۔ باغیوں نے رات بھر قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا۔ قاتلوں نے سیکڑوں غیر بنگالی عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد علاقے کی ایک بڑی عمارت کے کمپاؤنڈ میں قتل کردیا۔ میرے اہل خانہ کو بھی قتل کردیا گیا۔ ایک باغی نے میرے سر پر بھی چوٹ ماری اور میں ایسی حالت میں پڑا رہا جیسے مرچکا ہوں۔ صرف چوبیس گھنٹوں میں لیاقت آباد کالونی کی نصف غیر بنگالی آبادی ختم کردی گئی‘‘۔ فردوس عالم دسمبر ۱۹۷۳ء میں کراچی پہنچے۔
بگیر ہٹ
۳۵ سالہ قاضی انور حسین ضلع کھلنا کے علاقے بگیر ہٹ میں تجارت کرتے تھے۔ وہ بھی غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے قتلِ عام کے عینی شاہد ہیں۔ قاضی انور حسین نے بتایا: ’’عوامی لیگ کے کارکنوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے سے سابق مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے خلاف نفرت پھیلانا شروع کردی تھی۔ انہوں نے مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل سے متعلق افواہیں پھیلائیں تاکہ غیر بنگالیوں کے قتل کی راہ ہموار ہو۔ افواہوں کے ذریعے انہوں نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو غیر بنگالیوں پر تشدد اور قتل و غارت کے لیے اکسایا‘‘۔
’’غیر بنگالیوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی بنگالی بھی علیحدگی پسندوں کا نشانہ تھے۔ پاکستان کی حمایت کرنے والے ہر شخص پر قیامت ڈھانے کی کوشش کی گئی۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات سے قبل بگیر ہٹ سب ڈویژن میں عوامی لیگ کی پوزیشن زیادہ مضبوط نہ تھی۔ انتخابات میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی اور پورے علاقے میں اس کی پوزیشن خاصی مستحکم ہوگئی۔ اس کے پسندیدہ مشغلوں میں بنگالیوں کو غیر بنگالیوں کے خلاف اُکسانا بھی شامل تھا‘‘۔
۲۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں نے ہمارے علاقے میں مسلم لیگ کے بنگالی رہنما محمد قاسم کے گھر پر حملہ کیا۔ محمد قاسم کی خوش قسمتی تھی کہ وہ گھر پر نہیں تھے۔ باغیوں نے ان کے گھر سے ہر قیمتی اور کارآمد چیز لوٹنے کے بعد گھر کو آگ لگادی۔ بعد میں انہوں نے غیر بنگالیوں کو قتل کرنے اور ان کے مکانات کو آگ لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ چند بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کو اپنے ہاں پناہ دی مگر باغیوں نے انہیں بھی نہ بخشا اور ان کے گھروں پر حملے کرکے غیر بنگالیوں کو نکال کر قتل کردیا۔ میرا اندازہ ہے کہ اس دن بگیر ہٹ میں کم و بیش ۵۰۰ غیر بنگالیوں اور چند محب وطن بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کچھ لوگ کھلنا میں تھے، اس لیے قتل و غارت سے محفوظ رہے۔ مگر جن لوگوں نے بگیر ہٹ سے نکل کر کھلنا جانے کی کوشش کی، وہ مارے گئے کیونکہ شاہراہوں پر باغیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔
قاضی انور حسین کو ایک بنگالی مسلم نے اپنے گھر میں پناہ دی، جس سے ان کی جان بچ سکی۔ وہ فروری ۱۹۷۴ء میں چاٹگام سے ایک جہاز کے ذریعے پاکستان پہنچے۔
ست کھیرا بھڑک اُٹھا
جس وقت باغی کھلنا میں غیر بنگالیوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنا رہے تھے، اُسی وقت ست کھیرا میں بھی غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جاری تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء دوسرے نصف اور اپریل ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے کے دوران ست کھیرا اور اس کے نواح میں کم و بیش دو ہزار غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد قتل کردیا گیا۔ ست کھیرا بھارتی سرحد سے قریب ہے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ باغیوں کو بھارت سے ہر طرح کی مدد ملتی رہی۔ ست کھیرا کا سب ڈویژنل آفیسر مغربی پاکستان سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے باغیوں نے اسلحے کی نوک پر یرغمال بنایا اور پھر اسے ست کھیرا کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
۳۲ سالہ مولابخش ایک جوٹ مل میں ملازم تھے اور ان کی رہائش ست کھیرا کے علاقے قاضی پاڑا میں تھی۔ انہوں نے غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان یوں سُنائی: ’’میں دس سال سے ست کھیرا میں رہتا آیا تھا۔ میں اس قدر روانی سے بنگالی بولتا تھا کہ بہت سے لوگ مجھے بنگالی ہی سمجھتے تھے۔ ست کھیرا بھارتی سرحد سے زیادہ دور نہیں اس لیے برسوں سے یہ قصبہ بھارتی ایجنٹوں کے لیے آپریشنل بیس کی حیثیت سے کام کرتا آیا تھا۔ باغیوں نے جب یکم مارچ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکا میں بغاوت شروع کی، تب اس کے اثرات ست کھیرا میں بھی تیزی سے دکھائی دینے لگے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے ریلیاں نکالنا اور جلسے منعقد کرنا شروع کیے۔ بہت سے کارکن مسلح ہوکر گھومنے لگے۔ یہ اسلحہ انہیں بھارت کی طرف سے فراہم کیا جارہا تھا۔ بھارت کے نیم فوجی دستوں کے ارکان نے مشرقی پاکستان کی حدود میں داخل ہوکر باغیوں کو حکومت کے خلاف لڑنے کی باضابطہ تربیت دی‘‘۔
’’سول انتظامیہ کا ڈھانچا بیٹھ گیا۔ باغیوں نے بہت سے سول افسران کو یرغمال بناکر دہشت کا راج قائم کیا۔ پولیس اور ایسٹ پاکستان رائفلز نے بغاوت کردی۔ باغیوں نے ست کھیرا جانے والے تمام راستے بند کردیے تھے اور وہاں سے غیر بنگالیوں کے انخلا کی راہ مسدود کردی تھی۔ مارچ کے وسط تک مسلح بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کو خوفزدہ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ چند غیر بنگالیوں کی دکانوں کو لوٹ کر آگ لگادی گئی۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے غیر بنگالیوں کو وفاقی حکومت کے لیے جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر گولی مار دی گئی۔ ۱۷؍اور ۱۸ مارچ کو باغیوں نے طاقت کا بدترین مظاہرہ کیا اور سیکڑوں غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
’’میں ۱۸ مارچ کو پٹ سن کے ایک گودام میں ایک مشہور غیر بنگالی تاجر عبدالقیوم سے سودا کر رہا تھا کہ باغیوں کے ایک ٹولے نے حملہ کردیا۔ انہوں نے میرے سامنے عبدالقیوم اور ان کے اسٹاف کو گولی مار دی۔ پھر انہوں نے پٹ سن کے ڈھیر میں آگ لگائی اور عبدالقیوم سمیت تمام لاشیں اس میں جھونک دیں۔ میں چونکہ بنگالی زبان پر غیر معمولی عبور رکھتا تھا اس لیے باغیوں نے مجھے بنگالی سمجھ کر چھوڑ دیا۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے مجھ پر مغربی پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ کسی بھی غیر بنگالی سے کوئی سودا نہ کروں‘‘۔
’’میں چپ چاپ اپنے گھر کی طرف چلا۔ میری کوشش تھی کہ راستے میں لوٹ مار اور قتل و غارت پر تُلے ہوئے بنگالیوں سے میرا سامنا ہی نہ ہو۔ راستے میں مجھے ایک دل سوز منظر دیکھنے کو ملا۔ چند باغیوں نے ست کھیر کے غیر بنگالی سب ڈویژنل افسر کو ان کے دفتر سے گھسیٹ کر باہر نکالا۔ ان کی پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔ ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ بہت سے بنگالی ان پر تھوک رہے تھے یا پتھر مار رہے تھے۔ ایک بے کس غیر بنگالی عورت کو چند باغی بندوق کی نوک پر لے جارہے تھے۔ اس عورت کے سینے سے دو چھوٹے بچے چمٹے ہوئے تھے۔ راستے میں جب وہ مجبور عورت تھک کر گرگئی تو ایک باغی نے اس کے سر پر لات ماری۔ اور دوسرے نے اس کے بچے کو مارنا پیٹنا شروع کردیا‘‘۔
’’میں جب اپنے گھر پہنچا تو اسے شعلوں میں لپٹا ہوا دیکھا۔ میرا چھوٹا بھائی گھر میں نہیں تھا۔ میں نے اپنے ایک بااعتماد بنگالی دوست کے گھر میں پناہ لی۔ اپریل ۱۹۷۱ء میں جب پاکستانی فوج نے ست کھیرا کا کنٹرول سنبھال لیا تو میرا بھائی مجھ سے آملا۔ ہم ڈھاکا منتقل ہوگئے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں ہم پاکستان پہنچے‘‘۔
’’ست کھیرا میں باغیوں نے بہت سی جوان غیربنگالی عورتوں کو اغوا کیا۔ جن لڑکیوں نے مزاحمت کی، انہیں قتل کر دیا گیا۔ اسلحے کے زور پر ان مجبور عورتوں کو مغربی بنگال لے جاکر عصمت فروشی کے اڈوں پر بیچ دیا گیا‘‘۔
۲۶ سالہ نواب علی ست کھیرا کے بڑا بازار میں اپنے والد کے مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء میں جو کچھ دیکھا اور جھیلا اس کی کہانی اِن الفاظ میں بیان کی۔ ’’میرے والد کئی سال تک کلکتہ میں رہے۔ ۱۹۴۷ء میں ہم کلکتہ ہی سے مشرقی پاکستان منتقل ہوئے۔ ہم نے ست کھیرا میں رہائش اختیار کی۔ وہاں پٹ سن کا کاروبار بہت اچھا تھا۔ میرے والد نے پٹ سن کے تاجر کی حیثیت سے غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ ہم نے ایک مکان اور کچھ دوسری پراپرٹی بھی خریدی۔ میں کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا‘‘۔
’’مارچ کے دوسرے ہفتے میں ست کھیرا میں غیربنگالیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ بھارت سے تربیت پانے کے بعد ست کھیرا میں دراندازی کرنے والے باغیوں نے ۱۷ اور ۲۰ مارچ کے دوران غیربنگالیوں پر قیامت ڈھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ باغیوں کے پاس مشین گنیں، رائفلز، دستی بم اور گولیوں کا غیر معمولی ذخیرہ تھا‘‘۔
’’باغیوں نے ابتدا میں غیربنگالیوں کے چند علاقوں میں دہشت پھیلائی مگر ۲۰ مارچ کو انہوں نے ست کھیرا کے تمام علاقوں میں غیربنگالیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنانا شروع کیا۔ انہوں نے ہمارے علاقے پر بھی حملہ کیا، جس میں میرے والدین شہید ہوگئے۔ میں کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ باغیوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ غیربنگالی مردوں کو قتل کرنے سے قبل انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ غیربنگالی عورتوں کے مردہ جسم چیرے گئے۔ خنجر کی نوک سے ان کی پیشانی پر ’’جے بنگلہ‘‘ لکھا گیا۔ باغیوں نے سیکڑوں بچوں کو بھی شہید کرکے ان کے جسم جلتے ہوئے مکانات میں جھونک دیے یا دریا میں پھینک دیے۔ سیکڑوں لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد انہیں سرکاری عمارات میں قائم عقوبت خانوں میں لے جاکر ان کی عصمت پامال کی گئی۔ جب فوج آئی اور باغی پسپا ہونے پر مجبور ہوئے تو جاتے جاتے وہ بہت سی لڑکیوں کو بھی بھارت لے گئے۔ جن لڑکیوں نے مزاحمت کی، اُنہیں گولی مار دی گئی‘‘۔
نواب علی جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچے۔
دیناج پور پر ڈھائی جانے والی قیامت
دیناج پور میں عوامی لیگ نے مارچ کے پہلے ہفتے ہی سے قتل و غارت کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ غیربنگالیوں کو بڑے پیمانے پر ہراساں کیا جارہا تھا۔ مسلح باغیوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں کی سربراہی میں جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ وہ طاقت کے مظاہرے کے ذریعے غیربنگالیوں کو خوفزدہ کر رہے تھے۔ عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے مقامی انتظامیہ کو مفلوج کرکے جبر اور تسلط کا اپنا راج قائم کیا۔ نہتے، بے بس اور لاچار غیربنگالیوں کو ہراساں کیا جانے لگا۔
مارچ کے دوسرے ہفتے میں باغیوں نے ایسٹ پاکستان کے منحرف سپاہیوں کی رہنمائی میں اور ان کے اسلحے کی مدد سے دیناج پور میں غیربنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنا اور ان کی املاک کو لوٹنا شروع کر دیا۔ مارچ کے دوسرے ہفتے میں غیربنگالیوں کا جو قتلِ عام شروع ہوا وہ اپریل کے پہلے ہفتے تک جاری رہا۔ اس دوران باغیوں نے سفاکی اور درندگی کی تمام حدیں پار کیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے سروں پر شیطان سوار ہوگیا تھا۔ محتاط انداز کے مطابق مارچ کے دوران دیناج پور شہر میں ۱۵ سے ۳۰ ہزار غیربنگالی شہید کر دیے گئے۔ ضلع دیناج پور میں جان سے ہاتھ دھونے والے غیربنگالیوں کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تھی۔ شہید ہونے والے غیربنگالیوں کی حقیقی تعداد اس لیے معلوم نہ ہوسکی کہ ہزاروں افراد کو دریائے کنچن کے کنارے قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں دریا میں بہادی گئیں۔ سیکڑوں غیربنگالیوں کو ان کے مکانات کا تمام قیمتی سامان لوٹنے کے بعد قتل کردیا گیا اور پھر مکانات کو آگ لگانے کے بعد لاشیں اس آگ میں جھونک دی گئیں۔
عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے ۲۲ مارچ کو ایک بڑا جلوس شہر کے وسط میں نکالا اور بنگالیوں کو غیربنگالیوں کے قتل پر اُکسایا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں ایک غیربنگالی کی بس کو آگ لگادی۔ بس کے ڈرائیور اور سات مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی دن دیناج پور سعید پور روڈ پر پوسٹل سروس کی ایک وین کو بھی آگ لگائی گئی۔ اس وین کا کلینر مارا گیا اور ڈرائیور زخمی ہوا۔ باغیوں نے ایک ملٹری جیپ پر حملہ کرکے پانچ فوجیوں کو بھی زخمی کیا۔ سنگ دل اور سفاک باغیوں نے عورتوں اور بچوں پر بھی رحم نہ کیا۔ فوج کی آمد پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے وہ ۴۰۰ سے زائد غیربنگالیوں کو اپنے ساتھ بھارت لے گئے۔
غیربنگالیوں کے خلاف باغیوں کی درندگی مارچ کے تیسرے ہفتے میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ غیربنگالیوں کے اسٹور، دفاتر، صنعتی یونٹوں اور گوداموں کو آگ لگانے کا سلسلہ نقطۂ عروج پر پہنچ گیا۔ ہزاروں مسلح باغی اور ان کے ساتھ چلنے والے بنگالی نوجوانوں نے شہر کی ایک ایک گلی میں اور ایک ایک سڑک پر مارچ کیا اور غیربنگالیوں کو کسی بھی صورت نہ بخشنے کی قسم کھائی۔ انہوں نے امن پسند اور انسان دوست بنگالیوں کو بھی غیربنگالیوں کے قتل پر اُکسایا۔ رات رات بھر یہ باغی گولیاں داغ کر ماحول کو زیادہ سے زیادہ خوفناک بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ غیربنگالیوں کے مکانات کو آگ لگانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ باغیوں نے عام بنگالی نوجوانوں کے ذہنوں میں بنگالی قوم پرستی کے نام پر غیربنگالیوں سے نفرت کا زہر بھر دیا تھا۔ غیربنگالیوں کے کاروبار کو لوٹنا، ان کے مکانات کو آگ لگانا اور انہیں قتل کرنا قومی خدمت سمجھ کر کیا جارہا تھا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ بنگال رجمنٹ کے منحرف افسران اور سپاہیوں نے غیربنگالیوں کے قتل عام کی نگرانی کی۔ انہوں نے عقوبت خانے قائم کیے جن میں غیربنگالیوں کو بے دھڑک موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
دیناج پور میں غیربنگالی آبادی کا صفایا کرنے کی مہم اس شدت کے ساتھ چلائی گئی کہ اپریل میں جب فوج نے دیناج پور سے باغیوں کو نکال کر اس شہر کا کنٹرول سنبھالا، تب اس شہر میں چند معمر غیربنگالی خواتین اور بچے ہی زندہ مل پائے۔ باغیوں نے بہت سے غیر بنگالیوں کے سر کاٹ کر درختوں پر لٹکا دیے تھے۔
Leave a Reply